حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 10)
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...
غلبہ دین : غلطی پر غلطی
حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)
حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)
حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...
مولانا واصل واسطی
جناب غامدی کےاس کلیہ پرہم نےمختصر بحث گذشتہ مضمون میں کی تھی ۔مگر احبابِ کرام اس کو تازہ کرنے کے لیے ذرا جناب غامدی کی عبارت کا وہ ٹکڑا ایک بار پھر دیکھ لیں وہ لکھتے ہیں ۔”پہلی ( بات) یہ کہ قران کے باہر کوئی وحی خفی یا جلی ، یہاں تک کے خداکا وہ پیغمبر جس پر یہ( قران) نازل ہوہے ، اس کےکسی حکم کی تحدید وتخصیص یاا س میں کوئی ترمیم وتغیرنہیں کرسکتا ( میزان ص 25) ” ۔ہم آج اس حوالے سے صرف ایک ہی آیت احبابِ کرام کوپیش کرتے ہیں ۔قران مجید کی بہت ساری آیات میں ہے کہ عورت کا نکاح اولیاء عورت ہی کریں گے ۔ مثلا ،، وانکحواالایامی ،، اور فرمایا ،، ولاتنکحواالمشرکین حتی یؤمنوا ،، اور ،، ولاتعضلوھن ان ینکحن ازواجھم ،، وغیرہ ۔لیکن ایک جگہ قران مجید میں ،، حتی تنکح زوجا غیرہ ،، بھی وارد ہے۔ جس کو عام علماء کرام حدیثِ امرءہِ رفاعہ اور بخاری کی دو دیگر آحادیث سے مخصوص مانتے ہیں کیونکہ اہل سنت حدیثِ رسول سے قران کی تخیصص جائز مانتے ہیں ۔ مگر کچھ لوگوں کا مسلک ذرامختلف ہے ، تو اس گروہ کے علماء ومحققین کبھی اس حدیث کو مشہور قرار دیتے ہیں ۔اور کبھی ،، تنکح ،، کو مباشرت کے معنی میں لیتے ہیں ۔ بعض دیگر لوگ اسی دوسری توجیہ کو درست مانتے ہیں ۔ اور ،، زوجا ،، کواس کے لیے قرینہ قرار دیتے ہیں ۔مگر ان توجیہات کو جناب غامدی درست نہیں مانتے ۔وہ ان کی تردید میں لکھتے ہیں کہ “پہلی اور دوسری دلیل کا نہایت واضح جواب خود قران نے دید یاہے ، آیت زیرِبحث کے صرف ایک آیت بعد اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ،، واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فلاتعضلوھن ان ینکحن ازواجھن ( البقرہ 232) اورجب اپنی عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت کوپہنچ جائیں ، تو اس میں مانع نہ ہو کہ وہ اپنے ہونے والے شوہروں سے نکاح کرلیں ۔” اس میں دیکھ لیجئے نکاح کی نسبت بھی عورتوں کی طرف ہے ، اور اس کے بعد ،، ازواجھن ،، بھی بالکل ،، زوجا غیرہ ،، کے طریقے پرآیا ہے ، لیکن صاف واضح ہے کہ ،، ان ینکحن ،، کے معنی یہاں عہدِ نکاح ہی کے ہیں ، اسے مباشرت کے معنی میں کسی طرح نہیں لیاجاسکتا (میزان ص 449) ہم ادھرتین باتیں عرض کرتے ہیں پہلی بات تویہ کہ حافظ ابن القیم نےدرجِ بالا آیت میں ،، تنکح ،، کوبمعنی مباشرت لینے کا مذاق اڑایا ہے کہ اگر ،، تنکح ،، صیغہِ واحدمونث غائب ، بمعنی وطی اورمباشرت ہو جائے توپھر بہت بدمزگی پیداہوگی ۔عورت کس طرح مرد کو وطی کر سکے گی ؟ ،، المنار ،، کے بعض ہندوستانی شارحین نے اس اعتراض کے جواب میں لکھاہے کہ عورت مرد کو چونکہ اپنے آپ پر تمکین دیتی ہےاس لیے اس کی طرف ،، تنکح ،، کی نسبت درست ہے ۔ اس توجیہ پرہمارے زمانے کے بعض سادہ لوح مولوی خوش ہیں ۔حالانکہ لغت کا قیاس سے اثبات نہیں ہوسکتا ، وہ سماعی چیز ہوتی ہے ۔اب ،، قارورہ ،، جس میں پانی قرار پائے ،، خیل ،، ہر اس چاپائے کو نہیں کہا جاسکتا جو خیال خیال کے ساتھ چلے ۔مثلا زانیہ کی نسبت عورت کی طرف ہوتی ہے ۔مگر واطئہ اور ناکحہ کی بمعنی مباشرت وغیرہ نسبت نہیں ہوتی ۔ابن القیم رحمہ اللہ کی یہی بات جناب غامدی نے اس انداز سے اپنی کتاب میں لکھی ہے کہ کسی کویہ شبہ نہ پڑے کہ ابن القیم رحمہ اللہ سے لی ہے ، ملاحظہ ہو ،، پھر یہ بات بھی نہایت عجیب ہے کہ نکاح کی نسبت عورتوں کی طرف نہیں ہو سکتی ۔اس پر یہ پوچھنے کی جسارت کی جاسکتی ہے کہ نکاح کی نسبت اگر ان کی طرف نہیں ہوسکتی تو فعلِ مباشرت کی نسبت کیا ہوسکتی ہے؟ اس طریقے سے دیکھاجائے تو یہ بھی عورت نہیں بلکہ مرد ہی کرتاہے ( میزان ص 449) ہم نے تو اس بات کی پوری وضاحت کی ہے کہ ،، تنکح ،، کے لفظ کی نسبت بمعنی مباشرت نہیں ہوسکتی ، وہ اسی مفہوم میں ،، منکوحہ ،، ہوتی ہے ۔اب دوسری بات ذرا سن لیجئے ، جناب غامدی نے ،، ان ینکحن ازواجھن ،، والی آیت کے مفہوم میں قران کو ،، فرقان ومیزان ،، قراردینے کے باوجود اپنے ،، استاد امام ،، کے اتباع میں ڈنڈی ماری ہے کہ ازواج سے نئے ہونے والے شوہر مراد لیے ہیں۔حالانکہ آیت میں ایک لفظ ،، ازواجھن ،، موجود ہے ۔اگر نئے شوہر ہی مراد ہوتے تو پھر لفظ ،، ازواجا ،، ہونا چاھئے تھا۔ اس کو لانے میں کیامانع تھا؟ دوسرا اسی آیت میں ،، تراضوا بینھم ،، کے الفاظ موجود ہیں جو باہمی تعلقات پر دال ہیں۔ بہرحال جو بھی ہو آیت سے یہی معلوم ہوا کہ کہ یہ ،، حکم ،، مطلقات اورشوہر دیدہ عورتوں کےلیے ہے جیساکہ حدیث شریف میں وارد ہے ،، الایم احق بنفسھا ،، اس آیت کا جوان اور غیر شادی شدہ لڑکیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔یہ ہھرحال اتفاقی بات ہوگئی ہے کہ جناب غامدی نے اس کو نئے شادی کرنے والیوں سے متعلق قراردیا ہے جبکہ بخاری میں معقل بن یسار کی بہن کا واقعہ تفصیل سے تفسیر کے لیے موجود ہے مگر ان کو اس سے کیا ہے ؟ پتہ نہیں امرءہِ رفاعہ والی حدیث پرکیوں بحث کی ہے جبکہ وہ اپنے مذہب کے مطابق یہ بھی کہ سکتے تھے کہ یہ قران پر زائد ہے یا اس کی تخصیص کرتا ہے لہذا مردود ہے ۔مگر انہوں نے غالبا لوگوں کی آنکھوں میں خاک ڈالنے کے لئے اس بحث کو گواراکرلیاہے۔ دیگر مفسرین میں سے اکثر اس آیت میں خطاب اولیاء عورت سے مانتے ہیں ۔کچھ ازواج سے بھی مانتے ہیں مگر یہ بات عقلا درست نہیں لگتی ۔کیونکہ ازواج یا قبلِ انقضاء عدت اس حکم کے مخاطب ہونگے ، یا پھر انقضاء عدت کے بعد ؟ اگر پہلی صورت ہے تو درست نہیں اس لیے کہ وہ تو اس کی منکوحہ ہے اورنکاح اب تک قائم ہے ۔لہذا دوسرے نکاح کاسوال ہی پیدانہیں ہوتا ۔