غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط نہم)

Published On January 23, 2024
پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)

حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...

ڈاکٹر خضر یسین

غامدی صاحب قرآن مجید کو ہدایت کے بجائے دعوت مانتے ہیں، نہیں صرف دعوت ہی نہیں بلکہ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سرگزشت انذار کا عنوان دیتے ہیں۔ جس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ مابعد دور رسالت میں قرآن مجید کی حیثیت الوہی ہدایت کے بجائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصی سیرت کے محفوظ ریکارڈ کی ہے اور ایک ایسی “الوہی ہدایت” نہیں ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایمان و عمل اسی طرح واجب ہو، جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تھا۔ قرآن مجید، غامدی صاحب کے نزدیک اپنے مضمون کے لحاظ سے ایک رسول کی سرگزشت انذار ہے۔ جس میں یہ بتایا گیا ہے:فیصلہ انذار، انذار عام، اتمام حجت، ہجرت و برأت کے ادوار کب آیا اور کب خدا کا آسمانی فیصلہ جزا و سزا کی صورت میں نافذ ہو کر منکرین کو نیست و نابود کر دیا گیا اور ایمان لانے والوں کو انعام و اکرام سے نواز دیا گیا۔ وہ کہتے ہیں:قرآن مجید کا موضوع ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سرگزشت انذار ہے۔ میں یہ سمجھنے سے بالکل قاصر ہوں کہ قرآن مجید جس کا اپنی نسبت دعوی ہے کہ وہ ہدی للمتقین ہے، ہدی للناس ہے، اس کا موضوع نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سرگزشت انذار کیونکر ہو سکتا ہے؟

غامدی صاحب کے دینی فکر میں قرآن مجید کے متعلق وہ بات نہیں کہی جا سکتی جو قرآن مجید نے اہل کتاب کو مخاطب ہوتے ہوئے کی ہے:

يا أهل الكتاب لستم على شيئ حتى تقيموا التوراة والإنجيل و ما أنزل إليكم من ربكم. … . المائدہ  ٦٨.

ان کے نزدیک قرآن مجید کی وہ اطاعت و اتباع جس کے آنجناب علیہ السلام مکلف و مخاطب تھے، مابعد مسلمان پر واجب نہیں ہے۔ مابعد کے مسلمانوں کے لئے قرآن مجید کا بیشتر حصہ ہدایت ہے اور نہ سامان عبرت ہے۔ ان کے نزدیک مندرجہ ذیل آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انسانی شخصیت اصل ہے اور ان پر نازل ہونے والی وحی اور اس کا محتوی اصل نہیں ہے۔ رسول کی وفات کے بعد عملا بالکل ہی بے معنی ہے۔

أن الذين يحادون الله و رسوله اؤلئك فى الاذلين

كتب الله لأغلبن انا و رسلى

أن الله قوي عزيز

غامدی صاحب کا خیال ہے: اللہ تعالی اللہ اور اس کے رسول کی شخصیات سے جو ٹکراتا ہے، ان کے متعلق ان آیات میں جو کچھ آیا ہے، وہ فقط انہی تک محدود ہے۔ یہاں تنزیلات ربانیہ میں ظاہر ہونے والا قضیہ سرے سے کوئی شی ہی نہیں ہے۔ “تنزیلات ربانیہ” اصل ہوں تو رسول کی زندگی میں اور اس کے بعد، انہیں قبول کرنے اور رد کرنے پر یہ “منزل خبر” سچ ثابت ہو گی۔ لیکن چونکہ غامدی صاحب “تنزیل من رب العالمین” کو صرف رسول کی زندگی میں کار آمد دیکھتے ہیں، اس لئے اس منزل خبر کو بھی رسول اللہ کی سرگزشت انذار کا حصہ بنا کر ایک طرف کر دیتے ہیں۔ مابعد کا کوئی مسلمان اس منزل خبر کے حقیقت واقعہ بننے کی تمنا لیے ہوئے ہے تو یہ اس کی محض بھول ہے۔ “ان اللہ قوی عزیز” بھی آج سو فیصد معطل اور موقوف خبر ہے۔

وہ فرماتے ہیں:نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین و موافقین کی سزا و جزا کی سرگزشت ہی قرآن کا موضوع ہے، اس کی ہر سورة، ہر باب اسی پس منظر میں مرتب کیا گیا ہے۔ اس ساری تمہید کی اصل، ان کے نزدیک قرآن مجید کی تفسیر ہے۔ وہ یہ سب تصورات صرف اس لئے وضع کرتے ہیں کہ قرآن مجید کی تفسیر کے لئے درست تناظر قائم  کیا جا سکے۔

قرآن مجید کی تفسیر ان کے لئے ناگزیر ہے۔ غامدی کے دینی تصورات پر قرآن بلاواسطہ دلالت نہیں کرتا۔ تاویل، توجیہ، تفسیر اور تشریح وغیرہ وہ نہ کریں تو اپنے دینی تصورات کو قرآن مجید کی واضح نص سے ثابت نہیں کر سکتے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں، قرآن مجید شرح و تفسیر کے وقت جن باتوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے، وہ تین ہیں۔

ایک آیات کا شان نزول کیا ہے؟ دوم مخاطب کو ہے؟ سوم آیات کی اپنی حیثیت باعتبار تکلیفی احکام کیا ہے؟

اپنی اس اسکیم میں وہ دراصل امت بطور امت کو اس غلط فہمی سے نکالنا چاہتے ہیں کہ ہم بطور امت منزل اخبار و احکام کے قیامت تک مکلف و مخاطب ہیں۔

غامدی صاحب اور ان کے اساتذہ گرامی کی نظر میں “نظم کلام” کا مفہوم و مدلول کیا ہے؟ غامدی صاحب اور ان کے مکتب فکر کو سمجھنا ہے تو ان کے نظم کلام کے تصور کو سمجھنا ضروری ہے۔ “نظم کلام” کا عام مفہوم تو وہی ہے جسے ہر صاحب علم جانتا ہے اور ہر متکلم اور ہر مصنف شعوری یا غیرشعوری طور پر اس کی پابندی کرتا ہے الا یہ کہ فاتر العقل ہو۔

عام زبان میں “نظم کلام” کو کلام کا سیاق و سباق بھی کہا جاتا ہے۔ ایک جملہ دوسرے جملے سے معنوی اعتبار سے جڑا ہوتا ہے باوجودیکہ ہر جملہ مستقل مفہوم کا حامل بھی ہوتا ہے۔ ایک جملے کے سیاق و سباق میں واقع دوسرے جملے اس کی معنویت متعین کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔ جملوں کی باہمی معاونت جو ان کے مفہوم و مدلول کو واضح کرتی ہے، نظم کلام کہلاتی ہے۔

غامدی صاحب کا تصور “نظم کلام” سیاق و سباق سے کلام کے معنی و مدلول متعین کرنے سے کچھ سوا ہے۔ ان کے نزدیک اس سے مراد سیاق کلام سے پیدا ہونے والا نظم نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں: قرآن مجید کا ایک موضوع ہے اور تمام آیات اس موضوع سے متعلق ہیں۔ اسی طرح ہر سورہ کا ایک موضوع ہے اور اس کی تمام آیات اس موضوع سے منظم و مربوط ہیں۔ قرآن مجید کے موضوع سے متعلق وہ پہلے واضح کر چکے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین و موافقین کی سزا و جزا کی سرگزشت انذار ہی قرآن کا موضوع ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ نظم قرآن کا موضوع بھی سرگذشت انذار ہی ہے۔ اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ “نظم کلام” غامدی صاحب کی دینی فکر کیا شے ہے۔

متصوفانہ تفلسف میں وحدت الوجود میں جو کردار “وجود” کا ہے، غامدی صاحب کے “نظم کلام” وہی کردار قرآن مجید میں ہے۔ غامدی کا نظم کلام کا تصور اور ارباب وجودی کے وجود کا تصور ایک ایسا ہیولی ہے جو ہر موجود میں واحد بھی ہے اور کثرت میں بٹا ہوا بھی ہے۔ ایسا تصور جو وحدت کے ساتھ کثرت اور کثرت کے ساتھ وحدت لئے ہوئے ہو۔ ایسے تصور کو آپ “عقلی پھلجھڑی” تو کہہ سکتے ہیں، علمی اعتبار سے یہ بالکل لغو اور بے معنی تصور ہوتا ہے۔

ان کے نزدیک قرآن مجید کی ہر سورہ کا ایک موضوع ہے جو اس کی آیات کو منظم کرتا ہے۔ آیات اپنے موضوع کے مربوط و منظم ہیں اور ہر سورہ اپنے موضوع سے منظم و مربوط ہے۔ یہ سب مل کر ایک نہایت حسین وحدت بن جاتے ہیں۔

معلوم نہیں غامدی صاحب قرآن مجید کو کیوں ایک معجون مرکب دیکھتے ہیں؟ اور یہ کونسی وحدت ہے جو کثرت کی بوقلمونی کو متاثر کئے بغیر اپنی وحدت قائم رکھتی ہے۔ اسی طرح کا ایک وحدت الوجود بیان پڑھیں: ہر سورہ کا ایک موضوع ہوتا ہے جو ان تمام اجزاء کے لئے رشتہ وحدت کی حیثیت رکھتا ھے۔ جن سے سورہ میں مضامین کی تالیف ہوتی ہے۔ اسے ہم روح کی طرح سورہ کے پورے وجود میں سرایت کئے ہوئے دیکھتے ہیں۔ وجود کے متعلق بالکل اور بعینہ یہی تصور ارباب وجودی کا ہے۔

غامدی صاحب کی اس مفروضہ وحدت جو ایک حسین وحدت ہے، اس کے مشمولات بھی دیکھ لیں، جن کا قدم قدم پر خیال رکھنا قرآن مجید کے طالب علم پر واجب ہے۔ بصورت دیگر قرآن مجید کے معنی مخفی رہتے ہیں۔

وہ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی ہر سورہ کے متعلق یہ طے کرنا چاہئے، اس اصل مخاطب کون ہیں؟ ہر ضمیر کا مرجع کون ہے؟ لام تعریف کا معہود کون ہے؟

نظم کی اس حسین وحدت میں یہ سب کام قاری نے کرنے ہیں۔ اس کے باوجود یہ عربی مبین یعنی نہایت واضح کلام ہے۔ کوئی اینچ پینچ نہیں ہے۔ ہر لفظ صاف ہے۔ لایحتمل الا تاویلا واحدا۔

غامدی صاحب قرآن مجید کے متعلق جو نظریہ پیش کرتے ہیں، ندرت یا نیا پن اس میں بہت نمایاں ہے۔ اس نئے پن کی چند خوبیاں دلچسپ کم اور حیران کن زیادہ ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں:محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں قرآن مجید ایک بیانیے کی شکل میں ملا ہے، جہاں تک اس کے معانی کا تعلق ہے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں نہیں ملے جیسے قرآن مجید کے الفاظ ملے ہیں۔ قرآن مجید کے معنی ہم نے خود تلاشنے ہیں۔ اس تلاش و جستجو میں جاہلی ادب تک وہ جا پہنچتے ہیں۔

قرآن مجید کی تفسیر ان کے نزدیک ناگزیر ہے، اس کے بغیر اس کی تفہیم ممکن نہیں ہے۔ انہیں یہ ضرورت کبھی محسوس نہیں ہوئی کہ وہ دیکھیں آیا قرآن مجید تفسیر کا محتاج ہے بھی؟

