غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 24)

Published On February 15, 2024
پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)

حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...

مولانا واصل واسطی

جناب غامدی اپنے مدرسہِ فکر کی تعریف میں یوں مدح وثنا کی حدکرتے ہیں کہ ،، قران مجید پراگر اس کی نظم کی روشنی میں تدبّر کیا جائے تو اس کے داخلی شواہد بھی پوری قطعیت کے ساتھ یہی فیصلہ سناتے ہیں ۔مدرسہِ فراہی کے اکابر اہلِ علم نے جو کام اس زمانے میں قران پر کیا ہے  اس سے یہ بات بالکل مبرہن ہوجاتی ہے کہ قران کامتن اس کے علاوہ کسی دوسری  قراءت کو قبول ہی نہیں کرتا ( میزان ص 29)  یہ پورا مقدمہ ان لوگوں کا اس بات پر مبنی ہے کہ یہ قراءتیں لوگوں کی اپنی ایجاد کردہ ہیں ، اللہ تعالی کی طرف سے وارد اور مجاز نہیں ہیں جیسا کہ جناب غامدی کا اپنا فرمان ہے ،، کہ یہ ان فتنوں کا اثر ہے جس سے افسوس کہ مسلمانوں کا کوئی شعبہِ علم محفوظ نہیں رہ سکا ہے ،،  اورجب کوئی بندہ ان قراءتوں کو ،، سازشی فتنوں ،، کا اثر قرار دے گا  تو اس کا لازمی نتیجہ یہی ہوگا کہ وہ اس کے متعلق کم ازکم نرم الفاظ میں بھی یہی کہے گا  کہ ،، قران کا متن ان دیگر قراءتوں کے الفاظ کو قبول ہی نہیں کرتا ،، اور یہ تو بدیہی بات ہے کہ ریشم اوکیمخواب کے کپڑوں میں ٹاٹ کے پیوند تو عام دنیا میں بھی نہیں لگا ئے جاتے۔  مگر اس مقدمہ کے موقوف علیہ قول کو جناب غامدی اور ،، مدرسہِ فراہی کے اکابر اہلِ علم ،، نے اب تک ثابت کرکے نہیں دکھایا اور نہیں بتایا ہے ۔زیادہ سے زیادہ نرے دعاوی کرتے ہیں ۔ وگرنہ اگر وہ اس بحث کے موقوف علیہ مقدمہ کو ثابت کرلیتے تو ان کو اتنے پاپڑ بیلنے کی قطعی ضرورت نہ پڑتی۔ اس بات کی دوسری دلیل یہ ہے کہ امت کے اکابر علماء ومفسرین نے جگہ جگہ انہی متواتر قراءتوں کے مطابق قران کی تفسیر کرکے دکھائی ہے ۔ آج تک کسی معتبر محقق مفسر نے ان کے متعلق یہ دعوی عوامِ امت میں دائر نہیں کیا کہ انھوں نے قران مجید جو اللہ تعالی کی واحد معتبراور مستند کتاب ہے کو مجروح اورمقدوح کیا ہے ۔یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ،، مدرسہِ فراہی کے اکابر اہلِ علم ،، کا یہ دعوی محض  بے بنیاد ہے  جس کی علمی دنیا میں کوئی قدر وقیمت موجود نہیں ہے ۔تیسری دلیل اس بات کی یہ ہے کہ جن  علماء ادب اور بلاغت نے لوگوں کو قران کے اعجاز کے قائل کرنے کے لیے زندگیاں ان میں صرف کی ہیں  انھوں نے ان قراءات کو متواتر اورخدا کی طرف سے مقرر کردہ مان لیا ہے ۔اگر ان قراءتوں سے قران کی فصاحت اور بلاغت یامعنویت وحکمت پر کوئی حرف آتا  تو وہ اس کو کبھی بھی قبول نہ کرتے ۔پس جب انھوں نے فصاحت وبلاغت کے اعلی مقام پرفائز ہونے کے باوجود ان قراءتوں کی درستگی اور تواتر کا اقرار کیاہے  تو یہ اس بات کا فی نفسہ مضبوط ثبوت ہے کہ ان قراءت کے مطابق قران کی تفسیر کرنا ، کسی طرح بھی اس کو مجروح اور مقدوح نہیں کرتا ۔ باقی رہی اس آدمی کی بات جو فراہی سے فراغتِ علمی کے بعد بھی محدث مباکپوری کے سامنے قراءت کرتے ہوئے ،، عرف ،، کے صیغے کوبکسر الکاف پڑھتا ہے محدثِ مذکوراسے شرم دلانے کے بجائے راجع اللغة کا جملہ فرماکر سمجھاتے ہیں  تو اس کی وہ حیثیت نہیں ہے کہ فصاحت وبلاغت کے صف میں انہں اکابرِامت کے  ساتھ لا کرکھڑا کیاجائے ۔کجا کہ کوئی شخص ان کی جرح علی القرءات المتواترہ کو قبول کرلے؟  ابوالقاسم زمخشری جیسے علم الاعلام اورعربی علوم ماضغ الشیح والقیصوم جس کو ان قراءات کے بارے میں شبہات پڑے ہیں ، ان کو بھی اس باب میں کوئی پوچھنے والا تک نہیں ، تابہ دیگران چہ رسد ؟ ابوحیان اندلسی ،، اتکمیل والتذئیل ،، اور ،،ارتشاف ،، جیسی کتابوں کے مصنف اور اس جیسے نحوی اسی ابوالقاسم زمخشری کے متعلق جگہ جگہ  لکھتے ہیں کہ ،، والعجب کل العجب لعجمی ضعیف فی النحو یرد علی القرءات المتواترة  ،،  چوتھی بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ فقہاءِکرام مختلف قراءات کو مختلف آیات کی طرح مستقل بالحکم قرار دیتے ہیں ۔ان سے مختلف احکام کا استنباط کرنے کے لیے استدلال کرتے ہیں ۔کیا اگر وہ ان قراءتوں کو عجمی فتنہ کے اثرات قرار دے لیتے ، انہیں متواتر قراءات نہ مانتے تو وہ اس سے پھر ایسے استدلالات کو جائز قرار دے سکتے تھے ؟جبکہ امام شافعی کے اقوال سے تو محققین عربیت کی اثبات کے لیے بھی استدلال کرتے ہیں جیساکہ محدث احمد شاکر مرحوم وغیرہ نے لکھا ہے ۔  مدرسہِ فراہی کو چھوڑ کر ذرا امام شافعی کے قول کو سن لیں اختلافِ قراءات کے متعلق فرماتے ہیں کہ  ،، قال فاذا کان اللہ لرافتہ بخلقہ انزل کتابہ علی سبعة احرف معرفة منہ بان الحفظ قد یزل لیحل لھم قراتہ وان اختلف اللفظ فیہ مالم یکن فی اختلافھم احالة معنی  کل ما سوی کتاب اللہ اولی ان یجوز فیہ اختلاف اللفظ مالم یحل معناہ ( الرسالہ ص 272) ایسے مواقع پرمجددِ الف ثانی کا وہ مشہورِزمانہ جملہ دہرایا جاتا ہے کہ ،، فتوحاتِ مدنیہ مارااز فتوحاتِ مکیہ مستغنی ساختہ است ،،  تقریبا یہی بات جناب خطیبِ مشرق ابوبکر خطیب رحمہ اللہ نے یحی بن سعید القطان سے نقل کی ہے کہ آخاف ان یضیق علی الناس تتبع الالفاظ لان القران اعظم حرمة ووسع ان یقرا علی وجوہ اذاکان المعنی واحدا ( الکفایہ ص 316) امام شافعی اور یحی بن سعید القطان کے ان دو عبارات سے یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے ، کہ ،، احرفِ سبعہ ،، یہ لوگ کیا مراد لیتے تھے ؟  مگر یہ بحث ہم اگے جاکر کرلیں گے ، ان شاء اللہ تعالی ، اب ذراجناب غامدی کے ،، استاد امام ،، کے قول کو ملاحظہ فرمالیں تاکہ آپ کے علم میں اضافہ ہوسکے ۔وہ لکھتے ہیں کہ ،، استاد امام ،، امین احسن اصلاحی کی تفسیر ،، تدبّر قران ،، کوکوئی شخص اگرچاہے تو اس کی مثالیں جگہ جگہ دیکھ سکتا ہے ۔ وہ خود لکھتے ہیں :قراءتوں کا اختلاف بھی اس تفسیر میں دورکردیاگیاہے ، معروف اورمتواتر قراء ت وہی ہے  جس پر یہ مصحف ضبط ہواہے ، جو ہمارے ہاتھوں میں ہے ، اس قرائت میں قران کی ہرآیت اورہرلفظ کی تاویل لغتِ عرب ،نظمِ کلام ، اورشواہدِقران کی روشنی میں اسی طرح ہوجاتی ہے  کہ اس میں کسی شک کا احتمال باقی نہیں رہ جاتا ۔چانچہ میں نے ہرآیت کی تاویل اسی قرائت کی بنیاد پرکی ہے اور میں پورے اعتماد سے یہ کہتا ہوں کہ اس کے سوا کسی دوسری قرائت پر قران کی تفسیر کرنا اس کی بلاغت ، معنویت ، اور حکمت کو مجروح کیے بغیر ممکن نہیں ہے ( میزان ص 29) ہم  جناب غامدی  کے ،،استاد امام ،، کو تو چیلنج نہیں کرسکتے ہیں ۔ ہماری ،، استاد امام ،، کے بالمقابل حیثیت ہی کیا ہے ، ان کے سامنے تو بڑے بڑے ،، امام الزمان اور اساطین ،، کہلانے والے بقولِ  جناب غامدی کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے ۔ اسی لیے توجناب ان کے متعلق حالی کایہ شعراکثر لکھتے رھہے ہیں کہ

غالبِ نکتہ دان سے کیا نسبت

خاک کو آسمان سے کیانسبت

مگر ہم صرف اتنی بات اپنی حیثیت کے مطابق پوچھتے ہیں  کہ محقق مفسرین سورتِ فاتحہ کی آیت (مالک یومِ الدین ) بصیغہِ اسمِ فاعل اوربصیغہِ فعل بکسرالعین بھی پڑھتے ہیں  اور کہتے ہیں کہ دونوں قرائتیں متواتر ہیں ۔اسماعیل بن کثیر لکھتے ہیں کہ ،، وقرء بعض القرّاء ( مالک یوم الدین ) وقرء آخرون ( ملِک یوم الدین ) وکلاھما صحیح متواتر فی السبع ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وقد رجح کلا من القراءتین مرجحون من حیث المعنی وکلتاھما صحیحة حسنة ورجح الزمخشری ( ملِک )  لانھا قراءة اھلِ الحرمین ( تفسیر القران ج1ص 113)  اسی کے قریب قریب بات جناب محمود آلوسی نے بھی لکھی ہے کہ ،، والمتواتر منھا قراءةمالک وملِک فھما نیرا سواریھاوقطبا فلک دراریھا وختلف فی الابلغ منھما قال الزمخشری وملِک وھو الاختیار لانہ قراءة اھلِ الحرمین ( روح المعانی ج1 ص 85)  اب ہم اتنی سی بات پوچھنے کی جسارت کرتے ہیں کہ اس آیت میں ( ملِک بروزنِ فعل ) کی قراءت کے مطابق قران کی تفسیر کرنے سے اس کی بلاغت ، معنویت ، اورحکمت آخر کس طرح مجروح ہوجاتی ہے ؟ اورجن لوگوں نے یہ کام کیا ہے کیا انھوں نے قران  کی ان تینوں خاصیات کو مجروح ہونے دیا ہے ؟ اس آیت میں زمخشری کی اختیارکردہ قراءت سے ہماری وہ بات پھر دوبارہ ثابت ہوگئی ہے کہ اگر مروج قراءت ہی ،، قراءتِ عامہ ،، ہے کمازعم الغامدی ، توزمخشری نے بارہ مقامات میں ،، قراءتِ عامہ ،، کو چھوڑ کر دیگر قراءآت کے مطابق قران مجید کی تفسیرآخر کیسے کردی ہے ؟کیاوہ ،، قراءةِ عامہ ،،  اور اس کی قیمت سے ناواقف تھے ؟ اگر اس حوالے سے کوئی اور بات نہ بھی ہوتی  تو یہی ایک بات جناب غامدئ کی تردید کے لیے کافی وشافی تھی ۔اسی طرح آیت ،، ومایخدعون ،، اور ،، ومایخادعون ،، بھی دونوں متواتر قراءتیں ہیں کماصرح بہ المفسرون ۔جیسا کہ ہم نے پہلے زمخشری سے نقل کیا تھا کہ انہوں  نےمفاعلہ کے صیغے کے مطابق اس کی تفسیرکی ہے ۔ پھر دوسری قراءت کا بھی ذکرکیا ہے ۔اور محمود آلوسی کہتے ہیں کہ ،، ماعد القراءتین الاولیین شاذة( روح المعانی ج1ص 149) یعنی یہ دوقراءتیں متواترہیں باقی شاذ ہیں ۔اب جناب غامدی اوران کے ،، استادامام ،، ہم فقیروں کو ذرا تحقیق کرکے بتائیں کہ یہاں قران کی بلاغت ، معنویت اور حکمت کس طرح مجروح ومقدوح ہو گئی ہے ؟

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…