حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 15)
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...
غلبہ دین : غلطی پر غلطی
حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)
حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)
حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...
مولانا واصل واسطی
جناب غامدی دوباتیں باربار دہراتے ہیں مگر ان کے لیے دلائل فراہم کرنا اپنی ذمہ داری نہیں مانتے ۔ایک بات جو ابھی ابھی گذری ہے کہ قران کے الفاظ کی دلالات اس کے مفہوم پر بالکل قطعی ہیں ، وہ جوکچھ کہنا چاھتاہے پوری قطعیت کے ساتھ کہتاہے اور کسی معاملے میں بھی اپنا مدعی بیان کرنے سے ہرگز قاصر نہیں رہتا ( میزان ص 25) اور دوسری بات وہ یہ کرتے ہیں کہ قران مجید اورسنت (یعنی مزعومِ غامدی ) سے باہر کوئی چیز نہ دین ہے اور نہ اسے دین قرار دیا جاسکتاہے ، اور وہ لکھتے ہیں ،، دین لاریب انہی دوصورتوں( قران اور سنتِ متواترہ) میں ہے ، ان کے علاوہ کوئی چیز نہ دین ہے نہ اسے دین قرار دیا جاسکتاہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لیے دین میں ،، آحادیث ،، سے کسی عقیدہ وعمل کا اضافہ بھی نہیں ہوتا ۔دین سے متعلق جو چیزیں ان میں آتی ہیں ، وہ درحقیقت ، قران وسنت میں محصوراسی دین کی تفھیم وتبیین اور اس پر عمل کے لیے بنی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہِ حسنہ کا بیان ہے ، حدیث کا دائرہ یہی ہے چنانچہ دین کی حیثیت سے اس دائرے سے باہر کی کوئی چیز نہ حدیث ہوسکتی ہے ،اور نہ محض حدیث کی بنیاد پر اسے قبول کیاجاسکتاہے ( میزان ص15) ایک دن میں جناب غامدی کے ایک کلپ کو سن رہا تھاانھوں نے اس میں کہا تھا کہ ،، جن چیزوں کو ہمارے ہاں آحادیث کہاجاتاہے ، وہ درحقیقت تاریخ ہےاور اس کو تاریخ کے نقطہِ نظر سے ہی پڑھنا چاہیے ،، یہ بات دراصل انکارِحدیث کا گہراپردہ ہے جس میں وہ اپنے گمراہ کن نظریات ذہن نوجوانوں سے چھپاتے ہیں ۔کچھ سادہ لوح لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ صرف ایک ،، اصطلاح ،، کامقرر کرنا ہے اورلامناقشة فی الاصطلاح مشھورقول فیمابین العلماء ہے ۔لیکن یہ قاری حضرات کی بہت بڑی غفلت ہے ۔ہم نے ،، ایک منکرِ حدیث کا مغالطہ ،، نامی مضمون میں اس مغالطہ کی قلعی کھول دی ہے ۔ہم ان شاءاللہ اگے اس بات کی بھی وضاحت کرینگے کہ ،، سنتِ ابراھیمی ،، کا یہ نظریہ جناب غامدی نے کس عالم سے لیا ہے اوراس میں پھر کیا خانہ ساز تغیرات کیے ہیں ۔وہاں یہ بات متعین ہوجائے گی کہ جناب غامدی کے ہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ،، قران لانے کے سوا ،، محض ایک مجدد قسم کے آدمی تھے ،اور قران لانا ان کا بقولِ منکرینِ حدیث ڈاکیہ کے مانند ہے اور کچھ نہیں ۔ باقی جناب غامدی کا اس جیسی باتیں لکھنا کہ ،، اس سلسلہ کے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، چنانچہ دین کاتنہا ماخذ اس زمین پراب محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذاتِ والاصفات ہے ، یہ صرف انہی کی ہستی ہے کہ جس سے قیامت تک بنی آدم کو ان کے پروردگار کی ہدایت میسر ہو سکتی ہے ، اور یہ صرف انہی کا مقام ہے کہ اپنے قول وفعل اورتقریر وتصویب سے وہ جس چیز کو دین قرار دیں وہی اب رہتی دنیا تک دینِ حق قرار پائے ،، ( میزان ص 13) غالب نے کیاخوب کہا تھا کہ
تیرے وعدے پہ جیے ہم تویہ جان جھوٹ جانا
