غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 23)

Published On February 15, 2024
پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)

حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...

مولانا واصل واسطی

جناب غامدی نے جو روایت ابوعبدالرحمن السلمی کے نام سے پیش کی ہے  اس کے اخر میں یہ الفاظ ہیں ،، وکان زید قدشھد العرضة الاخیرة وکان یقرئ الناس بھا حتی مات ( میزان ص 29) اس روایت کی ابتدا میں بھی زید بن ثابت کا نام موجودہے مگر احباب کو یہ دیکھ کر بہت لطف ومزہ آجا ئے گا کہ جناب غامدی اپنا کام کس طرح سے نکالتے ہیں ۔احباب پہلے ذرا دو روایتیں پڑھ لیں ،، ایک روایت یہ ہے جس کو ابن سعد ، ابن ابی شیبہ ، امام احمد وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ ،، عن ابی ظبیان عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال ایّ القراتین تعدّون اول ؟ قالوا قراءة عبداللہ قال لا بل ھی الاخرة کان یعرض القران علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی کل عام مرة فلما کان العام الذی قبض فیہ عرض علیہ مرتین فشھدہ عبداللہ فعلم مانسخ ومابدّل  ( ترجمہ ) یعنی عبداللہ ابن عباس نے پوچھا تم لوگ کس کی قراءة کو اولین قراردیتے ہو ؟ انھوں نے جواب میں کہا عبداللہ بن مسعود کی قراءت کو ۔توابن عباس نے فرمایا کہ ابن مسعود کی قراءت اخری قراءت ہے کیونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخری عرضہ میں ساتھ تھے جو بھی اس قراءت  میں متغیراورمبدل ہواتھا سب کا ان کو پتہ چل گیا تھا ،، یعنی سیدناابن عباس سیدنا ابن مسعود کی قراءت کو اخری قرار دے رہے ہیں ۔ایک دوسری روایت میں مجاھد بن جبر ان سے نقل کرتے ہیں کہ کون سے آدمی کی قراءت اخری ہے ابن مسعود کی یا پھر زید بن ثابت کی ؟ مجاہد کہتے ہیں ہم نے جواب میں کہا زید بن ثابت والی قراءت اخری ہے ، انھوں نے فرمایا نہیں ،، ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یعرض القران علی جبریل کل عام مرة فلما کان العام الذی قبض فیہ عرضہ علیہ مرتین وکانت اخر القراءة قراءة عبداللہ ( مسندِاحمد والبزار وغیرھما ) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ زید بن ثابت کی قراءت اخری نہ تھی جیسا کہ ابوعبدالرحمن السلمی کی روایت کی نقل سے جناب غامدی لوگوں کو تاثر دینا چاہتے ہیں بلکہ اخری قراءة عبداللہ بن مسعود کی تھی ، اور وہی اخری عرضہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ۔ یہاں یہ بات بھی یاد کرنے کی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود کی قراءة کے حوالے سے بہت ساری فضول باتیں لوگوں نے مشھورکی ہیں ۔مثلا ایک یہ کہ وہ معوذتین کو قران تسلیم نہیں کرتے تھے ، اور فاتحہ ان کے مصحف میں نہیں تھا وغیرہ ۔لیکن محققین نے ان کو دلائل کے ساتھ رد کیا ہے ۔قاضی ابوبکرباقلانی لکھتے ہیں کہ ،، فیقال لھم اما دعوی من ادعی ان عبداللہ بن مسعود انکران تکون المعوذتان قرانا منزلا من عنداللہ وجحد ذلک فانھا دعوی تدل علی جھل من ظن صحتھا وغباوتہ وشدة بعدہ عن التحصیل وعلی بھت من عرف حال المعوذتین وحال ابن مسعود وسائر الصحابة ( الانتصار ج1 ص301)  کچھ اگے جاکر لکھتے ہیں کہ ،، واتفاق الکل من جمیع فرق الامة واھل النقل والسیرة علی ان عبداللہ کان احدالقراء المبرزین ووجھا من وجوھ المقرئین المنتصبین لتدریس کتاب اللہ جل وعز وتعلیمہ والاخذلہ عنہ وانہ من المعروفین بذالک علی عصرالرسول والی حین وفاتہ صلی اللہ علیہ وسلم وانہ قد اخذعنہ القران ولقنہ منہ ورواہ عنہ جماعة جلة مشھورون معروفون منھم عبیدہ السلمانی ومسروق بن الاجدع وعلقمہ وعمروبن شراحیل والحارث بن قیس والاسود بن یزید بن قیس ( الانتصار ج 2 ص 305)  اور جناب زاہد الکوثری لکھتے ہیں کہ ،، وقدتواترت عن ابن مسعود قراتہ بطریق اصحابہ من اھل الکوفة وقدتلقاھا عاصم عن زر بن حبیش عنہ رضی اللہ عنہ وہی التی یرویھا ابوبکربن عیاش عن عاصم وتواترھا البالغ مما لایتناطح فیہ ولیس فیھا تلک الالفاظ الشاذة ومن زعم انہ لم یکن فی مصحفہ الفاٹحة والمعوذتان اوانہ کان یحک المعوذتین فکاذب قصدا اووھم من غیرقصد ( المقالات ص 27) شیخ زاھد الکوثری کی اس عبارت سے معلوم ہوا کہ  سیدناعبداللہ بن مسعود کی قراءت بھی متواتر ہے ۔یہی بات دیگر لوگوں نے بھی کی ہے کہ ،، وان القراء السبع متبعون فی جمیع قراءاتھم الثابتة عنھم لاشکوک فیھا ولاانکرت علیھم بل سوّغھاالمسلمون واجازوھا لمصحف الجماعة وقارئون بماانزل اللہ جل ثناؤہ ( الانتصار ج1 ص 65) اس سے معلوم ہوا کہ سات قراءتیں ساری ہی  متواتر ہیں ۔ایک بات جو ہم باربار کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ مصاحفِ سیدنا عثمان جو باتفاق صحابہِ کرام مرتب کیے گیے تھے وہ قراءاتِ سبعہ پر مشتمل تھے ۔ اور ،، احرفِ سبعہ ،، والی جو روایت ہے وہ بعض محققین کے نزدیک متواتر ہے ، اور بعض دیگر کا خیال ہے کہ وہ تمام طبقات میں متواتر نہیں ہے ۔یہ اس وقت ہماراموضوع نہیں ہے ۔ اگے دیکھ لیں گے ۔اس تواتر سے مراد یا تو مرادفات کے استعمال کا مسئلہ تھا  یا پھر لہجات کے استعمال کا مسئلہ تھا ، مگر اس مفہوم میں  کوئی ایسا معما موجود نہیں تھا کہ جس کی بنا پرابوبکر سیوطی جیسے لوگ اسے متشابہ قرادیدیں

چون ندیند حقیقت رہِ افسانہ زدند

ہم یہ بات کرنا چاہ رہے تھے کہ مصاحفِ عثمانیہ قراءاتِ سبعہ پرحاوی اوران کو متضمن تھے ،، محقق زرقانی لکھتے ہیں کہ ،، ذھب جماعة من الفقھاء والقراء والمتکلمین الی ان جمیع ھذہ الاحرف موجودة بالمصاحف العثمانیة ، واحتجوا بانہ لایجوز للامة ان تھمل نقل شئ منھا وان الصحابة اجمعوا علی المصاحف العثمانیة من الصحف التی کتبھا ابوبکر ، واجمعوا علی ترک ماسوا ذلک ومعنی ھذا ان الصحف التی کانت عند ابی بکر جمعت الاحرف السبعة ونقلت منھا المصاحف العثمانیة بالاحرف السبعة کذالک ، وذھب جماھیرالعلماء من السلف والخلف وآیمةالمسلمین الی ان المصاحف العثمانیة مشتملة علی مایحتملہ رسمھا من الاحرف السبعة فقط جامعة للعرضة الاخیرة التی عرضھا النبی صلی اللہ علیہ وسلم علی جبریل متضمنة لھا ( مناھل العرفان ص 98)  یعنی پہلے گروہ کاقول یہ ہے کہ ،، قراءاتِ سبعہ ،، اوراحرفِ سبعہ ،، اپنے نقوش کے ساتھ ہی مصاحف عثمانیہ میں موجود تھے ۔مگر مذہبِ جمہورخلف وسلف یہ ہےکہ جن قراءات کا رسمِ ونقشِ کا  مصحفِ عثمانی محتمل ہوسکتا ہے ان پروہ مشتمل تھا ۔ اس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جمہورسلف وخلف کامذہب کیا اورکون سا تھا ؟ اور جناب غامدی ان کامذہب کیا بتاتے ہیں  ۔جناب غامدی اگے اسی مبحث میں لکھتے ہیں کہ ،، چنانچہ صحابہِ کرام کے زمانے سے لیکر آج تک مسلمانوں کا قولی تواتر صرف اسی قراءت کو حاصل ہے ، ہمارے علماء اسے ،، قراءتِ حفص ،،  کہتے ہیں ، درآن حالیکہ یہ ،، قراءت عامہ ،، ہے اور سلف جیسا کہ اوپر بیان ہواہے اس کا تعارف بالعموم اسی مفہوم کے الفاظ سے کراتے تھے۔ ابن سیرین کی روایت ہے ،، القراءة التی عرضت علی النبی علیہ الصلاة والسلام فی العام الذی قبض فیہ ھی القراءة التی یقرؤھا الناس الیوم ( ترجمہ )  نبی صلی اللہ کو آپ کے وفات کے سال جس قراءت پر قران سنایا گیا یہ وہی قراءت ہے جس کے مطابق لوگ اس وقت بھی قران کی تلاوت کررہے ہیں ،، ( میزان ص 29) ہم نے ان باتوں کے متعلق پہلے تفصیل سے لکھا ہے مگر چند گذارشات اورگوش فرمالیں ۔پہلی گذارش یہ ہے کہ جناب غامدی صاحب یا تو طریقہِ استدلال بالکل نہیں جانتے اور یا پھرقصدا لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں ۔ ان کا مدعی کیا ہے ؟ اس کے لیے کس طرح کے دلائل کی ضرورت ہوتی ہے ؟ اور وہ کیسے روایتیں پیش کرتے ہیں ؟ اور پھر ان سے وہ کیانتیجہ نکالتے ہیں ؟ اب اس روایت کو غور سے پڑھ لیں جوابن سیرین کے حوالے سے جناب غامدی کے کلام میں نقل ہوئی ہے ۔اس کو اگر ہم من وعن بھی تسلیم کرلیں تب بھی ہمیں کوئی نقصان اس سے نہیں ہوتا ۔اورجناب غامدی کی اس سے کوئی تسکین وتسلی ہو سکتی ، وہ کیسے ؟ وہ ایسے کہ ابن سیرین کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ نبی علیہ السلام کی اخیری عرضہ والی قراءت یہی تھی ؟ سند تو انھوں نے خیر پیش ہی نہیں کی ہے ؟ اور کسی قراءت کے اخری ہونے سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ وہ ناسخ ہے اور باقی منسوخ ہیں ؟ ہم نے ابھی مصاحفِ سیدنا عثمان کو قراءتِ سبعہ پر مشتمل ہونے کی بات زرقانی سے نقل کردی ہے ۔ پھر ابن سیرین کی بات سے زیادہ سے زیادہ یہی معلوم ہوتاہے کہ لوگ یہ ،، قراءت ،، کرتے تھے مگر یہ آپ نے کہاں سے معلوم کرلیا ہے کہ وہ دوسری قراءتوں کو ناجائز جانتے اورسمجھتے تھے ؟ آپ کامدعی تو یہ تھا ، یہی بات ثابت کریں نا ، اس کی دلیل کدھر ہے ؟ یعنی اب تک جوثابت کیا ہے وہ مطلوب نہیں ہے اورجو مطلوب ہے اس بحث میں اس کا سرے سے ذکر ہی موجود نہیں ہے ۔ اب آپ بتائیں کہ ہم صرف غامدی کے پرلطف الفاظ سے ہی گذارہ چلائیں ، یا کچھ مقاصد کامطالبہ بھی جناب غامدی سے کرلیں ۔بالفرض آپ نے ثابت بھی کیا کہ آج لوگ باقی قراءتوں کے منکر ہیں اور ایک قراءت کے قائل ہیں تب بھی آپ کا کچھ فائدہ نہیں ہے کیونکہ آپ نے اس روایت کے مطابق دورِتابعین میں ایک قراءت کے مقر افراداور باقی قراءتوں کے منکرافرادثابت کرنے ہونگے ۔ اس لیے کہ اب تو فتنوں کا دور ہے جس کاکوئی اعتبار نہیں ہے لہذا آپ کوخیرالقرون میں ثابت کرنا ہوگا۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…