حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 25)
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...
غلبہ دین : غلطی پر غلطی
حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)
حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)
حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...
مولانا واصل واسطی
جناب غامدی نے اسی مبحث میں اگے ،، سبعةاحرف ،، والی روایت کو تختہِ مشق بنایا ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ ،، یہاں ہوسکتاہے کہ ،، سبعة احرف ،، کی روایت بھی بعض لوگوں کے لیے الجھن کا باعث بنے ، موطا میں یہ روایت اس طرح بیان ہوئی ہے ،، عن عبدالحمن بن عبدالقاری انہ قال سمعت عمربن الخطاب یقول سمعت ھشام بن حکیم بن حزام یقراء سورةالفرقان علی غیرما اقرءھا وکان رسول اللہ اقرءنیھا ، فکدت ان اعجل علیہ ثم امھلتہ حتی انصرف ثم لببتہ برداءہ ،فجئت بہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقلت یارسول اللہ ، انی سمعت ھذا یقراء سورة الفرقان علی غیرما اقرءتنیھا ، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارسلہ ثم قال اقرء یاھشام فقراء فقراءالقراءةالتی سمعتہ یقراء فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ھکذا انزلت ثم قال لی اقرء فقراتھا فقال ھکذا انزلت ، ان ھذاالقرآن انزل علی سبعةاحرف فاقرؤا ماتیسر منہ ( ترجمہ ) عبدالرحمن بن عبدالقاری کی روایت ہے کہ عمربن الخطاب نے میرے سامنے فرمایا کہ ہشام بن حکیم بن حزام کو میں نے سورہِ فرقان اس سے مختلف طریقے سے پڑھتے ہوئے سنا جس طرح میں اسے پڑھتاتھا اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خود پڑھائی تھی ۔ چانچہ میں اسی وقت اسے پکڑنا چاہتاتھا ، پھر میں نے اسے مہلت دی ، یہاں تک کہ وہ نماز سے فارغ ہوگیا ، تو اس کی چادر کو پکڑ کر کھنچے ہوئے میں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گیا ، اور عرض کی یارسول اللہ میں اس سے مختلف طریقے پر اسے سورہِ فرقان کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے جس طرح آپ نے یہ مجھے پڑھائی ہے ،آپ نے فرمایا اسے چھوڑ دو ، پھر ہشام سے کہا پڑھو : اس نے اسی طرح پڑھی جس طرح میں نے اسے پڑھتے ہوئے سنا تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی طرح ( یہ آیت) اتری ہے۔، پھر مجھ سے کہا پڑھو:چنانچہ میں نےبھی پڑھی تو فرمایا اسی طرح اتری ہے ، یہ قران سات حرفوں پراتراہے تم ان میں سے جسے آسان سمجھو اس کےمطابق پڑھ سکتے ہو ( میزان ص 30) اگے جناب غامدی نے اس روایت پرچار پانچ اعتراضات وارد کیے ہیں اور پھر بتایا ہے کہ یہ روایت ہرگز لوگوں کےلیے لائقِ اعتناء حدیث نہیں ۔ بلکہ درحقیقت یہ قطعی بے معنی حدیث ہے ۔تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ۔ہم ان اعتراضات کو ایک ایک کرکے اس کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ احباب کومنکرینِ حدیث کے نقطہِ نظر اور ان کے علمی استدلالات کا پتہ بھی چل سکیں ۔ وہ پہلا اعتراض اس حدیث پر یوں اٹھاتے ہیں کہ ،، اول یہ ہے کہ یہ روایت اگرچہ حدیث کی امہات کتب میں بیان ہوئی ہے لیکن اس کا مفہوم ایک ایسا معما ہے جسے کوئی شخص اس امت کی پوری تاریخ میں کبھی حل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا ۔امام سیوطی نے اس کی تعیین میں متعدد اقوال اپنی کتاب ،،الاتقان ،، میں نقل کیے ہیں ، پھر ان میں ہرایک کی کمزوری کا احساس کرکے موطا کی شرح ،، تنویر الحوالک ،، میں بالاخر اعتراف کرلیا ہے کہ اسے من جملہِ متشابہات ماننا چاہئے جن کی حقیقت اللہ کے سواکوئی نہیں جانتا ، وہ لکھتے ہیں ،، وارجحھا عندی قول من قال ، ان ھذا من المتشابہ الذی لایدری تاویلہ ( ترجمہ ) میرے نزدیک سب سے بہتر رائے اس معاملے میں انہی لوگوں کی ہے جوکہتے ہیں کہ یہ روایت امورِ متشابہات میں سے ہے جن کی حقیقت کسی طرح نہیں سمجھی جاسکتی ( میزان ص 30)
ہم جناب غامدی کی اس اعتراض کے حوالے سے چند گذارشات پیش کرنا چاہ رہے ہیں ۔ پہلی گذارش یہ ہے کہ سیوطی یا جعفر بن حمدان وغیرہ میں سے کسی عالم کا یہ کہنا کہ فلان آیت یافلان حدیث مشکلات یامتشابہات میں سے ہے ، اس کے معنی کو اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا ، اس کا یہ مطلب کہاں سے نکل آیا ہے کہ پوری امت کی تاریخ میں اس مسئلہ کا حل کسی نے پیش نہیں کیا ہے ممکن ہے اس شخص کوکوئی ذاتی مسئلہ اور مشکل در پیش ہو ؟ محمود آلوسی نے کیا خوب فرمایا ہے کہ ( ،، فالفائدة الخامسة ،، فی بیان المراد بالاحرف السبعة التی نزل بھاالقران اقول روی احد وعشرون صحابیا حدیث نزول القرآن علی سبعةاحرف حتی نص ابوعبیدہ علی تواترہ وفی مسندابی یعلی ان عثمان رضی اللہ عنہ قال علی المنبر اذکراللہ رجلا سمع النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال ان القرآن انزل علی سبعةاحرف کلھا کاف شاف لما قام فقاموا حتی لم یحصوا فشھدوابذلک فقال وانا اشھدمعھم واختلف فی معناہ علی اقوال احدھا انہ من المشکل الذی لایدری معناہ لا شتراک الحرف وفیہ ان مجرد الاشتراک لایستدعی ذالک اللھم الا ان یکون بالنظر الی ھذاالقائل ( روح المعانی ج1ص 21) اس سے معلوم ہوا کہ یہ اس محقق کا اپنا ذاتی مسئلہ ہےپوری امت کا مسئلہ نہیں ہے کما زعم الغامدی ۔ اگر واقعی بات ایسی ہی ہوتی جیسا کہ جناب غامدی نے دعوی کیاہے تو پھر کیا وہ سیوطی کا حوالہ دیتے ( جو بقول بعض محدثین کے محض حاطب اللیل ہے )یا پھر امت کے اساطین میں سے کسی کی عبارت پیش کرتے ۔ اس سے اندازہ بندے کو ہوجاتا ہے کہ دال میں کچھ کالاکالاضرور ہے ۔ہم متشابہات کے حوالے سے ایک عبارت جناب فخرِالدین رازی کی پیش کرتے ہیں ، پھر بات کرتے ہیں ۔وہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ،، واعلم ان ھذا موضع عظیم فنقول ، ان کل واحد من اصحاب المذاھب یدعی ان الایات الموافقة لمذھبہ محکمة وان الایات الموافقة لقول خصمہ متشابھة فالمعتزلی یقول قولہ ( فمن شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر ،، الکھف 29 ) محکم وقولہ ( وماتشاؤن الا ان یشاء اللہ رب العالمین ،،التکویر 29) متشابہ والسنی یقلب الامر فی ذالک فلابدھھنا من قانون یرجع الیہ فی ھذالباب فنقول اللفظ اذاکان محتملا لمعنیین وکان بالنسبة الی احدھما راجعا وبالنسبة الی الاخر مرجوحا فان حملناہ علی الراجح ولم نحملہ علی المرجوح فھذا ھو المحکم واما ان حملناہ علی المرجوح ولم نحملہ علی الراجح فھذاھوالمتشابہ فنقول صرف اللفظ عن الراجح الی المرجوح لابدفیہ من دلیل منفصل ، وذلک الدلیل المنفصل اما ان یکون لفظیا واماان یکون عقلیا ( الکبیر ج3 ص 139) اب کوئی بندہ جنابِ رازی کے اس قانون کو لیکر قران کی بیشتر ایات کے متعلق ،، متشابہات ،، کا دعوی کرلے اور ساتھ کہے کہ یہ ایک ایسا معماہے جسے امت کی تاریخ میں کسی نے حل نہیں کیا ہے توکیا جناب غامدی اس قبول کرلیں گے ؟اگر کوئی شخص ان کی اس بات کو قبول کرتاہے تو اس محقق کو اس کے عقل کی داد بہرحال دینی چاہیے ۔ ایسی بات جناب غامدی نے یہاں ،، سبعةاحرف ،، کے مبحث میں لکھی ہے اور آیتِ قرانی یاحدیثِ نبوی کی تفسیر میں کثیر اقوال کا درآنا کوئی اس آیت کے معما اور بے معنی ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ بلکہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے مکتبِ فراہی کے بانی جناب عبدالحمید فراہی کی کسی تحریر( غالبا مجموعہِ تفاسیر فراہی) میں پڑھا تھا کہ کسی آیت کے مختلف معانی وتوجیہات کو مختلف تفاسیر سے جمع اورنقل کرکے اس آیت کو کثیر المعنی قرار دینا درحقیقت قلتِ تدبّر کا نتیجہ ہے ۔ بالکل اسی طرح کسی حدیث کو ،، متشابہ لایدری تاویلہ ،، قراردینا بھی قلتِ تدبر کا ہی نتیجہ ہے ۔کجا کہ کوئی آدمی اسی بات کو اصل قرار دے کر حدیث کو رد کرنے کی کوشش کریں ۔تو ہم اس کو بناء الفاسد علی الفاسد قراردیں گے۔ پھر ہم نے اس سے پہلے سلفِ طیب ( امام شافعی اور یحی بن سعیدالقطان) کے دواقوال گذشتہ مباحث میں پیش کیے تھے کہ ،، ان کے نزدیک ،، سبعةاحرف ،، والی روایت سے مراد امت مسلمہ کو تیسیر اور آسانی کو فراہم کرنا ہے ، یہی بات دیگراہلِ علم نے بھی فرمائی ہے کہ اللہ تعالی نے قران کریم کی تلاوت میں آسانی پیداکرنے کی کےلیے امتِ محمدیہ کو ایک سہولت یہ عطا فرمائی ہے کہ اس کے الفاظ کومختلف طریقوں سے پڑھنے کی اجازت دی ہے کیونکہ بعض اوقات کسی شخص سے کوئی ایک طریقے سے نہیں پڑھا جاتا تواسے دوسرے طریقے سے اسے پڑھ سکتاہے ۔ اب کسی دوسرے شخص کے لیے ذہنی تکلیف کی بنا پر اسے مشکل بن جائے تو خرابی اس سہولت دینے والے میں نہیں ہوتی بلکہ اس آدمی کی ذات اور اس کے ذہن میں مسئلہ درپیش ہوتا ہے ۔ وہ اس سہولت کو ختم کرنے کے بجائے پورا زور اپنے آپ کو درست بنانے پرخرچ کریں ۔بعینہ یہی مسئلہ ہمیں جناب کے ساتھ یہاں پر درپیش ہے۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
پردہ اور غامدی صاحب
حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ...
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی...