اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی

Published On November 25, 2024
جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...

امام النواصب جاوید غامدی

امام النواصب جاوید غامدی

احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...

محمد خزیمہ الظاہری

غامدی حلقہ انکار حدیث کی صاف تہمت سے اس لئے بچ نکلتا ہے کہ بہت سی بنیادی چیزیں (نماز کا طریقہ وغیرہ) حدیث سے نہیں بھی لیتا تو تواتر سے لے لیتا ہے. یعنی یہاں صرف مصدریت میں اختلاف ہے کہ ایک ہی چیز دو طبقے لے رہے ہیں مگر ایک حدیث سے, دوسرا تواتر سے۔

لیکن یہاں بات پوری نہیں ہوئی ہے. اصل مسئلہ یہ ہے کہ اہل سنت کے ہاں حدیث کو ماننے کے دو واضح معیار ہیں. پہلا یہ کہ حدیث کو دین میں بنیادی حیثیت حاصل ہے, اگرچہ یہ حیثیت قرآن کے بعد دوسرے نمبر پر ہی کیوں نہ مانی جائے. لیکن بہر صورت حدیث دین ہے. دوسرا یہ کہ حدیث دین ہونے کے ساتھ ساتھ دین کی تشریح و وضاحت میں بھی بنیادی حیثیت رکھتی ہے. لہذا دین کا پیراڈائم وہی ہے جو احادیث کے مطابق طے پایا ہو۔

ان دو چیزوں میں اہل سنت کے جمیع طبقات میں کوئی اختلاف نہیں ہے. رہی بات ظنی اور قطعی کی, تواتر و آحاد کی. وغیرہ وغیرہ. کہ ان میں کئی بار محدثین و فقہاء میں اختلاف پایا جاتا ہے تو ان سب اختلافات کے باوجود نہ تو کسی کے نزدیک حدیث دین سے باہر ہے اور نہ ہی دین کی تشریح میں بنیادی حیثیت سے فارغ ہوتی ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ حدیث کے منکر نہ کہا جائے تو حدیث کی اس حیثیت کے بہر حال منکر ہی ہیں جو امت کے ہاں حدیث کو ہمیشہ حاصل رہی ہے. اور یہی انکار حدیث کا چور دروازہ ہے کہ حدیث کو اسکی حیثیت سے گرا دیں تو انکار کئے بغیر ہی راستہ بحال ہے۔

اب میزان میں غامدی صاحب کا طرز عمل کیا ہے ؟
شروع میں ہی قرآن و حدیث کا ایک ذیلی عنوان ہے جس میں ان احادیث کا جواب دیا گیا ہے جو علمائے اصول اور فقہاء نے اس طور پر پیش کی ہیں کہ یہ احادیث قرآن سے اضافی حکم پر مشتمل ہیں لہذا حدیث بھی دین کے احکام میں مستقل ہوئی. غامدی صاحب نے ان احادیث کو تکلّف کے ساتھ اس مفہوم پر ڈالا ہے کہ یہ بیانِ فطرت وغیرہ ہے. شرعی حکم قرآن ہی سے ثابت ہے اور بس. یہ ہے احادیث کو دین میں اصل اور مستقل حیثیت دینے سے جان چھڑانے کا رویہ اور یہ اسی طرح ہے جیسے قیاس کے منکرین قیاسی احکام کو زبردستی تکلف کے ساتھ نصوص سے ہی مستنبط کرتے ہیں جو بہت بار زبردستی کا استنباط ہوتا ہے. اسی طرح دین کا ہر مستقل حکم قرآن سے نکالنے میں تکلفانہ استدلال غامدی صاحب یا انکے حلقے کو کرنے پڑتے ہیں. تاکہ حدیث کی استقلالی حیثیت سے جان چھوٹ جائے۔

دوسری اہم چیز کنفیوژن ہے. غامدی صاحب حدیث سے متعلق لمبی چوڑی گفتگوئیں کرنے کے باوجود اس معاملے میں نہایت کنفیوژ ہیں. کیونکہ دین کو قرآن اور اعمال کے تواتر سے مکمل بھی کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف بار بار یہ بھی کہتے ہیں کہ : حدیث سے متعلق میرا موقف وہی ہے جو محدثین کا ہے. چنانچہ ایک طرف یہ کلیہ رکھا ہوا ہے کہ دین قرآن و سنت کا نام ہے. نہ کہ قرآن و حدیث کا. اور دوسری طرف یہ بہانہ بنایا ہوا ہے کہ میزان میں بارہ سو روایتیں ہیں. تا کہ انکار حدیث کی تہمت بھی نہ آئے اور حدیث کا صفایا بھی ہو جائے. ہو سکتا ہے بہت سے لوگوں کو یہ کنفیوژن نہ لگے لیکن انکے حدیث سے متعلق مضطرب اور متزلزل بیانیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ انکا سارا حلقہ حدیث کی تشریح یا حیثیت نہیں, حدیث کی حجیت پر ہی کنفیوژ ہے۔

اسکے بعد یہ سوال اکثر ہوتا رہتا ہے کہ آپ آخر حتمی طور پر غامدی صاحب کے نظریہ حدیث سے متعلق کیا کہتے ہیں ؟
ہم نے جہاں تک دیکھا پڑھا ہے. غلام احمد پرویز بھی اس مفہوم میں پکے ٹھکے منکر حدیث نہیں ہیں کہ وہ حدیث کو مانتے ہی نہیں. بلکہ مقام حدیث میں کم و بیش اسی طرح کی باتیں ہیں جیسی جدت پسند مفکرین کرتے رہتے ہیں کہ ہم حدیث کو مانتے ہیں. بس یہ اور وہ کی قید لگاتے ہیں ساتھ. وغیرہ وغیرہ. اس لئے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ لوگ حدیث کے منکر نہیں ہیں بلکہ حدیث کی اس حیثیت کے منکر ہیں جو اسے امت میں حاصل رہی ہے. لیکن اس فرق کے باوجود انکی گمراہی کسی بھی ایسے آدمی سے کم نہیں ہے جو انکار حدیث کا کھلم کھلا اقراری ہو. اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی کتب میں ہزار احادیث لکھیں یا چار ہزار. اسکے باوجود دین کی تشریح میں خود کو کسی ضابطے کے پابند نہیں سمجھتے. ماضی کے علماء و فقہاء کے اجماعات سے بڑھ کر کوئی قابل اطمینان ضابطہ نہیں ہے اور یہ اسکے بھی پابند نہیں بنے. اس لئے انکی گمراہی کی بنیاد “دین کی جدید تعبیر” ہے. جس میں مذہبی فکر کی اسطرح ری کنسٹرکشن ہوئی ہے کہ مواقف پوری تراث سے معکوس ہو گئے ہیں اور ایک نیا دین برآمد ہو گیا ہے جسکا تعلق حدیث سے بھی ثانوی ہے اور دین کی پوری تراث سے بھی ثانوی ہے۔

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…