غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 18)

Published On January 27, 2024
جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...

امام النواصب جاوید غامدی

امام النواصب جاوید غامدی

احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...

مولانا واصل واسطی

ہم نے اوپرایک تواردو تفاسیر کے حوالے دیئے ہیں ، وجہ اس کی یہ ہے  کہ جناب غامدی اکثر انہیں تفاسیر کے حوالے دیتے ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جناب غامدی صرف قران کے ہمارے ہاں مروج قراءت ہی کو متواتر قراردیتے ہیں  باقی قراءتوں کو متواتر نہیں مانتے ہیں ۔ ہم اس کے حوالے سے ایک بات تو یہ عرض کرینگے کہ قران مجید کی ان قراءات کی روایات و اسناد کو ان تمام تفاسیر ، آحادیث اور قراءت کی کتابوں میں  ،، المفضلیات ،، الاصمعیات ،، الحماسہ ،، اورسبعہ ،، وغیرہ کے ساتھ موازنہ کرکے دیکھ لیں جن کو آپ اپنی اسی کتاب میں متواتر قراردے چکے ہیں  تب آپ کوپتہ چلے گا کہ وہ بھی آپ کے دعوی کے مطابق متواتر ہونی چاہیں یا پھر یہ بھی غیر متواتر ہونی چاہیں۔ دوسری بات اس حوالے سے یہ ہے کہ آپ نے اپنی اسی کتاب ،، میزان ،، میں ابوبکر سیوطی کی ،، الاتقان ،، کا بھی حوالہ دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ان کی رائے کو پسند کرتے ہیں اس لیے ہم ایک عبارت ان کی بھی پیش کرتے ہیں  گمانِ غالب یہ ہے کہ آپ ان کی اس بات کو بھی قبول کرلیں گے ۔ وہ پہلے جلال الدین بلقینی کی رائے قراءات متواترہ کے بارے میں پیش کرتے ہیں  پھر اس سے اختلاف کرکے شمس الدین جزری کی رائے پیش کرتے ہیں ۔ ملاحظہ ہو ،، اعلم ان القاضی جلال البلقینی قال القراءة تنقسم الی متواتر وآحاد وشاذ فالمتواتر القراءات السبعة المشھورہ والآحاد قراءات الثلاثة التی ھی تمام العشرة ویلحق بھا قراءةالصحابة والشاذ قراءةالتابعین کالاعمش ویحی بن وثاب وابن جبیر ونحوھم وھذالکلام فیہ نظر یعرف مماسنذکرہ واحسن من تکلم فی ھذاالنوع امام القراءة فی زمانہ شیخ شیوخنا ابوالخیربن الجزری قال فی اول کتابہ النشر ،، کل قراءة وافقت العربیة ولوبوجہ ووافق احد المصاحف الثمانیة ولواحتمالا وصح سندھا فھی القراءة الصحیحة التی لایجوزردھا ولایحل انکارھابل ھی من الاحرف السبعة التی نزل بھا القران ووجب علی الناس قبولھا سواء کانت عن الایمة السبعة ام عن العشرة ام عن غیرھم من الایمة المقبولین ، ومتی اختل رکن من ھذہ الارکان الثلاثة اطلق علیھا ضعیفة اوشاذة اوباطلة سواء کانت عن السبعة ام عمن ھواکبر منھم ھذاھوالصحیح عندآیمةالتحقیق من السلف والخلف صرح بذالک الدانی ومکی والمھدوی وابوشامة وھومذھب السلف الذی لایعرف عن احد منھم خلافہ ( الاتقان ج1 ص 75)  اس کا مطلب یہ ہوا کہ بلقینی قراءآتِ سبعہ کو متواتر قرار دیتے ہیں ، اورشمس الدین جزری اس کے لیے تین شرطیں رکھتے ہیں ۔ایک وہ قراءت عربیت کے مطابق ہو، دوسری اس کی سند درست ہو ، تیسری مصحفِ عثمانیہ کے مطابق ہو ۔ ان تین شرائط کے ساتھ وہ قراءت درست ہوگی جس کا انکاراورردکرنا حلال اورجائز نہیں ہوگا ۔ہاں اگر ان تین شرائط میں سے کسی میں خلل پڑے تو پھر وہ قراءت یا تو ضعیف ہوگی یاپھر شاذ اور یا باطل ہوگی ۔ خلف اورسلف کےاہلِ تحقیق کے نزدیک یہی بات معتبر ہے ۔اور یہ سلف کا وہ مذہب ہے کہ جس کے متعلق اختلاف کا ہمیں کوئی علم نہیں ہے ،، اس سے معلوم ہوا کہ جس چیز کو جناب غامدی دبے لفظوں میں ،، عجم کا فتنہ ،،  قرار دے رہے ہیں ، وہ ابوبکرِسیوطی کے مطابق سلف کاوہ مذہب ہے جس میں اختلاف کاکوئی علم انہیں نہیں ہے ۔ ممکن ہے جناب ان کی اس بات کو بھی قبول کرلیں ۔یہاں ایک اور بات دوستوں کو ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ جس سے جناب غامدی کا وہ ہوائی قلعہ جو انہوں نے بڑی محنت  بلکہ قرانی آیات میں ،، تحریف ،، کرکے بنایا ہے ، زمین  پر دھڑام سے آگر جائے گا ۔ وہ بات یہ ہے کہ جس ،، عرضہِ اخیرہ ،، کا جناب غامدی ڈھنڈورا پیٹتے رہے ہیں کہ اس عرضہ میں ایک ہی قراءت تھی  اس کے متعلق محققین اہلِ علم کا یہ کہنا ہے کہ مصحفِ عثمانی اس کے بالکل مطابق تھا  جیسا کہ حافظ الدنیا ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں ،، وقدروی احمد وابن ابی داؤد والطبری من طریقِ عبیدة بن عمروالسلمانی ،، ان الذی جمع علیہ عثمان الناس وھو یوافق العرضةالآخیرة ( فتح الباری ج 9 ص 53)  جب سیدنا عثمان کامصحف نبی علیہ السلام کے ،، عرضہِ اخیرہ ،، کے مطابق تھا ، اور دانی ، مکی ، مھدوی ، ابوشامہ ، شمس جزری اور سیوطی کا کہنا ہے کہ صحیح قراءات کے تین شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ،، احدالمصاحف العثمانیہ ،، کے مطابق ہو۔  تو اس کا حاصل ہرمعقول آدمی کے ذہن میں یہ ہوا کہ مصاحفِ عثمانیہ ایک ہی قراءت پر مبنی نہیں تھی  ورنہ دیگر قراءآتوں کے لیے اس کی مطابقت کو شرط کرنے کا کوئی معنی ہی نہیں ہے۔  اسی لیے تو حافظ الدنیا ابن حجر عسقلانی نے ،، عرضہِ اخیرہ ،، کے متعلق لکھا ہے کہ ،، واختلف فی العرضةالاخیرة ھل کانت بجمیع الاحرف الماذون فی قراءتھا او بحرف واحد منھا ؟ وعلی الثانی فھل ھو الحرف الذی جمع علیہ عثمان جمیع الناس او غیرہ ؟ ( فتح الباری ج9 ص 53 ) اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ ،، عرضہِ اخیرہ ،، کی قراءت میں اختلاف ہے کہ وہ ایک حرف کے مطابق تھی یا پھر سارے ماذون بقراءتھا حروف کے ساتھ مطابق تھی ؟ مگرجناب غامدی کو اس سے کیا تعلق ہے ؟  انھوں نے تو بدرزرکشی کی کتاب ،، البرھان ،، سے ابو عبدالرحمن سلمی کی ایک بے سند روایت نقل کرکے یہ کوشش کی ہے کہ سیدنا عثمان بھی اسی ایک  ،، حرف وقراءت ،، کے قائل تھے  جس کے دیگر صحابہِ کرام بھی قائل ہوگئے تھے ، اور باقی قراءتوں کومنسوخ سمجھ لیاتھا ۔ جناب غامدی ایک جگہ رقم طرازہیں کہ ،، نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہوئے تو آپ کی قراءت یہی تھی ، آپ کے بعد خلفاء راشدین اور تمام صحابہِ مہاجروانصار اسی کے مطابق قران کی تلاوت کرتے تھے ۔ اس معاملے میں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہ تھا۔ بعد میں یہی ،، قراءتِ عامہ ،، کہلائی ، ابوعبدالرحمن السلمی کی روایت ہے ،، کانت قراءة ابی بکر وعمر وعثمان وزید بن ثابت والمھاجرین والانصار واحدة کانوا یقرؤن القراءةالعامة وھی القراءة التی قراھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی جبریل مرتین فی العام الذی قبض وکان زید قد شھد العرضة الاخیرة وکان یقرئ الناس بھا حتی مات ( میزان ص 29) ابوعبدالرحمن نے اس بات کی سند پیش نہیں کی ہے کہ عرضہِ اخیرہ میں جو قراءت نبی علیہ السلام نے کی تھی وہ یہی قراءتِ عامہ تھی ؟ یہ روایت جو جناب غامدی نے بخاری سے ،، عرضہِ اخیرہ ،، کے متعلق پیش کی ہے ، یہ روایت بخاری میں تین جگہ آئی ہے ۔مگر کسی میں بھی ایک ہی قراءت کی بات موجود نہیں ہے ، ایک یہ ہے کہ عن ابن عباس قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اجود الناس بالخیر وکان اجود مایکون فی رمضان حین یلقاہ جبریل وکان یلقاہ فی کل لیلة من رمضان فیدارسہ القران ( بخاری ح 4)  اور بخاری کی حدیث نمبر 3220 میں بھی یہی الفاظ ہیں کہ وکان جبریل یلقاہ فی کل لیلة من رمضان فیدارسہ القران ،،  اورحدیث نمبر 3554 میں بھی یہی الفاظ ہیں ، مگر ان روایات میں ایک تو رمضان کے ہر رات میں ملنے اورملاقات کرنے کی بات ہے ،، دوسرا یہ ہے کہ ان میں الفاظ ،، فیدارسہ القران ،، کے ہیں جس سے جناب غامدی کا کوئی مطلب برآمد ہو نہیں سکتا تھا ، محض مذاکرہ اورتکرارِقران تو ان کا مطلوب نہ تھا ، اس لیے ان روایات کو انھوں نے ترک کردیا ہے ۔اب وہ باب فضائل القران چلے گئے ۔ہم وہاں وفات کی سال میں دوبار ،، معارضہِ قران ،،  کی آحادیث دیکھتے ہیں ، یہ علامات النبوة میں بھی آئی ہے ، اور مغازی میں بھی آئی ہے ، اور فضائل القران میں بھی وارد ہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں ،، عن عائشة عن فاطمة علیھا السلام اسرّالی النبی علیہ السلام ان جبریل کان یعارضنی بالقران کل سنة وانہ عارضنی العام مرتین ولااراہ الاحضر اجلی ( بخاری بشرح الفتح ج 9 ص 52) یہاں ،، معارضہ ،، کا لفظ وارد ہے ، جو ابو عبد الرحمن کی  ،،العرضة الاخیرة ،، کے لفظ سے قریب تر ہے ، جس سے جناب غامدی تلبیس وتدلیس کا کام لے سکتے تھے اور لیا بھی ہے ۔  حافظ الدنیا ابن حجر عسقلانی کچھ روایات نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں ،، ممکن ہے کہ ،،  العرضتان الاخیرتان ،، دو حروف ہی پر واقع ہواہو ،، ویمکن الجمع بین القولین بان تکون العرضتان الاخیرتان وقعتا بالحرفین المذکورین ( فتح الباری ج9 ص 54)  اس بات سے بھی یہ معلوم ہوا کہ صرف ،، ایک ہی  قراءت ،، عرضہِ اخیرہ میں نہ تھی  جیساکہ پہلے ہم اس بات کی وضاحت کر چکے ہیں ۔ پھر معارضہ یامدارسہ جو بھی ہوگا وہ کسی نہ کسی قراءت کے مطابق ہی تو ہوگا ۔ اس سے باقی قراءآت کامنسوخ ہونا کیسے ثابت ہوا ؟ جناب غامدی بھی یہاں غالبا اس صحرائی مولوی کا قصہ دہرانا چاہتے ہیں ، جس نے شاگردسے کہا تھا ،، تابا زبرتب ، باتازبر بت ، اذا جاء ،، شاگرد نے پوچھا حضور تو دونوں کا مجموعہ ملا کر ،، تبت ،، بنے گا ، اذا جاء کیسے بن گیا ؟ تو استاد نے جواب میں کہا یہ منطقی قاعدہ ہے تمھیں اس کا علم نہیں ہے کہ ،، تبت ،، سے ،،اذا جاء ،، کیسے بن گیا ؟ ہمارے دور کے نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے لیکر آج تک تمام شاگرد استاد کو دور سناتے وقت کسی نہ کسی قراءت کا سہارا لیتے ہیں  تو اس کامطلب کوئی غبی آدمی یہ نکال سکتاہے کہ باقی قراءتیں ان کے نزدیک منسوخ ہوگئی ہیں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی دو صحابہ کا نزاع قراءت میں ہوا ، نبی علیہ السلام نے دونوں کو فرمایا ،، کلاکمامحسن ،، بخاری میں ہی ہے کہ سیدنا عمرفاروق اور ہشام کاقراءت میں نزاع ہوا نبی علیہ السلام نے دونوں کی قراءت کوسن کر برقرار رکھا ۔جب کوئی بات صحابہِ کرام یاکسی بھی معاشرے میں اس طرح پھیل جاتی ہے  پھر اسے منسوخ کرنے کے لیے اعلانِ عام ضروری ہوتاہے ، صرف ،، عرضہِ اخیرہ ،، کو اس کی نسخ کا دلیل بنانا سادگی یاپھر علمی بےبسی کی انتہا ہے ۔ پھرابوعبدالرحمن السلمی کی روایت میں سیدنا علی کا تو نام نہیں ہے ، جناب غامدی نے اسے اپنی کتاب میں ،،  تمام صحابہ ،، کا مذہب کیسے قراردیا ہے ؟ اگر جواب میں کہیں کہ سیدناعلی بھی مہاجرین وانصار میں شامل ہیں ؟ تو ہم عرض کرینگے کہ سیدنا ابوبکر سیدنا عمر سیدنا عثمان سیدنا زید بن ثابت بھی تو ان میں شامل تھے ، ان کا نام کیوں الگ سے لیا ہے؟ پھر سیدنا عثمان کا اگر قراءت میں یہی مذہب تھا اور باقی قراءتوں کو وہ منسوخ سمجھ رہے تھے کماقال الغامدی ؟ پھر اپنے جمع کردہ مصحف کو کیوں اسی ایک قراءت پر محصور نہیں کیا ؟ وہ بات جو جناب غامدی سمجھاتے ہیںخود ان کے اپنے نقل کردہ اقوال سے بھی ثابت نہیں ہورہی ہے ۔ہم اگے تفصیل سے یہ بتائیں گے کہ اگر یہ ،، عرضہِ اخیرہ ،، جو بقولِ ان کے ایک قراءت ہے جس کے جواز کے جناب غامدی مدعی ہیں اگر قراءتِ عامہ ہے ، تو پھر مشہور مفسرین مثلاابوالقاسم زمخشری جو جناب غامدی اور ان کے ،، استاد امام ،، وغیرہ کے محبوب وممدوح بھی ہیں ، نے غیرعامہ قراءت کے مطابق کس طرح پہلے قران کی تفسیر کی اور پھر قراءتِ عامہ کو ،، وقرئ بکذا ،، قرار دیا ہے ۔ دس بارہ مقامات پر انھوں نے ایساکیا ہے ۔ جیساکہ ہم اگے ان کی وہ عبارتیں نقل کریں گے ۔کیا وہ قراءتِ عامہ سے بے خبر تھے؟ یاپھر ان کو اصلاحی صاحب کی طرح اس بات کا علم نہیں تھا کہ دیگر قراءآت کے مطابق قران مجیدکی تفسیر قران کی فصاحت و بلاغت کومجروح ومقدوح کرنا ہے ؟ یہ جوہم نے بات کی ہے کہ جناب غامدی باقی قراءتوں کو منسوخ جانتے ہیں  اس سے کسی کے ذہن میں سوال پیداہوسکتاہے کہ جناب غامدی تو قراءتوں کو فتنوں کی پیداوار سمجھتے ہیں ، وہ کب دیگر قراءتوں کے قائل تھے ؟ توہم عرض کریں گے کہ دو قراءتوں کے وہ بھی اپنی کتاب میزان کی رو سے قائل ہیں ۔ مگر ایک کوپھر وہ منسوخ قراردیتے ہیں ، ان کی عبارت ملاحظہ ھو ،، لیکن اس سے آپ کو جمع وترتیب کے بارےمیں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے ، اس کی جو قراءت اس کے زمانہِ نزول میں اس وقت کی جارہی ہے ، اس کے بعد اس کی ایک دوسری قراءت ہوگی ، اس موقع پر اللہ تعالی اپنی حکمت کےتحت اس میں سے کوئی چیز اگرختم کرنا چاہیں گے تواسے ختم کرنے کے بعد آپ کو اس طرح پڑھا دیں گے ، کہ اس میں کسی سہو ونسیان کا کوئی امکان باقی نہ رہے گا ، اوراپنی اخری صورت میں یہ بالکل محفوظ آپ کے حوالے کردیا جائے گا( میزان ص 28) یہ بات اگرچہ بالکل افسانہ ہے مگر انھوں نے لکھی ہے ، ہم بعد کے مباحث میں اس کی حقیقت واضح کریں گے ، ان شاءاللہ تعالی 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…