غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط سوم)

Published On January 11, 2024
( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد پچھلی قسط کے اختتام پر لکھا گیا کہ ابھی یہ بحث پوری نہیں ہوئی، لیکن غامدی صاحب کے حلقے سے فوراً ہی جواب دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اگر جواب کی طرف لپکنے کے بجاے وہ کچھ صبر سے کام لیتے اور اگلی قسط پڑھ لیتے، تو ان حماقتوں میں مبتلا نہ ہوتے جن میں...

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حج اور جہاد کی فرضیت صرف اسی کےلیے ہوتی ہے جو استطاعت رکھتا ہو۔ بظاہر یہ بات درست محسوس ہوتی ہے، لیکن اس میں بہت ہی بنیادی نوعیت کی غلطی پائی جاتی ہے اور اس غلطی کا تعلق شرعی حکم تک پہنچنے کے طریقِ کار سے ہے۔ سب سے پہلے...

جہاد، قادیانی اور غامدی صاحب، اصل مرض کی تشخیص

جہاد، قادیانی اور غامدی صاحب، اصل مرض کی تشخیص

حسان بن علی بات محض حکمت عملی کے اختلاف کی نہیں کہ مسلمان فی الحال جنگ کو چھوڑ رکھیں بلکہ بات پورے ورلڈ ویو اور نظریے کی ہے کہ غامدی صاحب کی فکر میں مسلمانوں کی اجتماعی سیادت و بالادستی اساسا مفقود ہے (کہ خلافت کا تصور ان کے نزدیک زائد از اسلام تصور ہے)، اسى طرح...

مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟

مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟

ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عمر عزیز کا بیشتر حصہ قرآن مجید کی خدمت میں صرف ہوا ہے۔ لیکن یہ قرآن مجید کے بجائے عربی زبان و ادب کی خدمت تھی یا تخصیص سے بیان کیا جائے تو یہ قرآن مجید کے عربی اسلوب کی خدمت تھی۔ قرآن مجید کا انتخاب صرف اس لئے کیا گیا تھا کہ...

خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت

خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت

ڈاکٹرزاہد مغل علم کلام کے مباحث کو غیر ضروری کہنے اور دلیل حدوث پر اعتراض کرنے کے لئے جناب غامدی صاحب نے ایک ویڈیو ریکارڈ کرائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن سے متعلق دیگر علوم جیسے کہ اصول فقہ، فقہ و تفسیر وغیرہ کے برعکس علم کلام ناگزیر مسائل سے بحث نہیں کرتا اس لئے کہ...

غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب

غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب سے جہاد کی فرضیت کے متعلق علماے کرام کے فتوی کے بارے میں پوچھا گیا، تو انھوں نے تین صورتیں ذکر کیں:۔ایک یہ کہ جب کامیابی کا یقین ہو، تو جہاد یقینا واجب ہے؛دوسری یہ کہ جب جیتنے کا امکان ہو، تو بھی لڑنا واجب ہے اور یہ اللہ کی طرف سے نصرت...

ڈاکٹر خضر یسین

غامدی صاحب نے بعض دینی تصورات خود سے وضع کئے ہیں یا پھر ان کی تعریف ایسی کی ہے جو خانہ زاد ہے۔ ان تصورات میں “نبوت” اور “رسالت” سب سے نمایاں ہیں۔ ان کے نزدیک انبیاء و رسل دونوں کا فارسی متبادل “پیغمبر” ہے۔ نبی بھی پیغمبر ہے اور رسول بھی پیغمبر ہے۔ مگر “رسالت” نبوت سے اور “نبوت” رسالت سے مختلف شے ہے۔ اس فرق کی اساس، ان کے ہاں دین یا تنزیلات ربانیہ پر نہیں ہے بلکہ ان کی دینی فکر پر ہے۔ ان کی فکر، دین پر مبنی نہیں ہے بلکہ ان کا “تصور دین” ان کی فکر پر مبنی ہے۔ وہ “دینی فکر” کے بجائے “فکری دین” والے مذہبی اسکالر ہیں۔

ان کے نزدیک “نبوت” یہ ہے: انسانوں میں کوئی شخص وحی پا کر لوگوں کو حق بتائے۔ ان کے ماننے والوں کو قیامت میں انعام ملے گا اور نہ ماننے والوں کو جہنم کا عذاب ملے گا۔ نبی کی تعلیم دنیا میں کامیابی اور ناکامی کے لئے نہیں ہوتی بلکہ محض انذار و بشارت ہوتی ہے۔ نبی کی اتباع کرنے والا صرف آسمانی بادشاہت کا طالب ہوتا ہے، دنیا میں ذلت و نکبت اس  کامقدر ہوتی ہے تو یہ منزل من وحی کے خلاف نہیں ہے۔

رسالت یہ ہے: “نبوت” پر فائز کوئی شخص اس طرح سے خدا کی عدالت بن کر آئے، اس کی قوم اگر اسے جھٹلا دے تو اس بارے میں خدا کا فیصلہ اس پر دنیا میں نافذ کر کے وہ حق کا غلبہ عملا قائم کر دے۔

