غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط اول)

Published On January 4, 2024
پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)

حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...

ڈاکٹر خضر یسین

یہ خالصتا علمی انتقادی معروضات ہیں۔ غامدی صاحب نے اپنی تحریر و تقریر میں جو بیان کیا ہے، اسے سامنے رکھتے ہوئے ہم اپنی معروضات پیش کر رہے ہیں۔ محترم غامدی صاحب کے موقف کو بیان کرنے میں یا سمجھنے میں غلطی ممکن ہے۔ غامدی صاحب کے متبعین سے توقع کرتا ہوں، غلطی بیانی یا غلط فہمی کی ضرور نشاندہی کریں گے۔

سب پہلے تصور “ماخذ دین” آتا ہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک دین کا واحد ماخذ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ “دین حق” وہی ہے جسے آنجناب علیہ السلام اپنے قول، فعل اور تقریر و تصویب دین قرار دیں۔

ہماری گزارش یہ ہے

“دین” کا ماخذ آنجناب علیہ السلام کی ذات گرامی نہیں ہے، آپ علیہ السلام کی ذات شریف “مہبط وحی” ہے۔ دین کا ماخذ “وحی خداوندی” ہے۔ آنجناب علیہ السلام اس وحی کے پہلے مکلف و مخاطب ہیں اور آنجناب کی اطاعت و اتباع میں آپ علیہ السلام کی امت اس کی مخاطب و مکلف ہے اور بالکل اسی طرح سے مکلف و مخاطب ہے جس آنجناب علیہ السلام خود ہیں۔ آنجناب علیہ السلام نے اپنے قول، فعل اور تقریر و تصویب سے دین نہیں بنایا۔ دین مکمل طور آنجناب علیہ السلام پر اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہوا ہے۔

“دین” کتاب و سنت پر مشتمل ہے اور کتاب و سنت دونوں یکساں منزل من اللہ ہیں۔ دونوں الامۃ من حیث الامۃ  کا “مجمع علیہ” ہیں۔ “دین” صحابہ کرام کا یا کسی خاص زمانی و مکانی گروہ کا “مجمع علیہ” نہیں ہے بلکہ الأ مة من حيث الأمة کا “مجمع علیہ” ہے اور “نقل الكافة عن الكافة” کے ذریعے قیامت تک ایک دائمی استحضار eternal presence کے طور پر موجود و مشھود invisibly existent حقیقت ہے۔

محترم غامدی صاحب کا خیال ہے؛ دین کتاب و سنت ہے۔ کتاب سے مراد قرآن مجید ہے اور “سنت” سے ان کی مراد، دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے؛ جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تجدید و اصلاح کے بعد اور بعض اضافوں کے ساتھ، اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔

ہماری معروضات

 کتاب سے متعلق غامدی کے دینی فکر کا جائزہ بعد میں لیا جائیگا۔ یہاں ہم ان کے تصور “سنت” کے متعلق کچھ کہنا چاھتے ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے؛ دین کی وضع و تشکیل میں آنجناب علیہ السلام کو قطعا دخل نہیں ہے۔ آپ علیہ السلام کسی حیثیت سے اپنے اختیارات یا اپنی صوابدید سے دین میں مداخلت نہیں فرما سکتے تھے۔ دوسری بات یہ ہے؛ آنجناب علیہ السلام کی ہستی میں محمد بن عبداللہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرق لایعنی ہے۔ نزول وحی کے بعد محمد بن عبداللہ والی کہانی ختم ہو جاتی ہے، نزول وحی کے بعد آپ علیہ السلام صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ رسالت صوابدیدی منصب نہیں ہے، تنزیلات ربانیہ کو بلا کم و کاست انسانوں کے سامنے پیش کر دینا ہے۔

“سنت” آنجناب علیہ السلام پر اسی طرح نازل ہوئی ہے جس طرح کتاب نازل ہوئی ہے۔ “سنت” منزل من اللہ، اعمال ہیں۔ انہیں مناسک دین بھی کہا جاتا ہے۔ جس طرح قرآن مجید ماقبل کتب سماوی سے ممتاز و منفرد ہے، اسی طرح آنجناب علیہ السلام پر نازل ہونے والی سنت/ مناسک عبادت بھی ممتاز و منفرد ہیں بلکہ ناسخ ہے۔ الصلوۃ کا لفظ اہل عرب کے نامانوس نہ تھا، لیکن اس کا وہ مدلول جو “نبوت محمدیہ” میں بتایا گیا ہے، عرب واقف تھے اس سے اور نہ غیرعرب واقف تھے۔

غامدی صاحب کے بیان سے یہ بات عیاں ہو رہی ہے جیسے “سنت” کی وضع و تشکیل میں آنجناب علیہ السلام کے صوابدیدی اختیارات اصل الاصول ہیں۔ ظاہر ہے یہ سو فیصد غلط موقف ہے۔ “دین” روایت نہیں ہے بلکہ “تنزیل” ہے۔ روایت اور تنزیل میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ روایت انسان سے انسان تک ہوتی ہے اور “تنزیل” اللہ تعالی سے انسان تک ہوتی ہے۔ دین ابراہیمی کی روایت کا یہ تصور نبوت کو نظریہ بنا دیتا ہے۔ حق یہ ہے؛ “نبوت” نہ نظریہ ہے اور نہ اسے نظریہ بنایا جا سکتا ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…