نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 14)
جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی
عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...
حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ
ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...
امام النواصب جاوید غامدی
احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...
سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل
محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...
کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟
شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...
مولانا واصل واسطی
جناب غامدی جیساکہ گزرا تمام الفاظ ، جمل ، اورتراکیب و اسالیب کو قطعی الدلالة قراردیتے ہیں ۔انھوں فخرِرازی کی ایک عبارت نقل کی ہے جو ان کے ،، استاد امام ،، نے بھی نقل کی ہے کہ کلامِ لفظی مفیدِقطع ویقین نہیں ہے ۔فخرِرازی کی اس بات پر جناب غامدی نے شاہ محمد اسماعیل الشھید کی ایک عبارت کے ذریعے سے سخت تنقید کی ہے ۔مگر جاننے اور سوچنے والے احباب جب جناب غامدی کی وہ عبارت پڑھ لیں گے جو انھوں شاہ محمد اسماعیل کی عبارت کی تشریح میں لکھی ہے تو ان کو بہت لطف اورمزہ آئے گا۔شاہ جی نے وضعِ الفاظ للمعانی کو متواترات میں سے قرار دیا ہے مگر جناب غامدی نے اس عبارت کو دلالتِ الفاظ پر منطبق کیاہے ۔پہلے اس اختلاف کا نمونہ دیکھ لیں ، پھر آگے چلتے ہیں ۔جناب غامدی نے شاہ جی سے نقل کیا ہے کہ ،، لایخفی علی من لہ ادنی ممارسة باسالیبِ الکلام ان ھذاالقول ناش عن جھل متراکم اذوضع الالفاظ لمعانیھا من المتواترات فلامدخل لعصمة الناقلین فیہ ( عبقہ 5) اس کا ترجمہ بھی جناب غامدی کے قلم سے ملاحظہ ہو ،، اسالیبِ کلام میں جس شخص کو ادنی ممارست بھی حاصل ہے اس سے یہ بات چھپی ہوئی نہیں ہےکہ یہ نقطہِ نظر تہ برتہ جہالت پر مبنی ہے اس لیے کہ لفظ کا معنی کے لیے بننا من جملہ متواترات میں سےہے چنانچہ اس میں نقل کرنے والے کی غلطی سے منزہ ہونے کی بحث کا کوئی سوال نہیں ہے ،،( میزان ص 33) شاہ جی کی اس عبارت میں ہرکوئی دیکھ سکتا ہے کہ ،، لفظ کی دلالت ،، کا لفظ ہی موجود نہیں ہے ، اور پھر عصمت اورعدلِ قائلین کا سوال تو اخبارِ آحاد میں ملحوظ ہوتاہے ، روایاتِ متواترہ میں تو وہ شرط نہیں ہے ۔اس بات سے بھی یہ مفہوم واضح ہوجاتاہے کہ بحث دلالت میں موجود نہیں ہے بلکہ نقل میں ہے لیکن غامدی صاحب کو داد دیجئے کہ اس سے ،، دلالتِ الفاظ کے متواتر ،،ہونے کا مفہوم بھی برآمد کرلیاہے ۔ جناب غامدی لکھتے ہیں کہ ،، دنیا کی ہرزندہ زبان کے الفاظ واسالیب جن مفاہیم پر دلالت کرتے ہیں ، وہ سب متواترات پرمبنی اورہر لحاظ سے قطعی ہوتے ہیں ، لغت ونحو اوراسی طرح کے دوسرے علوم اسی تواتر کو بیان کرتے ہیں ( میزان ص 32) حالانکہ دنیا کے سارے معقول لوگ جانتے ہیں کہ دلالت کا تعلق استعمال سے ہوتاہے۔ جہاں کسی لفظ کا استعمال زیادہ ہورہاہو تو اس کا معنی بہت جلد ذہن میں آجاتاہے اور اس لفظ کی دلالت اس معنی پرقوی ہوتی ہے اورجن الفاظ کا استعمال کم ہوتا ہو ان الفاظ کی دلالت اپنے معانی پر کمزور ہوتی ہے۔ علمی دنیا کی بات تو چھوڑیئے ۔عام محاورات پر مضبوط گرفت رکھنے والے لوگ بھی اس بات اور فرق سے واقف ہوتے ہیں ۔مگرجناب غامدی ان دونوں کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں ۔اردو کی مشہورشاعرہ پروین شاکرکا ایک مشہورشعر ہے کہ