ہماری معروضات یہ ہیں

تنزیلات ربانیہ میں جو دین اور تصورات دین بتائے گئے ہیں، ان میں ایسی کسی تقسیم کا تذکرہ تو دور کی بات ہے، ادنی سا شوشہ بھی نہیں ملتا۔ یہ ان کا ذاتی اجتہاد ہے، جسے کسی دینی و ایمانی اصول کے ذریعے منتزع نہیں کیا گیا۔ حقیقت تو یہ ہےکہ یہ تقسیم کسی علمی و اخلاقی اصول سے بھی منتزع نہیں ہوتی۔ نبوت و رسالت کی یہ تقسیم منزل من اللہ حق کی حقانیت پر منحصر نہیں بلکہ اس انسان (رسول) پر منحصر ہے جس پر منزل اللہ حق کی حقانیت پر ایمان رکھنا واجب ہے۔ انسان نبی ہو چاہے غیرنبی ہو، ایک عارضی ہستی ہے، آج ہے اور کل نہیں ہے۔ لیکن وہ “حق” جو آسمان سے نازل ہوا ہے اور دائمی ہے،محترم غامدی صاحب کے نزدیک کسی ایسے اصول و ضابطے کا حامل نہیں ہے، جس سے حق اور اہل حق، دنیا میں غالب ہو سکتے ہوں اور باطل اور اہل باطل شکست خوردہ ہو سکتے ہوں۔ وحی کے ذریعے جو حق انسانوں پر منکشف ہوتا ہے  اس کے ماننے والے اور اس کو جھٹلانے والے دنیا میں کامیابی و ناکامی کا ایک الگ اصول و ضابطہ رکھتے ہیں جو دونوں کے لیے یکساں کارآمد ہے۔ ان کے نزدیک “نبوت” اور اس کے احکام و اخبار کی اپنی حیثیت ان اخلاقی احکام سے زیادہ نہیں ہے جن کے متعلق زیادہ سے زیادہ ہم خود کو اور دوسروں کو تلقین کر سکتے ہیں۔ ان اخبار و احکام کو زندگی اور موت مسئلہ بہرحال نہیں بنا سکتے۔

غامدی صاحب “رسول و رسالت” کی خود ساختہ تعریف میں مزید اضافہ کرتے ہیں اور اس کی عملی شکل یوں واضح کرتے ہیں

اللہ تعالی رسولوں کو دنیا میں اپنی جزا و سزا کے ظہور کے لئے منتخب فرماتا ہے اور ان کے ذریعے قیامت کبری سے پہلے قیامت صغری برپا کرتا ہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک رسولوں کو بتا دیا جاتا ہے: وہ خدا کے ساتھ اپنے عہد پر قائم رہیں گے تو اس کی جزا دنیا میں مل جائے گی اور انحراف کریں گے تو اس کی سزا بھی دنیا ہی میں مل جائے گی۔ اس سے ان کا وجود خدا کی نشانی بن جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی رسولوں کو حکم دیا جاتا ہے، وہ حق جس کا تم مشاہدہ کر چکے ہو، بلا کم و کاست اس کی تبلیغ کرو اور پوری قطعیت کے ساتھ لوگوں تک پہنچا دو۔ غامدی صاحب کے نزدیک اس حق کا بلا کم و کاست اور قطعیت کے ساتھ لوگوں تک ابلاغ جس کا اللہ کے رسول اپنے سر کی آنکھوں سے مشاہدہ کر چکے ہوتے ہیں، “شہادت” کہلاتا ہے۔ جب یہ شھادت قائم ہو جاتی ہے تو دنیا و آخرت میں فیصلہ الہی کی بنیاد بن جاتی ہے۔ چنانچہ اللہ ان رسولوں کو غلبہ عطا فرماتے ہیں اور منکرین پر اپنا عذاب نازل فرما دیتے ہیں۔

ہماری معروضات

قیامت صغری کا تصور کہاں سے آیا ہے؟ کچھ معلوم نہیں۔ البتہ یہ تصور “منزل من اللہ” ہرگز نہیں ہے۔ اگر یہ اجتہاد ہے تو اس کی بنیاد کیا ہے؟ غامدی صاحب کے سواء شاید کوئی نہیں جانتا۔ رسولوں کے متعلق یہ تصور بھی حیران کن ہے کہ وہ اللہ کی نشانی بن کر زمین چلتے ہیں لیکن انبیاء جو رسول نہیں ہوتے، اللہ کی نشانی نہیں ہوا کرتے۔ وہ نبی جو رسول نہیں ہے اس کا ابلاغ “شھادت” بھی نہیں ہوتا۔

حقیقت یہ ہے؛ جب کوئی شخص اللہ کے نبی کی حیثیت سے انسانوں کے پاس آتا ہے تو اس حق کو قبول کرنے اور نہ کرنے والے دو گروہ بن جاتے ہیں۔ اہل حق اور اہل باطل یا کافر و مومن۔ یہ حق پوشیدہ ہوتا ہے اور نہ رمز و کنایہ ہوتا ہے کہ جسے سمجھنا دوسرے انسانوں کے لئے دشوار ہو۔ جب تک وہ “منزل حق” باقی رہتا ہے، اللہ کا فیصلہ ہی ہوتا ہے۔ اسے ماننے والے اور نہ ماننے والے دنیا کی زندگی میں ایک دوسرے کے مقابل رہتے ہیں۔ اہل حق اور اہل باطل کے “مقاصد حیات” میں ٹکراو نہ صرف فطری ہے بلکہ یقینی بھی ہوتا ہے۔ نبی اہل ایمان پر شاہد ہوتا ہے اور اہل ایمان، لوگوں پر شاہد ہوتے ہیں۔ یہ شھادت “منزل حق” پر ایمان بالغیب سے میسر آتی ہے اور ایمان بالغیب کی وجہ سے یقینی اور قطعی ہوتی ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…