نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...
غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط دوازدہم)
جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی
عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...
حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ
ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...
امام النواصب جاوید غامدی
احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...
سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل
محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...
کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟
شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...
ڈاکٹر خضر یسین
ایمان کی عمومی تعریف یہ کی گئی ہے: یہ اقرار باللسان و تصدیق بالقلب کا نام ہے۔ زبان سے اقرار اور دل سے سچ ماننے کا نام ہے۔ کس چیز کا زبان سے اقرار کرنا ہے اور دل سے سچ ماننا ہے؟ جواب ہے:”ما انزل اللہ علی نبیہ” کے سچ ہونے کا زبان سے اقرار کرنا ہے اور دل سے سچ ماننا ہے، یہی ایمان بالنبوة ہے۔ کتاب و سنت کو منزل من اللہ ماننے کا زبان سے اقرار اور دل سے سچ ماننا ایمان ہے۔ جن باتوں پر ایمان لانا ہے، وہ پانچ باتیں نہیں ہیں، جیسا کہ محترم غامدی صاحب نے لکھا ہے، تمام منزل اخبار ایمان بالغیب کا محتوی ہیں۔ لیکن غامدی صاحب کے نزدیک “منزل اخبار” میں سے ہر خبر یکساں ایمان کا موضوع نہیں ہے یا کم از کم وہ کہیں بھی “منزل اخبار” کو یکساں ایمان کا موضوع قرار نہیں دیتے۔ میں حیران ہوں کہ وہ قرآن مجید کی اس آیت سے پانچ چیزیں کیسے نکال لیتے ہیں:
امن الرسول بما أنزل إليه من ربه و المؤمنون . . . . . . .
“بما انزل” کو پانچ چیزوں میں کیسے مقید کیا جا سکتا ہے؟ اللہ پر ایمان، ملائکہ پر ایمان، کتابوں پر ایمان، رسولوں پر ایمان، روز جزا پر ایمان، درحقیقت ایمان کے چند اجزاء کا بیان ہے، ایمان کے تمام اجزاء یا محتویات یہی نہیں ہیں۔ جو کچھ اللہ کی طرف نازل ہوا ہے، اس میں “کتاب و سنت” دونوں شامل ہیں۔ ہر “منزل خبر” یکساں واجب الایمان ہے۔
یہ عجب لوگ ہیں:جب قرآن مجید کی تفسیر کرتے ہیں تو فرض کر لیتے ہیں، قرآن مجید غیرضروری اختصار کا شکار ہے اور جب اس کا خلاصہ بیان کرتے ہیں تو فرض کر لیتے ہیں، قرآن مجید میں غیرضروری تفصیل درج کر دی گئی ہے۔ دوسرے مفسرین و ملخصین کی طرح غامدی صاحب بھی قرآن مجید کے غیرضروری اختصار سے پیدا ہونے والا نقص تفسیر سے اور غیرضروری تفصیل سے پیدا ہونے والا نقص تلخیص سے رفع کرتے ہیں۔ غامدی صاحب اور دوسرے روایتی علماء اس مسئلے میں سو فیصد متفق ہیں، ان کے نزدیک قرآن مجید میں غیرضروری اختصار بھی ہے اور غیرضروری تفصیل بھی ہے۔ غیرضروری اختصار کو تفسیر لکھ کر دور کرتے ہیں اور غیرضروری تفصیل کو تلخیص کے ذریعے رفع کرتے ہیں۔
