حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...
غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط دہم)
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...
غلبہ دین : غلطی پر غلطی
حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)
حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)
حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...
ڈاکٹر خضر یسین
ہر سنجیدہ متن میں “نظم کلام” بہت ضروری شے ہوتا ہے۔ متن کی نوعیت چاہے علمی ہو، عملی ہو، ادبی ہو یا روحانی، “نظم کلام” کے بغیر قابل فہم ہی نہیں، قابل قرآت بھی نہیں ہوتا۔ قرآن مجید میں بھی “نظم کلام” موجود ہے۔ یہ نظم “سیاق کلام” کا پیدا کردہ ہے۔ غامدی صاحب اور ان کے گرامی قدر اساتذہ جس “نظم کلام” کا تذکرہ کرتے ہیں، وہ “سیاق کلام” سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ یہ حضرات متن کے منہ میں انگلیاں ڈال کر اپنا “مزعومہ نظم” نکال لاتے ہیں۔ قرآن مجید کے “نظم کلام” کی میں نفی نہیں کر رہا۔ البتہ اس نظم کی ضرور نفی کرتا ہوں جو روح بن کر متن کی ہر سورہ اور پورے قرآن میں دوڑتا پھرتا ہے اور جس کا ادراک صرف انہی حضرات کو ہوتا ہے۔
جن تفاسیر کو غامدی صاحب امہات کا لقب دیتے ہیں، وہ تین ہیں:تفسیر ابن جریر، تفسیر رازی اور زمخشری کی الکشاف۔ لیکن ان امہات التفاسیر کا مقصد ماتن کے مقصود سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ ماتن اپنے قاری کو جو کچھ بتانا چاہتا، یہ حضرات اس کے سواء کچھ بتاتے ہیں۔ ابن جریر کا مسئلہ فقہی احکام کی توسیع و تعمیم ہے، رازی کا مسئلہ مختلف فنون کے حوالے سے اٹھائے جانے والے سوالوں کا بیان اور ان جواب ہے۔ زمخشری کا مسئلہ زبان و بیان کے متعلقہ علوم ہیں۔ لیکن قرآن مجید کا مسئلہ فقہی ہے اور نہ کلامی اور نحوی ہے۔ اس کا مسئلہ “مقصود بعثت” ہے اور اس کا حصول ہے۔ قرآن مجید ہدایت ہے، جس کا ایک نصب العین ہے، اسے حاصل کرنے کا قرآن مجید واحد “طریقہ کار” یا لائحہ عمل یعنی ہدایت ہے۔
قرآن مجید کا علمی تجزیہ و تحلیل ممکن ہے، لیکن سوال یہ ہے کیا اس تجزیہ و تحلیل سے وہ مقصد حاصل کیا جا سکتا جس کے لئے قرآن مجید نازل کیا گیا ہے؟ یا کم از کم اس مقصد کے تعلق میں علمی تجزیہ و تحلیل کسی درجے میں معاون ہو سکتا ہے؟ ظاہر ہے، قرآن مجید کا علمی قد کاٹھ بیان کرنے سے نزول وحی کی غایت حاصل نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی قرآن مجید کا تاریخی پس منظر اور پیش منظر بیان کرنے سے یہ مقصد حاصل ہو سکتا ہے۔
قرآن مجید کے بیان کا اعجاز یہ ہے کہ وہ اپنے قاری یا سامع تک جو کچھ پہنچانا چاہتا ہے، غیرضروری تفصیل میں پڑے بغیر اس یقینیت اور حتمیت کے ساتھ بات بیان کرتا ہے کہ سننے والا اس مفہوم کو سمجھنے میں غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا۔
ماتن کا مقصود، آپ کا مقصود نہ ہو تو واضح ترین بیان میں بھی آپ ہزار باتیں ایسی نکال سکتے ہیں، جن سے ماتن کا شعور سو فیصد بری ہوتا ہے۔
مومن کا شعر ہے
دشنام یار طبع حزیں پر گراں نہیں
اے ہم نشین نزاکت آواز دیکھنا
جب آپ اصل بات کو نظرانداز کر کے آواز کی نزاکت پر متوجہ ہوں گے تو آواز کی نزاکت سے ہی لطف اندوز ہوتے رہیں گے۔ غامدی صاحب اور دیگر مفسرین قرآن مجید کے ساتھ یہی کر رہے ہیں۔ “نظم کلام” سے لے کر فصاحت و بلاغت تک ان کا بیان قرآن مجید کو منبع ہدایت نہیں رہنے دیتا بلکہ ایک ادبی شہ پارہ بنا دیتا ہے۔ قرآن مجید کو ایک “وحدت بیانی” ثابت کرنے پر جتنا زور انھوں نے صرف کیا ہے، قرآن مجید سے حصول ہدایت پر اس سے بہت کم بلکہ بہت ہی کم طاقت لگانی پڑتی ہے۔
غامدی صاحب کا یہ بیان کہ “صحیح علم تمرد و سرکشی سے نہیں بلکہ تواضع اور حق کی سچی محبت سے حاصل ہوتا ہے”۔ بہت اچھا اخلاقی قضیہ ہے۔ مگر حصول علم کی تمنا غالب ھو تو پھر سچ کو قبول کرنے کا داعیہ بہت مضبوط اور طاقت ور ہونا چاہئے۔ سچ کی محبت حصول علم کی شرط ہے تو سب سے پہلے علم تفسیر کا علمی و انتقادی جائزہ ضروری ہے۔
علمی لحاظ سے یہ سوال زیادہ اہم ہے کہ آیا قرآن مجید تفسیر کا محتاج ہے؟ اگر آپ یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ قرآن مجید تفسیر کا محتاج ہے تو پھر آپ کو حق پہنچتا ہے کہ تفاسیر کی استرداد کو تمرد و سرکشی قرار دیں۔ لیکن اگر آپ یہ نہیں کرتے اور مجھے یقین ہے آپ قیامت تک نہیں کر سکتے تو تفاسیر کے استرداد کو تمرد و سرکشی قرار دینے کے بجائے قرآن مجید کے بیان پر قناعت کو علمی رویہ سمجھیں اور اس قناعت کو ہی علم سمجھنے کی کوشش کریں۔
کتاب و سنت میں لفظ “سنت” کا مطلب وہ نہیں ہے جو “سنة اللہ” میں اس لفظ کا معنی ہے۔ کتاب و سنت میں الکتاب منزل من اللہ اخبار و احکام پر مشتمل ہے اور السنة “مناسک دین” کا نام ہے، “مناسک عبادت” کا نام ہے۔ کتاب و سنت دونوں منزل من اللہ ہیں، دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کے پہلے مکلف و مخاطب ہیں اور باقی ماندہ امت آنجناب علیہ السلام کی اطاعت و اتباع میں مکلف و مخاطب ہے۔ کتاب کی طرح سنت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجدید و تصویب سے دین نہیں بنی بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اسی طرح وحی ہوئی ہے جیسے قرآن نازل ہوا ہے۔ دونوں “نقل الكافة عن الكافة” ہیں، دونوں ایک دائمی استحضار کے ساتھ واقعاتی حقیقت ہیں۔ کتاب و سنت میں سے کوئی ایک بھی شے ایسی نہیں ہے جو “نقل الفرد المشخص عن الفرد المشخص” ہو۔
“سنة اللہ” بالکل مختلف شے ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے رسولوں کی وساطت سے انسان کو اخبار و احکام اور مناسک دین سیکھائے ہیں، یہ اللہ کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے۔ لیکن کتاب و سنت میں سنت “سنة اللہ” نہیں ہے۔ غامدی صاحب “سنة اللہ” اور کتاب و سنت میں لفظ “سنت” کو ایک شے سمجھتے ہیں جو یقینا غلط ہے۔ کتاب و سنت میں سنت وہ اعمال ہیں جنہیں اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح تعلیم فرمائے ہیں جیسے کتاب تعلیم فرمائی ہے۔
