ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عمر عزیز کا بیشتر حصہ قرآن مجید کی خدمت میں صرف ہوا ہے۔ لیکن یہ قرآن مجید کے بجائے عربی زبان و ادب کی خدمت تھی یا تخصیص سے بیان کیا جائے تو یہ قرآن مجید کے عربی اسلوب کی خدمت تھی۔ قرآن مجید کا انتخاب صرف اس لئے کیا گیا تھا کہ...
غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط ہفتم )
خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت
ڈاکٹرزاہد مغل علم کلام کے مباحث کو غیر ضروری کہنے اور دلیل حدوث پر اعتراض کرنے کے لئے جناب غامدی صاحب نے ایک ویڈیو ریکارڈ کرائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن سے متعلق دیگر علوم جیسے کہ اصول فقہ، فقہ و تفسیر وغیرہ کے برعکس علم کلام ناگزیر مسائل سے بحث نہیں کرتا اس لئے کہ...
غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب سے جہاد کی فرضیت کے متعلق علماے کرام کے فتوی کے بارے میں پوچھا گیا، تو انھوں نے تین صورتیں ذکر کیں:۔ایک یہ کہ جب کامیابی کا یقین ہو، تو جہاد یقینا واجب ہے؛دوسری یہ کہ جب جیتنے کا امکان ہو، تو بھی لڑنا واجب ہے اور یہ اللہ کی طرف سے نصرت...
غامدی صاحب کا ایک اور بے بنیاد دعویٰ
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد اپنی ملامت کا رخ مسلسل مسلمانوں کی طرف کرنے پر جب غامدی صاحب سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ ظالموں کے خلاف بات کیوں نہیں کرتے، تو فرماتے ہیں کہ میری مذمت سے کیا ہوتا ہے؟ اور پھر اپنے اس یک رخے پن کےلیے جواز تراشتے ہوئے انبیاے بنی اسرائیل کی مثال دیتے ہیں...
فکرِ فراہی کا سقم
ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عربی دانی کا انکار نہیں اور نہ روایتی علوم کی متداول تنقید میں ان جواب تھا۔ لیکن وہ تمام فکری تسامحات ان میں پوری قوت کے ساتھ موجود تھے جو روایتی مذہبی علوم اور ان کے ماہرین میں پائے جاتے ہیں۔ عربی زبان و بیان کے تناظر میں قرآن...
استفتاء اور فتوی سے اتنی وحشت کیوں؟
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد وہی ہوا جس کی توقع تھی! کل رات کچھ سوالات اہلِ علم کے سامنے رکھے، اور آج صبح بعض مخصوص حلقوں سے اس طرح کی چیخ و پکار شروع ہوگئی ہے: آپ غزہ کے متعلق دینی رہنمائی حاصل کرنے کےلیے سوالات کیوں پوچھ رہے ہیں؟ اسی طرح کے سوالات پر فتوی دیا گیا،...
مولانا صفی اللہ
مظاہر العلوم ، کوہاٹ
اقدامی جہاد اور عام اخلاقی دائرہ:۔
یہاں اس بات کا جائزہ لینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جہا د اقدامی اور اس سے متعلقہ احکامات عام اخلاقی دائرے سے باہر ہیں یا نہیں؟
خالق کا ئنات نے انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر پیدا کیا ہے واذ قال ربك للملائكة إني جاعل في الارض خلیفہ جس کا مقصد یہ ہے کہ انسان خود بھی اللہ تعالی کے احکامات پر کار بند رہے گا اور روئے زمین پر بھی اس کو نافذ کر دیگا۔ دنیا میں بھیجنے سے پہلے تمام انسانوں کی ارواح کو اللہ تعالی نے عالم ارواح میں جمع کیا اور ان سے اپنے ربوبیت اور احکامات کی پیروی کا عہد لیا۔ اس کے بعد ان کو زمین کی طرف بھیجا، جہاں انہیں طرح طرح کے انعامات سے نوازا، بے شمار نعمتیں دیں ، وسائل اور سہولیات مہیا کیں ، اس کے ساتھ ساتھ اس عہد کی یاد دہانی کے لیے مسلسل انبیاء اور رسول بھیجتے رہے، تا کہ مادیت میں ڈوبی ہوئی انسانیت کو اس کا عہد یاد دلایا جائے۔
اللہ تعالی نے خوب وضاحت کے ساتھ فرمایا ہے: ولقد كتبنا في الزبور من بعد الذكر ان الأرض يرثها عبادی الصالحوں کہ اس زمین کے مستحق افراد وہ ہیں جو اللہ کے احکامات کے پیر ونی کرتے ہوں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اس جہان میں باعزت طور پر رہنے کے قابل ہیں، جو لوگ شریعت کی اطاعت کا طوق گلے میں ڈال کر شاہراہ زندگی پر گامزن نہیں ہوتے ان کیلئے بس یہی صورت ہے کہ …..
۔1 ۔ ان کو یاد دہانی کرائی جائے ، اگر اسلام قبول کر لیں تو فبہا ورنہ
۔ 2 ۔ جزیہ دے کر محکومانہ اور ذلت کی زندگی اختیار کر لیں اس لیے کہ اتنے محسن پر وردگار کے احسان فراموش بندوں کو اس کی زمین پر اس کے احکامات کو روندتے ہوئے باعزت اور با اختیار زندگی بسر کرنے کی اجازت نہیں ، اگر اس پر بھی راضی نہیں تو پھر
۔ 3۔ اعلان جنگ ہے دوران جنگ سامنے آئے تو قتل کیا جائے ، اگر اس پر قابو پایا لیا جائے تو اختیار ہے اسے اسیر بنا کر غلام بنالے یا آزاد کر لے یا شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے جو بھی کاروائی اس کے ساتھ کرلے۔
یہ ہے اسلام کا فلسفہ جہاد، اس میں کوئی ایسی بات نہیں جو اخلاقی دائرے سے باہر ہو ۔ ہم اپنے گرد و پیش دیکھ سکتے ہیں کہ ایک شخص اپنا ایک گھر دوسرے کو رہائش کے لیے دے دیتا ہے، اس سے کرایہ وصول کرتا ہے نہ کوئی اور عوض ۔ بلکہ اپنی طرف سے مزید اس پر نوازشیں کرتا ہے، صرف اس سے اتنا کہہ دیتا ہے کہ اس گھر میں میری مرضی کے خلاف تصرف نہ کرنا لیکن یہ شخص بڑا احسان فراموش ثابت ہوتا ہے کہ مالک مکان کا کوئی حکم نہیں مانتا، گھر میں اس کی مرضی کے خلاف بے جا تصرف کرتا ہے، اور اپنے اہل و عیال کے ہمراہ خوب آرام کی زندگی گزارتا اور خرمستیاں کرتا ہے۔ وہ مالک مکان اس کو بار بار اس غیر اخلاقی سلوک پر متنبہ کرتا ہے، لیکن یہ ہے کہ اسے اس کا کوئی احساس ہی نہیں ، ایسی صورتحال میں مالک مکان اس پر اپنی نوازشیں بند کر دیتا ہے، اس کو بمع اہل و عیال اپنے گھر سے نکال کر دوسرے شخص کو یہ گھر دے دیتا ہے جو اس کا فرمانبردار ہو۔ کون ہے جو اس مالک مکان کی کاروائی کو غیر اخلاقی قرار دے یا کون اس کو ظالم کہتا ہے؟ یقینا کوئی بھی نہیں۔ تو کیا خالق کائنات کے انعامات اس سے کم ہیں؟ کیا اس نے ان غافل بندوں کو متنبہ کر تے کرتے اتمام حجت نہیں کیا ہے؟ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم تو اپنے لحاظ سے اس کا روائی کو غیر اخلاقی قرار نہیں دیتے لیکن اللہ تعالی اگر یہی حکم دے تو اس کو اخلاقی دائرے سے خارج گردانتے ہیں؟
جب کوئی گروہ ملک کے نظام کے خلاف بغاوت کا نعرہ بلند کرتا ہے ، اور اس کی رٹ چیلنج کرتا ہے، تو کیا اس زمین کے کسی بھی چپہ پر کوئی ملک یا کوئی تعلیم ایسی ہے جو ان کے بغاوت کو جرم نہیں کہتی ؟ اور ان کو زور پکڑنے کے لیے مزید مہلت دے؟ یا ان کے قتل کو غیر انسانی فعل قرار دے؟ نہیں اور یقینا نہیں تو کیا مالک ارض و سما کی شریعت و احکامات کی اتنی بھی وقعت نہیں کہ اس سے بغاوت کرنے والوں کے خلاف اقدام کو نا جائز کہا جائے؟
غنڈہ گردی، افراتفری فساد پھیلانے والے عناصر اور وہ تمام اسباب جو ریاست کو کمزور کھائیں اسکا خاتمہ ہر ملک چاہتا ہے اور اس کے خلاف مستعدی دکھاتا ہے، اور اسمیں کامیاب حکومت اچھی حکومت کہلاتی ہے۔ جب کہ اس عالم کی ویرانی ، اور ہستی کی نابودی کفر سے وابستہ ہے، تو کیا اس فساد کے خلاف مجرمانہ غفلت کا ارتکاب جائز ہے؟
اصل غلطی یہاں سے پیدا ہوتی ہے کہ غیر مسلموں سے دوران مکالمہ ہمارے بعض سکالر جونئی روشنی سے متاثر نظر آتے ہیں” کے بحث کا نقطہ آغاز احکامات اسلام ہوتے ہیں۔ غیر مسلم اس کی خامیاں بیان کرتے ہیں اور یہ دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اس انداز مباحثہ میں خامی یہ ہے کہ ٹھیٹھ اسلامی موقف پر قائم رہ کر وہ ان کو مطمئن نہیں کر سکتے ۔ اس لیے وہ ان احکامات میں نت نئی تاویلات کر کے ایسے دائرے میں لاتے ہیں جو اس کافر کے لیے باعث اطمینان ہو، اگر چہ یہ اس مفہوم کے مخالف ہو جواب تک علما اسلام سمجھتے چلے آئے ہیں، نیز اس انداز مباحثہ سے نہ ر کنے والے اعتراضات کا سلسلہ شروع ہو جائے گا اور دیگر احکامات پر یہی اعتراضات کرنے لگ جائیں گے۔ مثلاً نماز کے متعلق یہ اٹھک بیٹھک کیا ۔ ہے؟ کبھی چار دفعہ کبھی دو دفعہ، نہ مریض معاف نہ تندرست ،اسی طرح حج کہ عجیب و غریب ہیئت کے ساتھ مخصوص مقامات کی زیارت، اور اس کے عجیب عجیب احکامات ، ادھر آنا ادھر جانا پتھر مارنا یہ سب کیا چیزیں ہیں؟۔
اور سب سے بڑھ کر اسلام کا یہ حکم کہ ایک آدمی ساری عمر شراب کے نشے میں دھت ، حسیناؤں کی جھرمٹ میں محصور ، دوسروں کا حق مارنے والا اور بے گناہ لوگوں کا قاتل ہے، حرام وحلال کی اسے کوئی تمیز ہی نہیں لیکن صرف کلمہ لا الله الا الله محمد رسول الله صدق دل سے پڑھتا ہے، دوسری طرف شخص جو ساری عمر انسانیت کی ہمدردی میں گزارے، مظلوموں کی مدد کرتا ہے، اپنے خون پسینے کی کمائی کھاتا ہے لیکن محمد رسول اللہ کا اقرار نہیں کرتا ہے، اسلام کے نقطہ نظر سے پہلا شخص جنتی ہے اگر چہ دخول اولی نہ ہو اور دوسرا شخص جنت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہے۔
اگر یہی روش اپنائی جائے کہ ہر چیز کے لیے عام اخلاقی دائرہ ڈھونڈا جائے تو پھر جہاد کی بنسبت ان کا دفاع زیادہ مشکل ہو جائے گا۔
غور کیا جائے تو اقدامی جہاد اور اس کے اخلاقی جواز پر ہونے والے بحث ومباحثے کچھ نئے نہیں ، اور نہ یہ اعتراضات کوئی جدید ہیں، بلکہ عہد صحابہ میں روم و فارس کے ساتھ لڑی جانے والے جنگوں میں صحابہ کے ان کے ساتھ جو مکالمے ہوئے ان میں بھی ان کا یہی اعتراض تھا۔ وہ بھی اس اقدام کو وحشیانہ قراردے رہے تھے لیکن صحابہ ان اقدامات کو عقلی اور اخلاقی اعتبار سے جائز قرار دینے کے بجائے ، عقیدے سے بحث کا آغاز کرتے اور اس کی تبلیغ کرتے، اللہ تعالی کی وحدانیت، نبی صلی اللہ وسلم کی نبوت اور قرآن کی حقات ثابت کرتے ، اس کے بعد بتاتے کہ یہ ان کا حکم ہے۔ اگر ہم بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہی طریقہ اختیار کرتے کہ پہلے اللہ تعالی کی وحدانیت، نبی علیہ اسلام کی نبوت اور قرآن کی حقانیت جو ایسے نا قابل انکار دلائل سے ثابت ہیں اور جن کا کوئی توڑہی نہیں ثابت کرتے اور پھر ان کو صرف یہ بتاتے کہ یہ حکم اللہ اور اس کے رسول کا دیا ہوا ہے، اور اس کا ثبوت بھی موجود ہے تو ان سنگین تحریفات کا شکار نہ ہوتے۔ باقی اگر کوئی اپنی کج روی سے مطمئن نہ ہو سکے تو اس کے ہم ذمہ دار نہیں۔ حضرت تھانوئی اس انداز کے ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:۔
اگر شبہ کرنے والا مسلمان نہیں تب تو اس وجہ سے جواب لا حاصل ہے کہ کفار سے اصول میں گفتگو ہے، فروع میں تطویل کلام کیوں کیا جائے، اور اگر وہ مسلمان ہے تو اس کو اتنا جواب کافی ہے کہ دلیل شرعی سے جو امر ثابت ہے ہم کو اس کی لم کی تفتیش اور طبعیات ظنیہ بلکہ وہمیہ کے معارضات کا جواب و تطبیق ہم پر ضروری نہیں ۔ (امداد الفتاوی : ۶۱۲/۳)۔
علت جہاد:۔
جہاد کی علت معلوم کرنے سے پہلے چند مقدمات بطور تمہید ملاحظہ کرنا ضروری ہیں:۔
۔(1) احکام کے علل و اسباب کی ضرورت غیر منصوص اور اجتہادی احکام کے لیے پیش آتی ہیں۔ فقہاء کرام کسی باب کے منصوص مسائل پر غور و تمحیص کے بعد علت نکالتے ہیں جس سے مقصود یہی ہوتا ہے کہ اس باب میں در پیش آنے والے وہ تمام مسائل جن کا صراحتاذ کر نص میں نہیں ہے ، ان کا حل تلاش کیا جائے ۔
۔(۲) حکم منصوص کی علت نکالنے کی ضرورت نہیں ، ( مثال کے طور پر نماز فرض ہے، اس کی فرضیت کی علت کیا ہے، ہمیں اس کے لئے تگ ودو کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اور کوئی مستنبط علت اس کے مخالف ہو تو اس کو رد کرنا واجب ہے، چنانچہ فقہ کی کتب میں بکثرت ایسا ملتا ہے کہ ایک فقیہ اپنے فہم اور اجتہاد کی بنیاد پر کسی حکم سے علت مستقبط کرتا ہے، لیکن دوسرے فقیہ کو اس علت کے تقاضے کے خلاف منصوص جزئیہ ملتا ہے تو اس کو رد کرتا ہے۔
۔(۳) ہرشئی کے لیے ایک علت وجود یہ اور ایک علت غائیہ ہوتی ہے اور ان دونوں علتوں کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے اور آپس میں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثلا: تپائی کی علت وجود یہ (یعنی جس کی وجہ سے وجود میں آئی ) لکڑی ہے اور علت غائیہ یہ ہے کہ اس پر کتاب بسہولت رکھی جاسکے، چنانچہ (اگر لکڑی موجود نہ ہوتی تو تپائی بھی اس حالت میں وجود میں نہ آتی ، لیکن اب تپائی وجود میں آچکی ہے، اس کو وجود میں لانے کا جو مقصد تھا ، وہ حاصل ہو چکا ہے، لہذا اب جب تک کتا بیں رکھنے کے لئے مزید تپائیوں کی ضرورت پیش نہ آئے گی محض لکڑی کی دستیابی کی وجہ سے ہم تپائیاں بناتے نہیں چلے جائیں گے۔ لکڑیوں کو ترتیب دے کر تپائی تیار ہو جائے تو مقصد پورا ہو جاتا ہے ۔ اب اگر چہ لکڑی موجود ہے لیکن غایت پوری ہو چکی ہے اس لیے مز یہ تپائی بنانے کی ضرورت نہیں۔
۔(۴) جہاد کے اکثر احکامات منصوصی ہیں ، مثلا: اعلاء کلمۃ اللہ کی خاطر کفار سے لڑنا جہاد ہے، اور ان کو قتل کرنا جائز ہے چاہے جو بھی ہوں جس جگہ ہوں اور جس وقت ہوں لیکن ان سے چند مستثنیات ہیں: (1) دوران جنگ بچوں کو قتل نہیں کیا جائیگا ۔ (۲) عورتوں کو قتل نہیں کیا جائیگا ۔ (۳) بوڑھوں اور
راہبوں کے قتل سے احتراز کیا جائیگا۔ (۴) ذمیوں اور مستامنوں سے بھی تعرض نہیں کیا جائیگا۔ (۵) جزیرة العرب کے ماسوا کفار اگر جزیہ دے کر لڑائی سے احتراز کرنے پر آمادہ ہیں تو ان کا مطالبہ قابل قبول ہے۔ (۲) دوران جنگ اگر گرفتار ہو جائے تو قتل کیا جا سکتا ہے، غلام بنا جا سکتا ہے، فدیہ لے کر رہا بھی کیا جاسکتا ہے اور بلا فد یہ بھی رہا کیا جا سکتا ہے۔ (۷) مجاہدین اگر فساق ہوں تو بھی جہاد کا حکم باطل نہیں ہو گا وغیرہ ۔
لہذا کوئی مستنبط علت ان احکامات میں سے کسی کے خلاف ہوگی تو وہ علت مردود ہو گی۔
چونکہ جہاد کے اکثر احکامات منصوصی ہیں اس لیے فقہاء کرام کے ہاں اس کے علل وا سباب کی بحث بھی تنقیح کے ساتھ نہیں ملتی اور مختلف اقوال ملتے ہیں۔ بعض نے اس کی علت
کفر
بعض نے محاربہ کفر
بعض نے فساد
بعض نے شوکت کفر قرار دیا ہے، لیکن قرآن وحدیث اور فقہاء کرام کے کلام کی بالاستیعاب مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جہاد کی علت وجود یہ کفر اور علت غائیہ اعلاء کلمۃ اللہ و کسر شوکت الکفر ہے۔
اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ فقہاء کرام کے ہاں پایا جانے والا یہ اختلاف فقط لفظی ہے، حقیقی نہیں۔ بعض نے علت وجود یہ کو دیکھ کر نفس کفر کو علت قرار دیا ہے اور بعض نے علت غائیہ کو مد نظر رکھ کر شوکت کفر کو علت قرار دیا ہے اور بعض نے ان دونوں کو دیکھتے ہوئے ” محاربہ کفر علت قرار دیا ہے۔ بہر حال علت جو بھی ہوان کے احکامات میں سب کا اتفاق ہے کہ بچوں، بوڑھوں، معذور افراد اور عورتوں کا قتل جائز نہیں اور اگر جزیرۃ العرب کے ماسوا کفار جز یہ دے کر صلح کرنا چاہیں تو بھی درست ہے۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟
ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عمر عزیز کا بیشتر حصہ قرآن مجید...
غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب سے جہاد کی فرضیت کے متعلق علماے کرام کے...
غامدی صاحب کا ایک اور بے بنیاد دعویٰ
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد اپنی ملامت کا رخ مسلسل مسلمانوں کی طرف کرنے پر جب...