غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط اول)

Published On January 4, 2024
( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد پچھلی قسط کے اختتام پر لکھا گیا کہ ابھی یہ بحث پوری نہیں ہوئی، لیکن غامدی صاحب کے حلقے سے فوراً ہی جواب دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اگر جواب کی طرف لپکنے کے بجاے وہ کچھ صبر سے کام لیتے اور اگلی قسط پڑھ لیتے، تو ان حماقتوں میں مبتلا نہ ہوتے جن میں...

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حج اور جہاد کی فرضیت صرف اسی کےلیے ہوتی ہے جو استطاعت رکھتا ہو۔ بظاہر یہ بات درست محسوس ہوتی ہے، لیکن اس میں بہت ہی بنیادی نوعیت کی غلطی پائی جاتی ہے اور اس غلطی کا تعلق شرعی حکم تک پہنچنے کے طریقِ کار سے ہے۔ سب سے پہلے...

جہاد، قادیانی اور غامدی صاحب، اصل مرض کی تشخیص

جہاد، قادیانی اور غامدی صاحب، اصل مرض کی تشخیص

حسان بن علی بات محض حکمت عملی کے اختلاف کی نہیں کہ مسلمان فی الحال جنگ کو چھوڑ رکھیں بلکہ بات پورے ورلڈ ویو اور نظریے کی ہے کہ غامدی صاحب کی فکر میں مسلمانوں کی اجتماعی سیادت و بالادستی اساسا مفقود ہے (کہ خلافت کا تصور ان کے نزدیک زائد از اسلام تصور ہے)، اسى طرح...

مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟

مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟

ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عمر عزیز کا بیشتر حصہ قرآن مجید کی خدمت میں صرف ہوا ہے۔ لیکن یہ قرآن مجید کے بجائے عربی زبان و ادب کی خدمت تھی یا تخصیص سے بیان کیا جائے تو یہ قرآن مجید کے عربی اسلوب کی خدمت تھی۔ قرآن مجید کا انتخاب صرف اس لئے کیا گیا تھا کہ...

خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت

خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت

ڈاکٹرزاہد مغل علم کلام کے مباحث کو غیر ضروری کہنے اور دلیل حدوث پر اعتراض کرنے کے لئے جناب غامدی صاحب نے ایک ویڈیو ریکارڈ کرائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن سے متعلق دیگر علوم جیسے کہ اصول فقہ، فقہ و تفسیر وغیرہ کے برعکس علم کلام ناگزیر مسائل سے بحث نہیں کرتا اس لئے کہ...

غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب

غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب سے جہاد کی فرضیت کے متعلق علماے کرام کے فتوی کے بارے میں پوچھا گیا، تو انھوں نے تین صورتیں ذکر کیں:۔ایک یہ کہ جب کامیابی کا یقین ہو، تو جہاد یقینا واجب ہے؛دوسری یہ کہ جب جیتنے کا امکان ہو، تو بھی لڑنا واجب ہے اور یہ اللہ کی طرف سے نصرت...

ڈاکٹر خضر یسین

یہ خالصتا علمی انتقادی معروضات ہیں۔ غامدی صاحب نے اپنی تحریر و تقریر میں جو بیان کیا ہے، اسے سامنے رکھتے ہوئے ہم اپنی معروضات پیش کر رہے ہیں۔ محترم غامدی صاحب کے موقف کو بیان کرنے میں یا سمجھنے میں غلطی ممکن ہے۔ غامدی صاحب کے متبعین سے توقع کرتا ہوں، غلطی بیانی یا غلط فہمی کی ضرور نشاندہی کریں گے۔

سب پہلے تصور “ماخذ دین” آتا ہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک دین کا واحد ماخذ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ “دین حق” وہی ہے جسے آنجناب علیہ السلام اپنے قول، فعل اور تقریر و تصویب دین قرار دیں۔