اور اگربعد انقضاء عدت وہ ازواج مخاطب ہیں تو وہ لوگ اجنبی ہیں عورت سے ۔قطعِ نکاح کے بعد ان اس سےکیا تعلق ہے ؟ یہی بات سلفِ طیب سے مروی ہے کہ خطاب اولیاء سے ہے ۔اسماعیل بن کثیر لکھتے ہیں ،، قال علی ابن ابی طلحہ عن ابن عباس نزلت الایة فی الرجل یطلق امرءتہ طلقة اوطلقتین فتنقضی عدتھا ثم یبدولہ ان یتزوجھا وان یراجعھا وترید المرءة ذالک فیمنعھا اولیاءھامن ذالک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وکذاقال مسروق وابراھیم النخعی والزھری والضحاک انھاانزلت فی ذالک وھذالذی قالوہ ظاھرمن الایة (تفسیرالقران ج1ص 504) اور اسی طرح امامِ رازی الفاظِ آیت ،، ان ینکحن ازواجھن ،، کی تحقیق میں لکھتے ہیں ،، معناہ ولاتمنعوھن من ان ینکحن الذین کانوا ازواجا لھم قبل ذالک ، وھذاالکلام لاینتظم الااذاجعلنا خطابا للاولیاء لانھم کانوا یمنعونھن من العود الی الذین کانوا ازواجالھن قبل ذالک ( الکبیر ج2 ص 455) اب رہ گئی جناب غامدی کی وہ بات جو انھوں نے حدیثِ امرءہِ رفاعہ کے حوالے سے کی ہے تو ہمارے نزدیک وہ تاویل بے علمی یا پھر تدلیس پر مبنی ہے ۔پہلے حدیث سن لیجیے ،، عن عكرمة أنَّ رِفاعةَ طلق امرأته فتزوَّجها عبدُ الرَّحمنِ بنُ الزَّبِيرِ القرظى قالت عائشة وعليها خِمارٌ أخضَرُ، فشكت اليها وارتها خُضرةً بجِلْدِها، فلما جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم والنِّساءُ ينصُرُ بعضُهنَّ بعضًا. قالت عائشةُ: ما رأيتَ مثل ما يلقى المؤمناتِ؛ لجِلدُها أشَدُّ خُضرةً مِن ثوبِها؟قال وسمع انها قد اتت رسول الله صلى الله عليه وسلم فجاء ومعه ابنان له من غيرِها. قالت: ما لي إليه مِن ذَنبٍ إلَّا أنَّ ما معه ليس بأغنى عَنِّي من هذه واخذت ھدبة من ثوبھافقال کذبت واللہ یارسول اللہ ، انی لانفضھا نفض الادیم ولکنھا ناشز ترید رفاعة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم فإن كان ذلك لم تحلى له أو لم تصلحى له حتى يذوق من عسيلتك قال وأبصر معه ابنين له، فقال: بنوكَ هؤلاء؟ قال: نعم. قال: هذاالذي تزعُمينَ ما تزعمين فواللهِ لهم أشبَهُ مِن الغُرابِ بالغُرابِ ( میزان 449 ،450)
اس حدیث پر جناب غامدی نے نقل کرنے سےپہلے یہ تبصرہ کیا ہے “رہی تیسری دلیل تو یہ در حقیقت ایک روایت کا مدعانہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ امام بخاری نے اسے جس طرح نقل کیا ہے اسے دیکھنے کے بعد یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ عورت نے نکاح کیا ہی اس مقصد سے تھاکہ وہ پہلے شوہر کیلئے حلال ہو جائے “۔( میزان ص 449)
ہم اس کی اگلی قسط میں تحقیق کرینگے کہ کون حدیث کے مدعی کو نہیں سمجھ سکا ؟ علماء اہلِ سنت یا پھر جناب غامدی ؟
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
پردہ اور غامدی صاحب
حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ...
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی...