غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط پنجم )

Published On February 25, 2025
نظم، مراد،متکلم اور متن

نظم، مراد،متکلم اور متن

محمد حسنین اشرف   نظم:۔ پہلے نظم کی نوعیت پر بات کرتے ہیں کہ یہ کس نوعیت کی شے ہے۔ غامدی صاحب، میزان میں، اصلاحی صاحب کی بات کو نقل کرتے ہیں:۔ ۔" جو شخص نظم کی رہنمائی کے بغیر قرآن کو پڑھے گا، وہ زیادہ سے زیادہ جو حاصل کر سکے گا ، وہ کچھ منفرد احکام اور مفرد قسم...

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (3)

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (3)

مولانا مجیب الرحمن تیسری حدیث ، حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ:۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ۔ يكون في هذه الأمة بعث إلى السند والهند، فإن أنا أدركته، فاستشهدت فذلك وإن أنا رجعت وأنا أبو هريرة المحرر قد...

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (2)

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (2)

مولانا مجیب الرحمن دوسری حدیث ، حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ :۔ اس بارے میں دوسری حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس کی سند اور  راویوں پر غور فرمائیں ، امام نسائی فرماتے ہیں: أخبرنا أحمد بن عثمان بن حكيم، قال حدثنا ر كريا بن عدى، قال: حدثنا عبد الله من عمر...

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق

مولانا مجیب الرحمن غامدی صاحب کی ویب سائٹ پر موجود ایک کتاب کا مضمون بعنوان : غزوہ ہند کی کمزور اور غلط روایات کا جائزہ ایک ساتھی کے ذریعہ موصول ہوا ۔ بعد از مطالعہ یہ داعیہ پیدا ہوا کہ اس مضمون کو سامنے رکھ کر حدیث غزوہ ہند پر اپنے مطالعہ کی حد تک قارئین کے سامنے...

سرگذشت انذار کا مسئلہ

سرگذشت انذار کا مسئلہ

محمد حسنین اشرف فراہی مکتبہ فکر اگر کچھ چیزوں کو قبول کرلے تو شاید جس چیز کو ہم مسئلہ کہہ رہے ہیں وہ مسئلہ نہیں ہوگا لیکن چونکہ کچھ چیزوں پر بارہا اصرار کیا جاتا ہے اس لیے اسے "مسئلہ" کہنا موزوں ہوگا۔ بہرکیف، پہلا مسئلہ جو اس باب میں پیش آتا ہے وہ قاری کی ریڈنگ کا...

کیا مسئلہ “ربط الحادث بالقدیم” کا دین سے تعلق نہیں؟  غامدی صاحب کا حیرت انگیز جواب

کیا مسئلہ “ربط الحادث بالقدیم” کا دین سے تعلق نہیں؟ غامدی صاحب کا حیرت انگیز جواب

ڈاکٹر محمد زاہد مغل محترم غامدی صاحب سے جناب حسن شگری صاحب نے پروگرام میں سوال کیا کہ آپ وحدت الوجود پر نقد کرتے ہیں تو بتائیے آپ ربط الحادث بالقدیم کے مسئلے کو کیسے حل کرتے ہیں؟ اس کے جواب میں جو جواب دیا گیا وہ حیرت کی آخری حدوں کو چھونے والا تھا کہ اس سوال کا جواب...

مولانا صفی اللہ 

مظاہر العلوم ، کوہاٹ

احادیث اور غامدی صاحب کا تصور جہاد:۔

جہاں تک احادیث کا تعلق ہے تو کوئی بھی ایک حدیث ایسی پیش نہیں کر سکے جو اس بات کی تائید کرے کہ جہاد کے اہداف محدود ہیں اور اس مشن کے پیش نظر صرف روم اور فارس کی سلطنتیں ہیں ۔ تاہم ایک حدیث ایسی ہے جن کو یہ حضرات بڑی شدومد کے ساتھ پیش کرتے ہیں اور اس کو اپنے دلائل میں سر فہرست رکھتے ہیں، کہ نبی ﷺ نے فرمایا : دعوا الحبشة ما ودعوكم واتركوا الترك ما تركوكم ” جب تک اہل حبشہ تم سے تعرض نہ کریں تو تم بھی نہ کرنا اور جب تک اہل ترک تم سے گریز کرتے رہیں تو تم بھی کرنا ۔” ترک اور حبشہ پر قیاس کرتے ہوئے روم اور فارس کے علاوہ ممالک کے لیے بھی یہی حکم ثابت کرتے ہیں کہ ان کے خلاف اقدام جائز نہیں۔

لیکن اس حدیث سے کئی وجوہ کی بناء پر استدلال نہیں کیا جا سکتا:۔

۔1 ۔  پوری حدیث سے آپ ﷺکے ارشاد کا صحیح پس منظر سمجھ میں آجاتا ہے اور پوری حدیث یوں ہے:۔

لما أمر النبي كة بحفر الخندق عرضت لهم صخرة حالت بينهم وبين الحفر ، فقام رسول الله ﷺ واحد المعول ووضع رداء ، ناحية الخندق وقال : تمت كلمة ربك صدقاً وعدلا لا مبدل لكلماته وهو السميع العليم . فندر ثلث الحجر وسلمان الفارسي قائم ينظر فبرق مع ضربة رسول الله ﷺ برقة ، ثم ضرب الثانية وقال : تمت كلمة ربك صدقا وعدلا لا مبدل لكلماته وهو السميع العليم . فندر الثلث الآخر فبرقت برقة راها سلمان ثم ضرب الثالثة وقال: تمت كلمة ربك صدقا وعدلا لا مبدل لكلماته وهو السميع العليم. فندر الثلث الباقي و خرج رسول الله واحد رداء، وجلس مقال سلمان : يا رسول الله رأيتك حين ضربت ما تضرب ضربة الا كانت معها برقة قال رسول الله : يا سلمان ! رأيت ذلك ؟ فقال : اي والذي بعثك بالحق يا رسول الله ، قال : فاني حين ضربت الضربة الأولى رفعت لي مدائن کسری وماحولها ومدائن كثيرة حتى رأيتها بعيني – قال له من حضره من اصحابه: يا رسول الله ادع الله أن يفتحها علينا و يغنمنا ديارهم ويخرب بأيدينا بلادهم قدعا رسول الله ﷺ بذلك ثم ضربت الصرية الثانية فرفعت لى مدائن قيصر وما حولها حتى رأيتها بعيني – قالوا: يا رسول الله ادع الله أن يفتحها علينا و يعتمنا ديارهم ويخرب بأيدينا بلادهم فدعا رسول الله ﷺ بذلك . ثم ضربت الضربة الثالثة فرفعت لي مدائن الحبشة وما حولها من القرى حتى رأيتها بعيني قال رسول الله ﷺ عند ذلك: دعوا الحبشة ما و دعوكم واتركوا الترك ما تركوكم [سنن النسائي : ٣١٧٦]۔

جب نبی کریم ﷺ نے خندق کھودنے کا حکم دیا تو ایک جگہ چٹان آگئی جو خندق کھودنے میں رکاوٹ بن رہی تھی۔نبی کریم پہلے کھڑے ہوئے اور چادر کو خندق کے ایک کونے پر رکھ کر کدال ہاتھ میں لی اور (دار کرتے ہوئے ) یہ فرمایا ” “تیرے رب کا کلام سچائی اور عدل میں کامل ہے، کوئی بھی اس کو بدل سکنے والا نہیں اور وہ ہی خوب سننے والا اور جاننے والا ہے۔ تو چٹان کا ایک تہائی حصہ ٹوٹ گیا، سلمان فارسی کھڑے یہ منظر دیکھ رہے تھے کہ نبی کریم ﷺ کے وار سے ایک بجلی سی چمکی۔ پھر آپ ﷺ نے یہ کہتے ہوئے کہ تیرے رب کا کلام سچائی اور عدل میں کامل ہے، کوئی اس کے کلمات کو بدل سکنے والا نہیں اور وہ ہی خوب سنے والا اور اچھی طرح جاننے والا ہے ۔ دوسر اوار کیا، جس سے چٹان کا دوسرا تہائی حصہ ٹوٹ گیا، اس سے بھی ایک چمک سی اٹھی جس کو سلمان نے دیکھا۔ اس کے بعد پھر آپ نے یہی آیت دہراتے ہوئے تیسرا وار کیا جس سے چٹان کا باقی حصہ بھی ٹوٹ گیا۔ نبی کریم ﷺ اپنی چادر لے کر تشریف فرما ہوئے ۔ سلمان فارسی کہنے لگے : اے اللہ کے رسول ! یہ کیا بات ہے کہ آپ جب بھی دار کرتے مجھے اس کے ساتھ ایک چمک سی نظر آتی تھی؟ آپ نے فرمایا: سلمان ! واقعی تم نے یہ دیکھا؟ سلمان نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے میں نے یہ دیکھا ہے، اس پر آپ علیہ السلام نے فرمایا: جب میں نے پہلا وار کیا تو میرے سامنے سلطنت کسری کے شہر، اس کے ارد گرد کے علاقے اور دیگر بہت سارے شہر اٹھائے گئے حتی کہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھا ۔ ” حاضر صحابہ کہنے لگے کہ اللہ کے رسول ! اللہ سے دعا کیجئے کہ ہمیں ان پر فتح نصیب فرمائیں اور ہمیں یہ غنیمت میں ملیں اور ان کے گھروں کو ہم اپنے ہاتھوں سے ویران کر دیں ، آپ نے  ان کے لئے یہ دعا فرمائی ۔جب  میں نے دوسرا وار کیا تو میرے سامنے قیصر کے تمام شہر اور اس کے ارد گرد کے علاقے اٹھائے گئے یہاں تک کہ میں نے ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ صحابہ نے پھر وہی درخواست کی اور آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی ۔ جب میں نے تیسر ا وار کیا تو میرے سامنے حبشہ کے تمام شہر اور اس کے ارد گرد کی بستیاں اٹھائی گئیں حتی کہ میں نے ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اس موقع نبی کریم ﷺ نے یہ ارشادفرمایا: جب تک اہل حبشہ تم سے تعرض نہ کریں تو تم بھی نہ کرنا اور جب تک اہل ترک تم سے گریز کرتے رہیں تو تم بھی کرتے رہنا ۔

اس حدیث کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصہ میں اسلام کے عالمگیر فتوحات سلطنت کسری ، اس کے اردگرد علاقے اور ان کے علاوہ دیگر بہت سارے شہر پھر سلطنت روم اور اس کے ارد گرد کے علاقے حتی کہ حبشہ کا بھی اس میں صراحتا ذ کر ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام کا یہ مشن کوئی محدود اہداف نہیں رکھتا بلکہ اس کے پیش نظر تمام عالم ہے۔ حدیث کے دوسرے حصہ میں ابتداء ترک اور حبشہ پر فوج کشی سے منع کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے بظاہر جزء اول سے تعارض نظر آرہا ہے۔ لیکن در حقیقت کوئی تعارض نہیں اس لیے کہ ما ترکو کم اور ما و دعوا کم کا اسلوب بتاتا ہے کہ یہ حکم جوازی ہے اور آنحضرت ﷺ نے یہ حکم بطور مشورہ دیا ہے اس لیے یہ کہنا کہ یہ دونوں علاقے مسلمانوں کے عالمگیر مشن کے پیش نظر نہیں تھے ، قطعاً غلط ہے۔

تاہم بجا طور پر یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے خصوصیت کے ساتھ جیش اور ترک کے خلاف اقدام نہ کرنے کا مشورہ کیوں دیا ؟ شاہ جیش پر اقدام نہ کرنے کی وجہ اس کا صحابہ کے ساتھ حسن سلوک، اسلام کی قبولیت اور اپنے سلطنت میں اسلام کے لیے راہ ہموار کرنے کی تگ و دو تھی ، اس کی دلیل شاہ جیش کا وہ قول ہے جو انہوں نے صلح حدیبیہ کے بعد آنحضرت ﷺ کے خط لانے والے صحابی عمرو بن امیہ سے کہا تھا: عمرو ! بخدا میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ خدا کے وہی برگزیدہ پیغمبر ہیں جن کی آمد کا ہم اور یہود انتظار کرتے رہے ہیں۔ بے شک جس طرح حضرت موسی نے حضرت عیسی کی بشارت دی تھی ٹھیک اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام نے حضرت محمد ﷺ کی بشارت دی ہے، دونوں میں سر موفرق نہیں ہے۔ اس بارے میں میرے لیے خبر اور مشاہدہ دونوں برابر ہیں مگر اہل حبشہ میں میرے حامی اور مددگار بہت کم ہیں، اس لیے مجھے اتنی مہلت دو کہ میں اپنی قوم میں کافی مددگار پیدا کرلوں اور اہل جبش کے اسلام قبول کرنے کے لیے راہ ہموار ہو جائے ۔ مکتوبات نبوی: ۱۰۸ ، مصنف: مولانا سید محبوب رضوی بحوالہ طبقات ابن سعد : ۳ – ۱۵]۔

اس کی تائید سنن سعید بن منصور ( رقم الحدیث: ۲۳۰۳) اور ابوعبیدہ کے کتاب الاموال ( رقم الحدیث 56 ) میں سعد بن مینب کی مرسل روایت سے بھی ہوتی ہے:۔

۔”واما امر المحاشي : فأمر من كان عنده من اصحاب رسول الله ﷺ فارسل اليه بكتابه فقال رسول الله ﷺ : اتركوهم ما تركوكم “۔

رہا نجاشی کا معاملہ تو اس نے اپنے ہاں موجود تمام صحابہ کو بلایا اور آپ ﷺ کی طرف خط بھیجا ، تو آپ نےفرمایا جب تک وہ تم سے گریز کرتے رہیں تم بھی ان سے گریز کرو۔”۔

اس سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ جبش پر اقدام نہ کرنے کا قول ان کے حسن سلوک اور اسلام لانے کی امید کے تناظر میں فرمایا گیا ہے۔

رہی ترک کی تخصیص تو اس کی وجہ یہ حدیث بیان کرتی ہے:۔

” إن الترك تحلى العرب حتى تلحقها بمنابت الشيخ – فتح الباري: ۳۱۴/۷)

ترک اہل عرب کو شکست دے کر منابت الشیخ کے مقام تک پسپا کر دیں گے۔”۔

نیز مسند احمد میں ہے:

” إن امتى يسوقها قوم عراض الوجوه كأن وجوههم الحجف ثلاث مرار حتى يلحقوهم بجزيرة العرب ….. قالوا: يا نبي الله من هم ؟ قال : هم الترك (مسند احمد : ۲۳۳۳۹)۔

میری امت کو ڈھال کی مانند چوڑے چہروں والی قوم تین مرتبہ دھکیل کر جزیرۃ العرب تک پہنچائے گی۔ صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی ا یہ کون لوگ ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: یہ ترک ہوں گے ۔”۔

محض اس فتنے کے پیش نظر آپ ﷺنے ترک کے خلاف اقدام نہ کرنے  کامشورہ دیا ، یا ، چنانچہ حضرت معاویہ سے صراحتا منقول ہے کہ انہوں نے صرف ان جیسی احادیث کی بناء پر ترک کے خلاف کارروائی نا پسند یدہ سمجھی ۔ افتح الباری: ۱۳۱۴۷۷ ۔

غزوہ احد اگر سامنے رہے تو یہ توجیہ بالکل اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے کہ وہاں نبی کو یہ معلوم ہو گیا تھا کہ مدینہ سے باہر نکل کر اقدام کرنے کی صورت میں مسلمانوں کا قتل عام ہو گا اس لیے آپ نے مدینے میں رہ کر لڑنے کا مشورہ دیا، لیکن بعض صحابہ کا اصرار با ہرلڑنے کا تھا اس لیے آپ نے ان کی رائے قبول فرمائی ، اسی طرح یہاں اس خدشہ کے پیش نظر ان کے خلاف اقدام نہ کرنے کا مشورہ دیا تا کہ وہ اقدام نہ کرلیں، لیکن مسلمان ان علاقوں پر ہمیشہ اقدام کرتے چلے آئے ہیں۔ چنانچہ ملاعلی قاری لکھتے ہیں:۔

حاصل الكلام ان الأمر في الحديث للرخصة والاباحة لا للوجوب ابتداء أيضاً، فان المسلمين قد حاربوا الترك والحبشة بادين ، والى لا يخلو زمان عن ذلك ، وقد أعز الله هله فيما هنا لك [ المرقاة : ٣٢١/٩)۔

حاصلِ کلا م یہ ہے کہ حدیث میں ترک اقدام کا حکم رخصت اور اباحت کے لیے ہے، وجوب کے لیے نہیں۔ اس لیے مسلمانوں نے ترک اور حبشہ کیخلاف جنگ کی ابتداء کی تھی ۔ اور اب تک یہی اقدامی جہاد چلا آرہا ہے۔ اب تو اللہ تعالی نے ان علاقوں میں اسلام اور اہل اسلام کو عزت بخشی ہے۔”۔

اس پوری بحث سے یہ ثابت ہوا کہ اس حدیث سے ترک اور جیش کے خلاف اقدام کی ممانعت تو ہے، مگر یہ ممانعت امر شفقت کے طور پر اور کسی وقتی حکمت کی بناء پر ہے نہ کہ تشریعی وجوبی حکم کے طور پر ۔ لہذا اس پر قیاس کر کے دوسرے ممالک کی طرف یہ حکم متعدی نہیں کیا جا سکتا۔

۔2 ۔  اقتلوا المشركين حيث وجدتموهم سے اقدام کا عموم ثابت ہوتا ہے اور اس حدیث سے خصوص ، جبکہ سند کے لحاظ سے ہم اس کو زیادہ سے زیادہ حسن کہہ سکتے ہیں اس کے بر خلاف آیت عموم میں قطعی ہے۔ کیسے ایک قطعی امر کو نظر انداز کر کے اس پر ایک ظنی اور محتمل کو تر جیح دی جائے ۔؟؟۔

۔3 ۔  اس کے برعکس کئی روایات ایسی ہیں جن میں روم و فارس کے علاوہ ترک وغیرہ کے ساتھ جہاد کا تذکرہ ملتا ہے۔

مثلاً حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے:

لا تقوم الساعة حتى تقاتلو | الترك صغار الأعين حمر الوجوه ذلف الأنوف ، كأن وجوههم المجان المطرقة ولا تقوم الساعة حتى تقاتلوا قوما نعالهم الشعر [ رواه البخاري ، ۲۹۲۸]۔

قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ تم ترکوں سے نہ لڑو ، چھوٹی آنکھوں، سرخ چہرے، چپٹی ناک والے ہیں گویا کہ ان کے چہرے تہہ بہ تہ ڈھال ہیں اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک ایسے قوم سے نہ لڑوجن کے جوتے بالوں کے ہوں گے ۔”

نسائی باب غزوۃ الہند میں حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے:۔

وعدنا رسول الله ﷺ غزوة الهند ، فان ادركتها انفق فيها نفسی و مالی فان اقتل كنت من افضل الشهداء ، وان رجعت فانا ابو هريرة المحرر . [ أخرجه النسائي ٣١٧٥]۔

رسول اللہ اللہ نے ہم سے ہندوستان کی لڑائی کا تذکرہ کیا ہے، اگر میں نے اس کا زمانہ پایا تو اپنا جان و مال اس میں خرچ کروں گا۔ پھر اگر میں اس میں قتل کیا گیا تو افضل ترین شہداء میں سے ہوں گا اور اگر زندہ لوٹ آیا تو میں گناہوں سے دھلا ہوا ابو ہریرہ ہوں گا ۔”۔

نسائی ہی کی ایک دوسری روایت ہے:

عصابتان من امتى حررهما الله من النار : عصابة تغزو الهند ، وعصابة تكون مع عيسى ابن مریم – [۳۱۷۷]۔

میری امت میں دو گروہ ایسے ہیں جن کو اللہ تعالی نے جہنم کی آگ سے نجات دلائی ہے ، ایک گروہ وہ ہے جو ہند کی جنگ لڑے گا اور دوسرا وہ گروہ جو عیسی بن مریم کے ہمراہ ہو گا۔”۔

ایک اور روایت میں ہے:۔

انه سيكون بعدى بحوث فكن في بعث خراسان ثم كن في بلدة يقال لها . اسكن منتها فانه بناها ذو القرنين ودعا لها بالبركة ، وقال : لا يصيب اهلها سواد رواه الدارقطني في الأفراد : ٤١٧٩]۔

میرے بعد متعد د شکر ہوں گے تو آپ خراسان کے لشکر میں شامل ہونا پھر اس کے شہر مروہ جانا اور اس میں رہائش اختیار کرنا ۔ اس لیے اس شہر کو ذوالقرنین نے بنایا اور برکت کی دعا دی ہے اور کہا ہے کہ اس کے باشندوں کو ذلت اور رسوائی نہیں پہنچے گی۔

ان احادیث سے یہ بات بالکل صاف ہو جاتی ہے کہ اترک الترک والی حدیث سے نہ ترک کے خلاف اقدام کی ممانعت ثا ت ہوتی ہے اور نہ اس پر دیگر ممالک کو قیاس کیا جا سکتا ہے۔

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…