شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے

Published On March 18, 2025
تصوف پر جناب احمد جاوید صاحب اور جناب منظور الحسن صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

تصوف پر جناب احمد جاوید صاحب اور جناب منظور الحسن صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب محترم جناب احمد جاوید صاحب نے تصوف سے متعلق حال ہی میں اس رائے کا اظہار فرمایا ہے کہ فقہ و کلام وغیرہ کی طرح یہ ایک انسانی کاوش و تعبیر ہے وغیرہ نیز اس کے نتیجے میں توحید و نبوت کے دینی تصورات پر ذد پڑی۔ ساتھ ہی آپ نے تصوف کی ضرورت کے بعض پہلووں پر...

تصوف پر جناب منظور الحسن صاحب کے ایک اعتراض کا جائزہ

تصوف پر جناب منظور الحسن صاحب کے ایک اعتراض کا جائزہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب مکتب فراہی کے منتسبین اہل تصوف پر نت نئے الزامات عائد کرنے میں جری واقع ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب و جناب غامدی صاحب سے گزرتا ہوا اب ان کے شاگردوں میں بھی حلول کررہا ہے۔ جس غیر ذمہ داری سے مولانا اصلاحی و غامدی صاحبان اہل تصوف...

شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے

شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد صاحب   کچھ دن قبل اس موضوع پرفیسبک پر مختصر پوسٹ کی تھی کہ یہ فرق غیرمنطقی، غیر اصولی اور غیر ضروری ہے۔ جسے آپ شریعت کہتے ہیں وہ آپ کا فہم شریعت ہی ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مثال کے طور پر غامدی صاحب نے اپنے تئیں شریعت کو فقہ کے انبار...

۔”خدا کو ماننا فطری ہے”  مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

۔”خدا کو ماننا فطری ہے” مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب علم کلام کو لتاڑنے والے حضرات کی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وجود باری پر یقین رکھنا بدیہیات میں سے ہے، لہذا متکلمین دلائل دے کر بے مصرف و غیر قرآنی کام کرتے ہیں۔ یہاں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی کتاب "فلسفے کے بنیادی مسائل قرآن مجید کی روشنی...

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

مولانا نیاز محمد مروت صاحب جناب جاوید غامدی صاحب نے مردوں کے داڑھی رکھنے کے معمول چلے آنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داڑھی رکھنے کی عادت کا اعتراف کیا ہے ، جو کہ حق بات ہے، بشرطیکہ طبعی عادت کے طور پر نہیں، بلکہ معمول کے طور پر داڑھی رکھنا مراد ہو، چنانچہ اس پر...

تفہیمِ غامدی ، خبرِ واحد اور تصورِ سنت

تفہیمِ غامدی ، خبرِ واحد اور تصورِ سنت

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب تلخیص : زید حسن اس ویڈیو میں سپیکر حافظ محمد زبیر صاحب نے " بعض افراد" کے اس دعوے کہ آپ کی تفہیمِ غامدی درست نہیں ، کو موضوعِ بحث بنایا ہے ۔ لیکن اس پر از راہِ تفنن گفتگو کرنے کے بعد چند اہم مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے اور غامدی منہج پر سوالات...

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد صاحب

 

کچھ دن قبل اس موضوع پرفیسبک پر مختصر پوسٹ کی تھی کہ یہ فرق غیرمنطقی، غیر اصولی اور غیر ضروری ہے۔ جسے آپ شریعت کہتے ہیں وہ آپ کا فہم شریعت ہی ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مثال کے طور پر غامدی صاحب نے اپنے تئیں شریعت کو فقہ کے انبار سے نجات دلانے کی کوشش کی اور نتیجتاً میزان کے ابواب میں اپنی فقہ دے دی جسے وہ شریعت قرار دیتے ہیں۔
بعض دوستوں نے “شرع منزل” اور “شرع غیرمنزل” کے فرق کی بات کی تو عرض کیا کہ ان دونوں میں عملاً آپ کیسے فرق کرتے ہیں؟ جسے آپ شرع منزل کہتے ہیں وہ آپ کا فہم ہی تو ہے۔ ضروری نہیں کہ کوئی دوسرا بھی اسے شرع منزل مان لے اگر اس کے اصولوں کی روشنی میں وہ شرع منزل کا حصہ نہیں ہے۔
مثال کے طور پر فقہاے کرام کا اتفاق ہے کہ قتل خطا میں قاتل پر کفارہ ہے لیکن ان کا اس پر اختلاف ہے کہ قتل عمد میں قاتل پر کفارہ ہے یا نہیں؟ امام شافعی کہتے ہیں کہ اگر قتل خطا میں کفارہ ہے تو قتل عمد میں تو بدرجۂ اولی ہونا چاہیے۔ اسے دلالۃ النص کہتے ہیں (جسے بعض نے قیاس المعنی بھی کہا اور یہ قیاس کی وہ قسم ہے جس کے متعلق شافعیہ تو کیا، ظاہریہ کا بھی ماننا ہے کہ یہ صحیح ہے۔) گویا شافعیہ قتل خطا کے کفارے کی طرح قتل عمد کے کفارے کو بھی نص سے ثابت مانتے ہیں۔ اس کے برعکس امام ابوحنیفہ کا کہنا ہے کہ قتل عمد کی سزا کے متعلق نصوص (جیسے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ العمد قود) کے اشارے سے معلوم ہوا کہ قتل عمد میں کفارے کی سزا نہیں ہے اور حنفیہ کے اصول کی رو سے دلالۃ النص کی بہ نسبت اشارۃ النص زیادہ قوی ہے۔
اب ہمارے دوست ہی ہمیں بتادیں کہ قتل عمد میں کفارہ شرع منزل کا حصہ ہے یا شرع غیر منزل کا؟ ویسے وہ جو کچھ بھی بتائیں گے، وہ ان کی فقہ ہی ہوگی۔
یہیں سے اس سوال کا جواب بھی واضح ہونا چاہیے جو بعض اہل علم نے اٹھایا کہ شریعت تو ایک ہے لیکن فقہ تو کئی ہیں۔ جی نہیں۔ میرے لیے شریعت وہی ہے جو میرے فہم کے مطابق شریعت ہے۔ میں اپنے فہم میں غلطی کا امکان مانتا ہوں اور غلطی واضح ہونے پر مان بھی لوں گا کہ شریعت یہ نہیں وہ ہے لیکن اس کے بعد سابقہ راے میرے لیے شریعت نہیں رہے گی۔
بھئی، یہ وہی مسئلہ ہے جسے اصول فقہ میں یوں ذکر کیا جاتا ہے کہ مجتہدین کے اختلاف میں کیا سب حق پر ہوتے ہیں یا حق پر کوئی ایک ہی ہوتا ہے؟ حنفی اصول یہی ہے کہ حق پر ایک ہی ہوتا ہے، اگرچہ دوسروں کو بھی اجتہاد کا اجر ملے گا۔ اپنی حد تک مکمل کوشش کے بعد جسے میں نے حق سمجھا وہ میرے لیے حق ہے۔ امر واقعہ میں وہ حق ہے یا نہیں؟ اس کا علم اللہ کے سوا کس کو ہوسکتا ہے؟ اس نے مجھے حتی الوسع کوشش کا مکلف ہی بنایا ہے۔
باقی رہا یہ سوال کہ کیا قیاس سے ثابت شدہ حکم شریعت کا حصہ ہے یا نہیں؟ تو اس کا جواب بھی بالکل واضح ہے۔ جو فقہاے کرام یہ مانتے ہیں کہ قیاس حجت ہے وہ اصل میں یہ کہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں منصوص احکام پر قیاس کا حکم دیا ہے۔ اسی لیے ان کےلیے قیاس سے ثابت شدہ حکم بھی شریعت کا حصہ ہوتا ہے۔ تاہم جو ظاہری فقہاے کرام قیاس کو حجت نہیں مانتے ان کے نزدیک اللہ اور اس کے رسول نے منصوص احکام پر قیاس کی اجازت نہیں دی ہے۔ اسی لیے ان کے نزدیک قیاس سے ثابت احکام شریعت کا حصہ نہیں ہیں۔
یہی بات استحسان، استصحاب اور استنباط کے دیگر طرق کے متعلق بھی کہی جائے گی۔
بلکہ یہی بات غامدی صاحب کا حلقہ اپنے اصولوں کے متعلق بھی مانتا ہے، جیسے نظم قرآن، اتمام حجت وغیرہ۔
بلکہ یہی کچھ “فقہ دستور” کے متعلق بھی صحیح ہے۔ دستور کی تعبیر کے متعلق بعض اصول کچھ جج صاحبان مانتے ہیں اور اس وجہ سے قرار دیتے ہیں کہ فلاں بات دستور کی رو سے ضروری ہے۔ جو ان اصولوں کو نہیں مانتے وہ پوچھتے پھرتے ہیں کہ دستور میں یہ کہاں لکھا ہوا ہے؟
ھذا ما عندی، و العلم عند اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…