جس طرح “کتاب” کے منزل من اللہ ہونے، پر ایمان واجب ہے بالکل اسی طرح “سنت” کے منزل من اللہ ہونے، پر ایمان واجب ہے۔ غامدی صاحب “سنت” کو ایمانیات میں شامل نہیں کرتے۔ غالبا ان کے بیان کا مقصد یہ ہے کہ جن چیزوں پر ایمان لانا واجب ہے جیسے وجود باری تعالی، حیات بعد الموت وغیرہ ان میں “سنت” شامل نہیں ہے۔ یہ عجیب اور حیران کن موقف ہے، “سنت” جو “مناسک دین” ہیں، ان کا منکر دائرہ اسلام سے اسی طرح خارج ہے جیسے وجود باری تعالی کا منکر یا رسالت مآب علیہ السلام کی نبوت کا منکر کافر ہے۔ کتاب کی طرح “سنت بھی ایمانیات میں شامل ہے۔
قرآن مجید میں جو احکام آئے ہیں، ان کی دو قسمیں ہیں؛ ایک وہ احکام ہیں جن کی تعمیل معرف تھی۔ جیسے لاتقربوا الزنا، لاتاکلوا مال اليتيم، قولوا قولا سديدا، لاتسجدوا للشمس، اتقوا الله، وغیرہ۔ دوسرے وہ احکام ہیں جن “تعمیلی ہیئت” معرف نہیں تھی، ان کی تعمیلی ہیئت آسمان سے نازل کی گئی یا تعلیمی فرمائی گئی یعنی “منزل من اللہ” تھی ۔ جیسے الصلوۃ، الزکوة، الحج وغیرہ ہیں۔ قرآن مجید کے وہ احکام جن کی “تعمیلی ہیئت” منزل من اللہ ہے، وہ “سنت” ہیں۔ یہی وحی غیرمتلو بھی کہلاتے ہیں۔ “سنت” اعمال صرف وہی نہیں ہیں جن کا حکم قرآن مجید میں آیا ہے اور “تعمیلی ہیئت” اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے، اس کے سواء بھی دوسرے اعمال ہیں جن کا حکم قرآن مجید میں نازل نہیں ہوا، لیکن وہ خالص دینی اعمال ہیں جیسے تجہیز و تکفین وغیرہ۔ غامدی صاحب کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ “سنت” عمل کی شکل میں ہے۔ لیکن ان کا یہ موقف ناقابل فہم ہے کہ “سنت” دین ابراہیمی کی روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تجدید و تصویب فرمائی ہے۔ کیا الصلوۃ کی وہ ہیئت جو اس وقت مسلمانوں میں متعارف ہے، عرب یا قریش یا یہود و نصاری اس سے پہلے واقف تھے؟ جی نہیں، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی سے پہلے عرب اور غیرعرب دنیا میں کوئی شخص بھی ان اعمال کی اس ہیئت سے واقف نہیں تھا، جس کا اجراء نبوت کے بعد ہوا ہے۔ غامدی صاحب کی غلط فہمی کی اصل وجہ غالبا لفظ کی لغوی اور اصطلاحی مدلول کے فرق سے بے نیازی ہے۔ عرب کے لئے الصلوۃ، الزکوة اور الحج وغیرہ کا مفہوم کبھی مخفی نہ تھا۔ لیکن وہ اس لفظ کے اس مدلول سے کبھی باخبر نہ تھے جو آنجناب علیہ السلام کی نبوت میں آ کر ظاہر ہوا ہے۔
فقہ اور اصول فقہ میں “سنت” کا مفہوم و مدلول اور ہے، لیکن “کتاب و سنت” کی ترکیب میں “سنت” بالکل مختلف شے۔ احادیث “سنت” کا بیان نہیں ہیں، یہ سنت میں اختلاف کا بیان ہیں۔ چنانچہ حدیث سے “سنت” ثابت نہیں ہوتی اور نہ ہی “سنت” اور “حدیث” کا مفہوم و مدلول ایک ہے۔ “سنت” جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل نہیں ہے اسی طرح آنجناب علیہ السلام کی تجدید و تصویب سے بھی بے نیاز ہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ “سنت” آنجناب علیہ السلام پر واجب الایمان و العمل تھی۔
غامدی صاحب کے تصور سنت کی نسبت ہم اپنے تحفظات پیش کر چکے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے
لكل أمة جعلنا منسكا هم ناسكوه، فلا ينازعنك فى الأمر و أدع إلى ربك، انك لعلى هدى مستقيم. (الحج : ٦٧)
اس صراحت کے بعد بھی اگر کوئی “سنت” کو روایت سمجھتا ہے تو اس کے لئے دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں؛ کان ینزل جبریل بالسنة كما ينزل بالقران. سنت بالکل اتنا ہی یقینی ہے جتنا قرآن مجید یقینی ہے۔ سنت قرآن مجید سے مقدم ہے اور نہ موخر ہے بلکہ دونوں ساتھ ساتھ نازل ہوئے ہیں۔ قرآن مجید جس طرح نجما نجما نازل ہوا ہے، سنت بھی اسی طرح نازل ہوئی ہے۔
غامدی صاحب کی تحریر و تقریر سے جو تصور دین سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے؛ نبی صلی اللہ علیہ وسلم الوہی ہدایت کے ویسے محتاج نہیں ہیں جیسے دوسرے انسان ہیں اور نہ منزل من اللہ وحی کے ویسے مکلف و مخاطب ہیں جیسے امت ہے۔ حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس “منزل ہدایت” کے بالکل اسی طرح محتاج ہیں جس طرح انسان بحیثیت انسان محتاج ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس ہدایت کے ویسے مکلف و مخاطب ہیں جیسے نبی کی اطاعت و اتباع میں امت مکلف و مخاطب ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیاز “الوہی ہدایت” کی احتیاج سے استغناء میں نہیں ہے اور نہ ہی امت کی طرح الوہی ہدایت کے مکلف و مخاطب ہونے سے ان کا امتیاز ختم ہوتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیاز یہ ہے کہ آنجناب علیہ السلام اللہ کے رسول ہیں اور خود پر نازل ہونے والی وحی کے پہلے مکلف و مخاطب ہیں اور امت صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع میں اس کی مکلف و مخاطب ہے۔
غامدی صاحب صرف یہ نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منزل من اللہ وحی کے ویسے مکلف و مخاطب نہیں مانتے جیسے دوسرے انسان ہیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فوری مخاطبین کو بھی ویسا مکلف و مخاطب ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں جیسے باقی ماندہ امت ہے۔ نہیں بات صرف یہی پر ختم نہیں ہوتی، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فوری منکرین کو بھی مابعد کے منکرین نبوت سے ممتاز کرتے ہیں۔ اپنے اس خیال کی وجہ سے وہ قرآن مجید کو پیغمبر کی سرگذشت انذار کہتے ہوئے تردد نہیں کرتے۔
دین کی دعوت و تبلیغ کیا ہے؟ دعوت کا معنی بلانا ہے اور تبلیغ کا معنی پہنچانا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نبوت کو حق ماننے کی طرف لوگوں دعوت دیتے تھے اور اپنی نبوت ہی لوگوں تک پہنچاتے تھے۔ دعوت کے تعلق میں الداعی الی الحق تھے اور تبلیغ کے تعلق میں آپ مبلغ رسالات اللہ تھے۔ جس شے کی طرف آنجناب علیہ السلام دعوت دیتے تھے اسی کو لوگوں تک پہنچاتے تھے۔ جس شے کی دعوت دیتے تھے اور جس کو لوگوں تک پہنچاتے تھے، وہ ایک ہی شے تھی۔
امت کی ذمہ داری نبی کی اطاعت و اتباع ہے۔ امت نے اسی الوہی ہدایت کو حق ماننے کی دعوت دینی ہے اور اسی الوہی ہدایت کو بلا کم و کاست لوگوں تک پہنچانا ہے۔
غامدی صاحب کے نزدیک “تنزیل” کے حوالے پیغمبر کی دعوت، ذریت ابراہیم کی دعوت اور امت مسلمہ کے علماء کی دعوت ایک شے نہیں ہے۔ یعنی جس حقیقت کو قبول کرنے کے لئے لوگوں بلانا ہے یا پکارنا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ذریت ابراہیم علیہ السلام کی پکار ان کے بقول شہادت کے درجے پر پہنچتی ہے اور جہاں تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے علماء کی دعوت کا تعلق ہے تو وہ شہادت کے درجے کو نہیں پہنچ پاتی۔
غامدی صاحب کے اس تصور دین میں یہ تمام باتیں قرآن مجید سے قطعیت کے ساتھ ثابت ہیں۔ لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے علماء کی دعوت دین اس درجے پر قیامت فائز نہیں ہو سکتی جسے ان زبان “شہادت علی الحق” کہا جا سکتا ہے۔ پیغمبر کی دعوت اور ذریت ابراہیم علیہ السلام کی دعوت کا “مدعا” متعین ہے مگر شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد علماء کی دعوت کا مدعا متعین نہیں ہے یا وہ اس الوہی ہدایت کی طرف لوگوں پکار نہیں رہے، جس کی وجہ سے ان کی دعوت دین شہادت علی الحق” نہیں بن سکتی۔
ہماری معروضات یہ ہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ نے جو کچھ نازل فرمایا ہے، اس کی طرف لوگوں کو بلانا، “دعوت” کہلاتا ہے اور اس کو لوگوں تک پہنچانا “تبلیغ” کہلاتا ہے۔ اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو نازل فرمایا ہے، اس میں ابہام ہے اور نہ ایہام ہے۔ انسانوں کو اس کی طرف بلایا جائے یا اسے لوگوں تک پہنچایا جائے، ایک ہی بات ہے۔ دعوت دینے والا داعی اور ابلاغ کرنے والا مبلغ، اگر خود شہادت کے مرتبے پر فائز نہیں ہے تو داعی بن سکتا ہے اور نہ مبلغ ہونے کا اہل ہے۔
علماء کا انذار ان کا خانہ زاد انذار نہیں ہے اور نہ بشارت ان کی خانہ زاد ہے۔ انذار بھی منزل من اللہ ہے اور بشارت بھی منزل من اللہ ہے۔ انذار کے لئے موت کا منظر کارآمد ہے یہاں اور نہ بشارت کے لئے کسی درباری عالم کی شہوت خیز تقریر سودمند ہے۔ انذار بھی ما انزل اللہ علی نبیہ سے کرنا ہے اور بشارت بھی ما انزل اللہ علی نبیہ سے دینی ہے۔
ہر مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان بالغیب لایا ہے، مرتبہ شہادت پر فائز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار جس طرح کل کفر تھا آج بھی کفر ہے۔ نبوت کے محتویات سمجھنا اور سمجھانا، پزل حل کرنا نہیں ہے۔ امت کی ذمہ داری آج بھی وہی ہے جو آنجناب علیہ السلام کی تھی اور آنجناب علیہ السلام کے فوری متبعین کی تھی۔ قرآن بدلا ہے، نہ رسول بدلا ہے اور نہ ماننے والے اور نہ ماننے والے بدلے ہیں۔ وہی دعوت ہے، وہی تبلیغ ہے اور ایمان اور کفر کے وہی محتویات ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں تھے۔
نہ ستیزہ گاہ جہاں نئی، نہ حریف پنجہ فگن نئے
وہی فطرت اسد اللہی، وہی مرحبی، وہی عنتری
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)
حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں...