تصورِ جہاد ( قسط دوم)

Published On February 18, 2025
تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟ شهادت علی الناس:۔ شہادت علی الناس کا سیدھا اور سادہ معروف مطلب چھوڑ کر غامدی صاحب نے ایک اچھوتا مطلب لیا ہے جو یہ ہے کہ جیسے رسول اپنی قوم پر شاہد ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ صحابہ پر شاہد تھے ، ایسے ہی صحابہ کو اور صرف صحابہ کو دیگر محدود...

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟  غامدی صاحب کے دلائل کا جائزہ:۔ ویسے تو کسی نظریے کے غلط ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ امت کے اجتماعی ضمیر کے فیصلے سے متصادم ہے، لیکن اگر کچھ نادان امت کے اجتماعی ضمیر کو اتھارٹی ہی تسلیم نہ کرتے ہوں اور اپنے دلائل پر نازاں ہوں تو...

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد غامدی تصور جہاد کی سنگینی اور انوکھا پن:۔ پوری اسلامی تاریخ میں اہل سنت کا کوئی قابل ذکر فقیہ مجتہد، محدث اور مفسر اس اچھوتے اور قطعی تصور جہاد کا قائل نہیں گذرا، البتہ ماضی قریب میں نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمدقادیانی نے اس قبیل کی...

تصورِ جہاد ( قسط اول)

تصورِ جہاد ( قسط اول)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد کچھ عرصہ قبل راقم نے غامدی صاحب کے شاگر در شید اور مولانا زاہد الراشدی صاحب کے فرزند من پسند جناب عمار خان ناصر صاحب کے نظریہ جہاد کے نقد و تجزیے کے لیے ایک مضمون سپر د قلم کیا تھا، جو ماہنامہ صفدر میں قسط وار چھپنے کے علاوہ "عمار خان کا نیا...

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

حسان بن علی پہلے یہ جاننا چاہیے کہ قرآن نے اصل موضوع سود لینے والے کو کیوں بنایا. اسے درجہ ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے ١) چونکا سود کے عمل میں بنیادی کردار سود لینے والے کا ہے لہذا قرآن نے اصل موضوع اسے بنایا. ٢) سود لینے والے کے لیے مجبوری کی صورت نہ ہونے کے برابر...

سود اور غامدی صاحب

سود اور غامدی صاحب

حسان بن علی غامدی صاحب کے ہاں سود دینا (سود ادا کرنا) حرام نہیں ہے (جس کی کچھ تفصیل ان کی کتاب مقامات میں بھى موجود ہے) اور جس حدیث میں سود دینے والے کی مذمت وارد ہوئی ہے، غامدی صاحب نے اس میں سود دینے والے سے مراد وہ شخص لیا ہے جو کہ سود لینے والے کے لیے گاہک تلاش...

شعیب احمد

غامدی تصورِ جہاد

غامدی تصور جہاد کی سنگینی اور انوکھا پن:۔

پوری اسلامی تاریخ میں اہل سنت کا کوئی قابل ذکر فقیہ مجتہد، محدث اور مفسر اس اچھوتے اور قطعی تصور جہاد کا قائل نہیں گذرا، البتہ ماضی قریب میں نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمدقادیانی نے اس قبیل کی کچھ باتیں ضرور کہی ہیں۔

غامدی صاحب کے اس تصور جہاد کا انوکھا پن صرف ہمارا ہی تاثر نہیں بلکہ یہ بات خود ان کے شاگرد جناب عمار صاحب بھی دبے لفظوں میں تسلیم کرتے ہیں۔ الشریعہ کے جہاد نمبر میں شامل اپنے مضمون ” جہاد۔ایک مطالعہ کے صفحہ۳۔ پر جاوید احمد غامدی کا نقطہ نظر کے جلی عنوان کے تحت لکھتے ہیں:۔

نبی اور آپ کے صحابہ نے اپنے دور میں منکرین حق کے خلاف جو قتال کیا اس کی خاص نوعیت اور اس پر مرتب ہونے والے نتائج کو اہل علم کسی نہ کسی زاویے سے عمومی طور پر محسوس کرتے چلے آرہے ہیں۔ تاہم اس بحث کو بالعموم چونکہ فقہی تناظر میں دیکھا گیا ہے اور اس کو نسخ  وتخصیص کی فنی اصطلاحات کے اسلوب میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس وجہ سے (مزعومہ) الجھن برقرار رہی اور ہر دور میں اہل علم اس ( مزعومہ الجھن) کے حل کے لیے نئی نئی تو جیہات کو پیش کرنے پر مجبور ہوتے رہے۔ اس کے برعکس مولا نا حمید الدین فراہی نے اس سارے معاملے (یعنی رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کے قتال) کو پہلی مرتبہ فقہی اصطلاحات کے محدود اور نا کافی دائرے سے نکال کر قرآن مجید میں بیان کردہ سنن الہیہ کے دائرے میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش کی۔ مولانا نے رسولوں کے حوالے سے اللہ تعالی کی ایک خاص سنت کو قرآن مجید سے دریافت کیا اور اس کے روبعمل ہونے کے مختلف مراحل نصوص کی روشنی میں متعین کیے۔ اس بحث کو بعد میں ان کے طریقے پر قرآن مجید پر غور کرنے والے اہل علم مثلا مولانا امین احسن اصلاحی اور جاوید احمد غامدی نے مزید منقح کیا اور اس کی روشنی میں احکام قتال کی ایک نئی تعبیر پیش کی۔ (جہاد ایک مطالعہ: ۳۰۱)

ویسے تو مذکورہ بالا عبارت میں کئی باتیں قابل اعتراض ہیں جو غامدی و عمار خان صاحب سمیت تمام متجددین کی نفسیات اور سوچ کی غمازی کرتی ہیں۔ ان سب باتوں سے قطع نظر اتنی بات تو خودان ہی کے بیان سے عیاں ہے کہ یہ انوکھا تصور جہاد ” دبستان فراہی کی خانہ زاد اختراع اور نئی ایجاد ہے۔ پہلے امت میں اس کا وجود نہیں تھا۔ اسی لیے تو خود عمار صاحب کو بھی اس پر دریافت کا اطلاق کرنا پڑا۔ پھر اگر چہ موصوف نے اس نئی دریافت پرنئی تعبیر یا تعبیر نوکا لفظ بول کر اسکی سنگینی  اور حساسیت کم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن یہ عبارت بھی اورخود یہ تصور بھی صاف صاف بتا رہا ہے کہ وہ صرف تعبیر نو نہیں بلکہ تعمیرنو ہے۔

تعبیر نو کا اطلاق اس وقت تو درست ہوتا جب تو جیہ بدلنے کے باوجود جہاد کے احکامات نہ بدلتے اور مسئلہ اپنی جگہ ہی رہتا۔ اس کے برعکس جب سارا مسئلہ ہی بدل جائے تب بھی ایسی نئی دریافت کو تعبیر نو کہنا بظاہر معصوم سا لفظ ہے لیکن در حقیقت انتہائی سنگین اور خطر ناک غلطی ہے۔ بلکہ اگر ایک قدم اور آگے بڑھیں تو یہاں مسئلہ صرف جہاد کی تعبیر نوکا نہیں بلکہ پورے اسلام کا ہے، کیونکہ خود عمار صاحب کے بقول جہاد کی تعبیر پر پورے اسلام کی تعبیر موقوف ہے۔ موصوف اپنے مذکورہ بالا مضمون کے پہلے صفحے پر لکھتے ہیں:۔

اسلام میں جہاد کا تصور اس کی غرض وغایت اور بنیادی فلسفہ کیا ہے؟ یہ سوال ان اہم اور نازک ترین سوالات میں سے ہے جن کا جواب بحیثیت مجموعی پورے دین کے حوالے سے ایک متعین زاویہ نگاہ کی تشکیل کرتا اور دین کے اصولی و فروعی اجزاء کی تعبیر و تشریح پر نہایت گہرے طور پر اثر انداز ہوتا ہے۔“

پھر اسی صفحے پر کچھ سطور کے بعد رقمطراز ہیں:۔

اسلام کے تصور جہاد کی تعبیر وتشریح کے ساتھ اس کے مابعد الطبیعیاتی تصورات اور اخلاقی اصولوں کے ایک بڑے حصے کی تعبیر و تشریح کا سوال بھی وابستہ ہے۔ چنانچہ اس سوال کا کوئی بھی متعین جواب نہ صر ف حیات انسانی کے حوالے سے اسلام کے عمومی مزاج اور زاویہ نگاہ کی عکاسی کرے گا بلکہ اس کا نہایت گہرا تعلق اس بات سے بھی ہوگا کہ اسلام ما بعد الطبیعیاتی سطح پر انسانی زندگی کے بارے میں خدا کی اسکیم کی کیا وضاحت کرتا اور انسانی اخلاقیات کے دائرے میں دنیا کے دوسرے گروہوں اور مذاہب کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات کی کیا نوعیت متعین کرتا ہے ۔ ( جہاد : ۱۰۹)

ان اقتباسات کی روشنی میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ فراہی صاحب کی طرف سے دریافت کردہ اور غامدی و عمار صاحب کے ہاتھوں پر وردہ فلسفہ جہاد کی تبدیلی اگر صرف جہادی کے ایک باب تک منحصر رہتی تب بھی مسئلہ سنگین اور نازک تھا کہ جہاد ذروة سنام الاسلام (یعنی اسلام کی چوٹی ) ہے لیکن یہاں تو بقول عمار صاحب پورے اسلام کی تعبیر کا سوال بھی وابستہ ہے۔ گویا جب تصور جہاد بدلا تو پورا تصور مذہب و دیں ہی  بدل گیا ۔ چنانچہ جب فراہی صاحب نے پوری امت سے ہٹ کر نیا تصور جہاد دریافت کیا ہے تو اس کا لازمی تقاضا ہے کہ ان کا باقی اسلام بھی نیا ہونا چاہیے۔ اس لیے عمار خان کی کوشش چاہے کچھ بھی ہو فراہی صاحب کی دریافت اور اس کی ساخت و پرداخت کو صرف تعبیر نو کہہ کر ٹالا نہیں جا سکتا۔

اس تصور جہاد  کو تسلیم کرنے کا نتیجہ:۔

اس تصور جہاد کو درست مان لینے کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ امت کے چودہ صدیوں کے جمہور علماء اور  مقتداء اہل علم کی بیک قلم تغیلط کی جائے ، اور یہ مانا جائے کہ جہاد جیسے شریعت کے اہم حکم اور بقول عمار صاحب شریعت کے انتہائی اہم بنیادی تصورات میں سے ایک تصور کے بارے میں گذشتہ سارے لوگ ایک زبردست اور بدیہی  غلطی  میں مبتلاءر ہے کہ وہ اقدامی جہاد برائے اعلائے کلمۃ اللہ کو مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داریوں میں شامل  کرتے ہے اور انہیں یہ خبر نہ ہوئی کہ یہ تو صحابہ کے بعد سے خود بخود ختم  ہو چکا ہے۔ آخر یہ کیسے باور کر لیا جائے کہ اتنے اہم اور بنیادی تصور میں امت کے اجتماعی ضمیر کو نہ صرف ٹھو کر  لگی  بلکہ اس ٹھوکر  پر صدیوں امت برقرار بھی رہی ہے ۔ ۱۱۱

پور اگلا سوال یہ ہے کہ اگر معاملہ یوں ہی کھلے بندوں چلتا ہے، کوئی ختم نبوت کے معنی امت کی اجتماعی خرد و  دانش سے ہٹ کر لیتا ر ہے، کوئی حدیث کے معنی افسانہ کرتا رہے، کوئی سنت کا مفہوم بدلتا رہے، اور کوئی جہاد جیسے اہم تصور کی بنیادوں میں کئی بو قلمونیوں سے کام لیتار ہے تو شریعت کا حلیہ کیا ٹھہرے  گا ۔ ؟؟؟

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…