ایمان اور عمل صالح دو چیزیں ہیں۔ ایمان اقرار باللسان و تصدیق بالقلب سے متحقق ہو جاتا ہے۔ عمل صالح کیا ہے؟ جب قرآن مجید میں “عمل صالح” کی بات کرتا ہے تو وہ عمومی اخلاقیات کی بات نہیں ہوتی۔ اخلاقی عمل کی صالحیت شک و شبہ سے بالا ہے۔ لیکن اخلاقی عمل، دینی عمل سے مختلف شے ہے۔ اخلاق انسان کا انسان سے مطالبہ ہے۔ میں بلاتفریق مذہب ہر انسان سے اخلاق کا مطالبہ کر سکتا ہوں اور ہر مذہب کا آدمی مجھ سے مطالبہ کر سکتا ہے۔ لیکن دینی حکم کا مطالبہ میں صرف صاحب ایمان سے کر سکتا ہوں اور ایک صاحب ایمان مجھ سے کر سکتا ہے۔ “حکم اللہ” کی اتباع میں صادر ہونے والے عمل کی صالحیت، اخلاقی عمل کی صالحیت سے بہت کچھ مختلف ہے۔ قرآن مجید میں جہاں “تواصی بالحق” کا حکم ہے وہاں “الحق” صرف منزل خبر، حکم اور عمل ہے جو صرف تنزیلات ربانیہ میں آیا ہے۔ اسی پر قائم رہنے کے لئے “تواصی بالصبر” درکار ہوتا ہے، جس کی تلقین سے دست بردار نہ ہونے کا اللہ ہمیں حکم دے رہا ہے۔
غامدی صاحب “الحق” کو منزل من اللہ یا “حکم اللہ” میں مقید و محدد نہیں مانتے۔ انسان کی فطرت میں “حکم اللہ” اور “اخلاقی حکم” کے فرق کا شعور واضح نہ ہوتا تو ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کو ذبح کرنے پر کبھی تیار نہ ہوتے۔ فطرت انسانی میں “اخلاقی خیر” سے “دینی خیر” کے افضل ہونے کا داعیہ ودیعت کر دیا گیا ہے۔ لیکن غامدی صاحب کی تقصیریت پسندی الوہیت اور انسانیت میں اشتراک تلاش کر ہی لیتی ہے۔
فجور و تقوی کا امتیاز اللہ ہی نے انسان میں رکھا ہے، اسی طرح “حکم اللہ” اور “اخلاقی حکم” کے مابین فرق کا شعور بھی اللہ ہی نے انسان کی فطرت میں رکھا ہے۔ اس فرق کا شعور البتہ صرف ایمان بالنبوة کے بعد انسان پر کھلتا ہے۔ ایمان بالنبوة سے قبل انسان کے سامنے نبوت پر ایمان لانے کا مطالبہ ہوتا ہے۔ وہ اس مطالبے کو قبول کر لیتا ہے تو ایمان بالنبوة کے دور میں داخل ہو جاتا ہے۔ اسی دورانیہ میں اس پر منکشف ہوتا ہے کہ “حکم اللہ” کائنات کی افضل ترین فضیلت ہے اور میری دینی فوز و فلاح صرف اللہ تعالی کی دی ہوئی ہدایت میں مضمر ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دور مبارک “نزول وحی” کا دور تھا۔ ہجرت، نصرت اور قیام بالقسط آنجناب علیہ السلام کے دور میں واقعہ ہوا ہے۔ غامدی صاحب پتہ نہیں یہ بات کیوں نظرانداز کر دیتے ہیں؛ مابعد رسالت دور میں ملت اسلامیہ پر ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرا جب ان کے ہاتھ سے روئے زمین پر سے حاکمیت ختم ہو گئی ہو۔ ساڑھے چودہ سو سال میں مسلمانوں نے بڑے تباہ کن سیاسی نشیب و فراز دیکھے ہیں لیکن کیا اس دوران میں زمین پر ایک لمحہ بھی ایسا آیا ہے کہ ان کی حاکمیت اعلی بالکل ختم ہو گئی ہو؟ ہرگز نہیں۔ اب مسلمانوں کی ذمہ داری ریاست کا قیام نہیں ہے۔ ریاست تو ان کے ہاتھ میں ہے۔ اب مسلمان الوالامر کا کام “حکم اللہ” کو اسی طرح نافذ کرنا ہے جس طرح اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بحیثیت حکمران نافذ فرمایا تھا۔
قیام بالقسط کی جدوجہد کے لئے ہجرت اور نصرت اگر دینونت پر منتج نہیں ہوتی تو اس مشقت میں انسان کیوں پڑے؟ غامدی صاحب کی قیامت صغری اب قیامت تک برپا نہیں ہونی یا کم از کم واقعہ بننے کے حوالے سے یقینی امر کا درجہ حاصل نہیں کر سکتی۔ ان کے نزدیک قرآن مجید کی ہدایت کے منکرین کے لئے خدا کی عدالت اب صرف قیامت کے دن لگنی ہے۔ لہذا مسلمانوں کے اوپر سے وہ حکم بلکہ تمام وہ احکام اٹھا لئے گئے ہیں، جن میں حکم اللہ کی خلاف ورزی کو انسانی اقدار بنانے والوں سے قطع تعلق کرنا، انہیں اپنا دشمن سمجھنا، انہیں زیر کرنا آیا ہے۔
