مولانا صفی اللہ
مظاہر العلوم ، کوہاٹ
منصب رسالت اور اس پر متفرع احکام کا قرآن وسنت کی روشنی میں جائزہ: ۔
۔1 ۔ منصب رسالت اور نبوت میں یہ تفریق کوئی قطعی بات نہیں ، اس سے اختلاف کی گنجائش ہے اور ہوا بھی ہے اور یہ رائے زیادہ وزنی بھی نہیں ۔ اس کی بنیاد پر قرآنی آیات و اذكر في الكتاب اسماعيل انه كان صادق الوعدو کان رسولا نبیا اور اضرب لھم مثلا اصحاب القرية اذجاء ها المرسلون جیسی آیات کی توجیہ مشکل نظر آتی ہے، اس لیے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں : رسول اور نبی کے مفہوم میں عموم و خصوص من وجہ ہے ، رسول وہ ہے جو مخاطبین کو شریعت جدیدہ پہنچائے ، خواہ وہ شریعت خود اس کے اعتبار سے جدید ہو ، جیسے تو راہ یا صرف اس امت کے اعتبار سے جدید ہو جیسے اسماعیل علیہ السلام کی شریعت ، شریعت ابراہیمیہ بنو جرہم کے اعتبار سے جدید تھی ۔ اس معنی کے اعتبار سے رسول کے لیے نبی ہونا ضروری نہیں ، جیسے فرشتے یا حضرت عیسی علیہ السلام کے قاصد اذجاءها المرسلون ۔ اور نبی وہ ہے جو صاحب وحی ہو، خواہ شریعت جدیدہ کی تبلیغ کرے یا شریعت قدیمہ، جیسے اکثر انبیاء بنی اسرائیل – بیان القرآن ص: 11بتصرف)۔
۔2۔ نیز رسول کا اپنی امت کے حق میں فیصلہ کر کے جانا اور بہر حال غالب آنا دونوں باتیں محل اشکال ہیں۔ اس لیے کہ کئی رسول ایسے گزرے ہیں کہ جنہوں نے مخاطبین تک خدا کا پیغام پورا پورا پہنچایا اور بھر پورانداز سے ان کو تبلیغ کی اس کے باوجود وہ نہیں مانے ، بلکہ بعض تو ان کے در پے آزار ہوئے لیکن ان کی امتوں پر ان کی موجودگی میں کسی قسم کا عذاب نہیں آیا۔ مثلا ابراہیم علیہ السلام اور عیسی علیہ السلام۔
حافظ ابن تیمیہ لکھتے ہیں:۔
فصل: ومن آياته نصر الرسل على قومهم : وهذا على وجهين ، تاره يكون باهلا الأمم وانحاء الرسل وأتباعهم ، كقوم نوح ، وهود ، وصالح ، وشعيب ، ولوط ، و موسى، ولهذا يقرن الله بين القصص في سورة الأعراف وهود والشعراء ، ولا يذكر معها قصة ابراهيم؛ وانما ذكر قصة ابراهيم في سورة الأنبياء و مريم والعنكبوت والصافات، فان هذه السور لم يقتصر فيها على ذكر من أهلك من الأمم ……. الله تعالى لم يذكر قط عن قوم ابراهيم أنهم أهلكو كما ذكر عن غيرهم ، بل ذكر أنهم ألقوه في النار فجعلها الله بردا وسلاما وأرادو به كيدا فجعلهم الله الأسفلين الأخسرين. الوجه الثاني: اظهار برهان النبي بالحجة والعلم والقدرة وفي هذا ظهور برهانه وآيته وأنه أظهر عليهم بالحجة والعلم…. [ النبوات : ۲۰۵ و ما بعدها ] ۔
فصل: اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی رسولوں کی ان کی قوم کے مقابلے میں مدد کرنا ہے اور یہ دو طریقوں سے ہوتا ہے۔ کبھی امتوں کی ہلاکت اور رسولوں اور ان کی پیروی کرنے والوں کو نجات دلانے کی صورت میں، جیسے: نوح، ہود، صالح، شعیب، لوط اور موسی علیہم السلام کی اقوام ۔ اس لیے اللہ تعالی ان امتوں کے واقعات سورہ اعراف ، ہود اور شعراء میں ایک ساتھ ذکر کرتے ہیں اور ابراہیم کا قصہ ان کے ساتھ ذکر نہیں کرتے، بلکہ ابراہیم کا قصہ سورۃ انبیاء ، مریم ، عنکبوت اور صافات میں ہے، اس لیے کہ ان سورتوں میں اللہ تعالی نے ہلاک شدہ امتوں کے تذکرہ پر اکتفاء نہیں کیا ہے۔ اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ کی قوم کے متعلق کہیں یہ ذکر نہیں کیا کہ انہیں ہلاک کر دیا گیا جیسے دیگر امتوں کے متعلق بتایا ہے ، بلکہ صرف یہ بتایا ہے کہ ان کو آگ میں ڈالا گیا تو اللہ تعالی نے اس کو ٹھنڈا اور سلامتی والا بنادیا اور قوم نے ان کے خلاف سازشیں کیں اللہ تعالی نے انہیں ناکام و نا مراد بنا دیا۔ (انبیاء کی مدد کا دوسرا طریقہ : انبیاء کی مدد حجت ، علم اور قدرت کے ذریعے ) اس طریقہ میں نبی کی دلیل و معجزے کا اظہار اور اس دلیل اور علم کی بدولت نبی کا قوم پر غلبہ ہوتا ہے ۔
منثور میں بحوالہ ابن ابي حاتم “انا لننصر رسلنا والذين امنوا في الحیوة الدنیا “کی تفسیر امام سدی سے یہ منقول ہے:۔
لم يبعث الله رسولا إلى قومه فيقتلونه أو قوما من المؤمنين فيدعون إلى الحق فيقتلون، فيذهب ذلك القرن حتى يبعث الله اليهم من ينصرهم فيطلب بدمائهم ممن فعل ذلك بهم في الدنيا وهم منصورون فيها . [ الدر المنثور: ۲۹۳/۷ ]
اللہ تعالی جب کسی قوم کی طرف رسول بھیجتے ہیں یا کسی مؤمن قوم کو ان کی طرف مبعوث کرتے ہیں وہ ان کو حق کی طرف بلاتے ہیں اور اس کے پاداش میں انہیں قتل کر دیا جاتا ہے، جب یہ صدی گزر جانی ہے تو اللہ ان کی طرف ان انبیاء اور مؤمنین کے مددگار بھیجتے ہیں اور ان کے قاتلوں سے قصاص طلب کرتے ہیں۔ اللہ کی مدد ایسے لوگوں کے شامل حال رہتی ہے ۔”
شہادت علی الناس اور اس پر متفرع احکامات کا قرآن وسنت کی روشنی میں جائزہ: ۔
اسی طرح شہادت علی الناس کی مذکورہ تشریح نصوص کے خلاف ہے ۔ جس کو ہم صرف تفسیر بالرائی موافق للہوئی سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ احادیث کے ذخیرے میں شہادت علی الناس بطور منصب جو ذکر آیا ہے اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:
قیامت کے دن اللہ تعالی مختلف انبیاء اور ان کی امتوں کو بلائیں گے، پہلے انبیاء سے پوچھیں گے کہ انہوں نے اپنی امتوں کو اللہ کا پیغام پہنچایا ہے یا نہیں ؟ انبیاء جوابا عرض کریں گے کہ ہم نے ان کو پہنچایا ہے۔ اس کے بعد ان کی امتوں سے پوچھا جائے گا تو وہ ان انبیاء کی تکذیب کریں گے۔ اب اللہ تعالی انبیاء سے گواہ طلب کریں گے تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت کو بطور گواہ پیش کریں گے۔ یہ امت انبیاء کے حق میں گواہی دے گی اور نبی ﷺ اپنی امت کے حق میں گواہی دیں گے۔ یہی وہ منصب ہے جو اس پوری امت کو خصوصی طور پر عطاء کیا جائے گا اور قرآن میں شہادت علی الناس سے یہی مراد ہے۔“
رواه البخاري رقم الحديث : ۳۳۳۹، ۳۳۸۷، ۷۳۳۹، والترمذي: ۲۹۶۱، والنسائي في السنن الكبرى: ۱۱۰۰۷، وابن ماجه : ٤٢٨٤ واحمد: ۱۱۵۷۵، و این حریر فی تفسیره: ۲۱۷۹، و ابن ابی حاتم : ۱۳۲۵]۔
بلکہ ابی بن کعب کے قراءت میں اسکی تصریح بھی ہے۔ لتكونو شهداء على الناس يو م القيامه – تفسير ابن حاتم رقم (۱۳۳۵)۔
مزید یہ ہے کہ یہ منصب بھی صحابہ کرام کے ساتھ مختص نہیں، بلکہ پوری امت کے لیے ہے۔ اس لیے کہ لتكونو شهداء على الناس ثمرہ ہے أمة وسطاكا، اور امة وسطا کی تفسیر حضرت ابن عمر سے أمة محمد صلى الله عليه و سلم جميعا منقول ہے۔ (الدر المنثور : ۱۴۴/۱]۔
در منشور کی ایک روایت ہے:۔
” اعطيت هذه الأمة ثلاث خصال لم يعطيها إلا الانبياء كان النبي يقال له : بلغ ولا حرج وأنت شهيد على قومك ، وادع أحبك، وقال لهذه الأمة ما جعل عليكم في الدين من حرج . وقال التكونوا شهداء على الناس ، وقال: ادعوني استجب لكم (الدر المنثور: ۱۳۳/۱]۔
اس امت کو تین ایسے شرف عطاء کیے گئے ہیں کہ سوائے انبیاء کے کسی اور کو عطا نہیں کیے گئے۔ پہلے نبی کو یہ کہا جاتا تھا کہ آپ اللہ کے احکامات کی تبلیغ کیجیے اور آپ پر کسی قسم کی تنگی نہیں کی گئی، آپ اپنے قوم پر گواہ ہیں ، آپ دعا مانگیں میں قبول کروں گا، اور اس امت کو بھی کہا گیا کہ تم پر دین میں تنگی نہیں رکھی گئی ہے، تم لوگوں پر گواہ ہو، تم دعا مانگو میں قبول کروں گا ۔
تفسیر طبری کی روایت ہے، جس کی سند میں ایک مجہول راوی بھی ہے لیکن اسے بطور تائید پیش کیا جا سکتا ہے: ۔
أنا و أمتى لعلى كوم يوم القيامة مشرفين على الخلائق ، ما أحد من الأمم الا ود أنه منا أيتها الأمة، وما من نبى كذبه قومه الا ونحن شهداؤه يوم القيامة أنه قد بلغ رسالات ربه ونصح لهم. [تفسير الطبري: ۲۱۸۳]۔
میں اور میری امت قیامت کے روز ایک بلند ٹیلے سے لوگوں پر نگاہ کیسے ہوئے جلوہ افروز ہوں گے۔ ہر امت یہی چاہے گی کہ وہ اس عظیم امت میں سے ہوتے ۔ جس نبی کو بھی اس کی قوم نے جھٹلایا ہو ہم اس کے لیے قیامت کے دن گواہ ہوں گے کہ انہوں نے اللہ کا پیغام پہنچایا ہے اور لوگوں سے خیر خواہی کی ہے۔
حضرت زید بن اسلم سے منقول ہے:۔
ان الأمم يقولون يوم القيامة والله لقد كانت هذه الأمة أن تكون انبياء كلهم لما يرون أعطاهم الله . [تفسير الطبري: ۳۱۹۴]۔
دیگر امتیں قیامت کے دن اس امت کی وہ فضیلتیں دیکھیں گی جو اللہ نے اس امت کو عطاء کی ہیں تو کہیں گی: خدا کی قسم ! قریب تھا کہ یہ ساری امت انبیاء ہوتے ۔”۔
اس پوری تفصیل سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ شہادت علی الناس کی نہ وہ تشریح ہے جو غامدی مکتبہ فکر کے ہاں رائج ہے اور نہ یہ منصب صرف صحابہ کے ساتھ مختص ہے۔ لہذا اس پر جو احکامات متفرع ہیں وہ بھی بناء الفاسد علی الفاسد کے قبیل سے ہیں۔