حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 26)
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...
غلبہ دین : غلطی پر غلطی
حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)
حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)
حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...
مولانا واصل واسطی
دوسری گذارش اس اعترض کے حوالے سے یہ ہے کہ اس حدیث کا معنی ومفہوم بھی اہلِ علم کو معلوم ہے اورانھوں نے اس مسئلے کا حل نکالا بھی ہے۔ بہت سارے محققین نے امام ابن جریر الطبری کی اس رائے کو اختیار کیا ہے ، کہ ،، سبعةاحرف ،، سے مراد مختلف قبیلوں کے لہجے اورلغات ہیں لیکن بعض دیگر علماء نے بعض جزئیات میں ان سے اختلاف بھی کیا ہے ۔اس رائے پر کچھ اعتراضات بھی وارد ہوتے ہیں بلکہ بعض اہلِ علم نے ان پرکچھ سخت اعتراضات بھی وارد کیے ہیں ۔جیسے امام ابن حزم اندلسی رحمہ اللہ نے ۔مگر کسی رائے اور قول پراعتراض کا وارد ہونا اس بات کی قطعی دلیل نہیں ہے کہ وہ رائے باکل فاسد ہے بلکہ بعض اوقات تو اعتراض ہی فاسد ہوتا ہے ۔بعض اوقات مسئلہ گنجلک ہوتا ہے جس کوعام لوگ نہیں سمجھتے یعنی اس بات کے بہت سارے اسباب ہوتے ہیں ۔بہت ہی کم آراء واقوال ایسے ہوتے ہیں جو اعتراضات وایرادات سے منزہ اور خالص ہوتے ہیں ۔جن معترضین حضرات سے اس وقت ہمارا مناقشہ چل رہا ہے ان کے کتنے اقوال ایسے ہیں ، جو اعتراضات سے مبرا ومنزہ ہیں؟ آپ ان آراء کواہلِ علم کے مجالس میں پیش کرلیں پھر ان کے اعتراضات ان پر سن لیں تو آپ کو خود بخود اندازہ ہوجائے گا کہ میری آراء میں بہت سارے نقص اور عیوب موجود ہیں اور اس بات کا بھی یقین ہوجائے گا کہ
بنمائے بصاحب نظرے جوھرِخود را
عیسی نتوان گشت بتصدیقِ خرِچند
اب پہلے ابن جریر طبری کی بات کا خلاصہ سن لیں بعد میں اس کی عبارت کو دیکھتے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ: ،، اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے کہ ہم نے ہر رسول کو اس قوم کی اپنی زبان میں بھیجا تاکہ وہ انھیں اچھی طرح سے سمجھا سکے ، قران عربی زبان میں نازل ہوا ہے ، اس میں کوئی عجمی لفظ موجود نہیں ہے ، اور جن الفاظ کے متعلق لوگوں کا شبہ ہے کہ وہ عجمی زبان کے ہیں تو وہ الفاظ عربی اور عجمی دونوں میں مشترک ہیں ورنہ وہ ،، قرانا عربیا ،، اور ،، بلسان عربی مبین ،، نہیں ہے۔ اب اس سے عام عربی مراد ہے یا پھر خاص قبائل کی عربی مراد ہے ؟ احتمال تو دونوں کا ہے۔ ہمارے پاس اللہ تعالی کی طرف سے بالصراحت کوئی دلیل اس بات پر موجود نہیں ہے مگر اس کے معتبر نمائندے محمدِ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ قران سات حروف میں نازل ہوا ہے ،، پھر روایات کو تفصیلا نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ قران عرب کے سات قبائل کے لغاتِ سبعہ میں ہی نازل ہوا ہےکیونکہ یہ بڑی اورمعروف زبانیں تھیں ۔