مولانا صفی اللہ
مظاہر العلوم ، کوہاٹ
اسلام کا جنگی نظام ” جہاد ” عرصہ دراز سے مخالفین اسلام کے طعن و تشنیع اور اعتراضات کا ہدف رہا ہے۔ علماء امت ہر زمانے میں اس کے جوابات بھی دیتے رہے ہیں لیکن ماضی قریب میں جب سے برقی ایجادات عام ہو ئیں ، پرنٹ میڈیا اور انٹرنیٹ پوری دنیا پر چھا گیا ، جس نے ساری دنیا کو ایک دوسرے سے ملادیا اس کے بعد اس سلسلے میں مزید تیزی آئی ہے اور بڑی شدت سے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے: ” ایک کافر سلطنت جہاں رعایا کو ہر قسم کے حقوق ملتے ہیں ۔ عدل وانصاف بھی اس میں عام ہے۔ مسلمانوں کو بھی یکساں حقوق دیئے جاتے ہیں ۔ مذہب اسلام کی تبلیغ اور مسلمانوں کو مذہبی رسومات ادا کرنے پر بھی کوئی پابندی نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں اس ملک پر دھاوا بولنا، اس کو تخت و تاراج کرنا ، اس کے کافر باشندوں کے سامنے اسلام، جز یہ یا قتل کا مطالبہ پیش کرنا نیز بصورت جزیہ ان کو جملہ حقوق میں ایک مسلمان کے جیسی حیثیت نہ دینا یہ کون سا اخلاقی درجہ ہے؟ یہ اسلام کا کیسا حکم ہے؟ یہ کیسا جہاد ہے؟“
فرق صرف تعبیر کا ہے سوال وہی دہرایا جا رہا ہے جو کئی سو سال پہلے کیا گیا تھا ۔لیکن پہلے مسلمان ایک فاتح قوم کی حیثیت رکھتے تھے اور کم از کم ذہنی طور پر غلام نہ تھے اس لئے انہوں نے ڈٹ کر جوابات دیئے۔ آج جب مسلمان ایک مفتوح قوم بن گئے ہیں یا کم از کم ذہنی غلام ہیں تو اس کا لازمی اثر یہ سامنے آیا کہ معترضین کو مطمئن کرنے کی خاطر معذرت خواہانہ بلکہ اس سے بڑھ کر محر فانہ رویہ اپنایا گیا۔ جس کے چند نمونے پیش خدمت ہیں۔
۔1 ۔ کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ اسلام میں جہاد صرف دفاعی نوعیت کا ہے ۔ اقدام سرے سے ہے ہی نہیں ۔ عہد نبوی علی صاحبہا الصلوۃ والسلام اور دور صحابہ کی تمام جنگیں صرف دفاعی تھیں، بعد میں اگر مسلمانوں نے کہیں اقدام کیا ہے تو وہ ان کا ذاتی فعل تھا اسے اسلام کے سر نہیں تھو پا جا سکتا۔
۔2۔کچھ حضرت کے ہاں اگر چہ اسلام میں اقدام کی اجازت ہے، لیکن اس معنی میں نہیں جو آج تک فقہاء سمجھتے چلے آرہے ہیں اور نہ ہی اس اطلاق کے ساتھ ، بلکہ اس کے لئے چند شرائط اور قیود ہیں۔ جن کا حاصل یہ ہے کہ اقدام اس وقت درست ہو گا جب کفر محاربہ کا مرتکب ہواور ظلم اور فتنہ انگیزی کے ساتھ ساتھ اسلام کے خلاف پنجہ آزمائی کے لئے آمادہ ہو ۔
مذکورہ دونوں مواقف پر غور کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان میں اختلاف لفظی ہے، چنانچہ موقف اول کے قائل بعض بزرگوں نے ان غزوات ، جن سے صراحت سےاقدام کا ثبوت ملتا ہے ، کی یہی تاویل کی ہے۔ لیکن یہ دونوں موقف اب قصہ پارینہ بن چکے ہیں ۔ قرآن، حدیث اور ناقابل انکار تاریخی شواہد کے سامنے اب ان میں سنجیدہ علمی مقاومت کی تاب نہیں۔ ان کی تردید میں اب اتنا لٹریچر موجود ہے کہ اس میں مزید اضافہ کرنا عبث معلوم ہوتا ہے۔
۔3۔ اب ایک تیسرا نظریہ جنم لے رہا ہے جس کی داغ بیل حمید الدین فراہی صاحب نے ڈالی تھی ، امین اصلاحی صاحب نے اس کی آبیاری کی اور جناب جاوید احمد غامدی اور ان کے احباب نے اس کو پروان چڑھایا ۔یہ نظریہ دو زمانوں کے درمیان تفریق پر مبنی ہے۔ ایک زمانہ نبی کریم ﷺ اور انکے اصحاب کا ہے اور ایک زمانہ ان کے بعد کا۔ ان کے نزدیک پہلے زمانے میں جہاد اپنی دونوں نو عیتوں: اقدامی اور دفاعی کے ساتھ مشروع رہا ہے اور جزیہ وغیرہ کے احکامات بھی اسی زمانے کے ساتھ خاص ہیں ۔ لیکن دوسرے زمانے میں اس کی وہ حیثیت ختم ہو گئی ہے اور جہاد صرف ایک ہی قسم ” مدافعانہ قتال ” کی صورت میں باقی ہے۔ چنانچہ اسی مکتب فکر کے ایک نامور قلمکار جناب عمار خان صاحب ، غامدی صاحب کے اس موضوع پر ان کے مختلف تحریرات کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
۔”چنانچہ اسلامی تاریخ کے صدر اول میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیروکاروں کے ہاتھوں جزیرہ عرب اور روم و فارس کی سلطنتوں پر دین حق کا غلبہ قائم ہو جانے کے بعد غلبہ دین کے لئے جہاد و قتال کے حکم کی مدت خود بخود ختم ہو چکی ہے۔ یہ شریعت کا کوئی ابدی اور آفاقی حکم نہیں تھا اور نہ اس کا ہدف پوری دنیا پر تلوار کے سائے میں دین کا غلبہ اور حاکمیت قائم کرنا تھا۔ اس کے بعد قیامت تک کے لیے جہاد و قتال کا اقدام، دین کے معاملے میں عدم اکراہ اور غیر محارب کفار کے ساتھ جنگ سے گریز ان عمومی اخلاقی اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی کیا جائے گا جو قرآن کے نصوص میں مذکور ہے۔ [ جہاد: ایک مطالعہ (۲۰۳)۔
خود جناب جاوید احمد غامدی لکھتے ہیں:
لہٰذا یہ بالکل قطعی ہے کہ منکرین حق کے خلاف جنگ اور اس کے نتیجے میں مفتوحین پر جز یہ عائد کر کے انہیں محکوم اور زیر دست بنا کر اس پر جزیہ عائد کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا ہے۔ مسلمانوں کے قتال کی ایک ہی صورت باقی رہ گئی ہے۔ اور وہ ظلم اور عددان کے خلاف جنگ ہے۔ اللہ کی راہ میں قتال اب یہی ہے۔ اس کے سوا کسی مقصد کے لیے بھی دین کے نام پر جنگ نہیں کی جاسکتی ۔ میزان ، ص :۱۰۶) ۔
اسلام اور اس کے احکامات کو دائمی اور آفاقی تسلیم کرنے والے اور پیغمبر اسلام اور اس کی تعلیمات کو عمومی قرار دینے والے کے سامنے جب یہ انوکھا نظریہ آئے گا تو وہ برجستہ طور پر سب سے پہلے یہی سوال اٹھائے گا کہ اس تقسیم اور تخصیص کی کیا دلیل ہے؟ اس کا تو مطلب یہ بن جائے گا کہ قرآنی احکامات کے مخاطب نبی ﷺ اور صحابہ کرام ہیں، بعد میں آنے والے نہیں ۔ وہی اس دین کے ذمہ دار تھے۔ انہی کو اس کی خاطر قتل و قتال ، قید و بند اور اسارت سب جائز تھا، اوروں کے لیے نہیں؟ نیز اس کا یہ نتیجہ نکالنا بھی درست ہوگا کہ مزید اعلاء کلمتہ اللہ کے لیے تگ و دو کی گنجائش نہیں اگر وہ پر امن طریقے سے ممکن نہ ہو؟ اور نہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی حاجت باقی رہتی ہے جبکہ جہاد اس کا رکن اعظم ہے؟ غامدی نقطہ نظر میں تو ان باتوں کا نتیجہ یہی نکلتاہے۔ دیکھئے ، جہاد: ایک مطالعہ – ص:۱۹۴-۲۵۴-۳۰۲)۔
غامدی حلقہ فکر کے احباب نے قرآن ، حدیث اور تاریخ سے اس مفروضے کی تائید حاصل کرنے کی جو کوشش کی ہے ۔
(اگلی تحریر میں اسکا جائزہ پیش کیا جائے گا)۔