غامدی صاحب کا تصورِ جہاد ( قسط ششم )

Published On February 25, 2025
استفتاء اور فتوی سے اتنی وحشت کیوں؟

استفتاء اور فتوی سے اتنی وحشت کیوں؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد   وہی ہوا جس کی توقع تھی! کل رات کچھ سوالات اہلِ علم کے سامنے رکھے، اور آج صبح بعض مخصوص حلقوں سے اس طرح کی چیخ و پکار شروع ہوگئی ہے: آپ غزہ کے متعلق دینی رہنمائی حاصل کرنے کےلیے سوالات کیوں پوچھ رہے ہیں؟ اسی طرح کے سوالات پر فتوی دیا گیا،...

نائن الیون اور ماڈریٹ اسلام

نائن الیون اور ماڈریٹ اسلام

احمد الیاس نائین الیون کے بعد امریکہ نے کئی مسلمان ملکوں کی حکومتوں کے ساتھ مل کر 'ماڈریٹ اسلام' کے پروجیکٹس شروع کیے۔ برنارڈ لوئیس، جان ایسپسیٹو جیسے مستشرقین اور 'اسلام ایکسپرٹس' کی رہنمائی بھی اس حوالے سے وائٹ ہاؤس کو حاصل تھی۔ پاکستان میں بھی مشرف رجیم کی معاونت...

اہل غزہ کے خلاف بے بنیاد فتوی

اہل غزہ کے خلاف بے بنیاد فتوی

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد اس”فتویٰ“ میں سورۃ الانفال کی آیت 72 سے کیا گیا استدلال بالکل ہی غلط ہے۔ پہلے یہ آیت پوری پڑھ لیجیے (اس آیت کا اور نیچے دی گئی تمام آیات کا ترجمہ مولانا امین احسن اصلاحی کا ہے):۔إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَٰهَدُواْ بِأَمۡوَٰلِهِمۡ...

طاقت کا کھیل ہے : ایسے ہی ہوتا ہے

طاقت کا کھیل ہے : ایسے ہی ہوتا ہے

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد یہ غامدی صاحب اور ان کے متاثرین کے مرغوب جملے ہیں اور یہ بالکل ہی غلط ہیں، ہر لحاظ سے غلط ہیں اور یکسر غلط ہیں۔یہ بات مان لی جائے، تو نہ شریعت اور قانون کے تمام احکام معطل ہوجاتے ہیں اور ان کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ انسانوں کی صدیوں کی کوششیں...

خودکشی اور شہادت کا فرق

خودکشی اور شہادت کا فرق

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد ایک تو فقہائے کرام اس لحاظ سے فرق کرتے ہیں کہ موت کس کے فعل سے واقع ہوئی ہے؟ اگر موت ایسے فعل سے واقع ہوئی ہے جس کی نسبت دشمن کی طرف ہوتی ہے (بفعل مضاف الی العدو)، تو یہ شہادت ہے؛ اور اگر یہ اسی شخص کے فعل سے واقع ہوئی ہے، تو اگر یہ فعل سہواً ہوا...

غامدی صاحب کا الہ اور قرآن

غامدی صاحب کا الہ اور قرآن

ڈاکٹر زاہد مغل محترم غامدی صاحب اہل تصوف کی فکر کو خارج از اسلام دکھانے کے لئے یہ تاثر قائم کرواتے ہیں کہ توحید سے متعلق ان کے افکار قرآن میں مذکور نہیں۔ اپنے مضمون "اسلام اور تصوف" میں آپ الہ کا یہ مطلب لکھتے ہیں: " ’الٰہ‘ کا لفظ عربی زبان میں اُس ہستی کے لیے بولا...

مولانا صفی اللہ 

مظاہر العلوم ، کوہاٹ 

اقدامات صحابہ اور غامدی صاحب کا تصور جہاد:۔

قرآن وحدیث کے بعد اگلا مقدمہ یہ قائم کرتے ہیں کہ صحابہ کے جنگی اقدامات کے جغرافیائی  اہداف محدود اور متعین تھے اور وہ جہاد اور فتوحات کے دائرے کو وسیع کرنے کی بجائے محدود رکھنے کے خواہش مند تھے۔ اس پر صحابہ کرام کے دور کے چند واقعات استدلال میں پیش کرنے کے بعد ( جس کا جائزہ ہم آ کے چل کر لیں گے ) یہ حاصل پیش کرتے ہیں:۔

 جہاد سے ان ( صحابہ ) کا مقصد اسلامی سلطنت کی غیر محدود توسیع نہ تھی بلکہ ان کا ہدف صرف رومی اور فارسی سلطنتیں تھیں ۔

رومی اور فارسی سلطنتوں  کے خلاف  اجازت حاصل ہونے کے باوجود وہ ان  علاقوں پر قبضہ کرنا نہیں چاہتے تھے بلکہ ان کے پیش نظر اصلاً صرف شام اور عراق کے علاقے تھے اور ان سے آگے بڑھنا نہیں چاہتے تھے۔

ان علاقوں کو فتح کرنے کے بعد جنگ روکنے کا فیصلہ وقتی حالات کے تحت نہیں تھا بلکہ وہ چاہتے تھے کہ کوئی ایسی رکاوٹ درمیان میں حائل ہو جائے کہ نہ دشمن کی فوجیں مسلمانوں کی صرف آسکیں اور نہ مسلمان ان تک پہنچ سکیں ۔ [ جہاد ایک مطالعہ ص: ۱۸۴]۔

صحابہ کرام کے جنگی اقدامات سے اپنی نظریے کی تائید حاصل کرنے کے لیے جو طویل بحث کی گئی ہے اور اس میں جن اقتباسات کا سہارا لیا گیا ہے وہ تین قسم پر ہیں:۔

۔1 ۔ بعض اقتباسات ایسے ہیں جن کا اس بحث سے سرے سے تعلق ہی نہیں ۔ مثلا حضرت ابو بکر صدیق کا یہ قول جو انہوں نے خالد بن ولید کو ہدایات دیتے ہوئے کہا:۔

جب تم اونچے پہاڑ والے بڑے شہر انطاکیہ پہنچ جاؤ تو رومیوں کا بادشاہ وہیں ہے ۔ اگر وہ تم سے جزیہ دے کر صلح کرنا چاہے تو اس سے صلح کر ، اگر وہ لڑائی پر آمادہ ہے تو اس سے لڑ۔ مجھ سے خط د کتابت کے بغیر پہاڑوں اور دروں میں داخل نہ ہونا ۔ جہاد ایک مطالعہ (۱۷۲)

یا مثال کے طور پر یہ اقتباس:۔

یزید بن ابی سفیان کو معاویہ نے دمشق کے ساحلی علاقوں کی طرف بھیجا لیکن طرابلس ان میں شامل نہیں تھا کیونکہ وہ اسے فتح کرنے کی خواہش نہیں رکھتے تھے ۔ “ ( ایضا : ۱۷۳)۔

اسی طرح یہ اقتباس:۔

حضرت عمر یہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کے لیے ایک شہر آباد کریں۔ مسلمانوں نے بحرین کی جانب سے توج اور بند جان اور طامان پر حملہ کیا تھا۔ جب انہوں نے ان علاقوں کو فتح کر لیا تو امیر المؤمنین کو لکھا کہ ہمیں طاسان میں شہر بسانے کے لیے ایک مناسب جگہ مل گئی ہے ۔ امیر المؤمنین نے جواب میں لکھا کہ میرے اور تمہارے درمیان دجلہ حائل ہے اور میں کسی ایسی جگہ شہر بسانا نہیں چاہتا جس کے اور میر ے درمیان دجلہ حائل ہو ۔ ( ایضاً : ۱۷۶]۔

۔ 2 ۔  بعض اقتباسات ایسے ہیں جن میں اس بات کی تصریح ہے کہ پیش قدمی روکنے اور آگے بڑھنے سے ممانعت صرف ایک وقتی مصلحت کی بناء پر ہے، دائمی بنیادوں پر نہیں۔

مثلاً حضرت عمر نے فارس سے آنےوالے ایک قاصد سے کرمان کے بارے میں دریافت کیا  تو  انہوں نے ان الفاظ میں اس کا تعارف کرایا: وہ ایسی سرزمین ہے جس کے میدان پہاڑوں کی طرح دشوار گزار ، پانی بہت تھوڑا کھجور  بالکل ردی اور دشمن بڑا بہادر ہے۔ وہاں خیر بہت کم اور شر بہت پھیلا ہوا ہے، بہت بڑی تعداد بھی وہاں کم پڑ جائے گی جبکہ تھوڑی تعداد تو بالکل نا کارہ ثابت ہوگی اور اس سے آگے علاقہ اس سے بھی بدتر ہے۔ یہ سن کر حضرت عمر نے کہا کہ آپ لفظی تک بندی کر رہے ہو یا ٹھیک ٹھیک حالات بتا رہے ہو؟ قاصد نے کہا با لکل سچ بتا رہا ہوں ۔ اس پر حضرت عمر نے کہا: لا ، والله لا يغزوها جيش لي ما اطعت ” بخدا جب تک میرا حکم مانا جاتا ہے میرا کوئی لشکر بھی وہاں لڑنے کے لیے نہیں جائے گا۔”۔

یہاں اس بات کی صراحت ہے کہ حضرت عمر نے ان علاقوں میں پیش قدمی صرف اس وجہ سے رو کی کہ وہاں لڑنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں جبکہ فوج زیادہ تعداد میں مصروف رہے گی ۔ لا يغزوها جيش لي ما اطعت کی تعبیر بھی یہی بتاتا ہے کہ یہ ان کی ذاتی رائے ہے اور مصلحت کی بنا پر تھی ، اس سے کوئی مستقل تشریحی نظر یہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔

اسی طرح سعد بن ابی وقاص کو جب فتوحات حاصل ہوئیں تو حضرت عمرؓ نے انہیں مزید پیش قدمی سے روک دیا، سعد نے اسے خلافی مصلحت سمجھ کر دوبارہ درخواست کی لیکن حضرت عمر نے انہیں اجازت نہیں دی۔ جہاد: ایک مطالعہ: ۱۷۴) ۔

یہ واقعہ بھی اس کی واضح دلیل ہے کہ یہ ممانعت صرف وقتی مصلحت کی بناء پر تھی، کوئی تشریعی حکم نہ تھا۔ ورنہ اتنا اہم حکم اور حضرت سعد جیسے صحابی کی اس سے نا واقفیت ! پھر صرف سعد ہی نہیں بلکہ وہ تمام سپہ سالار اور ان کے لشکر میں موجود صحابہ جن کو حضرت عمر نے پیش قدمی سے منع کیا یا جنہیں پیش قدمی کرنے پر ڈانٹ پلائی ( جہاد: ایک مطالعہ (۱۸۴)۔

 ان سب کا اس حکم سے نا واقف ہونا یا واقف ہوتے ہوئے خلاف شریعت امر کے ارتکاب پر رضا مندی اور خاموشی بالکل سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے۔

مسلمانوں کے جہادی مشن کا مقصد صرف ملک گیری نہیں ، بلکہ اصل مقصد اللہ کی سرزمین پر اللہ کا نظام قائم کرنا اور اس کے باشندوں کو عدل و انصاف فراہم کرنا ہے، اگر فتوحات کا دائرہ وسیع کیا جائے اور مفتوحہ علاقوں پر تسلط مضبوط نہ ہو تو یہ کوئی ہوشمندی نہیں ۔ حضرت عمر کے اپنے گورنروں کے نام وہ خطوط جن میں ان کو پیش قدمی کرنے سے روکا ہے اسی تناظر میں بھیجے گئے تھے۔

 احنف بن قیس کی طرف بھیجا گیا خط اس ہوش مندی اور بصیرت کی عکاسی کرتا ہے:۔

احفظ ما بيدک من بلاد خراسان [ البداية والنهاية: ۱۲۷/۷]۔

یعنی اس مفتوحہ علاقے کا کنٹرول سنبھالو اور اس کی حفاظت کرو۔

حافظ ابن کثیر نے اس اور اس جیسے حضرت عمر کے دیگر اقوال کے متعلق وضاحت کے ساتھ یہ بات بیان فرمائی ہے:۔

” والمقصود : أن عمر كان يحجر على المسلمين أن يتوسعوا في بلاد العجم خوفاً عليهم من العجم | البداية والنهاية: جلد ۷، صفحه نمبر : ۱۰۱ طبع احياء التراث )

مطلب یہ کہ عمر نے اہل عجم سے خوف کے باعث مسلمانوں کو اس سے روکے رکھا کہ وہ بلاد عجم میں اپنی فتوحات کا دائرہ وسیع کریں ۔”۔

عراق کے لیے جب لشکر تیار کیا تو اس پر امیر ابو عبید کو مقرر کیا اور سلیط کو مقرر نہ کرنے کی وجہ یہ بیان فرمائی: ۔

“ولم يمتعنى أن أؤمر سليطا الاسرعته إلى الحرب ، وفي التسرع إلى الحرب ضياع الأعراب، فانه لا يصلحها الا الرجل المكيث . [ الكامل : ۴۰۱/۲]

میں نے سلیط کو صرف اس وجہ سے امیر نہیں بنایا کہ وہ جنگ کی طرف جلد بازی کرتا ہے اور جنگ کے لیے تیزی اعراب کا ضیاع ہے۔ اس کی اصلاح صرف اور صرف جلد بازی نہ کرنے والا شخص کر سکتا ہے۔”۔

خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہونے ، فوج کی زیادہ تعداد میں مصروفیت اور دشمن کی طرف سے فوری خطرہ نہ ہونے کے باعث دوسری طرف رخ کرنا ، حضرت عمرؓ کی وہ حکمت عملی  ہے جو آنحضرت ﷺ نے غزوہ طائف کے موقع پر اختیار کی تھی، اور اس سے استدلال کرنا ایسا ہے جیسا کہ ڈوبتا ہوا شخص تنکے کا سہارالیتا ہے۔

 ۔ 3 ۔  بعض اقتباسات ایسے ہیں ( اور وہ بھی بہت کم ہیں ) جو مکمل ہیں۔ مثلاً حضرت عمر کا یہ قول :۔

میری خواہش ہے کہ سواد اور جبل کے علاقے کے درمیان کوئی ایسی رکاوٹ کھڑی ہو جائے جس کو عبور کرکے  وہ ہماری طرف آسکیں اور نہ ہم ان کی طرف جاسکیں ۔ ان شاداب خطوں میں سے ہمارے لیے ۔۔۔۔ ہی کافی ہے۔ مجھے مال غنیمت کے مقابلے میں مسلمانوں کی جان زیادہ عزیز ہے۔”۔

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:۔

۔”ہم اہل بصرہ کے لیے سواد اور اہواز کا علاقہ کافی ہے۔ کاش ہمارے اور فارس کے درمیان آگ کا کوئی پہاڑ ہوتا نہ وہ ہم تک پہنچ پاتے اور نہ ہم ان تک پہنچ پاتے ۔ اسی طرح آپ نے اہل کوفہ کے بارے میں کہا تھا کہ کاش ان کے اور جبل کے علاقے کے مابین آگ کا کوئی پہاڑ ہوتا نہ وہ اس طرف آسکتے نہ ہم ادھر جا سکتے ۔ جہاد، ایک مطالعہ : ۱۷۲۰۱۷۵]۔

یہ اقتباسات اگر چہ بظاہر اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ پیش قدمی کی روک تھام مستقل بنیادوں پر ہو لیکن اس معنی پر ان کو محمول کرنا کئی وجوہ سے درست نہیں بنتا۔

۔ 1 ۔  قرآن وحدیث کی سابقہ نصوص کے بعد اب ان تاریخی روایات کی ان کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں۔

۔ 2 ۔  یہ تعبیر محض مبالغہ پر محمول ہے۔ حقیقت میں اس جنگ بندی کی علت وہی ہے کہ غنیمت  کے مقابلے میں مسلمانوں کی جان عزیز ہونا۔ اس لیے کہ مسلسل لڑتے ہوئے اگر چہ مسلمانوں کو بہت سی فتوحات حاصل ہوئی تھیں لیکن کافی تعداد میں مسلمان شہید بھی ہو چکے تھے اور معذور بھی ۔ جب کفر کی کمر ہی ٹوٹ  جائے ، ان کی شوکت وقوت پارہ پارہ ہو جائے  تو ایسے علاقوں پر اقدام جہاں کفر سے منظم ہونے کا خطرہ ہے نہ ہی ان کی کوئی جغرافیائی اہمیت ہے، بہر حال مؤخر سمجھا جائے گا اور اس کے مقابلے میں مفتو حہ علاقوں کا نظم وضبط اور جنگ سے تباہ حال علاقوں کی تعمیر نو کوترجیح دی جائے گی ۔ یہ بھی   قدامی جہاد کے نظام کا ایک حصہ ہے۔ چنانچہ احنف بن قیس نے جب خراسان کی فتح کی خبر حضرت عمر کے پا س بھیجی تو انہوں نے یہی کہا کہ کاش ہمارے اور ان کے درمیان آگ کا دریا ہوتا کاش میں وہاں فوج نہ بھیجتا ۔ پاس حضرت علی بیٹھے تھے انہوں نے اس کی وجہ دریافت کی ، آپ نے فرمایا لأن أهلها سينقضون منها ثلاث مرات ، فيحتاجون في الثالثة. فكان ذلك بأهلها حد إلى من أن يكون بالمسلمين [ الكامل ۲۸/۳]۔

اس لیے کہ اس کے باشندوں کو تین مرتبہ گزند پہنچے گا اور تیسرے مرتبہ ان کو بالکل جڑ سے خت، کردیا جائے گا۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ مسلمانوں کی بجائے اس کے باشندوں پر پڑے۔”۔

اس سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ عمر نے یہ بات ایک مصلحت کی بناء پر کہی تھی اس سے یہ ہر گز مقصد نہیں لیا جا سکتا کہ جہاد کے اہداف محدود ہیں۔

ان عبارات سے استدلال اشارة النص کے طور پر ہے جبکہ اس کے برعکس صحابہ کے ایسے اقوال موجود ہیں جو جہاد کے عموم و دوام پر عبارة النص ہیں اور ایسے اقدامات موجود ہے جو اقدامی جہاد کے عموم اور دوام کے لیے بین ثبوت ہیں ۔

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…