غامدی صاحب کا تصور “ختم نبوت” اہل سنت کا موقف ایک ہی ہے۔ ان کے نزدیک “ختم نبوت” درحقیقت ختم انبیاء ہی ہے، یعنی اب کوئی انسان نبی بن کر نہیں آئے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ آنجناب علیہ السلام پر اللہ کی طرف سے جو کچھ نازل ہوا ہے، وہ قیامت اسی طرح واجب الایمان و العمل ہے جس طرح آنجناب علیہ السلام پر تھا اور آنجناب علیہ السلام کے فوری متبعین پر تھا۔ وہ کہتے ہیں؛ منصب نبوت ختم کر دیا گیا ہے اور نبوت کی حقیقت بھی ختم ہو چکی ہے۔ لیکن اگر آپ پوچھیں: اس کا کیا مطلب ہے؟ تو آپ کو معلوم ہو گا؛ ان کا مدعا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والے احکام، اخبار اور اعمال کی فہرست میں کمی بیشی کے امکان کا خاتمہ نہیں ہے۔ وہ جب یہ کہتے ہیں؛ نبوت منصب اور نبوت کی حقیقت اختتام کو پہنچ چکی ہے تو درحقیقت اہل تصوف کے تصور الہام و مکاشفہ اور مخاطبہ کو وہ رد کرنا چاہتے ہیں۔
اہل تصوف کی تردید انہیں اس قدر محبوب ہے کہ وہ قرآن مجید کی واضح “منزل خبر” کو بھی ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
ما كان لبشر أن يكلمه الله الا وحيا أو من وراء الحجاب أو يرسل رسولا فيوحى بإذنه ما يشاء أنه علي حكيم
الشوری أية ٥١.
اللہ تعالی بشر سے کلام فرماتا ہے اور انہی تین طریقوں سے فرماتا ہے۔ “ختم نبوت” کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے بشر سے کلام کرنی چھوڑ دی ہے۔ اللہ تعالی سے ہم کلامی “ختم نبوت” کے عقیدے سے متصادم نہیں ہے۔ ختم نبوت کے عقیدے سے متصادم یہ ہے کہ کوئی انسان اب یہ دعوی کرے کہ آسمان سے کوئی ایسی وحی میرے پاس یا کسی دوسرے کے پاس آئی ہے جو انسانوں پر واجب الایمان و العمل ہے۔
غامدی صاحب اہل تصوف کی نفی کے جوش میں “منزل خبر” کو ہی ایک طرف کر دیتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی کی فہرست میں کمی بیشی کے بھر پور حامی ہیں۔ کہیں یہ کمی بیشی وہ اشتراک علت کی بنیاد پر کرتے ہیں اور کہیں ان احکام و اخبار کی تخصیص و تحدید سے کرتے ہیں۔ غامدی صاحب کی دینی فکر میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت میں منزل اخبار، احکام اور اعمال دائمی فضائل نہیں ہیں بلکہ زمانی و مکانی فضائل ہیں۔ جن احکام پر آنجناب علیہ السلام نے جس طرح عمل فرمایا ہے، امت پر وہ احکام یا تو فرض ہی نہیں ہیں یا پھر کسی اور شکل میں ان پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ مثلا ان احکام میں مضمر علت جسے وہ خود دریافت کرتے ہیں اور غالبا اسے حکمت کا نام دیتے ہیں، ان کے نزدیک وہ دائمی فضیلت ہے اور اسی کے زور پر منزل احکام کی فہرست میں ان کے ہاں کمی بیشی کی جا سکتی ہے۔
ہماری گزارش ہے:”ختم نبوت” مطلب یہ ہے:
منزل اخبار و احکام اور اعمال یعنی کتاب و سنت میں اب القاء و الہام سے کمی بیشی کی جائے سکتی ہے اور نہ قیاس و اجتہاد سے یہ کام انجام دیا جا سکتا ہے۔ “منزل احکام” کی فہرست میں کمی بیشی کا ہر امکان اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ آنجناب علیہ السلام کے واجبات دینیہ میں امتی اپنے قیاس و اجتہاد سے اضافہ نہیں کر سکتا۔ منزل اخبار و احکام اور اعمال صرف وہی ہیں جو بذریعہ تنزیلات ربانیہ آنجناب علیہ السلام پر نازل ہو چکے ہیں۔
چونکہ غامدی صاحب کی دینی فکر کی رو سے اب بہت سے منزل اخبار و احکام آوٹ ڈیٹڈ ہو چکے ہیں لہذا وہ اب واجب الایمان و العمل نہیں رہے۔ اس طرح منزل احکام کی فہرست میں وہ کمی کرنے کی راہ کھول لیتے ہیں اور دوسرے منزل احکام ایسے جن پر بالکل اسی طرح عمل کرنا ممکن نہیں رہا جس طرح آنجناب علیہ السلام نے کر کے دیکھایا تھا، ان میں مضمر علت و حکمت کی بنیاد پر ترمیم و تنسیخ کی راہ نکل آتی ہے۔
“تنزیلات ربانیہ” میں سب کچھ نبی اور امتی دونوں پر یکساں واجب الایمان و العمل ہوتا ہے اور وہ کبھی بوسیدہ یا منہدم نہیں ہوتا۔ وہ منزل حکم جن کا امتثال امر کچھ شرائط سے مشروط ہو، وہ اس وقت واجب الایمان و العمل ہوتے ہیں، جب ان کی تعمیل کی شرائط ابھی پوری نہ ہوئی ہوں۔ مثلا ظہر کی نماز کا وقت ابھی آنا ہے مگر آپ پر لازم ہے کہ ظہر کی نماز کو واجب الایمان و العمل مانیں۔
الدین “کتاب و سنت” ہے۔ جب کوئی قانونی ذہن رکھنے والا دین کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ “الدین” صرف “کرو اور نہ کرو” یا صرف اوامر و نواہی کا مجموعہ ہے۔ اس کے ساتھ جب یہ تصور بھی شامل ہو جائے کہ دین “مکمل ضابطہ حیات” ہے تو وہ اوامر و نواہی کی مکمل فہرست تیار کرنا اپنی دینی ذمہ داری سمجھتا ہے۔ اگلے مرحلے میں وہ ان اوامر و نواہی کی درجہ بندی کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور “منزل احکام” و مستنبط احکام کو فرض، واجب، سنت، مستحب اور مباح وغیرہ کی کیٹیگریز میں تقسیم کرنا ضروری سمجھتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے:تمام دینی احکام “منزل احکام ہوں چاہے مستنبط ہوں، یکساں واجب التعمیل نہیں ہیں۔ ان میں کچھ ایسے ہیں جنہیں چھوڑ دینے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ یہی وہ ذہن ہے جسے فقہی ذہن کہا جاتا ہے۔ اسی ذہن کی ایک روش “تشرع” ہے۔ تشرع کیا ہے؟ تشرع کا مطلب ہے: جب الفاظ قانون کی پیروی کی جائے اور روح قانون سے انحراف کیا جائے تو طرزعمل “تشرع” کہلاتا ہے۔ آپ فقہ کی کتابوں میں “شرعی حیلہ” کا مستقل باب دیکھ سکتے ہیں۔ قانونی ذہن کا خیال ہے:انسان اپنی چالاکی سے اللہ تعالی کو فریب دے سکتا ہے۔
لیکن جب آپ دین کی طرف ایمانی لحاظ سے متوجہ ہوتے ہیں تو “منزل احکام” کی دو کیٹیگریز پاتے ہیں۔ ایک مکتوبات یا واجبات، انہیں آپ فرائض بھی کہہ سکتے ہیں اور دوسرے تطوعات ہیں، جنہیں آپ نفلی احکام کہہ سکتے ہیں۔ دینی لحاظ سے تطوعات کی اتباع اگرچہ آپ کا اختیاری معاملہ ہے، لیکن تطوعات قرب الہی کا سب سے زیادہ طاقت ور وسیلہ ہے۔ مکتوبات تو اہل ایمان پر طوعا و کرہا واجب الایمان و العمل ہیں۔ لیکن تطوعات انسان کے طیب نفس پر منحصر ہوتے ہیں۔ اپنی رضامندی اور خوشی سے اپنے فرائض کے سواء آپ جو کچھ کرتے ہیں، وہ تطوعات ہیں۔
فقہی ذہن کے نزدیک فرض سے لیکر مباح تک آپ کی ذمہ داری ہلکی ہوتی جاتی ہے۔ اس کے برعکس دین و ایمان کی رو سے “تطوعات” چونکہ قرب الہی کے مدارج کا کامیاب ترین زینہ ہے، اس لئے وہ درجے کے لحاظ سے مکتوبات کے بعد ہیں لیکن چونکہ قرب الہی کا سب سے اہم زینہ یہی ہیں اس لئے ان پر خاص توجہ کی جاتی ہے۔ لہذا دینی و ایمانی تناظر میں تطوعات غیرمعمولی اہمیت رکھتے ہیں، انہیں نظرانداز کرنا، کسی لحاظ سے درست نہیں ہوتا۔
غامدی صاحب اپنے ایک ویڈیو کلپ میں عورتوں پردے پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں؛ میں اسے فرض نہیں سمجھتا بلکہ مستحسن یا اسی طرح کے کسی لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ غامدی صاحب کا ذہن بھی باقی مذہبی طبقات کی طرح خالص فقہی اور قانونی ذہن ہے۔ وہ دین و ایمان کے تناظر میں “تطوعات” کو نہیں دیکھتے بلکہ خالصتا فقہی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ قرب الہی کی تمنا یا آرزو ان کے فقہی تناظر میں صوفیانہ خیال پرستی ہے۔ “قرن فی بیوتکن” مسلمان خواتین کے لئے تطوعات میں بھی رکھنا شاید پسند نہیں کرتے۔
ایک اور بات جس پر از حد حیرت ہوتی ہے، وہ ان کا “تصور رائے سازی” ہے۔ رائے کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ رائے دینے والے کے من میں یا اندرونی یقین سے اتنی ہی محروم ہوتی ہے جتنی خارجی واقعیت کے یقین سے محروم ہوتی ہے۔ غامدی صاحب متن قرآن سے حاصل ہونے والی تفہیم کو قرآن مجید سے الگ کرتے ہیں۔ لیکن لطف کی بات یہ ہے:ان کے خیال میں ان کی رائے اپنے مقصد کے ابلاغ میں سو فیصد کامیاب ہے جبکہ متن قرآن سے حاصل ہونے والے فہم، قرآن مجید کے عین مطابق نہیں ہوتا۔ ان کی رائے ان کی کتاب میزان میں بیان ہوئی ہے۔ “میزان” خود مختلف آراء کا محل نہیں بن سکتی، لیکن قرآن مجید جب تک میزان کی شکل میں پیش نہ ہو، اس وقت تک وہ مختلف آراء کی زد میں رہ سکتا ہے۔
بالفرض وہ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ میری کتاب میزان کی تفہیم اور متن میں ہم آہنگی ممکن نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اب انسانوں کے مابین مکالمہ کوئی شے نہیں رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے:مکالمے کی اساس یہ یقین ہوتا ہے کہ میں دوسرے کی بات سمجھ رہا ہوں اور دوسرا میری بات سمجھ رہا ہے۔
یہ بات بہرحال یقینی ہے:غامدی صاحب “ما انزل اللہ علی نبیہ” پر قناعت ضروری نہیں سمجھتے، وہ دین کو پہلے انسانی فہم کے ایسے دائرے میں کھڑا کرتے ہیں جس کی نسبت کتاب و سنت سے عینیت کی نہیں ہوتی بلکہ کتاب و سنت پر رائے سازی یا رائے زنی کی ہوتی ہے۔ ان کے نزدیک “کتاب اللہ” ہدایت نہیں ہے بلکہ “کتاب اللہ” کی انسانی تعبیر ہدایت ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ وہ “کتاب اللہ” کی تعبیر کی مزید تعبیر یا تعبیر التعبیر کی اجازت نہیں دیتے۔
غامدی صاحب کے موقف اور اس کی جزیات پر مزید تفصیلی تنقید اب ممکن نہیں ہے۔ یہ سلسلہ یہی پر ختم کیا جا رہا ہے۔ یہ اس سلسلے کی آخری قسط ہے۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی
نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش،...
اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی
محمد خزیمہ الظاہری غامدی حلقہ انکار حدیث کی صاف تہمت سے اس لئے بچ نکلتا...
انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض
محمد خزیمہ الظاہری دین و شریعت کے قابلِ قبول ہونے کے لئے تواتر کی شرط...