ہماری گزارش یہ ہے

“دین” کا ماخذ آنجناب علیہ السلام کی ذات گرامی نہیں ہے، آپ علیہ السلام کی ذات شریف “مہبط وحی” ہے۔ دین کا ماخذ “وحی خداوندی” ہے۔ آنجناب علیہ السلام اس وحی کے پہلے مکلف و مخاطب ہیں اور آنجناب کی اطاعت و اتباع میں آپ علیہ السلام کی امت اس کی مخاطب و مکلف ہے اور بالکل اسی طرح سے مکلف و مخاطب ہے جس آنجناب علیہ السلام خود ہیں۔ آنجناب علیہ السلام نے اپنے قول، فعل اور تقریر و تصویب سے دین نہیں بنایا۔ دین مکمل طور آنجناب علیہ السلام پر اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہوا ہے۔

“دین” کتاب و سنت پر مشتمل ہے اور کتاب و سنت دونوں یکساں منزل من اللہ ہیں۔ دونوں الامۃ من حیث الامۃ  کا “مجمع علیہ” ہیں۔ “دین” صحابہ کرام کا یا کسی خاص زمانی و مکانی گروہ کا “مجمع علیہ” نہیں ہے بلکہ الأ مة من حيث الأمة کا “مجمع علیہ” ہے اور “نقل الكافة عن الكافة” کے ذریعے قیامت تک ایک دائمی استحضار eternal presence کے طور پر موجود و مشھود invisibly existent حقیقت ہے۔

محترم غامدی صاحب کا خیال ہے؛ دین کتاب و سنت ہے۔ کتاب سے مراد قرآن مجید ہے اور “سنت” سے ان کی مراد، دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے؛ جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تجدید و اصلاح کے بعد اور بعض اضافوں کے ساتھ، اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔

ہماری معروضات

 کتاب سے متعلق غامدی کے دینی فکر کا جائزہ بعد میں لیا جائیگا۔ یہاں ہم ان کے تصور “سنت” کے متعلق کچھ کہنا چاھتے ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے؛ دین کی وضع و تشکیل میں آنجناب علیہ السلام کو قطعا دخل نہیں ہے۔ آپ علیہ السلام کسی حیثیت سے اپنے اختیارات یا اپنی صوابدید سے دین میں مداخلت نہیں فرما سکتے تھے۔ دوسری بات یہ ہے؛ آنجناب علیہ السلام کی ہستی میں محمد بن عبداللہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرق لایعنی ہے۔ نزول وحی کے بعد محمد بن عبداللہ والی کہانی ختم ہو جاتی ہے، نزول وحی کے بعد آپ علیہ السلام صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ رسالت صوابدیدی منصب نہیں ہے، تنزیلات ربانیہ کو بلا کم و کاست انسانوں کے سامنے پیش کر دینا ہے۔

“سنت” آنجناب علیہ السلام پر اسی طرح نازل ہوئی ہے جس طرح کتاب نازل ہوئی ہے۔ “سنت” منزل من اللہ، اعمال ہیں۔ انہیں مناسک دین بھی کہا جاتا ہے۔ جس طرح قرآن مجید ماقبل کتب سماوی سے ممتاز و منفرد ہے، اسی طرح آنجناب علیہ السلام پر نازل ہونے والی سنت/ مناسک عبادت بھی ممتاز و منفرد ہیں بلکہ ناسخ ہے۔ الصلوۃ کا لفظ اہل عرب کے نامانوس نہ تھا، لیکن اس کا وہ مدلول جو “نبوت محمدیہ” میں بتایا گیا ہے، عرب واقف تھے اس سے اور نہ غیرعرب واقف تھے۔

غامدی صاحب کے بیان سے یہ بات عیاں ہو رہی ہے جیسے “سنت” کی وضع و تشکیل میں آنجناب علیہ السلام کے صوابدیدی اختیارات اصل الاصول ہیں۔ ظاہر ہے یہ سو فیصد غلط موقف ہے۔ “دین” روایت نہیں ہے بلکہ “تنزیل” ہے۔ روایت اور تنزیل میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ روایت انسان سے انسان تک ہوتی ہے اور “تنزیل” اللہ تعالی سے انسان تک ہوتی ہے۔ دین ابراہیمی کی روایت کا یہ تصور نبوت کو نظریہ بنا دیتا ہے۔ حق یہ ہے؛ “نبوت” نہ نظریہ ہے اور نہ اسے نظریہ بنایا جا سکتا ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…