غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 19)

Published On January 29, 2024
پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)

حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...

مولانا واصل واسطی

ہم نے کچھ اوپرجناب غامدی کی ایک عبارت پیش کی ہے  جس میں انھوں نے سورت الاعلی اور سورت القیامہ کی آیات سے فقط ایک قراءت کے مسئلے پر استدلال کیا ہے ۔اس کے بعد انھوں نے تین نکات ان سےاخذ کیے ہیں ۔ جن کو ہم کچھ دیر بعد میں مالہ وماعلیہ کے ساتھ ذکر کریں گے لیکن اس سے پہلے اس بات کو نوٹ کرلیں کہ جناب غامدی نے قراءآتِ متواترہ کے انکار سے جگہ جگہ اپنے مذہب کے اثبات کےلیے فائدہ بھی اٹھایا ہے ۔اس کی اسوقت ایک مثال پیشِ خدمت ہے ۔ قران مجید میں باب المیراث میں ایک  آیت ہے ،، وان کان رجل یورث کلالة اوامرءة ولہ اخ اواخت فلکل واحد منھما السدس فان کانوا اکثر من ذلک فھم شرکاء فی الثلث من بعد وصیة یوصی بھا اودین غیرمضار وصیة من اللہ واللہ علیم حلیم ( النساء 12) اس آیت میں ،، کلالہ ،، سے کیامراد ہے ؟ اور پھر کلالہ کا اطلاق کن کن معانی پر ہوتا ہے ؟ ،، کلالہ ،، سے یہاں جمہور مفسرین نے بلکہ اس پر اجماع ہے مفسرین کا کہ وہ آدمی مراد ہے ، جس کا نہ والد ہو اور نہ ولد ، سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں کہ الکلالة من لاولد لہ ولاوالد وھکذا قال علی وابن مسعود وصح عن غیروجہ عن ابن عباس وزید بن ثابت وبہ یقول الشعبی والنخعی والحسن وقتادہ وجابر بن زید والحکم وبہ یقول اھل المدینة واھل الکوفة والبصرة وھو قول الفقھاء السبعة والایمة الاربعة وجمھور السلف والخلف بل جمیعھم وقد حکی الاجماع علیہ غیرواحد ( تفسیر القران ج2ص 188)ابن کثیر کے اس قول سے بندہ اندازہ کرسکتاہے کہ جمہور سلف وخلف کے نزدیک ،، کلالہ ،، سے ادھرکیامراد ہے ؟ خود جناب غامدی نے بھی اسے تسلیم کیاہے ، وہ لکھتے ہیں کہ ،، اب آیہِ زیرِبحث میں دیکھیے ، جہاں تک پہلے معنی کا تعلق ہے ( یعنی جس کے والد اورولد میں سے کوئی بھی نہ ہو ) فقہاء نے اگرچہ یہاں بالاتفاق وہی مراد لیے ہیں مگر آیت ہی میں دلیل موجود ہے کہ یہ معنی یہاں مراد لینا کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے ( میزان ص 527) اس بات کی تو ہم اگے جاکر وضاحت کرلیں گے کہ یہ معنی لینا ممکن ہے یاممکن نہیں ہے ؟ ابن عادل حنبلی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ،، فقال جمھور اللغویین وغیرھم انہ المیت الذی لاولد لہ ولاوالد ( اللباب ج ص 223) اور جناب راغب اصفھانی لکھتے ہیں کہ ،، والکلالة اسم لماعداالوالد والولد من الورثة وقال ابن عباس ھواسم لمن عداالولد وروی ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم سئل عن الکلالة ؟ فقال من مات ولیس لہ ولد ولاوالد ،، فجعلہ اسما للمیّت وکلاالقولین صحیح ( المفردات ص 455) جناب غامدی نے یہ بات بھی لکھی ہے کہ عربیت کے اصول کی رو سے یہ مفہوم درست بھی ہے ملاحظہ ہو ،، پہلے معنی ، یعنی اس شخص کے لیے( اس لفظ کا استعمال ہونا ) جس کے پیچھے اولاد اور والد دونوں میں سے کوئی بھی نہ ہو ، اس کا استعمال اگرچہ اصولِ عربیت کے مطابق صحیح ہے لیکن اس کی کوئی نظیر کلامِ عرب میں ہم کو نہیں مل سکی ( میزان ص 526) حالانکہ یہ مفہوم تو خود قران مجید کی آیات سے بھی واضح ہوتاہے اگر بندہ میں سوچنے کی صلاحیت ہو ۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ ،، قل اللہ یفتیکم فی الکلالة  ان امرؤ ھلک لیس لہ ولد ولہ اخت فلھا نصف ماترک ( النساء 176) اس آیت میں یہ بات تو صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ ،، لیس لہ ولد ،، مگر والدین کے نہ ہونے کی بات بھی اس آیت میں ضمنا موجود ہے کہ بہن اور بھائی والدین کی موجود گی میں وارث نہیں ہو سکتے ہیں۔ یعنی یہاں والدین بھی نہیں ہیں ۔گویا جمہور کا مذہب تو اس مسئلہ میں سورج کی طرح روشن ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ ،، کلالہ ،، کا اطلاق کن کن معانی پرہوتا ہے ؟ جاراللہ زمخشری کی تحقیق سے خیال میں یہ بات آتی ہے کہ ،، کلالہ ،، کااستعمال تین معانی کےلیے ہوتا ہے (1) جس شخص کی نہ اولاد ہو اور نہ والد (2) وہ قرابت جوان دونوں کی طرف سے نہ ہو (3) وہ رشتہ دار جن کے ساتھ اس کا تعلق والد اور اولاد کا نہ ہو۔ اب ان کی عربی عبارت ملاحظہ فرمالیں ،،  فان قلت ماالکلالة؟ قلت ینطلق علی ثلاثة علی من لم یخلف ولدا ولاوالدا وعلی من لیس بولد ولاوالد من المخلفین وعلی القرابة من غیرجھة الولد والوالد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والکلالة فی الاصل مصدر بمعنی الکلال وھو ذھاب القوة من الاعیاء قال الاعشی ،،  فآلیت لاارثی لھا من کلالة ،، فاستعیرت للقرابة من غیرجھة الولد ولاوالد لانھابالاضافة الی قرابتھا کالّة ضعیفة ( الکشاف ج1 ص 516) جب اس بات کی بھی صراحت و وضاحت ہوگئی تو اب جناب غامدی کے اس اصل مطلوب پرنظر کرلو جو اس بحث کا مرکزی حصہ ہے وہ لکھتے ہیں کہ ،، غورفرمائیے ،، یوصیکم اللہ فی اولادکم ،، سے جو سلسلہ شروع ہوتا ہے اس میں اولاد اور والدین کاحصہ بیان کرنے کے بعد اللہ تعالی نے وصیت پر عمل درآمد کی تاکید ،، من بعد وصیة یوصی بھا اودین ،، کے الفاظ میں کی ہے۔ زوجین کے حصوں میں اسی مقصد کےلیے ،، من بعد وصیة یوصین بھا اودین ،، اور ،، من بعد وصیة توصون بھا اودین ،، کے الفا ظ آئے ہیں ، تدبّر کی نگاہ سے دیکھیے توان سب مقامات پر فعل مبنی للفاعل ( معروف)  استعمال ہواہے ۔ اور یوصی ، یوصین اور ، توصون ، میں ضمیر کامرجع ہرجملے میں بالصراحت مذکور ہے ۔لیکن قران کا ایک طالب علم اس حقیقت سے صرفِ نظرنہیں کرسکتا کہ ، کلالہ ، کے احکام میں یہی لفظ مبنی للمفعول ( مجھول ) ہے ۔یہ تبدیلی صاف بتارہی ہے کہ ،، ان کان رجل یورث کلالة اوامرءة ،، میں یوصی کا فاعل یعنی مورث مذکورنہیں ہے۔ اس وجہ سے اس آیت میں ، کلالة ، کو کسی طرح مرنے والے کے لیے اسمِ صفت قرار نہیں دیا جاسکتا ، یہ تغیر حجتِ قاطع ہے کہ قرانِ مجید نے یہ لفظ یہاں پہلے معنی ، یعنی اس شخص کےلیے جس کے پیچھے اولاد اور والد دونوں میں سے کوئی نہ ہو استعمال نہیں کیا ہے ( میزان ص 526) یہ ہے کل داستان۔ جو لوگ پڑھنے کے عادی نہیں ہوتے وہ ان جیسے الفاظ پر ہی سر دھنتے رہ جاتے ہیں  حالانکہ یہ کوئی استدلال ہی نہیں ہے  کیونکہ ایک متواتر قراءت ،، یوصی بھا ،، مبنی للمفعول ہے ، اور دوسری متواتر قراءت مبنی للفاعل ہے ۔  علامہ محمودآلوسی لکھتے ہیں کہ ،، یوصی بھا ،، قراءتان سبعیتان فی البناء للمفعول والبناء للفاعل ( غیر) علی القراءة الاولی حال من فاعل فعل مبنی للفاعل مضمر یدل علیہ المذکور وماحذف من المعطوف اعتمادا علیہ ونظیرہ قولہ تعالی ،، یسبح لہ فیھا بالغدو والآصال رجال ،،( النور 36) علی یسبح بالبناء للمفعول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وعلی القراءةالثانیة حال من فاعل الفعل المذکور والمحذوف اکتفاء ( روح المعانی ج2 ص 441)

