غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 16)

Published On January 27, 2024
پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)

حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...

مولانا واصل واسطی

جناب غامدی نے دو باتیں پیچھے کہی ہیں جس کاخلاصہ یہ ہے  ،، کہ ایک تو ،، قران کی تحدید وتخصیص قران کے علاوہ کسی چیز سے نہیں ہوسکتی۔ چاہے وہ قولِ پیغمبر علیہ السلام ہی کیوں نہ ہو ،، اور دوسری بات یہ کہی ہے کہ اس( قران ) کے الفاظ کی دلالت اپنے مفہوم پر بالکل قطعی ہے ، یہ جوکہنا چاھتاہے پوری قطعیت کے ساتھ کہتاہے ، اورکسی معاملے میں اپنا مدعی بیان کرنے سے قاصر نہیں رہتا ،، یہ دونوں باتیں قران کے میزان اور فرقان ہونے کا لازمی تقاضاہے ۔ ان کے بارے میں دورائیں نہیں ہوسکتیں ( میزان ص 25) جناب غامدی کی کتابوں میں احباب نے اکثر دیکھاہوگا کہ وہ جب اپنی رائے  پیش کرتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی یہ بھی بالعموم کہتے ہیں ،، اس میں اختلاف کی گنجائش نہیں ہے ،، اس میں دوسری رائے ممکن نہیں ہے ،، اس میں دورائیں ہوہی نہیں سکتیں ،، کوئی بندہ پوچھ لے بھائی کیوں دوسری رائے کیوں ممکن نہیں ہے ؟ یاکیوں دورائیوں کی گنجائش ادہر نہیں ہے ؟ اگر وہ جواب دیتے تو پھر یہی جواب ہوتا کہ میں نے استقراءِتام کیا ہے مشرق ومغرب کوٹٹولاہے  لہذا اس بات کے خلاف کوئی بات نہیں ہوسکتی ۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ اگر ہم یہ بات مان بھی لیں توخود حضرتِ غامدی چند دن بعد اس کے خلاف اور رائے پیش کرینگے۔ تب کیا کرینگے ؟ اور کیا ،، مطلب الشعر فی بطن الشاعر ،، ہی کہیں گے ؟ اچھا اس کے بعد جناب غامدی نے چند سوالات اپنی اس رائے پر مخالفین کی زبانی قائم کیے ہیں ، پھر ان کے بہت ناقص اور انتہائی فاسد جوابات دیئے ہیں ۔ ہم ایک ایک کرکے اس پرتفصیل سے لکھنے کی کوشش کرتے ہیں  ( 1) پہلا سوال جناب غامدی نے یہ قائم کیاہے کہ ،، قران میں بعض مقامات پر قراآت کے اختلافات ہیں ، یہ اختلافات لفظوں کے اداکرنے ہی میں نہیں  ہیں ، بعض جگہ ان کے معنی پربھی اثراندازہوتے ہیں ، اس صورت میں بظاہر اختلافات کے مواقع پر کوئی چیز فیصلہ کن نہیں رہتی ، سورتِ مائدہ کی آیت 6 میں ،، ارجلکم ،،  مثال کے طورپراگر نصب وجر دونوں کے ساتھ پڑھا جاسکتاہے ، توقران کی بنیادپر یہ بات پھر پوری قطعیت کے ساتھ کس طرح کہی جاسکتی ہے کہ وضو میں پاؤں لازما دھوئے جائیں گے ؟ ان پر مسح نہیں کیاجاسکتا ( میزان ص 26) جناب غامدی کا مطلب اس سوال کے قائم کرنے سے یہ ہے کہ قران کا مفہوم لازما ایک ہی ہونا چاہیے ، اس لیے اگر ہم ایسی دو قراءتوں کو مان لیں گے جن سے معنی پر بھی مختلف اثر پڑتا ہے تو پھر فیصلہ کن کوئی چیز نہیں رہتی کہ اس کے ذریعے ہم اس اختلاف کا فیصلہ کریں کہ پاؤں کو لازما دھونا چاھئے ۔حالانکہ یہ ایسا کوئی قوی اشکال یااعتراض نہیں ہے جس پر اتنی بڑی عمارت کو قائم کیا جائے ۔یعنی مختلف قراآت کے وجود کا انکار کیا جائے ۔وجہ اس بات کی یہ ہے کہ اہلِ تشیع بھی دونوں قراءتوں میں تطبیق کی کوشش کرتے ہیں ، اور اہلِ سنت بھی کوشش تطبیق کی کرتے ہیں ۔ایک مثال ملاحظہ ہو کہ اہلِ سنت کی اکثریت اس قراءتِ جری کو وضو علی الوضو یا پھر بعض دیگر لوگ اسے حالتِ تخفف پرمحمول کرتے ہیں ۔ اورامام ابن جریر طبری قراءتِ جری کو دلک اور نصبی کو غسل پرمحمول کرتے ہیں ( نوٹ ان کے مذہب کوبعض بڑے بڑے مفسرین نے غلط نقل کیاہے ،حافظ اسماعیل بن کثیر نے اس کی الحمدللہ تصحیح کی ہے ) وہ کہتے ہیں کہ پاؤں میں غسل کے ساتھ دلک یعنی ملنا بھی ضروری ہے کیونکہ پاؤں گرد وغبار کے بہت قریب ہوتے ہیں  اور بعض دیگر لوگ ،، ارجلکم ،، مجرور کوجرجوار پربھی محمول کرتے ہیں  گویا یہ چار توجیہات اہلِ سنت کی جانب سے ہوگئی ہیں ، اوراہلِ تشیع کی جانب سے بھی مختلف توجیہات منقول ہیں ۔ سب سے درست توجیہ یہ ہے کہ حالتِ نصب میں ،،ارجلکم ،، محلِ رؤس پر عطف ہے جومنصوب ہے ۔یہ اس لیے درست ہے کہ اس کے لیے نحوی ولغوی شواھد بہت ملتے ہیں ۔ یہ دونوں قراآت متواتر ہیں ، اوراہلِ سنت والجماعت کے ہاں دومتواتر قراتیں دومختلف آیات کے حکم میں ہوتی ہیں لہذا اگراحباب ہماری باتوں پرغور کررہے ہیں تو ہم نے جناب غامدی اور اس کے اہلِ مکتب کو دو جوابات فراہم کیے ہیں ۔پہلا جواب یہ ہے کہ آپ نے کہا ہے کہ اگر قرآات مختلف ہوں اورمعنی پربھی اثرانداز ہوتی ہوںتو پھر فیصلہ چیز کیا ہوگی کوئی چیز نہیں ہے ؟ ہم نے اس کا جواب اہلِ سنت اوراہلِ تشیع کے مختلف توجیہات کے زریعے فراہم کردیا ہے ، الحمدللہ ، دوسرا جواب یہ ہے کہ آپ کا یہ اشکال ہی سرے سے غلط ہے ۔ یہ اشکال تب درست ہوتا  اگر آیت ایک ہی ہوتی  لیکن اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک کما قال الالوسی فی الروح دوقراتیں دوآیات کی طرح مختلف حکم رکھتی ہیں ۔ اگر ایک قراءت سے یہ معنی متعین نہ ہو کہ لازما پاؤ ں کو دھونا چاہیے  تو اس سے کیاپریشانی لاحق ہوجائے گی ؟ کوئی نہیں ۔کیونکہ دوسری قراءت سے وہ مفہوم متعین ہورہا ہے ۔ جناب غامدی اگے پھر ،، قراءت کے اختلافات ،، کے زیرِ عنوان اس مسئلے پرایک پرتکلف بحث کرتے ہیں جس کا اس بحث میں درج شدہ آیات سے کوئی تعلق ہی نہیں بنتا مگر جناب نے علمی زور سے اسے متعلق بناکر پیش دیا ہے ، ملاحظہ ہو ،، پہلے سوال کاجواب یہ ہے کہ قران صرف وہی ہے جو مصحف میں ثبتہھے ، اورجسے مغرب کے چند علاقوں کو چھوڑکر پوری دنیا میں امتِ مسلمہ کی عظیم اکثریت اس وقت تلاوت کررہی ہے ۔یہ تلاوت جس قران کے مطابق کی جاتی ہے اس کے سوا کوئی دوسری قراءت نہ قران ہے اورنہ اسے قران کی حیثیت سے پیش کیاجاسکتاہےاس وجہ سے یہ سوال ہمارے نزدیک سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتا۔ ذیل میں ہم اپنے اس نقطہِ نظر کی تفصیل کیے دیتے ہیں ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ،، سنقرئک فلاتنسی الاماشاء اللہ انہ یعلم الجھر ومایخفی ( الاعلی 7،6) عنقریب ہم تمھیں پڑھادینگے ، تو تم نہیں بھولوگے مگر وہی جواللہ چاہے گا ، وہ بے شک جانتا ہے ، اس کو بھی جواس وقت ( تمھارے ) سامنے ہے ، اور اسے بھی جو( تم سے ) چھپاہوا ہے ،، (اور دوسری جگہ فرماتے ہیں ) لاتحرّک بہ لسانک لتعجل بہ ان علینا جمعہ وقرانہ ، فاذا قراناہ فاتبع قرانہ ثم ان علینا بیانہ ( القیامہ 16، 19) اس (قران )کو جلد پالینے کےلیے ( اے پیغمبر) اپنی زبان کو اس پرجلدی نہ چلاؤ ، اس کو جمع کرنااورسنانا، یہ سب ہماری ذمہ داری ہے اس لیے جب ہم اس کو پڑھ چکے تو ( ہماری ) اس قراءت کی پیروی کرو ، پھر ہمارے ہی ذمہ ہے کہ ( تمہارے لیے اگر کہیں ضرورت ہو تو ) اس کی وضاحت کردیں ،،