“تفسیر طلب” متون کی خاصیت کیا ہوتی ہے؟ اور وہ کون سے متون ہوتے ہیں جو تفسیر کی احتیاج سے مستغنی ہوتے ہیں؟ علمیاتی انتقاد پر مبنی اس نوع کے سوالات کی جانب وہ کبھی متوجہ نہیں ہوتے۔ قرآن مجید کی تفسیر سے پہلے اس بنیادی سوال سے اعراض کیا جائے تو قرآن مجید پر نظریہ سازی کسی بامقصد مکالمے پر کبھی منتج نہیں ہو سکتی۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے:قرآن مجید کے نظم کا تصور ان کے ہاں وحدت الوجودی فلسفے میں وجود کی جگہ کھڑا ہے۔ ارباب وجودی جس طرح کثرت عالم میں وجود کی وحدت نکال لاتے ہیں بالکل اسی طرح غامدی صاحب قرآن مجید میں سے وحدت نظم ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ ارباب وجودی وحدت جس طرح ایک مفروضہ ہے، اسی طرح غامدی صاحب کا تصور نظم بھی ایک مفروضہ ہے جس کے متعلق انھوں  نےیہ فرض کر لیا ہے کہ وہ حقیقت ہے۔

غامدی صاحب کے نزدیک قرآن مجید کے وہ معنی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شعور مبارک میں مفہوم ہوئے ہیں، ان تک رسائی کی ضرورت ہے اور نہ ہی ایسی جدوجہد کوئی بامقصد سعی ہے۔ ان کے نزدیک قرآن مجید کا بیان اس معنی کے ابلاغ کے لئے کافی ہوتا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شعور مبارک میں مفہوم ہوئے تھے تو انہیں یہ ضرورت کبھی پیش نہ آتی کہ پیچ در پیچ مفروضات قرآن مجید پر مسلط کرتے۔

قرآن مجید کی ایک آیت میں اللہ تعالی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرما رہے ہیں:

ولقد اتيناك سبعا من المثانى و القرآن العظيم.

لاتمدن عنيك إلى ما متعنا به أزواجا منهم.

و لا تحزن عليهم.

و أخفض جناحك للمؤمنين. ۔ ۔ ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا جا رہا ہے؛

ہم نے آپ کو “سبعا من المثانی” اور “قرآن عظیم” عطا فرما دیا ہے۔ لوگوں کو دنیا کا جو سامان ہم نے دے رکھا ہے، ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ۔ آپ کو بڑی نعمت عطا کر دی ہے۔

آیت کا سیاق کسی معنی میں بھی “سبعا من المثانی” کو قرآن مجید صفت نہیں بتا رہا بلکہ یہ دو نعمتوں کا ذکر ہے جو آنجناب علیہ السلام کو “ما متعنا به أزواجا منهم” کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے سے مستغنی کر دیتی ہیں۔

اب جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ “سبعا من المثانی” سے کیا مراد ہے؟ تو اس جواب یہ ہے کہ مجھے معلوم نہیں ہے، نہیں اس کا مدلول جاننا میرے لئے ضروری بھی نہیں ہے۔ الوہی ہدایت میں جو کچھ بتایا گیا ہے، ہدایت کے لئے وہی کافی ہے۔ میرے لئے اتنا کافی ہے کہ اللہ تعالی نے آنجناب علیہ السلام کو “سبعا من المثانی” اور “قرآن عظیم” عطا فرمایا ہے، جو دنیا میں متاع دنیا سے لاکھ درجے بڑی نعمت ہے۔

غامدی صاحب جب “سبعا من المثانی” کی تفسیر و تشریح فرماتے ہیں تو اس کو پڑھ ہدایت حاصل کرنا تو دور بات ہے، قرآن مجید طلسم ہوش ربا معلوم ہونے لگتا ہے۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے بندے کا دماغ سوج جاتا ہے۔ اسی ان استاد گرامی مولانا اصلاحی رحمہ اللہ نے بھی “الکوثر” کا مدلول متعین کرنے جتنا محنت کی ہے، ہدایت کے طالب کے لئے قطعا غیرضروری ہے۔ اللہ نے آنجناب علیہ السلام کو الکوثر عطا فرمایا ہے، اس پر قناعت کر لی جائے تو آخر کونسی قیامت ٹوٹ پڑے گی؟ یا الکوثر اور سبعا من المثانی کا مدلول جب تک متعین نہ ہو جائے قرآن مجید سے حاصل ہونے والی ہدایت کیا موقوف یا معطل ہو رہے گی۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…