  اور سیدجمال الدین قاسمی نے بھی لکھا ہے کہ ،، غیرمضار ،، حال من ضمیر ( یوصی ) علی قراءتہ مبنیا للفاعل ای غیرمدخل الضرر علی الورثة کان یوصی باکثر من الثلث ومن فاعل فعل مضمر یدل علیہ المذکور علی قراءتہ مبنا للمفعول ( تفسیرالقاسمی ج4 ص 243)  ان مفسرین نے تو دونوں قراءتوں کو برابر قرار دیا ہے اس لیے دونوں کے مطابق توجیہ کی ہے ۔مگر ابوالقاسم زمخشری کی روش سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں  نےاصل (یوصی بھا) مبنی للفاعل قراءت کو قراردیاہے ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اس کے بعد وہ  اپنے طریقہِ فنقلہ پر چلتے ہوئے سوال قائم کرتے ہیں کہ ،، فان قلت فاین ذوالحال فیمن قراء ( یوصی بھا ) علی مالم یسم فاعلہ ؟ قلت یضمر( یوصی ) فینتصب عن فاعلہ لانہ لما قیل ( یوصی بھا)  علم ان ثم موصیا کماقال ،، یسبح لہ فیھا بالغدو والآصال رجال ،،( النور 36) علی مایسم فاعلہ فعلم ان ثم مسبحا فاضمر یسبح فکما کان رجال فاعل مایدل علیہ یسبح ( الکشاف ج1ص 518)  خلاصہ اس عبارت کا یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ( یوصی بھا ) کومجہول پڑھتا ہے جیساکہ ہمارے ہاں عموما پڑھاجاتا ہے   توپھر وہ اس طرح ہے جیسے (  یسبح ) کو مجہول پڑھتاہے۔، اس مجہول سے بندے کواندازہ ہوجاتا ہے کہ یہاں کوئی موصی اور مسبح بہرحال موجود ہے تو پھر اس کےلیے یوصی اوریسبح کو ماننا پڑھتاہے  جیساکہ الکافیہ کے مشہور شعر میں ،، یہ توجیہ کی جاتی ہے ،، لیبکی یزید ضارع لخصومة ،، جناب غامدی نے یہ پوری بحث ایک قراءت پر کیوں محمول کی ہے  احباب اس کو خود پڑھ لیں ، وہ ہماراموضوع اس وقت نہیں ہے ۔ ہمارامقصود صرف قراءآ ت کے انکار سے ان کو فائدہ کے پہنچنے کے بیان کی حدتک محدودتھا ۔ ابوالقاسم زمخشری کی اس بات سے جناب غامدی کے اس دعوی کا بھی صفایا ہوگیا ہے کہ قراءتِ حفص ہی قراءتِ عامہ ہے ورنہ کیسے ممکن تھا کہ زمخشری اس قراءتِ عامہ کو مرجوح بنا کر رکھتے ؟(

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…