حجیتِ حدیث : قادیانیت و غامدیت

Published On October 21, 2024
نظریہ ارتقا اور غامدی صاحب

نظریہ ارتقا اور غامدی صاحب

محمد حسنین اشرف حالیہ ویڈیو میں غامدی صاحب نے نظریہ ارتقا پر بات کرتے ہوئے ایک بہت ہی صائب بات فرمائی کہ نظریہ ارتقا سائنس کا موضوع ہے اور اسے سائنس کا موضوع ہی رہنا چاہیے۔ دوسری بات انہوں نے یہ فرمائی کہ اپنے بچوں کو سائنس کی تحلیل سکھانی چاہیے۔ یہ بات بھی صائب ہے...

تصوف پر جناب احمد جاوید صاحب اور جناب منظور الحسن صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

تصوف پر جناب احمد جاوید صاحب اور جناب منظور الحسن صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب محترم جناب احمد جاوید صاحب نے تصوف سے متعلق حال ہی میں اس رائے کا اظہار فرمایا ہے کہ فقہ و کلام وغیرہ کی طرح یہ ایک انسانی کاوش و تعبیر ہے وغیرہ نیز اس کے نتیجے میں توحید و نبوت کے دینی تصورات پر ذد پڑی۔ ساتھ ہی آپ نے تصوف کی ضرورت کے بعض پہلووں پر...

تصوف پر جناب منظور الحسن صاحب کے ایک اعتراض کا جائزہ

تصوف پر جناب منظور الحسن صاحب کے ایک اعتراض کا جائزہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب مکتب فراہی کے منتسبین اہل تصوف پر نت نئے الزامات عائد کرنے میں جری واقع ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب و جناب غامدی صاحب سے گزرتا ہوا اب ان کے شاگردوں میں بھی حلول کررہا ہے۔ جس غیر ذمہ داری سے مولانا اصلاحی و غامدی صاحبان اہل تصوف...

شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے

شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد صاحب   کچھ دن قبل اس موضوع پرفیسبک پر مختصر پوسٹ کی تھی کہ یہ فرق غیرمنطقی، غیر اصولی اور غیر ضروری ہے۔ جسے آپ شریعت کہتے ہیں وہ آپ کا فہم شریعت ہی ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مثال کے طور پر غامدی صاحب نے اپنے تئیں شریعت کو فقہ کے انبار...

۔”خدا کو ماننا فطری ہے”  مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

۔”خدا کو ماننا فطری ہے” مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب علم کلام کو لتاڑنے والے حضرات کی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وجود باری پر یقین رکھنا بدیہیات میں سے ہے، لہذا متکلمین دلائل دے کر بے مصرف و غیر قرآنی کام کرتے ہیں۔ یہاں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی کتاب "فلسفے کے بنیادی مسائل قرآن مجید کی روشنی...

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

مولانا نیاز محمد مروت صاحب جناب جاوید غامدی صاحب نے مردوں کے داڑھی رکھنے کے معمول چلے آنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داڑھی رکھنے کی عادت کا اعتراف کیا ہے ، جو کہ حق بات ہے، بشرطیکہ طبعی عادت کے طور پر نہیں، بلکہ معمول کے طور پر داڑھی رکھنا مراد ہو، چنانچہ اس پر...

عبد اللہ معتصم

احادیث مبارکہ محدثین کی اصطلاح میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر کو کہتے ہیں۔ احادیث مبارکہ کی گراں قدر امانت حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ، صحابہ کرام سے تابعین، تبع تابعین اور پھر ہر دور میں ایک جماعت سے سینہ بہ سینہ ہم تک پہنچی ہے۔ غامدی صاحب نے دوسرے عقائد واعمال کی طرح احادیث پر بھی اپنا زہریلا پنجہ مار دیا۔ لکھتے ہیں: ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر وتصویب کی روایتیں جو زیادہ تر اخبار آحاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں اور جنہیں اصطلاح میں حدیث کہا جاتا ہے ،ان کے بارے میں دو باتیں ایسی واضح ہیں کہ کوئی صاحب علم انہیں ماننے سے انکار نہیں کر سکتا۔ ایک یہ کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی حفاظت اور تبلیغ واشاعت کے لیے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا۔ دوسری یہ کہ ان سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ کبھی علم یقین کے درجے تک نہیں پہنچتا۔ حدیث سے متعلق یہی دو حقائق ہیں جن کی بناء پر یہ ماننا تو ناگزیر ہے کہ اس سے دین میں کسی عقیدہ وعمل کا اضافہ نہیں ہوا۔“ (میزان ص68)

انکار حدیث کے لیے بطور مقدمہ کے غامدی صاحب نے جو دو دعوے پیش کیے وہ بالکل بے بنیاد اور مبنی برجہل ہیں۔ پہلی بات کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث کی حفاظت واشاعت کا اہتمام نہیں کیا، غلط اور بے اصل ہے۔ اس لیے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو احادیث سننے، ان کو حفظ کرنے اور ان کی کتابت وتحریر کرنے کی تاکید فرمائی اور ایسا کرنے والوں کے حق میں دعا فرمائی۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حفظ اور کتابت دونوں ذرائع سے کام لیتے ہوئے احادیث کی حفاظت اور ان کی تبلیغ واشاعت کا اہتمام فرمایا۔ حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: ”نضّر الله امرأ سمع منا حدیثاً فحفظہ حتیٰ یبلغہ غیرہ․“ (ترمذی، رقم:2656) (کہ الله اس آدمی کو تروتازہ اور شاداب رکھے جس نے ہم سے کوئی حدیث سن کر یاد کر لی اور اسے دوسروں تک پہنچا دیا۔)

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز جو خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس میں فرمایا: ”ویبلغ الشاہد الغائب․“ (بخاری:154) (کہ جو یہاں حاضر ہے وہ میری باتیں غائبوں تک پہنچائے۔) صحابہ کرام نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالا ارشادات کی روشنی میں احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ یاد کر لیا۔ اسے لکھ کر محفوظ کیا۔ اس پر عمل کیا اور اسے دوسروں تک پہنچا دیا۔ مرزاقادیانی بھی احادیث مبارکہ کا انکار کرتا ہے۔ لیکن وہ ایک قدم بڑھ کر سخت بے ادبی کے الفاظ استعمال کرکے احادیث مبارکہ کی توہین بھی کرتا ہے۔ چناں چہ لکھتا ہے: ”میرے اس دعویٰ کی بنیاد حدیث نہیں، بلکہ قرآن مجید اور وحی ہے، جو میرے پرنازل ہوئی۔ ہاں! تائیدی طور پر ہم وہ حدیثیں پیش کرتے ہیں جو قرآن شریف کے مطابق اور میری وحی کے معارض نہیں اور دوسری حدیثوں کو ہم ردی کی طرح پھینک دیتے ہیں۔“(اعجاز احمدی، ص30، خزائن ج19 ص140)

جاوید غامدی نے بھی احادیث کو ناقابل استدلال قرار دیا اور دین سے خارج قرار دیا اور مرزاقادیانی نے بھی ناقابل اعتبار گردانا۔ فرق صرف یہ کہ غامدی صاحب نے تمہید باندھ کر اور الفاظ کو گھما پھرا کر احادیث کی حجیت سے انکار کیا ہے اور مرزاقادیانی نے بد اخلاقی کا مظاہرہ کر کے خوب دھڑلے سے انکار کیا۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…