چہرہ ونام ایک ساتھ آج یاد نہ آسکے
وقت نے کس شبیہ کو خواب وخیال کردیا
اس کا مطلب ہوا کہ پہلے جب تعلق ان سے زیادہ تھا تو نام کے ساتھ فی الفور ان کے سامنے چہرہ آتا تھا ، اس وقت نام کی دلالت ذات پرقوی تھی مگر جب ان سے تعلق کمزور ہوگیا تو نام کی دلالت بھی اس ذات پر کمزور ہوگئی اس لیے چہرہ نام کے ساتھ فوراان کے ذہن میں نہیں آیا۔ کوئی جناب غامدی سے پوچھ لے کہ سرکار کیا ، السید ، ذالان ، اوس ، سرحان ، سلیق ، اطلس ، نھشل ، کساب ، عسعاس ، خیعل ، عملس ، طمل ، شیذمان ، خیتعور ، قلیب ، علوش ، رئبال ، عسول ، خاطف ، ازل ، ارسح وغیرہا جیسے الفاظ کا اطلاق بھیڑیئے پر ایک جیسے ہیں ؟ یاکچھ کی دلالت دیگر الفاظ کے بنسبت قوی ہے ؟ اگر پہلی بات ہے تودلائل فراہم کردیجئے ، اوراگر دوسری بات ہے تو آپ کا دعوی خود بخود میدان سے اڑگیاہے ، الحمد للہ ، پھر جناب غامدی نے شاہ جی کی عبارت کے لیے عبقہ نمبر 5 کا حوالہ دیاہے جبکہ یہ عبارت عبقہ نمبر 3 میں موجود ہے ، جناب غامدی نے اس عبارت کے فقط وہ الفاظ نقل کیے ہیں جو ہم نے ابھی احباب کے سامنے پیش کیے ہیں ۔باقی عبارت کو ترک کیاہے ۔اس کی وجہ بھی جاننے والے جانتے ہیں لشئ ماجدع قصیرانفہ ، کہ اس سے جناب غامدی کی تردید ہوتی تھی ، وہ کیسے ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ذرا اس عبارت کو ملاحظہ فرمالیں ، شاہ جی درجِ بالا عبارت کے متصل بعد فرماتے ہیں کہ ،، وکلامنا فی المحکم اذھو المفید للقطع فلامجال فیہ للتجوز والکنایة والنقل ومن المحکمات مالایحتمل التخصیص والنسخ کالاخبارِ المؤکدة بمایفید العموم قطعا کقولہ تعالی ،، فسجد الملئکة کلھم اجمعون الاابلیس ،، والاستثناء ایضا ممایؤکد شمول الحکم لما بقی من المستثنی منہ بعدہ ودلیل عدمِ التجوز ھو عدم اقامة القرینة لااقامة قرینة عدمہ ( عبقات ص 7 ) اس عبارت سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیان ہے کہ شاہ جی ،، المحکم ،، کی فقہی اصطلاح کی بات کرتے ہیں کیونکہ وہ مفیدِ قطع ہوتاہے ، ظاھر ، خفی ، مشترک ، مجمل اور مؤول کی نفی وہ نہیں کرتے ہیں جیساکہ جناب غامدی کا مذہب ہے ۔اوپر کی درج عبارت کا ترجمہ ملاحظہ کرلیں : شاہ جی کا کہناہے کہ ،، ہماری (یہ) گفتگو ،، محکم ،، کے بارے میں ہے کیونکہ وہی ایک لفظ ہے جو مفیدِ قطعیت ہے ۔ اس میں مجاز ، کنایہ اورنقل کی گنجائش نہیں ہے ، اور محکمات میں سے بعض وہ بھی ہیں جو احتمالِ تخصیص ونسخ نہیں رکھتے ہیں جیسے وہ اخبارِ مؤکدہ جو قطعی مفیدِ عموم ہوتے ہیں جیساکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ ،،سب ملائکہ نے بیک وقت سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہیں کیا ،، استثناء بھی مستثنی منہ سے باقی بچنے والوں کے لیے شمولِ حکم کو مؤ کدکرتا ہے ، اور مجاز کے نہ ہونے کی دلیل قرینہ کا قائم نہیں کرنا ہے ۔یہ نہیں کہ اس کے معدوم ہونے پر قرینہ قائم کرلے ،، اس عبارت کو جو بھی معقول آدمی سمجھ کر پڑتاہے وہ جان لیتاہے ، کہ شاہ جی اوروادی میں ہیں۔ وہ مشترک ، مؤول ، مجاز ، ظاھر ، خفی وغیرہ سب چیزیں عام اصول فقہ کے ماہرین کی طرح مانتے ہیں ۔جن کی دلالت اپنے مفاہیم پرقطعی نہیں ہوتی ، ان میں احتمالات وغیرہ ہوتے ہیں ۔اور جناب غامدی دوسری وادی میں ہیں کہ غفلت میں ان سب چیزوں کی نفی کرتے ہیں۔ شاہ جی اسی سلسلے میں آگے لکھتے ہیں ،، فاللفظ المجرد عن قرائن المجازمحفوف بمایفید عدم کونہ مجازا فالقطع بالمعنی الحقیقی لیس مبنیا علی دلیل عدم ارادة المعنی المجازی بل علی عدمِ دلیل ارادتہ ثم ان المفید للقطع قدیطلق علی ما یقطع احتمال الخلاف مطلقا وقدیطلق علی مایقطع احتمالہ الناشی عن دلیل وھو المراد ھھنا فلایخل بہ مجرد الاحتمال ( ایضا ص 7) پس وہ لفظِ مجرد جو مجاز کے قرائن سے خالی ہو ، تو وہ اس بات کو یقینا مفید ہے کہ یہاں مجاز نہیں ہے ، معنی حقیقی پر جزم کرنا اس بات پر مبنی نہیں ہے کہ وہاں معنی مجازی کا ارادہ معدوم ہو بلکہ اس کے ارادے کی دلیل کے نہ ہونے پر ہے ۔پھر جو مفہوم مفید للقطع ہوتا ہے اس کا اطلاق کبھی مطلق احتمال کے قاطع ہونے پر ہوتاہے ،اور کبھی اس احتمال کے قاطع ہونے پرہوتاہے جو ناشی عن دلیل ہو ۔ ادھر یہ دوسرا مفہوم مرادہے ، تومجردِاحتمال سے اس میں کوئی خلل واقعہ نہیں ہوتا ،، ان عبارات سے اس بات کی وضاحت ہوگئی ہے الحمد للہ کہ شاہ جی معانی کےلیے وضعِ الفاظ کو متواتر قرار دیتے ہیں اس لیے یہاں مثال ،، محکم ،، کی پیش کی ہے جس میں دیگر اصطلاحات کے احتمالات نہیں ہوتے ۔ آخر میں شاہ جی کے چند جملے بغیر لفظی ترجمہ کے پڑھ لیں جو جناب غامدی کے اس استدلال کی جڑکاٹنے والے ہیں ، وہ لکھتے ہیں کہ ،، فلاشک قدیلحقہ من الخارج مایسد احتمال التخصیص والنسخ والتجوز ویفید تعیین المراد فھوالمفید للقطع الاتری انک اذا اعطیت رجلا شیئا فمدحک اوضربتہ فشتمک اوسالت عنہ فاجابک اواخبرتہ فصدقک اواستشرتہ فامرک اونھاک افلاتتیقن انہ اراد بکلامہ المدح اوالشتم اوالجواب اوالتصدیق اوالامراوالنھی ومن جوزخلاف ذالک فقد سفہ نفسہ وادخلھا فی زمرة السوفسطائیة ( عبقات ص 7) اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بعض اوقات خارج سے الفاظ کے ساتھ ایسے قرائن مل جاتے ہیں ، جو تخصیص ، نسخ اورمجاز کے احتمالات کو کاٹ دیتے ہیں اور لفظ کے مراد کی تعیین میں مددگارہوتے ہیں۔اور یہی مفید للقطع ہوتے ہیں جیسے آپ کوئی احسان یابرائی کسی کے ساتھ کریں اور وہ آپ کی تعریف یامذمت کرے توآپ کو یقین ہوجاتاہے کہ وہ میری تعریف یامذمت کرتاہے۔اس کے خلاف بات کوجائز رکھنے والے نے اپنے آپ کو سوفسطائیت میں داخل کیاہے ،، اگر شاہ جی الفاظ کی دلالت معانی پر جناب غامدی کی طرح قطعی قراردیتے ہوتے ، تب تخصیص ، مجاز ، اور نسخ کے احتمالات کو کاٹنے میں خارجی قرائن کی بات کرنے کی کیاضرورت تھی ؟ کیونکہ وہاں تو لفظ کی دلالت فی نفسہ معنی پرقطعی ہے کما قالہ الغامدی
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی
نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش،...
حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ
ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص...
اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی
محمد خزیمہ الظاہری غامدی حلقہ انکار حدیث کی صاف تہمت سے اس لئے بچ نکلتا...