مفتی منیب الرحمن
۔13مارچ کومیں نے ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میںمختصر بات کی ،اُس کے بعد علامہ جاوید احمد غامدی کو اپنی بات تفصیل سے کہنے کا موقع دیا گیا ۔میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ بیانیہ جدید دور کی اصطلاح ہے ۔اصولی طور پر کسی ملک وقوم کا دستور ہی اُس کا اجتماعی میثاق اور بیانیہ ہوتا ہے اوراُس میں ملک کو درپیش معاملات کو حل کرنے کا طریقۂ کار موجود ہوتا ہے۔
جنابِ حبیب اکرم نے بجا طور پر لکھا ہے کہ کسی نئے بیانیے کی ضرورت نہیں ہے، اصل مسئلہ قانون کی حکمرانی ہے جو ہمارے ہاں مفقود ہے،جرم کو جرم سمجھا جائے اور مجرم کو عبرتناک سزا دی جائے۔ قرآن کریم نے فساد فی الارض ،جسے آج کل دہشت گردی کہا جاتا ہے، کی سب سے سنگین سزا مقرر کی ہے اور رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ عُرَینہ کے دہشت گردوں کو عبرتناک سزا دی۔ یہی اصل بیانیہ ہے،جس کا اظہار الفاظ سے نہیں عمل سے ہونا چاہیے ،مگرنہیں ہورہا۔
متفقہ دستور سے انحراف کی کسی کو اجازت نہیں ہوتی ۔ہمارے دستورپر اگر لفظاً ومعنیً عمل کیا جائے توآج جو سوالات اٹھائے جارہے ہیں ، اُن کا جواب مل جائے گا۔کوئی ایسا حل جو دستوری میثاق کے منافی ہو،قبول نہیں کیا جاسکتا تا وقتیکہ دستور میں ترمیم کر کے اُس کی گنجائش نکالی جائے ۔بعض اوقات قوموں اور ملکوں کو مخصوص حالات درپیش ہوتے ہیں ،دستور کے دائرے میں رہتے ہوئے ہنگامی نوعیت کے فیصلے کرنے ہوتے ہیں، اس کا طریقۂ کار بھی دستور میں درج ہوتا ہے۔اس کی مثال پاکستان میں پارلیمنٹ کی دوتہائی اکثریت کی منظوری سے آئینی ترمیم کے ذریعے محدود مدت کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام ہے۔
علامہ غامدی نے چند سوالات اٹھائے ہیں: پہلا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان ایک قومی ریاست ہے؟۔ اس کا جواب یہ ہے کہ 14اگست 1947ء سے پہلے روئے زمین پرنہ پاکستان کے نام سے کوئی ملک تھا اور نہ پاکستانی کے نام سے کوئی قوم تھی تاکہ یہ کہا جائے کہ یہ ملک اِس قوم نے بنایا۔ ویت نام شمالی اور جنوبی کے نام سے تقسیم ہوا اور دوبارہ اسی نام سے ایک ملک بن گیا، یہی صورتِ حال شمالی اور جنوبی یمن، مغربی ومشرقی جرمنی کی ہے اور اگر کل شمالی وجنوبی کوریا مل جاتے ہیں ،تو ملک کا نام کوریا ہی رہے گا۔ الغرض منقسم ہوں تب بھی وہی نام اور مل جائیں تو بھی وہی نام، یعنی ویت نام، جرمنی، یمن اور کوریا وغیرہ،کیونکہ ان ممالک اور اقوام کا پہلے سے تاریخی وجود تھا۔ پاکستان اگر تاریخی اعتبار سے ہمیشہ سے ایک ملک اور پاکستانی ایک قوم ہوتے، تو مشرقی پاکستان علیحدگی کے باوجود مشرقی پاکستان ہی رہتا، لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ وہ بنگلہ دیش بن گیا۔ سو آج کسی کو پسند ہو یا ناپسند، ہند کی تقسیم کا مطالبہ مسلمانوں نے جداگانہ مسلم قومیت کی بنیاد پر کیاتھا، اگرچہ آج کل بعض دانشوراُسے متنازعہ بنارہے ہیں۔اس لیے یہ حقیقت تھی یا فریب ،بہر صورت نعرہ تو یہی لگایا گیا تھا: پاکستان کا مطلب کیا: ”لا اِلٰہ الا اللہ‘‘اور آج بھی مقبوضہ کشمیر میں تحریک حریت کشمیر کے رہنمائوں کو ہم نے ٹیلی ویژن پر بارہا یہ نعرہ لگاتے ہوئے سنا ہے: پاکستان سے رشتہ کیا: لا الٰہ الا اللہ۔
ان کا دوسرا سوال یہ تھا: پاکستان اگر قومی ریاست ہے ،توکیا قومی ریاست اسلام کی رُو سے جائز ہے؟۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ تحریک آزادی کی آدرش اور ہمارے دستوری میثاق کی رُو سے پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے اور اس حقیقت کا انکار دستورِ پاکستان کے انکار کے مترادف ہے۔ ہم سے مشابہت رکھنے والی ایک
نظریاتی ریاست دنیا کے نقشے پر اسرائیل ہے اوراس کی پارلیمنٹ کا نام
Knesset
ہے ،جس کے معنی ہیں:”عبادت گاہ یا کنیسہ‘‘۔ اسرائیل میں مذہبی سیاسی جماعتیں بھی ہیں اور حال ہی میں ایک سیاسی جماعت نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل میں عبرانی شریعت یعنی تورات کا قانون نافذ کیا جائے، اس پر امریکہ اور پورے یورپ میں کہیں بھی شور برپا نہیں ہواکہ یہ دقیانوسیت ہے ، قدامت پسندی ہے اور مذہبی انتہا پسندی ہے۔ اگر علامہ جاوید غامدی دستورِ پاکستان کا مطالعہ فرمائیں، تو اس میں ریاست کو قرآن وسنت کے مطابق قانون سازی کا پابند کیا گیا ہے۔ پس اگر کوئی سیاسی جماعت جمہوری طریقے سے نفاذِ اسلام یا نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرتی ہے تو یہ دستور پاکستان کا تقاضا ہے ۔ہاں!اس کے لیے مسلح جدوجہد کرنا یاماورائے دستور کوئی طریقۂ کار اختیار کرنا، دستور کے خلاف ہے اور ہم اس کے حق میں نہیں ہیں۔
ان کا تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا مسلمانوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ دنیا میں ایک ہی حکومت قائم کریں اور وہ خلافت کے نام پر ہو۔اُس کا جواب یہ ہے کہ اپنے دائرۂ اختیار واقتدار میں تو قرآن نے مسلمانوں کی یہ ذمے داری قرار دی ہے: ”اور جو اللہ کے دین کی مدد کرتا ہے ،اللہ ضرور اُس کی مدد فرماتا ہے، بے شک اللہ ضرور قوت والا بہت غلبے والا ہے،اگر ہم ان لوگوں کو زمین میں اقتدار عطا فرمائیں ،تو (اُن پر لازم ہے کہ )وہ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں اور نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے ،(الحج:41)‘‘۔البتہ قرآنِ مجید نے امتِ مسلمہ کو”خَیْرُ الاُمَم‘‘ اور ”اُمَتِ وَسَط‘‘ قرار دیا ہے اور اُن کی ذمے داری قرار دی ہے کہ وہ نیکی کوپھیلائیں اور برائی کو روکیں ۔لیکن یہ دعوت قرآنِ مجید کے اسلوبِ دعوت کے مطابق ہونی چاہیے ، اس کے لیے مسلح جدوجہد کرنے یا داعش ، القاعدہ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی طرح لوگوں کی گردنیں کاٹنے یا زمین پر فساد برپا کرنے کا حکم نہیں دیا گیا اور ہم سب اس سے برا ٔت کا اعلان کرتے ہیں ۔یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ ریاستی طاقت سے اِن کا قَلع قَمع کرے اور انسانیت کو اِن کے فساد سے نجات دلائے ۔نظریاتی اعتبار سے خلافت کی بات کرنا نہ معیوب ہے اور نہ ممنوع ،کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا :”بنی اسرائیل کے امورِ سیاست انبیائے کرام انجام دیتے تھے ،جب ایک نبی کا وصال ہوجاتا ،تو دوسرا نبی اُس کی جگہ لے لیتا ،مگر اب میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، سو میرے بعد خلفاء ہوں گے،(صحیح مسلم: 1842)‘‘۔ اگر جمہوری اور پر امن طریقے سے کوئی کمیونزم یا سوشلزم یا لبرل ازم یا سرمایہ دارانہ نظام کی بات کرے ،تو اس پر کسی کونہ اعتراض ہوتا ہے اور نہ ہی اِسے معیوب سمجھا جاتا ہے ، لیکن اِسی شِعار پراگر کوئی نفاذِ اسلام یا نفاذِ شریعت کی بات کرے ،تو اِسے ہدفِ ملامت بنایا جاتا ہے، یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔
علامہ غامدی کاایک مطالبہ یہ ہے کہ ریاست واضح طور پر یہ موقف اختیار کرے کہ ”کفر وشرک کے خلاف جنگ برپا کرنا اسلام کا مطالبہ نہیں ہے‘‘ ،ہم اس حوالے سے اُن کے ساتھ یک آواز ہیں،کیونکہ یہ فساد کا راستہ ہے اور اسلام کا شِعاراصلاح ہے۔علامہ غامدی کہہ رہے ہیں کہ اگر علماء یہ موقف نہ دے رہے ہوں تو ریاست سامنے آئے ،ہم ایک عرصے سے ببانگِ دہل یہ بات کر رہے ہیں، ریاست کی کمزوری یا بے عملی کا وبال علماء پر کیوں ڈالا جارہا ہے۔اسی طرح ریاست کے اندر جو طبقات ہماری فوج یا ریاست یا عوام کے خلاف آمادۂ فساد ہیں ،اُن کی سرکوبی کرنا ریاست وحکومت کی ذمے داری ہے ،ہم ان کے مُدافِع یاپُشتیبان یا سہولت کار نہیں ہیں اور اگر کوئی طبقہ ہے تو اُس کی نشاندہی کر کے سامنے لاناریاست کی ذمے داری ہے ،عمومیت اور ابہام کے ساتھ الزام لگانے کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہونا چاہیے ۔
علامہ غامدی سے پروگرام اینکر نے سوال کیا :”ریاست اپنی ہی ماضی کی پالیسیوں کا شکار بن جاتی ہے‘‘۔علامہ صاحب نے اس سوال کا جواب گول کردیا،یہی سوال مولانا فضل الرحمن نے ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں کیا :”ہمیں بتایا جائے کہ ہمارے مدارس کے بچوں کو ہتھیار کس نے پکڑائے ؟‘‘۔یہ ایک مِلین ڈالر کا سوال ہے،لیکن اس سوال کا جواب دینے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے ۔اگر ریاستی اداروں نے یہ کام کیا ہے ،تو پھر انہیں سب کچھ معلوم ہوگا اور قوم کو سچ بتادینا چاہیے ۔ ہماری نظر میں اس کی آڑ میں کسی امتیاز کے بغیر تمام اہلِ مذہب کو ملامت کرنا یاہَدف بنانااور آئے دن میڈیا کا نشانے پر رکھنا غیر شرعی ، غیر آئینی اور غیر اخلاقی ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ سچ بولا جائے اور آئندہ کے لیے پالیسی دو ٹوک بنائی جائے۔ غامدی صاحب بتائیں کہ داعش اور القاعدہ کے بارے میں ان کے اور ہمارے موقف میں کیا فرق ہے؟،لیکن وہ میڈیا کے محبوب ہیں اور ہم ناپسندیدہ ۔حکومتوں کایہ تضاد پاکستان تک محدود نہیں ہے ،اس میںا مریکہ ،پورا یورپ اور عالمِ عرب بھی شامل ہے۔ یہ ایک بیّن حقیقت ہے کہ ماضی میں القاعدہ جیسی تنظیموں کو سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک سے سرپرستی ملتی رہی ہے، آج یہ تپش اُن کی سرحدوں تک پہنچی ہے تو اب وہ انہیں خارجی اور تکفیری قرار دے رہے ہیں ، اپنی ماضی کی اِن غلطیوں کو کوئی بھی کھلے عام تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔علامہ غامدی کے دوسوالات یا نِکات پر آئندہ بات ہوگی۔
بشکریہ
روزنامہ دنیا