ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عمر عزیز کا بیشتر حصہ قرآن مجید کی خدمت میں صرف ہوا ہے۔ لیکن یہ قرآن مجید کے بجائے عربی زبان و ادب کی خدمت تھی یا تخصیص سے بیان کیا جائے تو یہ قرآن مجید کے عربی اسلوب کی خدمت تھی۔ قرآن مجید کا انتخاب صرف اس لئے کیا گیا تھا کہ...
سرگذشت انذار کا مسئلہ
خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت
ڈاکٹرزاہد مغل علم کلام کے مباحث کو غیر ضروری کہنے اور دلیل حدوث پر اعتراض کرنے کے لئے جناب غامدی صاحب نے ایک ویڈیو ریکارڈ کرائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن سے متعلق دیگر علوم جیسے کہ اصول فقہ، فقہ و تفسیر وغیرہ کے برعکس علم کلام ناگزیر مسائل سے بحث نہیں کرتا اس لئے کہ...
غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب سے جہاد کی فرضیت کے متعلق علماے کرام کے فتوی کے بارے میں پوچھا گیا، تو انھوں نے تین صورتیں ذکر کیں:۔ایک یہ کہ جب کامیابی کا یقین ہو، تو جہاد یقینا واجب ہے؛دوسری یہ کہ جب جیتنے کا امکان ہو، تو بھی لڑنا واجب ہے اور یہ اللہ کی طرف سے نصرت...
غامدی صاحب کا ایک اور بے بنیاد دعویٰ
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد اپنی ملامت کا رخ مسلسل مسلمانوں کی طرف کرنے پر جب غامدی صاحب سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ ظالموں کے خلاف بات کیوں نہیں کرتے، تو فرماتے ہیں کہ میری مذمت سے کیا ہوتا ہے؟ اور پھر اپنے اس یک رخے پن کےلیے جواز تراشتے ہوئے انبیاے بنی اسرائیل کی مثال دیتے ہیں...
فکرِ فراہی کا سقم
ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عربی دانی کا انکار نہیں اور نہ روایتی علوم کی متداول تنقید میں ان جواب تھا۔ لیکن وہ تمام فکری تسامحات ان میں پوری قوت کے ساتھ موجود تھے جو روایتی مذہبی علوم اور ان کے ماہرین میں پائے جاتے ہیں۔ عربی زبان و بیان کے تناظر میں قرآن...
استفتاء اور فتوی سے اتنی وحشت کیوں؟
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد وہی ہوا جس کی توقع تھی! کل رات کچھ سوالات اہلِ علم کے سامنے رکھے، اور آج صبح بعض مخصوص حلقوں سے اس طرح کی چیخ و پکار شروع ہوگئی ہے: آپ غزہ کے متعلق دینی رہنمائی حاصل کرنے کےلیے سوالات کیوں پوچھ رہے ہیں؟ اسی طرح کے سوالات پر فتوی دیا گیا،...
محمد حسنین اشرف
فراہی مکتبہ فکر اگر کچھ چیزوں کو قبول کرلے تو شاید جس چیز کو ہم مسئلہ کہہ رہے ہیں وہ مسئلہ نہیں ہوگا لیکن چونکہ کچھ چیزوں پر بارہا اصرار کیا جاتا ہے اس لیے اسے “مسئلہ” کہنا موزوں ہوگا۔ بہرکیف، پہلا مسئلہ جو اس باب میں پیش آتا ہے وہ قاری کی ریڈنگ کا مسئلہ ہے۔ اس سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں ان کو درجہ بہ درجہ دیکھتے ہیں۔
۔۱۔ نظم کی یافت
جب ہم یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم نے فلاں متن کا نظم “دریافت” کرلیا ہے تو ہم متکلم کی جانب ایک اضافی شے منسوب کرتے ہیں جسے محض ہماری شرح نہیں ہونا چاہیے۔ مثلا فوکو نے آرڈر آف تھنگز کے دیباچہ میں انگریزی قاری کے لیے کچھ ہدایات درج کی ہیں کہ اُس کی کتاب کو کیسے اپروچ کیا جائے۔ فرض کیجیے یہ ہدایات نہ دی جاتیں اور کتاب کی ریڈنگ کے بعد کوئی شخص ایک دیباچہ یا مضمون لکھتا اور کہتا کہ اس نے یہ ہدایات متن کی ریڈنگ سے دریافت کی ہیں (یعنی یہ فوکو کی طرف سے ہیں) تو جو متشککانہ رویہ اس شخص کے ساتھ اپناتے وہی کسی بھی ایسے “دریافت شدہ” نظم کے ساتھ اگر کوئی اپنائے تو درست رویہ ہوگا۔ عین ممکن ہے کہ وہ ہدایات نہایت مفید ہوں لیکن ان کی نسبت نہ تو متکلم کی جانب کی جاسکتی ہے اور نہ متن کی جانب!۔
یاد رہے کہ یہاں متکلم کی جانب ایک اضافی شے منسوب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ شے متکلم کی جانب سے
intended
تھی۔ دلچسپ مسئلہ یہ ہے کہ متن ہمیں متکلم کے ذہن تک رسائی دیتا ہے اور ایسی کوئی بھی دریافت متکلم کا ذہن پڑھنے جیسی شے ہوگی کیونکہ وہ نظم
explicit
نہیں ہے بلکہ
implicit
ہے جسے متن کو پڑھ کے دریافت کرنا پڑ رہا ہے بصورت دیگر اس کی نوبت ہی نہ آتی۔ یہاں متکلم خدا ہے سو ایسا کوئی بھی دعوی انسان کی سطح پر سے کیا بھی جاسکتا ہے؟ اگر نہیں تو یہ تمام تر کام قاری کی سطح پر ہو رہا ہے نہ کہ متن کی سطح پر (اسے قبول کرنا چاہیے)۔
اگر آپ اسے قبول کرتے ہیں تو پھر جس بھی ریڈنگ سے جو بھی نظم دریافت کیا جائے یا نہیں کیا جائے وہ قابل قبول ہوگا کیونکہ یہ سارا معاملہ متکلم کے بعد قاری کے ہاں ہو رہا ہے۔ پھر اصلاحی صاحب یہ کہنے میں حق بجانب نہیں ہیں کہ نظم کے بغیر متن کا جوہر تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ اور اگر ایسا ہے تو متن کی قطیعت (جس معنی میں فراہی فکر قبول کرتی ہے) کا معاملہ کیا ہوگا؟
۔۲۔ نظم، موضوع اور سرگزشت انذار
فراہی فکر کا دریافت شدہ نظم دلچسپ صورتحال پیدا کرتا ہے۔ اس کو کچھ یوں دیکھیے:۔
قرآن کا موضوع: سرگزشت انذار
سورة کا موضوع: ہر سورة کا اپنا موضوع ہے جو سرگزشت انذار کے ذیل میں ہے یعنی سورة انذار، انذار عام اور ہجرت و برات سے متعلق ہوسکتی ہے۔
نظم: ان دو موضوعات کے تحت متن کو مرتب و منظوم دیکھا جائے گا۔
اب قاری نے “اپنے” دریافت کردہ نظم کا خود کو ہی پابند کرلیا ہے کہ وہ متن کی شرح اس کے پابند ہو کر کرے گا۔ یہ ایک جکڑن ہے جس کا پابند متن نہیں بلکہ قاری خود ہو رہا ہے (یہ بات قاری کو قبول کرنی چاہیے)۔ اچھا اب یہ نظم کیسے دریافت ہوا ہوگا۔ اس کے لیے آپ کو دو ریڈنگز درکار ہیں:
۔۱۔ ایک نظم دریافت کرنے کے لیے
۔۲۔ دوسری اس نظم کے تحت متن کو سمجھنے کے لیے
کیونکہ نظم کی دریافت کے بغیر (خود اصلاحی صاحب کے الفاظ جو میزان میں نقل ہیں) جو ریڈنگ ہوگی (یعنی پہلی ریڈنگ) آپ متن کی
essence
کو پہنچ ہی نہیں سکتے۔ اس کے لیے محض یہ کہہ دینا کہ نظم “ہوتا” ہے کافی نہیں ہوگا بلکہ اس کی دریافت کے لیے کافی مضبوط
conceptual work
کی ضرورت ہے جو بتا سکے کہ “خالص متن” کی ریڈنگ سے نظم کیسے دریافت کیا جاتا ہے؟
پھر یہ کہنا کہ پہلے میں نے متن پڑھ کے نظم دریافت کرلیا اور پھر نظم کے تحت متن کو پڑھ کے احکام معلوم کرلیے، یہ متن سے نہایت میکانکی نوعیت کا تعلق بھی پیدا کردیتا ہے۔ کیا ایسے ہی ہوتا ہے؟ بہرطور، اسے سمجھنا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک
conceptual work
نہ کیا جائے۔ پھر یہ کہ نظم کے حق میں یہ بات ہرگز دلیل کے طور پر پیش نہیں کی جاسکتی کہ کوئی دوسرا “نظم” یا دوسری “شرح” لے آئے۔ ایسا ممکن اس لیے نہیں ہوتا کہ آپ کی شرح ایک خاص نظم کے تحت متعصب ہے۔ اب کوئی بھی دوسری شرح نہ تو قابل قبول ہوگی کیونکہ
rule of game
آپ طے کر رہے ہیں۔ سو اس کے لیے بہترین طریقہ اس شے پر کام ہے کہ نظم دریافت کیسے کیا گیا ہے؟
۔۳۔ کیا نظم خالص متن کی ریڈنگ کا نتیجہ ہے؟
فراہی مکتبہ فکر اور خصوصا غامدی صاحب، تاریخ کو بھی اہمیت دیتے ہیں اور انہوں نے مبادی تدبر قرآن میں اس کو خاص جگہ دی ہے۔ یہ مجھے متضاد معلوم ہوتی ہے اور اس سے متن کی مرکزیت پر تو سوال اُٹھتا ہی ہے لیکن اس سے “خالص متن” کی ریڈنگ والی پوزیشن بھی مشکوک ہوجاتی ہے۔ مثلا قرآن سرگزشت انذار ہے اس کے لیے متن سے پہلے ہمیں معلومات موجود ہیں تو کیسے یہ
ensure
کیا جاسکتا ہے کہ ہماری متن کی یہ ریڈنگ اس تاریخی معلومات سے اخذ کردہ نہیں ہیں بلکہ خالص متن کی ریڈنگ کا نتیجہ ہیں؟
۔۴۔ اس سے فرق کیا پڑتا ہے؟
اس سے فرق یہ پڑتا ہے کہ آپ جو بھی نظم دریافت کرلیں گے وہ آپ کی شرح پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہوئے ہر آیت کو اس خاص اسٹرکچر میں رکھ دینے کے لیے مجبور کرے گا اور یہ مجبوری متن اور متکلم کی عائد کردہ نہیں ہوگی۔ اس سے متن کے معنی کی
fixity
پر اصرار بھی نہیں ہوسکتا کیونکہ جس قدر قابل اعتبار آپ کا نظم ہے اسی قدر قابل اعتبار کوئی دوسرا نظم ہوگا۔ اسی طرح، تاریخ کو بھی قبول کرنا اور خالص متن کی ریڈنگ کو بھی باقی رکھنا متضاد ہے۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟
ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عمر عزیز کا بیشتر حصہ قرآن مجید...
فکرِ فراہی کا سقم
ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عربی دانی کا انکار نہیں اور نہ...
اہل غزہ کے خلاف بے بنیاد فتوی
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد اس”فتویٰ“ میں سورۃ الانفال کی آیت 72 سے کیا گیا...