غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط یازدہم)

Published On January 27, 2024
جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...

امام النواصب جاوید غامدی

امام النواصب جاوید غامدی

احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...

ڈاکٹر خضر یسین

میں یہاں ایک بات عرض کر دوں: میرا مقصد غامدی صاحب کے دینی فکر کی نفی ہرگز نہیں ہے بلکہ کسی عالم، جماعت یا فرقے کی نفی میرا مقصود کبھی نہیں رہا۔ میرا مقصد “نبوت کماہی پر قناعت” کی دعوت و تبلیغ ہے، جس میں میں اپنے احباب سمیت مصروہوں اور صاحب شعور مسلمان کو اس کام میں شرکت کی دعوت دیتا ہوں۔ دینی فکر اور دین فی نفسہ میں بڑا فرق ہے۔ دینی فکر کتاب و سنت سے منتزع کی جاتی ہے اور “دین” کتاب و سنت خود ہے۔ اس فرق کو پیش نظر رکھیں تو آپ کو اس مشکل کا اندازہ ہو جائے گا جس کو میں بیان کرنا چاہتا ہوں۔

غامدی صاحب کا دینی فکر ان عقلی منتزعات پر مبنی ہے جنہیں انھوں نے انتہائی اخلاص سے اخذ کیا ہے۔ مجھے ان کے فکری انتزاع میں جہاں کہیں سقم یا مغالطہ محسوس ہوتا ہے وہ عرض کر دیتا ہوں۔ اسے ایک “علمی انتقاد” سمجھا جائے اور کسی نظر سے نہ دیکھا جائے۔

غامدی صاحب کی دینی فکر “حدیث” کے باب میں ان بہت سی غلطیوں سے بڑی حد پاک ہے جو ہمارے مذہبی طبقے میں عام ہیں۔ لیکن اس کے باوجود حدیث کو دین و ایمان کے حواشی میں وہ کہیں نہ کہیں ضرور رکھتے ہیں۔

“حدیث” کی فنی حیثیت کا تعین، خود حدیث کو مسلمانوں کے دینی فکر میں تو ایک حد تک اہمیت دے سکتا ہے لیکن دین کی حدود سے اسے بہت دور لے جاتا ہے۔ غامدی صاحب سند اور متن کی روایتی تقسیم برقرار رکھتے ہیں اور جدید دینی مفکرین کی طرح دونوں کا الگ الگ جائزہ لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک سند کے اعتبار درست حدیث بھی متن کے درست ہونے کی ضمانت فراہم نہیں کرتی۔ اپنے دینی فکر کی صحت میں احادیث سے استشہاد بھی کرتے ہیں۔

حدیث کی سند درست ہو، ہر سقم سے پاک ہو، متن بھی قاعدہ و قانون کے مطابق ہو، تب بھی حدیث سے دین کا مفاد ممکن نہیں ہوتا۔ غامدی صاحب کا دھیان اس طرف بالکل نہیں جاتا کہ غیرنبی سے نبوت کا مفاد قبول کرنا ممکن نہیں ہے۔ دین کی عمارت اگر آپ نے خود کھڑی کرنی ہے تو یہ ممکن نہیں کہ غیرنبی کو نبوت میں آپ موثر نہ مانو۔

احادیث پر اس فن کے ائمہ نے بہت عمدہ اصول و ضابطے وضع کیے ہیں اور برت چکے ہیں۔ صحیح حدیث صحیح ہے، حسن حسن ہے، ضعیف ضعیف ہے اور موضوع موضوع ہے۔ یہاں تک کوئی مشکل پیدا نہیں ہوتی۔ مشکل اس وقت پیدا ہوتی ہے جب حدیث کے ذریعے تنزیلات ربانیہ میں ترمیم و تنسیخ کی جاتی ہے۔

غامدی صاحب بظاہر یہی کہتے ہیں: حدیث سے دین میں کسی نئے عقیدے اور عمل کا اضافہ نہیں ہوتا۔ لیکن منزل من اللہ احکام کی توجیہ و تعلیل وہ اس طرح کرتے ہیں کہ حدیث سے کی جانے والی ترمیم و تنسیخ خود بخود دین کا حصہ بن جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں؛ قرآن میزان، فرقان اور نگہبان ہے، اس کے باوجود حدیث کو قرآن کی شرح بھی مانتے ہیں۔ قرآن و سنت کو اجماع سے اور احادیث کو احاد سے منقول مانتے ہیں۔

سند حدیث کی نسبت ائمہ فن پر اعتبار کرتے ہیں مگر متن کے لئے دو معیار پر پورا اترنا ضروری سمجھتے ہیں۔ یعنی سند کے متعلق ائمہ فن پر اعتبار کرتے اور متن کی قبولیت کے متعلق ائمہ فن کے فیصلے کو قبول نہیں کرتے۔ متن حدیث کی قبولیت کے لئے ایک شرط یہ بتاتے ہیں کہ وہ قرآن و سنت کے منافی نہ ہو اور دوسری علم و عقل کے مسلمات کے منافی نہ ہو۔ فن حدیث میں متن کی صحت کا یہ کوئی معیار ہے ہی نہیں کہ وہ اس کے مطابق ہو اور اس کے مخالف نہ ہو۔ اگر سند سقیم و علیل نہیں ہے تو حدیث کا متن علم حدیث میں موضوع بحث نہیں بن سکتا۔

حیرت ہوتی ہے؛ ایک طرف کہتے ہیں کہ قرآن مجید کے صریح حکم کے خلاف حدیث یا خبر واحد قابل قبول نہیں ہے، دوسری طرف اللہ کے صریح حکم کے خلاف حدیث پر اعتبار بھی کر لیتے ہیں اور منزل حکم میں ترمیم و تنسیخ بھی کر لیتے ہیں۔

اگر آپ سوال کری:دین کی حقیقت کیا ہے؟ غامدی صاحب کا جواب ہے:دین کی حقیقت اللہ کی عبادت ہے۔ اگر دین “ما انزل اللہ علی نبیہ” میں مقید و محدد ہے تو پھر دین صرف اللہ کی عبادت کا نام نہیں ہے بلکہ طاغوت سے مجتنب رہنا بھی اتنا ہی واجب ہے جتنا اللہ کی عبادت واجب ہے۔ اللہ کے حضور عاجزی و انکساری جس طرح دین ہے، اس کے ساتھ طاغوت کے خلاف بغاوت اور سرکشی بھی اسی طرح دین ہے۔ اللہ کے حضور عاجزی و انکساری تو غامدی صاحب کے دینی فکر میں دین کی حقیقت ہے لیکن اس کے ساتھ طاغوت سے دشمنی و عداوت اور ان کے خلاف بغاوت و سرکشی دین کی حقیقت سے خارج ہیں۔ انسانی سماج میں رسالات اللہ کے ماننے والے جس طرح انسان ہیں، طاغوت و شیطان کے پیروکار بھی انسان ہی ہیں۔ سماج ایک حقیقت ہے تو اس میں رہنے والے انسان اور ان کے مقاصد بھی حقیقت ہی ہیں۔ خیر البریة اور شر البریة سے سماج کسی کبھی خالی نہیں ہوتا۔ خیر البریة اور شر البریة ہر وقت سماج میں فعال رہتے ہیں۔

انسان کی جس فطرت کی طرف غامدی صاحب بار بار متوجہ کرتے رہتے ہیں، اس کا پورا ادراک معلوم نہیں وہ کیوں نہیں کرتے۔ انسان کی فطرت میں جس طرح عاجزی و انکساری پائی جاتی ہے، اسی طرح سرکشی و بغاوت پائی جاتی ہے۔ عاجزی و انکساری کا مصرف اللہ کی حضوری ہے تو سرکشی اور بغاوت کا مصرف کیا ہے؟ غامدی صاحب اس سوال کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ فطرت انسانی اور اس کے مظاہر اور مصارف سے چشم پوشی دین کے لئے ممکن نہیں ہے۔ فطرت کے ہر پہلو کا مظہر و مصرف نہ صرف عقل کا تقاضا ہے، خود فطرت کا بھی یہی مطالبہ ہے۔ غامدی صاحب کے دینی فکر میں فطرت انسانی کہیں بھی پوری طرح منکشف ہوتی ہے اور نہ اس کے مصارف کا بیان ملتا ہے۔ وہ دین و ایمان کی بنیاد پر جس حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، وہ ایک گال پر تھپڑ کھانے کے بعد دوسری گال آگے کر دینے کا مشورہ دیتے ہیں۔ جبکہ قرآن مجید فرماتا ہے:

“الحرمات قصاص”

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ جدوجہد جو قرآن مجید کی خالص اتباع میں کی گئی تھی اور ان لوگوں کے خلاف کی گئی تھی جو “منکرین نبوت” تھے۔ غامدی صاحب کے نزدیک مابعد کے منکرین نبوت اس طرح کے منکرین ہیں اور نہ مابعد کے مومنین اس طرح کے مومنین ہیں، جس طرح کے مومنین و منکرین آنجناب علیہ السلام کی زندگی میں تھے۔ ان کے نزدیک کفر و ایمان کا جو مظہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہوا تھا، وہ تنزیل یعنی نبوت کی بنیاد پر نہ تھا بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جسمانی موجودگی کی بنیاد پر تھا۔

بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے غامدی صاحب کے نزدیک نبوت و تنزیل الوہی مظہر کے بجائے زمینی اور زمانی مظہر ہے جسے مسلمانوں نے بلاوجہ آفاقی بنا دیا گیا ہے۔ تنزیل یا نبوت اگر الوہی مظہر ہے اور انسانیت کے لئے اللہ کی طرف سے آخری ہدایت ہے تو اسے کسی بھی لحاظ سے زمینی ہونا چاہئے اور نہ زمانی ہونا چاہئے۔

ایک اور بات جو ان کے فکر میں بالکل واضح ہے، وہ دین کے نامشہود حقائق کو مابعدالطبیعاتی تصورات سمجھنا ہے۔ یہ حیران کن موقف ہے، دین اسلام کا کوئی تصور یا عقیدہ کسی معنی میں بھی مابعد الطبعی نہیں ہے، وہ سب واقعی حقیقت ہیں اور نامشہود ہیں۔

قرآن مجید کی ایک آیت کو دوسری آیت سے ٹکرا کر جو بھی موقف بنایا جاتا ہے، اس میں فرقہ واریت کے جراثیم مضمر ہوتے ہیں۔ غامدی صاحب کے ہاں ایک منظم فکر کی آرزو اس قدر شدید ہے کہ اگر ان کے موقف سے آیت قرآنی باہم متصادم ہوتی ہیں تو انہیں اس کی پرواہ نہیں ہوتی۔ اس مقصد کے لئے تو وہ قرآن مجید کے ترجمہ میں بھی متصرف ہونے سے اعراض نہیں کرتے۔ اس طرح کے تصرفات کا عمومی مظاہر آپ ان ترجمہ میں جگہ جگہ دیکھ سکتے ہیں۔ خاص طور پر ان کے ایک خانہ زاد مفروضہ میں اسے بالکل واضح دیکھا جا سکتا ہے۔ تنزیلات ربانیہ میں جس کا کہیں نام و نشان نہیں ہے، میری مراد “قیامت صغری” ہے، جب اسے ثابت کرنا ہوتا ہے تو وہ آیات قرآنی کے ترجمے میں تصرف پر اتر آتے ہیں۔

غامدی صاحب کے موقف میں ایک بات جو بالکل عیاں ہے، وہ قرآن مجید کے بیشتر حصے کا مسلمانوں کے لئے غیرضروری ہو جانا ہے۔ قرآن مجید کو میزان اور مہیمن صرف دوسرے کے موقف کے لئے بناتے ہیں۔ جہاں تک ان کے اپنے موقف کا تعلق ہے تو قرآن مجید اس کے لئے میزان اور مہیمن نہیں ہے بلکہ ان کا موقف قرآن مجید کا میزان و مہیمن ہے۔ قرآن مجید اگر نبوت محمدیہ کے منکرین کو کافر کہتا ہے تو غامدی صاحب کے نزدیک نبوت کا منکر کافر نہیں ہے بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے وہ منکر کافر ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے موجود تھے۔ آپ نے دیکھا غامدی صاحب کا موقف یہاں قرآن مجید کے لئے میزان بھی ہے اور مہیمن بھی ہے۔ خود قرآن مجید کا بیان ناکافی ہے، اس کے ساتھ یہ اضافہ ضروری ہے کہ یہ نبوت کا منکر کافر نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نبوت کا وہ منکر کافر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے موجود تھا اور مابعد کے ادوار نبوت محمدیہ کے منکرین، چاہے معاذ اللہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا ہی کیوں نہ کہیں، کافر نہیں ہیں بلکہ غیرمسلم ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…