اور فلسفہ اس نزول کا یہ تھا کہ مختلف قبائل قران کو آسانی اورسہولت کے ساتھ پڑھ سکیں ،، اس کے بعد ابن جریر طبری نے اس رائے پر چند اعتراضات بھی وارد کیے ہیں اور پھران کے جوابات بھی دیئے ہیں ۔اب اصل عبارت ان کی ملاحظہ ہو ،، قال ابوجعفر قددللنا علی صحة القول بما فیہ الکفایة لمن وفق لفھمہ علی ان اللہ جل ثناءہ انزل جمیع القران بلسان العرب دون غیرھا من السن سائراجناس الامم وعلی فساد قول من زعم ان منہ مالیس بلسان العرب ولغتھا ، فنقول الآن اذا کان ذالک صحیحا فی الدلالة علیہ بای السن العرب انزل ابالسن جمیعھا ام بالسن بعضھا ؟ اذکانت العرب وان جمع جمیعھا اسم انھم عرب فھم مختلفواالالسن بالبیان متباینوا المنطق والکلام واذاکان ذلک کذالک وکان اللہ جل ذکرہ قد اخبر عبادہ انہ قد جعل القران عربیا وانہ انزل بلسان عربی مبین ثم کان ظاھرہ محتملا خصوصا وعموما لم یکن لناالسبیل الی العلم بماعنی اللہ تعالی ذکرہ وکانت الاخبار قدتظاھرت عنہ صلی اللہ علیہ وسلم ( الجامع ج1ص 64) پھرمختلف اسناد سے روایت ،، انزل القران علی سبعةاحرف ،، کی نقل کی ہیں ۔اورپھر اسی جلد کی ( ص 75) پرلکھا ہے کہ قال ابوجعفر صح وثبت ان الذی نزل بہ القران من السن العرب البعض منھا دون الجمیع اذکان معلوما ان السنتھا ولغاتھا اکثر من سبعة بمایعجز عن احصاءہ فان قال ومابرھانک علی ان معنی قول النبی علیہ السلام ،، انزل القران علی سبعة احرف ،، وقولہ ،، امرت ان اقرءالقران علی سبعة احرف ،، ھوماادعیتہ من انہ نزل بسبع لغات وامر بقراءتہ علی سبعةالسن دون ان یکون معناہ ما قالہ مخالفوک من انہ نزل بامر وزجر وترغیب وترھیب وقصص ومثل ونحو ذالک من الاقوال فقد علمت قائل ذالک من سلف الامة وخیارالایمة قیل لہ ان الذین قالوا لم یدعوا ان تاویل الاخبار التی تقدم ذکرناھا وھو مازعمت انھم قالوہ فی الاحرف السبعة التی نزل بھاالقران دون غیرہ فیکون ذالک لقولنا مخالفا وانما اخبرواان القران نزل علی سبعة احرف یعنون بذلک انہ نزل علی سبعةاوجہ ( الجامع ج1ص 75) اس کے بعد ابن جریر نے واضح کیا ہے کہ وہ اور ہی روایت ہے ۔ پھر کچھ اعتراضات نقل کیے ہیں جو انکے خیال میں اس رائے پر وارد ہوتے ہیں ۔ ایک کا تذکرہ ہمیں اسوقت مطلوب ہے اور وہ یہ ہے کہ جو قران سات قبیلوں کے لغات اور لہجوں میں نازل ہواتو کیا مصحفِ سیدنا عثمان میں وہ سب موجود ہیں ؟ انھوں نے جواب دیا ہے کہ وہ سب اب اس مصحف میں موجود نہیں ہے صرف اورصرف ایک لغت موجود ہے ۔ باقی لہجات ولغات کو امت کی وحدت کی خاطر سب صحابہِ کرام نے برضاورغت ترک کردیا تھا لہذا وہ سب لہجے اور لغات اب متروک ہیں ۔لکھا ہے کہ ،، والاثار الدالة علی ان امام المسلمین وامیرالمومنین عثمان بن عفان رحمةاللہ علیہ جمع المسلمین نظرامنہ لھم واشفاقا منہ علیھم ورافة منہ بھم حذارالردة من بعضھم بعدالاسلام والدخول فی الکفر بعد الایمان اذ ظھر من بعضھم بمحضرہ وفی عصرہ التکذیب ببعض الاحرف السبعة التی نزل علیھا القران مع سماع اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من رسول اللہ النھی عن التکذیب بشئ منھا واخبارہ ایاھم ان المراء فیھا کفر فحملھم رحمةاللہ علیہ اذ رائ ذلک ظاھرابینھم فی عصرہ ولحداثة عھدھم بنزول القران وفراق رسول اللہ ایاھم بماامن علیھم معہ عظیم البلاء فی الدین من تلاوةالقران علی حرف واحد وجمعھم علی مصحف واحد وخرّق ماعدا المصحف الذی جمعھم علیہ وعزم علی کل من کان عندہ مصحف مخالف المصحف الذی جمعھم علیہ ان یخرقہ فاستوثقت لہ الامة علی ذالک بالطاعة ورات ان فیما فعل من ذلک الرشد والھدایة فترکت القراءة بالاحرف الستة التی عزم علیھا امامھا العادل فی ترکھا طاعة منھالہ ونظرا منھا لانفسھا ولمن بعدھا من سائر اھلِ ملتھا ، حتی درست من الامة معرفتھا ، وتعفت آثارھا فلاسبیل الیوم لاحد الی القراءة بھا ، لدثورھا وعفوآثارھا ، وتتابع المسلمین علی رفض القراءة بھا ، من غیرجحود منھا فی صحتھا وصحة شئ منھا ، وان نظرا منھا لانفسھا ولسائراھلِ دینھا، فلاقراءة للمسلمین الیوم الا بالحرف الواحد الذی اختارہ لھم امامھم الشفیق الناصح دون ماعداہ من الاحرف الستة الباقیة ( الجامع ج1 ص 86)
امام ابن جریر طبری کی اسی رائے کو بعض دیگر محققین نے بھی اختیار کیا ہے مگر وہ ابن جریر طبری کی اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے ہیں کہ ،، دیگر قراءاتِ سبعة کو امت اور اس کے امام شفیق وناصح نے برضاورغبت امت کی وحدت کی خاطر ترک کیا ہے ،، ان کا کہنا ہے کہ یہ رفع الحکم برفع العلة کی قسم کا مسئلہ ہے ۔علت تیسیر تھی وہ حاصل ہوگئی ، اور پھر ضرورت اس کی نہیں رہی ۔اس لیے ان لہجات ولغات کا پڑھنا بھی متروک ہوگیا ہے۔اوربعض دیگر حضرات لغات ولہجاتِ ستہ کو عرضہِ اخیرہ کی قراءت سے منسوخ مانتے ہیں مگر یہ بہت ہی ناقص رائے ہے کیونکہ ایک تو اس کا کوئی ناسخ موجود ہی نہیں ہے دوسری بات یہ ہے کہ بلاوجہ نسخ کرنے کی کیا ضرورت پڑگئی تھی ؟ ہاں اگر کوئی شخص جناب غامدی کی طرح قران میں ہی اس بات کی تحریف کو گوارا کرلے تب کوئی بات بن جائے گی ۔ ہمارے بعض اساتذہ مثلا مولانا گوہررحمن مرحوم نے بھی علوم القران میں ابن جریر طبری کی اس رائے کو اختیار کرلیا ہے مگر ہمیں یہ رائے قطعا درست نہیں لگتی ہے ۔بلکہ ان مشائخِ کرام پرتعجب ہوتا ہے کہ انھوں نے کس چیز سے متاثر ہو کراسے اپنالیا ہے ؟ اس سلسلے میں دو باتیں پیشِ نظر رہنی چاہئے (1) پہلی بات یہ ہے کہ جو لوگ ابن جریر طبری کی اس رائے کے قائل ہیں وہ قراءآتِ سبعة یا قراءآتِ عشرہ کو اس کو مصداق قطعا نہیں سمجھتے ہیں جیساکہ خود مولانا گوھررحمن صاحب نے بھی ( علوم القران ج1 ص 248) میں اس بات کی سختی سے تردید کی ہے مگر ہم ان حضرات سے پوچھتے ہیں کہ جب آپ کے نزدیک قراءآتِ سبعہ اور قراءآتِ عشرہ اس روایت کی مصداق نہیں ہیں تو پھر آپ لوگ ان قراءآت کا اثبات کس حدیث اور کس آیت کی بناپر جائز رکھتے ہو ؟ حالانکہ اس روایت کے سوا تو قران مجید اور پورے ذخیرہِ آحادیث میں کوئی ایسی روایت موجود نہیں ہے جس کا مصدق یہ قراءتیں بن سکیں؟ اس رائے کوسن کر منکرینِ حدیث کہہ لیں گے ہمیں آپ کی یہ تحقیق منظور ہے کہ اب باقی قراءتوں کا پڑھنا اور اس کے مطابق تفسیر کرنا جائز نہیں ہے ، گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ منکرینِ حدیث کے سامنے ذبح ہونے کےلیے آپ خود جاکر لیٹ گئے ہیں ۔ اگر کوئی اور دلیل اس مسئلہ میں نہ بھی ہو تی توصرف یہی ایک بات کافی وشافی تھی (2) دوسری بات یہ ہے کہ کسی چیز کا غلط استعمال چاہے وہ بے علمی کی بنیاد پر ہو یاجذبات اور شہوات کی بنیاد پر ہو اس بات کے لیے دلیل وبرھان کبھی نہیں سکتا کہ اس اصل حکم کو موقف کردیا جائے ۔کوئی آدمی تیمم کا غلط استعمال کرتا ہے تو اس کا حل یہ نہیں ہے کہ تیمم پر پابندی لگادی جائے یا کوئی شخص انگور سے شراب بناتا ہے تو اس کا حل یہ نہیں ہے کہ انگور کے باغات پر پابندی لگادی جائے ، یا کوئی شخص رفع الیدین اورامین بالجہر کو کفر اوربدعت سے تعبیر کرتاہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوا کہ ان دوسنن پر پابندی عائد کردی جائے ، بالکل قراءات کا مسئلہ بھی ایسا تھا ۔ تو سیدنا عثمان نے ان لہجات اور لغات کو موقوف کرنے کو کس طرح اس نزاع کا حل سمجھا ؟ یہ بات ان سیدنا عثمان کے متعلق قابلّ اعتبار بالکل نہیں لگتی ہے ۔امام ابن حزم اگرچہ بعض اوقات تشدد کے مرتکب ہوتے ہیں مگر یہاں ،، الاحکام ،، میں ان کی بات میں وزن موجود ہے مگر یہ یاد رہے کہ اس کی عبارت میں لفظِ ،، لو ،، موجود ہے لہذا فتوی بازی کا شعبہ نہیں چل سکتا ، اور ،، و ،، تحقق الوقوع کےلیے مستلزم نہیں ہے ۔لکھا ہے کہ ،، واما قول من قال ابطل الاحرف الستة فقد کذب من قال ذالک ولو فعل عثمان اوآرادہ لخرج عن الاسلام ولما مطل ساعة بل الاحرف السبعة کلھا موجودة عندنا قایمة کما کانت مبثوثة فی القراءآت المشھورة ،، باقی جو ہمارے استاد محترم نے کچھ ضعیف قسم کے اعتراضات اس حدیث سے قراءآت کامفہوم برآمد کرلینے پر واردکیے ہیں ، تو وہ ایسے نہیں ہیں جن پراپنے قیمتی وقت کو ضائع کیاجائے۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
پردہ اور غامدی صاحب
حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ...
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی...