حدیث کی نئی تعیین

Published On April 28, 2025
بخاری، تاریخ کی کتاب اور دین: غامدی صاحب کے اصولوں کی رو سے

بخاری، تاریخ کی کتاب اور دین: غامدی صاحب کے اصولوں کی رو سے

ڈاکٹر زاہد مغل حدیث کی کتاب کو جس معنی میں تاریخ کی کتاب کہا گیا کہ اس میں آپﷺ کے اقوال و افعال اور ان کے دور کے بعض احوال کا بیان ہے، تو اس معنی میں قرآن بھی تاریخ کی کتاب ہے کہ اس میں انبیا کے قصص کا بیان ہے (جیسا کہ ارشاد ہوا: وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ...

کیا غامدی صاحب منکرِ حدیث نہیں ؟

کیا غامدی صاحب منکرِ حدیث نہیں ؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے جو غالی معتقدین ان کی عذر خواہی کی کوشش کررہے ہیں، وہ پرانا آموختہ دہرانے کے بجاے درج ذیل سوالات کے جواب دیں جو میں نے پچھلی سال غامدی صاحب کی فکر پر اپنی کتاب میں دیے ہیں اور اب تک غامدی صاحب اور ان کے داماد نے ان کے جواب میں کوئی...

حدیث کی نئی تعیین

حدیث کی نئی تعیین

محمد دین جوہر   میں ایک دفعہ برہان احمد فاروقی مرحوم کا مضمون پڑھ رہا تھا جس کا عنوان تھا ”قرآن مجید تاریخ ہے“۔ اب محترم غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ بخاری شریف تاریخ کی کتاب ہے۔ دیانتداری سے دیکھا جائے تو محترم غامدی صاحب قرآن مجید کو بھی تاریخ (سرگزشت انذار) ہی...

ذو الوجہین : من وجہ اقرار من وجہ انکار

ذو الوجہین : من وجہ اقرار من وجہ انکار

محمد خزیمہ الظاہری پہلے بھی عرض کیا تھا کہ غامدی صاحب نے باقاعدہ طور پر دو چہرے رکھے ہوئے ہیں. ایک انہیں دکھانے کے لئے جو آپ کو منکر حدیث کہتے ہیں اور یہ چہرہ دکھا کر انکار حدیث کے الزام سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میزان میں بارہ سو روایتیں ہیں وغیرہ...

( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد پچھلی قسط کے اختتام پر لکھا گیا کہ ابھی یہ بحث پوری نہیں ہوئی، لیکن غامدی صاحب کے حلقے سے فوراً ہی جواب دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اگر جواب کی طرف لپکنے کے بجاے وہ کچھ صبر سے کام لیتے اور اگلی قسط پڑھ لیتے، تو ان حماقتوں میں مبتلا نہ ہوتے جن میں...

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حج اور جہاد کی فرضیت صرف اسی کےلیے ہوتی ہے جو استطاعت رکھتا ہو۔ بظاہر یہ بات درست محسوس ہوتی ہے، لیکن اس میں بہت ہی بنیادی نوعیت کی غلطی پائی جاتی ہے اور اس غلطی کا تعلق شرعی حکم تک پہنچنے کے طریقِ کار سے ہے۔ سب سے پہلے...

محمد دین جوہر

 

میں ایک دفعہ برہان احمد فاروقی مرحوم کا مضمون پڑھ رہا تھا جس کا عنوان تھا ”قرآن مجید تاریخ ہے“۔ اب محترم غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ بخاری شریف تاریخ کی کتاب ہے۔ دیانتداری سے دیکھا جائے تو محترم غامدی صاحب قرآن مجید کو بھی تاریخ (سرگزشت انذار) ہی قرار دیتے ہیں۔ ایسی آرا کثرت سے مل جاتی ہیں جن میں قرآن و حدیث کو ڈیفائن کرنے کی کوشش کی گئی ہوتی ہے۔ اس طرح کی آرا سامنے آنے کی وجہ یہ ہے ہمارے ہاں علوم کی تشکیل اور تعیین کے نظری اصولوں کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ محترم غامدی صاحب کی یہ رائے میزان میں بیان کردہ ان کے ”اصول و مبادی“ کا لازمی نتیجہ ہے۔ یہ اصول علمیاتی ہیں اور نہ ہرمینیاتی۔ گزشتہ دو سو سال میں سامنے آنے والے ہمارے تکفیری علوم اس طرح کی آرا سے بھرے پڑے ہیں۔

میں نے اوپر جن دو آرا کا ذکر کیا ہے وہ ”اسلام کیا ہے؟“ کا جواب دینے کی کوشش میں سامنے آئی ہیں۔ جیسا کہ میں کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ برصغیر کی حد تک، ہمارے مذہبی اہل علم دو سوالوں کا جواب دینے میں لگے ہوئے ہیں اور دوسرا سوال یہ ہے کہ ”مسلمان کون ہے؟“ اس طرح کے سوالات مکمل طور پر لاینحل رہیں گے جب تک دینی علوم سے باہر، نظر و استدلال کے دائرے میں ہم چار سوالوں کا جواب نہیں دے لیتے : (۱) عقل سے کیا مراد ہے؟ (۲) علمیات سے کیا مراد ہے؟ اور (۳) ہرمینیات/علم تعبیر  کسے کہتے ہیں؟ (۴) مابعد الطبیعاتی/عرفانی علوم  کی حیثیت کیا ہے؟ میں ذاتی طور پر مابعدالطبیعاتی علوم میں اشتغال کو مفید نہیں سمجھتا۔ ماضی کی طرح اس وقت بھی ہمیں ارسطوئی عقل سے معاملہ درپیش ہے جس نے ہمارا گھر پورے کا پورا ڈھا دیا ہے۔ ارسطوئی عقل سے بدکا اور بھاگا ہوا آدمی مابعدالطبیعات میں پناہ پکڑنے کے قابل نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے صوفی بچارے بھی بھکت گری کے علاوہ کچھ نہیں کر سکے حالانکہ اِنھیں محترم غامدی صاحب نے تصوف کو متوازی دین قرار دے کر ان سب کو دین سے نکال باہر کیا۔ اب ان کو خود بھی پتہ نہیں لگ رہا کہ وہ اندر ہیں کہ باہر۔ گزارش ہے کہ ہر تہذیب یا ہر علمی روایت میں علوم کی تشکیل انھیں تین دائروں میں ہوئی ہے اور ہوتی ہے۔ حدیث شریف تاریخ ہے یا نہیں کا سوال بھی انھیں دائروں سے براہ راست متعلق ہے، اور وہیں حل ہو گا۔

دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہوا کہ ہمارے علما کو مفکرین اسلام بننے کا بہت شوق ہو گیا ہے۔ ہماری روایت اس پر گواہ ہے کہ عالم دین فتوے میں بولتا ہے، فلسفے یا فکر میں نہیں۔ اعتراض یا اختلاف کی صورت میں ہمارا عالم دین اپنے فتوے کا نظری دفاع کرنے پر قادر ہوتا ہے۔ اب فتویٰ کیا ہے اور فکر و نظر کی کیا حیثیت باقی رہ گئی ہے وہ روز سامنے آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…