ان آیتوں میں قران کے نزول اور اس کی ترتیب وتدوین سے متعلق اللہ تعالی کی جواسکیم بیان ہوئی ہے  وہ یہ ہے کہ (1) اولا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوبتایا گیا کہ حالات کے لحاظ سے تھوڑا تھوڑا کرکے یہ قران جس طرح آپ کو دیاجا رہاہے ، اس کے دینے کا صحیح طریقہ یہی ہے لیکن اس سے آپ کو اس کی حفاظت اورجمع وترتیب کے بارے میں کوئی تردد نہیں ہوناچاہیئے ۔اس کی جو قراءت اس کے زمانہِ نزول میں اس وقت کی جارہی ہے اس کے بعد اس کی ایک دوسری قراءت ہوگی ، اس موقع پر اللہ تعالی اپنی حکمت کے تحت اس میں سے کوئی چیز اگر ختم کرناچاہیں گے  تواسے ختم کرنے کے بعد یہ آپ کو اس طرح پڑھادیں گے کہ اس میں کسی سہو ونسیان کا کوئی امکان باقی نہیں رہے گا ۔اوراپنی آخری صورت میں یہ بالکل محفوظ آپ کے حوالے کیاجائے گا ( میزان ص 28)  جاوید غامدی اگر بالفرض والتقدیر پیغمبر بھی ہوتے تب بھی انہیں اتنی جراءت ( جو دراصل جھالت ھے) کامظاہرہ نہیں کرنا چاہیے تھا ،، کہ مصحف میں ثبت قران کے علاوہ نہ کوئی قراءت قران ہے اور نہ اسے قران کی حیثیت سے پیش کرنا چاہیئے ،،  سوال یہ ہے کہ دورِصحابہ سے لیکر آج تک جتنی بھی بڑی تفاسیر دنیامیں لکھی ہوئی ملتی ہیں  سب میں دیگر قراآت بھی ازاول تاآخر موجود ہیں ۔ ان کے مطابق آیتوں کی تفسیر کی جاتی ہیں ۔ اب اگر یہ قران نہیں ہے ، تو پھر کیا ہے ؟ جناب غامدی ایک جگہ اگے لکھتے ہیں کہ ،، لہذا یہ بات بالکل قطعی ہے کہ قران کی ایک قراءت ہے جوہمارے مصاحف میں ثبت ہے ، اس کے علاوہ جوقراتیں تفسیروں میں لکھی ہوئی ہیں ، یامدرسوں میں پڑھی پڑھائی جاتی ہیں یا بعض علاقوں میں لوگوں نے اختیار کررکھی ہیں ، وہ سب انہی فتنوں کی باقیات ہیں جن کے اثرات سے ہمارے علوم کا کوئی گوشہ افسوس ہے کہ محفوظ نہیں رہ سکا ( میزان ص 32) ہم چند باتیں پیش کرتے ہیں (1) پہلی بات یہ ہے کہ جب جاوید غامدی کو اس بات کا اقرار ہے کہ یہ قراتیں قران مجید نہیں ہیں  تو پھر یہ بات بھی تسلیم کرلیں کہ موجودہ قران مجید محرف کتاب ہے محفوظ ہرگز نہیں ہے  کیونکہ اس میں مختلف قراتیں داخل کی گئی ہیں  جوآپ کے بقول معنی پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں ۔جب کوئی بندہ دس یا پندرہ مختلف قراتیں مختلف الفاظ کے ساتھ قران میں لکھی اور پڑھی جاتی ہوئی مانتا ہو ، اوریہ کہتا ہو کہ یہ نبی علیہ السلام سے قطعا ثابت نہیں ہیں ، بلکہ عجمی فتنوں کی پیداوار ہیں  توپھر بھی اگر اس کے نزدیک قران مجید محرف نہیں ہے بلکہ محفوظ ہے  تو اسے سب سے پہلے اپناعلاج کرانا چاہیے باقی باتیں کل ان شاءاللہ تعالی ہونگی 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…