کیا خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ھوتا
جناب غامدی کی اس درج شدہ بات کی وضاحت ہم کرآئے ہیں کہ وہ حدیثِ رسول کو فی الحقیقت کوئی معتبر درجہ نہیں دیتے ہاں آنکھوں خاک ڈالنے کے بہرحال خوب ماہر ہیں ،، وہ چاہیں تو مسجد میں قران کے سامنے لوگوں کے ہجوم میں بیٹھ کر قسم بھی اس بات پرکھا سکتے ہیں کہ میں حدیث اہلِ سنت ہی کی طرح مانتا ہوں ،، کما اقسم فی المسجد امام الناس بعد درسہ انہ لم یعط المکتوب للشیخ المودودی ،، ان کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےکوئی نئی تشریع و قانون سازی نہیں کی ہے ، حدیثِ رسول کے متعلق ان کی دونوں درجِ بالاعبارتوں کے بعد ان کے ،، یہ بات کہنے سے کہ قران کے علاوہ کسی وحی جلی وخفی سے اس کی تحدید وتخصیص نہیں ہوسکتی حتی کہ پیغمبر بھی اس میں کوئی ترمیم وتغیر نہیں کرسکتا ،، تو تعجب بالکل نہیں ہوتا ۔ لیکن مسلمانوں کے محققین ہمیشہ سے یہ کہتے آئے ہیں کہ سنت کی تین قسمیں ہیں (1) ایک سنت وہ ہے جس پر علماء کرام کا اتفاق ہے کہ وہ موضح اور مبینِ قران ہےکیونکہ اللہ تعالی نے فرمایاہے ، وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس مانزل الیھم ( النحل 44) (2) دوسری سنت وہ ہے جس میں علماء کا اختلاف ہے کچھ لوگ اس کو قران کے بعض احکام کےلیے ناسخ مانتے ہیں ، اورکچھ دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ نہیں وہ احکامِ قران کے ناسخ تونہیں ہے بلکہ اس کے خاص وعام کے مبین وشارح ہے اس کے مجمل ومبہم کی وضاحت کرتے ہیں کیونکہ قران کو سنت منسوخ نہیں کرسکتی (3) اورتیسری قسم کی وہ اجتماعی سنت ہے جو قران کے احکام پر زائد ہے ۔اور یہ سنت نبی علیہ السلام والصلاة کی طرف سے زائد ہے اس کی قران میں کوئی اصل موجود نہیں ہے مگر صرف ان کی اطاعت کا حکم اوران کی نافرنانی سے بچنے کی وصیت ،، اب امام مروزی کے اصل الفاظ ملاحظہ کریں ،، سنة اجتمعوا علی انھا تفسیر لماافترضہ اللہ مجملا فی کتابہ فلم یفسرہ وجعل تفسیرہ وبیانہ الی رسول اللہ قال اللہ عزوجل ،، وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس مانزل الیھم ( النحل 44) والوجہ الثانی سنة اختلفوا فیھا فقال بعضھم ھی ناسخة لبعض احکام القران وقال بعضھم لا بل ھی مبینة فی خاص القران وعامہ ولیست ناسخةلہ لان السنة لاتنسخ القران ولکنھا تبین عن خاصہ وعامہ وتفسر مجملہ ومبھمہ والوجہ الثالث سنة اجتمعوا علی انھا زیادة علی ماحکم اللہ بہ فی کتابہ وسنة ھی زیادة من النبی صلی اللہ علیہ وسلم لیس لھا اصل فی الکتاب الاجملة الامر بطاعةالنبی علیہ السلام والتسلیم لحکمہ والانتھاء عمانھی عنہ ( السنہ للمروزی ص 116)
اس عبارت میں ایک تو ،، اجتمعوا ،، کالفظ ہے جو اجماع پردال ہے ، دوسری اس عبارت میں قران کے لیے مجمل اور مبہم کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جو جناب غامدی کے مذہب پرکاری ضرب ہے ، تیسری اس عبارت میں زیادت علی کتاب اللہ کے الفاظ ،، اجتمعوا ،، کے ساتھ ملتے ہیں یعنی اس پر بھی اجماع ہے ۔یہ بھی یاد رہے کہ ابونصر مروزی المتوفی 294 ھ امام اسحاق بن راھویہ اور امام احمدبن حنبل وغیرہم کے شاگرد ہیں یعنی ہم نے جو نقل کیا ہے وہ سلفِ طیب کامذہب ہے ۔اس کے بعد ہم جناب غامدی سے پوچھتے ہیں کہ نماز میں قران مجید نے قراءت کے متعلق بیان فرمایاہے ، ، فاقرؤا ماتیسر من القران ( المزمل 20) مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ،، لاصلاة الا بفاتحة الکتاب ،، اسی لیے تمام مسلمان نماز میں سورتِ فاتحہ پڑھتے ہیں ۔ ہاں البتہ اس میں ان کا اختلاف ہے کہ یہ فاتحہ ہرنمازی پرفرض ہے یا صرف منفرد اورامام پرفرض ہے؟ آپ لوگ اگر سورتِ فاتحہ کو نماز کے لیے اسی طرح متعین کرتے ہیں تو یہ قران کی آیت پر زیادت ہے ، اور تحدید ہے کہ ،، ماتیسر ،، تو عام تھا ، تم لوگوں نے اس کو محدود کردیاہے ۔اوراگر آپ کہتے ہیں کہ یہ ،، تبیین ،، ہے تو ہم عرض کرینگے کہ ،، فاتحہ ،، تو فی الحقیقت ،، ماتیسر ،، نہیں ہے ۔سورتِ اخلاص اور سورتِ کوثر وغیرہ تواس سے بھی زیادہ آسان ہیں پھر آپ دیگر سورتوں کو بھی ساتھ ملاتےہیں ، کیا وہ بھی ،، ماتیسر ،، کی تبیین ہے ؟ بہرحال آپ کو بتانا چاھئے کہ سورتِ فاتحہ کو پڑھنا آپ کے مذہب میں کس اصول کے مطابق رائج ہے ؟ ہمارے عام فقہاء و محدثین یا تو قران مجید کی اس آیت کو اس حدیث سے مخصص مانتے ہیں ، یا پھر اس حدیث سے قران کی آیت پر زیادت کرتے ہیں مگر علی سبیل الوجوب ، لا علی سبیل الفرضیت کماھومذھب الحنفیة کیونکہ خبر واحد سے قران مجید پر زیادت علی سبیل الفرضیت ان کے نزدیک جائز نہیں ہے ، البتہ زیادت علی القران علی سبیل الوجوب کے وہ قائل ہیں ، جیسا کہ وہ تعدیل الارکان کو واجب مانتے ہیں فرض نہیں مانتے ہیں ، شارحِ ،، المنار ،، خاص کی پہلی تفریع میں لکھتے ہیں ،، لایجوز الحاق تعدیل الارکان وھو الطمانینة فی الرکوع والسجود والقومة بعد الرکوع والجلسة بین سجدتین بامرالرکوع ولاسجود وھوقولہ تعالی ،، ارکعوا واسجدوا ،، ( الحج 77) علی سبیل الفرض کما الحقہ ابویوسف والشافعی وبیانہ ان الشافعی رحمہ اللہ یقول تعدیل الارکان فی الرکوع والسجود فرض لحدیث اعرابی خفف فی الصلوة فقال لہ علیہ السلام ،، قم فصل فانک لم تصل ،، ھکذا قالہ ثلاثا ونحن نقول ان قولہ تعالی ،، ارکعوا واسجدوا ،، خاص وضع لمعنی معلوم لان الرکوع وھو الانحناء عن القیام والسجود ھو وضع الجبھة علی الارض والخاص لایحتمل البیان حتی یقال ،،ان الحدیث لحق بیانا للنص المطلق فلایکون الانسخا وھولایجوز بخبر الواحد فینبغی ان تراعی منزلة کل من الکتاب والسنة فماثبت بالکتاب یکون فرضا لانہ قطعی وماثبت بالسنة یکون واجبا لانہ ظنی ( نوراالانوارج 1 ص 116) یہی بات پھر اگے خاص کی ایک دوسری تفریع ،، شرطِ ترتیب موالاة والتسمیہ ،، میں بھی لکھتے ہیں کہ قران وسنت میں سے ہرایک کو اپنا مرتبہ دیاجانا چاہیے ، جو قران سے ثابت ہو اس کو ہم فرض قراردینگے ،اورجو سنت سے ثابت ہو اس کو واجب قرار دینگے ،، لیکن چونکہ وضو میں واجب نہیں ہوتے تو پھر اس کو نیچے سنت کے مرتبے میں لے جائیں گے ،، اب عرض یہ ہےکہ آپ لوگ تو علی سبیل الوجوب بھی حدیث سے قران میں تقیید وتخصیص کے قائل نہیں ہیں کیونکہ ( زاید برقران وسنت) آپ کے نزدیک سرے سے دین ہی نہیں ہے لہذا ہم آپ سے اس اشکال کو حل کرنے کا طریقہ پوچھتے ہیں ؟ ممکن ہے آپ لوگوں کو اس فاتحہ کی ،، مشقت ،، سے بھی آزادی مل گئی ہو ، مگر ہمیں اس کا علم نہ ہو ۔ بعینہ یہی سوال تعدیلِ ارکان کے متعلق بھی ہم آپ سے کرتے ہیںکیونکہ رکوع وسجود کا معنی تو آپ کے نزدیک بھی یہی ہے کما مر فی نقلِ عبارة الاصلاحی ، تو اب اشکال کا حل کرنا بھی آپ لوگوں کے ذمے ہے
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
پردہ اور غامدی صاحب
حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ...
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی...