حجیتِ حدیث : قادیانیت و غامدیت

Published On October 21, 2024
( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد پچھلی قسط کے اختتام پر لکھا گیا کہ ابھی یہ بحث پوری نہیں ہوئی، لیکن غامدی صاحب کے حلقے سے فوراً ہی جواب دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اگر جواب کی طرف لپکنے کے بجاے وہ کچھ صبر سے کام لیتے اور اگلی قسط پڑھ لیتے، تو ان حماقتوں میں مبتلا نہ ہوتے جن میں...

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حج اور جہاد کی فرضیت صرف اسی کےلیے ہوتی ہے جو استطاعت رکھتا ہو۔ بظاہر یہ بات درست محسوس ہوتی ہے، لیکن اس میں بہت ہی بنیادی نوعیت کی غلطی پائی جاتی ہے اور اس غلطی کا تعلق شرعی حکم تک پہنچنے کے طریقِ کار سے ہے۔ سب سے پہلے...

جہاد، قادیانی اور غامدی صاحب، اصل مرض کی تشخیص

جہاد، قادیانی اور غامدی صاحب، اصل مرض کی تشخیص

حسان بن علی بات محض حکمت عملی کے اختلاف کی نہیں کہ مسلمان فی الحال جنگ کو چھوڑ رکھیں بلکہ بات پورے ورلڈ ویو اور نظریے کی ہے کہ غامدی صاحب کی فکر میں مسلمانوں کی اجتماعی سیادت و بالادستی اساسا مفقود ہے (کہ خلافت کا تصور ان کے نزدیک زائد از اسلام تصور ہے)، اسى طرح...

مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟

مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟

ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عمر عزیز کا بیشتر حصہ قرآن مجید کی خدمت میں صرف ہوا ہے۔ لیکن یہ قرآن مجید کے بجائے عربی زبان و ادب کی خدمت تھی یا تخصیص سے بیان کیا جائے تو یہ قرآن مجید کے عربی اسلوب کی خدمت تھی۔ قرآن مجید کا انتخاب صرف اس لئے کیا گیا تھا کہ...

خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت

خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت

ڈاکٹرزاہد مغل علم کلام کے مباحث کو غیر ضروری کہنے اور دلیل حدوث پر اعتراض کرنے کے لئے جناب غامدی صاحب نے ایک ویڈیو ریکارڈ کرائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن سے متعلق دیگر علوم جیسے کہ اصول فقہ، فقہ و تفسیر وغیرہ کے برعکس علم کلام ناگزیر مسائل سے بحث نہیں کرتا اس لئے کہ...

غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب

غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب سے جہاد کی فرضیت کے متعلق علماے کرام کے فتوی کے بارے میں پوچھا گیا، تو انھوں نے تین صورتیں ذکر کیں:۔ایک یہ کہ جب کامیابی کا یقین ہو، تو جہاد یقینا واجب ہے؛دوسری یہ کہ جب جیتنے کا امکان ہو، تو بھی لڑنا واجب ہے اور یہ اللہ کی طرف سے نصرت...

عبد اللہ معتصم

احادیث مبارکہ محدثین کی اصطلاح میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر کو کہتے ہیں۔ احادیث مبارکہ کی گراں قدر امانت حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ، صحابہ کرام سے تابعین، تبع تابعین اور پھر ہر دور میں ایک جماعت سے سینہ بہ سینہ ہم تک پہنچی ہے۔ غامدی صاحب نے دوسرے عقائد واعمال کی طرح احادیث پر بھی اپنا زہریلا پنجہ مار دیا۔ لکھتے ہیں: ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر وتصویب کی روایتیں جو زیادہ تر اخبار آحاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں اور جنہیں اصطلاح میں حدیث کہا جاتا ہے ،ان کے بارے میں دو باتیں ایسی واضح ہیں کہ کوئی صاحب علم انہیں ماننے سے انکار نہیں کر سکتا۔ ایک یہ کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی حفاظت اور تبلیغ واشاعت کے لیے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا۔ دوسری یہ کہ ان سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ کبھی علم یقین کے درجے تک نہیں پہنچتا۔ حدیث سے متعلق یہی دو حقائق ہیں جن کی بناء پر یہ ماننا تو ناگزیر ہے کہ اس سے دین میں کسی عقیدہ وعمل کا اضافہ نہیں ہوا۔“ (میزان ص68)

انکار حدیث کے لیے بطور مقدمہ کے غامدی صاحب نے جو دو دعوے پیش کیے وہ بالکل بے بنیاد اور مبنی برجہل ہیں۔ پہلی بات کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث کی حفاظت واشاعت کا اہتمام نہیں کیا، غلط اور بے اصل ہے۔ اس لیے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو احادیث سننے، ان کو حفظ کرنے اور ان کی کتابت وتحریر کرنے کی تاکید فرمائی اور ایسا کرنے والوں کے حق میں دعا فرمائی۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حفظ اور کتابت دونوں ذرائع سے کام لیتے ہوئے احادیث کی حفاظت اور ان کی تبلیغ واشاعت کا اہتمام فرمایا۔ حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: ”نضّر الله امرأ سمع منا حدیثاً فحفظہ حتیٰ یبلغہ غیرہ․“ (ترمذی، رقم:2656) (کہ الله اس آدمی کو تروتازہ اور شاداب رکھے جس نے ہم سے کوئی حدیث سن کر یاد کر لی اور اسے دوسروں تک پہنچا دیا۔)

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز جو خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس میں فرمایا: ”ویبلغ الشاہد الغائب․“ (بخاری:154) (کہ جو یہاں حاضر ہے وہ میری باتیں غائبوں تک پہنچائے۔) صحابہ کرام نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالا ارشادات کی روشنی میں احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ یاد کر لیا۔ اسے لکھ کر محفوظ کیا۔ اس پر عمل کیا اور اسے دوسروں تک پہنچا دیا۔ مرزاقادیانی بھی احادیث مبارکہ کا انکار کرتا ہے۔ لیکن وہ ایک قدم بڑھ کر سخت بے ادبی کے الفاظ استعمال کرکے احادیث مبارکہ کی توہین بھی کرتا ہے۔ چناں چہ لکھتا ہے: ”میرے اس دعویٰ کی بنیاد حدیث نہیں، بلکہ قرآن مجید اور وحی ہے، جو میرے پرنازل ہوئی۔ ہاں! تائیدی طور پر ہم وہ حدیثیں پیش کرتے ہیں جو قرآن شریف کے مطابق اور میری وحی کے معارض نہیں اور دوسری حدیثوں کو ہم ردی کی طرح پھینک دیتے ہیں۔“(اعجاز احمدی، ص30، خزائن ج19 ص140)

جاوید غامدی نے بھی احادیث کو ناقابل استدلال قرار دیا اور دین سے خارج قرار دیا اور مرزاقادیانی نے بھی ناقابل اعتبار گردانا۔ فرق صرف یہ کہ غامدی صاحب نے تمہید باندھ کر اور الفاظ کو گھما پھرا کر احادیث کی حجیت سے انکار کیا ہے اور مرزاقادیانی نے بد اخلاقی کا مظاہرہ کر کے خوب دھڑلے سے انکار کیا۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…

فکرِ فراہی کا سقم

فکرِ فراہی کا سقم

ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عربی دانی کا انکار نہیں اور نہ...