غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 12)

Published On January 22, 2024
پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)

حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...

مولانا واصل واسطی

جناب غامدی نے یہ بات تولکھی ہے کہ ،، تخصیص وتحدیدِ قران کسی قسم کی وحی سے نہیں ہوسکتی ، اورنہ پیغمبر ہی اس میں کوئی ترمیم وتغیرکرسکتاہے (میزان ص 24) مگر تخصیص اورنسخ میں کوئی فرق وہ بیان نہیں کرتے ہیں حالانکہ اہلِ علم دونوں کے درمیان بہت سے فروق بیان کرتے ہیں ، مثلا (1) ایک فرق یہ بیان کرتے ہیں کہ ،، ان التخصیص بیان ماخرج بالتخصیص وھو المخصوص غیرمراد باللفظ اصلا والنسخ اخراج ماارید باللفظ الدلالة علیہ ،، اسی بات کی بعض لوگ یہ تعبیر کرتے ہیں کہ ،، التخصیص دفع والنسخ رفع ،، اور ہر متوسط عقل رکھنے والے آدمی بلکہ لڑکے بھی دومن بوری کو اٹھانے اور اس کو دھکا دینے میں فرق محسوس کرسکتے ہیں کیونکہ دفع اور رفع میں فرق بداہتا انسان کو معلوم ہو جاتاہے ،گو کہ یہ پیش کردہ مثال محسوسات کی ہے ( 2) دوسرا یہ فرق کرتے ہیں کہ النسخ یشترط فیہ التراخی بین الناسخ والمنسوخ اما التخصیص فیجوز فیہ اقتران المخصص بالعام وذالک کالتخصیص بالاستثنا والشرط ،، اب اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تووہ فرق جو جناب غامدی نے ظنی اور قطعی کے درمیان نسخ اور تخصیص کے نہ ہونے کے لیے بیان کیاتھا ، وہ ھباء منثورا ہوجاتاہے کیونکہ دفع تو رفع سے بہت ہی سہل ہے اگرچہ وہ قطعی ہی کیوں نہ ہو ؟ ہم نے پہلے جناب غامدی کی اس دلیل کے بخیے بحوالہِ ،، ارشاد الفحول ،، للشوکانی اور ،، نزھة الخاطرالعاطر ،، للبدران کے ذریعےادھیڑ دیئے ہیں ۔مگر آج ہمارے ذہن میں آیا ہے کہ ممکن ہے جناب غامدی بھی بعض دیگر اصول فقہ سے ناآشنا لوگوں کے طرح تخصیص اور نسخ میں تناقض محسوس کرتے ہوں ۔اس لیے ہم ایک دوباتیں اس حوالے سے بھی لکھ دیتے ہیں۔ (1) پہلی بات یہ ہے کہ تخصیص دلیلِ سمعی سے محققین کے نزدیک جائز ہے سمرقندی لکھتے ہیں کہ ،، اما التخصیص بالدلیل السمعی فان کانا مثلین یجوز کتخصیص الکتاب بالکتاب وتخصیص خبرالمتواتر بالمتواتر وتخصیص الکتاب بالخبر المتواتر والمتواتر بالکتاب ( میزان العقول ج1ص 488) بالکل اسی طرح کی بات جناب ارموی نے بھی لکھی ہے کہ ،، ویجوز تخصیص الکتاب بخبر الواحدعند الشافعی وابی حنیفة ومالک وقیل لایجوز ( التحصیل ج1ص 390) ان عبارات سے ہمارا موقف واضح اورثابت ہوگیا ہے کہ جمھور فقھاءِامت تخصیص الکتاب بخبرالواحد کو جائز قرار دیتے ہیں۔ بعض غیر اصولی قسم کے لوگ جو قران کو قطعی اور حدیث کو ظنی قرار دیتے ہیں ، توان کا ایک جواب یہ ہے کہ یہ فقط الفاظِ قران کا مسئلہ ہے ، دلالت کے اعتبار سے قران کی آیات بھی مظنون ہیں اور حدیث اس کے برابر ہیں یا پھر بالعکس ہیں ۔شہاب مرجانی قران کی آیات کے متعلق لکھتے ہیں کہ ،، منھا مایثبت بہ مجرد الاعتقاد کالایات الواردة فی الاسماء والصفات واحوال القیامہ ، ومنھا مایثبت بہ مجردالعمل کالایات المؤولة والعمومات المخصوصة ، ومنھا مایثبت بہ الاعتقاد والعمل کالایات کالطعیةالدلالة ( ناظورةالحق ص 97) ، اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص ہماری اس بات کی تردید کرنا چاہتاہے تو اس سے یہ احباب کو یہ پوچھنا چاہیے کہ آپ میں اور آپ کے ،، استاد امام ،، اوران کے ،، استاد امام ،، میں معنی کے اعتبار سے قران کی کتنے مقامات میں اختلاف ہے ؟اگر وہ کہیں کہ نہیں ہے تو یہ بات خلاف واقعہ ہے اور اگر وہ اس کو تسلیم کرلیں تو پھر وہ مقامات قطعی کیسے رہے؟ تو جو جواب آپ اس اعتراض کے متعلق دینگے وہی جواب ہم آپ کو آحادیث کے حوالے سے دینگے ان شاءاللہ ، فماھو جوابکم عن ھذا فھو جوابنا عن ذالک ، اب ذرا تخصیص اور استثنا کی تعریف ،، عرف الفقھاء ،، میں ملاحظہ کرلیں ، سمرقندی لکھتے ہیں کہ ،، فالتخصیص والاستثناء بیان قدر المخصوص والمستثنی غیرمراد من اللفظ العام والمستثنی منہ لا ان یکون داخلا تحت اللفظ ثم خرج بالتخصیص والاستثناء لکن مع صلاحیة اللفظ ، للتناول بحیث لولا التخصیص والاستثناء لکان داخلا تحت اللفظ ( ایضا ج1ص 358) یعنی تخصیص اوراستثناء قدرِمخصوص اور مستثنی کا بیان ہے مگر وہ ( پہلے میں)لفظِ عام اور ( دوسرے میں ) مستثنی منہ سے مراد نہیں ہوتے ۔یہ مراد نہیں ہے کہ یہ دونوں پہلے تحت اللفظ داخل تھے پھر اس سے نکل گئے ہیں ۔اگرچہ ان الفاظ میں اس شمولیت کی صلاحیت موجود ہے ، ہاں اگر تخصیص واستثناء نہ ہوتے تو پھر یہ ان الفاظ کے تحت داخل ہو ہی جاتے ۔ ہم نے پہلے کہا تھا کہ بعض لوگ نسخ کی تعبیر اس طرح کرتے ہیں کہ یہ فی الحقیقت اللہ تعالی کی مراد کابیان ہے کہ یہ حکم بعض اوقات میں ثابت ہوگا ۔یہ مراد نہیں ہے کہ کل اوقات میں یہ حکم ثابت تھا ۔ پھر اس سے بعض اوقات کوخارج کردیا گیا کیونکہ یہ مفہوم مؤدی الی التناقض ہے ،، توجو تخصیص کو بھی نسخ کے مانند تصور کرتے ہیں ، جیسے جناب غامدی وغیرہ تو ممکن ہے وہ تخصیص میں بھی یہی تناقض محسوس کرتے ہوں ، اس لیے ہم اس بات کی ذرا تفصیل کرتے ہیں ، فی الحقیقت اس طرح کا اعتراض بعض لوگ اول اول استثناء پر کرتے تھےکہ استثناء کا تعقل وتصور مشکل ہے کیونکہ جب جاء نی القوم الازیدا کہتے ہیں ، تو اس ،، قوم ،، میں زید کالفظ یا تو داخل ہوگا یاپھر داخل نہیں ہوگا ، اگر زید ،، قوم ،، میں شامل نہیں ہے ، توپھر اس کااستثناء اس سے درست نہیں ہے کیونکہ غیرداخل شے کا اخراج متصور نہیں ہے ۔ اور اگر زید ،، قوم ،، میں داخل ہے ، تو پھر بھی اس کا اخراج درست نہیں ہے کیونکہ یہاں تناقض پیدا ہورہاہےکہ ایک ہی کلام میں پہلے اس کے مجیئت کو ثابت کیاگیاہے اورپھراس سے اس کو نفی کیاگیا ہے وھذا ھوالتناقض ؟ تواس اشکال کے جواب میں اہلِ علم نے بہت کچھ کہاہے ۔ ہم ایک دوقول نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، نجم الایمہ شیخ رضی الدین شرح کافیہ میں اس اشکال کا چوتھا صحیح جواب یہ دیتے ہیں ،، فزبدة الکلام ان دخول المستثنی فی جنس المستثنی منہ ثم اخراجہ ب ،، الا ،، واخواتھا ، انما کان قبل اسناد الفعل اوشبھہ الیہ فلا یلزم التناقض فی نحو ،، جاءنی القوم الا زیدا ،، لانہ بمنزلة قولک ،،المخرج منھم زید جاؤنی ،، ولا فی نحو ،، لہ علی عشرة الا درھما ،، لانہ بمنزلة قولک ،، العشرة المخرج منھا واحد لہ علی ،، وذالک لان المنسوب الیہ الفعل وان تاخر عنہ لفظا لکنہ لابد لہ من التقدم وجودا علی النسبة التی یدل علیھا الفعل اذالمنسوب الیہ والمنسوب سابقان علی النسبة بینھما ضرورة ( شرح الرضی ج 2ص 114) خلاصہ اس عبارت کا یہ ہے کہ اجزاء جملہ کا مفہوم پہلے متعین اور مقرر ہوجاتاہے ، فعل کی نسبت بعد میں اس کی طرف ہوجاتی ہے لہذا تناقض کا یہاں کوئی تصور ہی موجود نہیں ہے ۔ تقریبا یہی جواب اس اشکال کا حافظ ابن القیم نے بھی دیا ہے ، اس کو بھی ملاحظہ فرمالیں لکھتے ہیں کہ ،، والجواب عن ھذاالاشکال انہ لایحکم بالنسب الا بعدذکر کمال ذکر المفردات فالاسناد انما وقع بعد الاخراج فالقائل اذاقال ،، قام القوم الا زیدا ،، فھاھنا خمسة امور احدھا القیام بمفردہ الثانی القوم بمفردہ الثالث زید بمفردہ الرابع النسبة بین المفردین الخامس الاداة الدالّة علی النسبة عن زید فزید دخل فی القوم علی تقدیر عدم الاسناد وخرج منھم علی تقدیر الاسناد ثم اسند بعد اخراجہ فدخولہ وخروجہ باعتبارین غیرمتنافیین فانہ دخل باعتبار الافراد وخرج باعتبار النسبة فھو من القوم غیرمحکوم علیھم ولیس من القوم المقیّدین بالحکم علیھم ( بدائع الفوائد ص 706) آج کے کلام کا حاصل یہ ہواہے کہ اگرچہ محققین کے نزدیک تخصیص اور نسخ کے مفہوم میں فرق ہے کہ تخصیص دفع ہے اور نسخ رفع ہے یعنی تخصیص کو عام لفظ شامل نہیں کرتے اگر چہ نسخ کو وہ لفظ شامل ہوتا ہے ۔ لیکن ممکن ہے کہ جو لوگ تخصیص کو نسخ کے مفہوم میں لیتے ہیں وہ اس میں تناقض محسوس کرتے ہوں ، تو پھر ہم نے اس بات کی وضاحت کے لیے نجم الایمہ اور حافظ ابن القیم کی عبارتیں احبابِ کرام کے حضور میں پیش کردی ہیں ۔گویا اب تک جناب غامدی کی اس قاعدہ کے چار جوابات دوستوں کے سامنے آئے ہیں ، امید ہے انھیں اطمینان ہوگیا ہوگا

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…