کافروں سے مختلف نظر آنے کا مسئلہ، دار الکفر، ابن تیمیہ اور اپنے جدت پسند

Published On September 20, 2024

حامد کمال الدین

دار الکفر میں “تشبُّہ بالکفار” کے احکام کسی قدر موقوف ٹھہرا دینے کے متعلق شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کی ایک تقریر پر پچھلے دنوں کئی ایک سوالات موصول ہوئے۔

بلا شبہہ، شیخ الاسلام کا یہ کلام آپؒ کی تصنیف ’’اقتضاء الصراط المستقیم مخالفۃ أصحاب الجحیم‘‘ میں وارد ہوا ہے۔ باقی مضمون سے کاٹ کر ایک مسئلہ ’’لے اڑنے‘‘ والی ایک سوشل میڈیا اپروچ کو بےشک اپنی ہی ایک مخصوص سرگرمی سے سروکار رہے۔ ابن تیمیہؒ کا اِس موضوع پر اپنا جو ایک مُنطَلَق ہے اسے البتہ سمجھ لینا مفید رہے گا۔ ’’تشبُّہ‘‘ آپؒ کے نزدیک نرا ایک فقہی مسئلہ نہیں۔ بلکہ بہت حد تک ایک عقائدی مسئلہ ہے، سو اس کی تکییف بھی بہت حد تک عقائدی:

اول ۔  اس مسئلہ کی بنیاد اٹھتی ہے ’’ملتوں کے مابین فرق اٹھانے‘‘ کے وجوب سے، جو شریعت کے بڑے مقاصد میں سے ہے۔ شرک اور توحید کے مابین عداوت کے مسئلہ سے۔ اللہ کے ہاں قبول ہونے والی عبادت (ملتِ اسلام) اور اللہ کے ہاں ناقبول ٹھہرا دی گئی عبادت (اہل کتاب) کے مابین فرق کو زیادہ سے زیادہ مرئی  ، نمایاں  ، زیادہ سے زیادہ ناقابل نظرانداز  بلکہ مسلسل نظروں پر حاوی کروا رکھنے کو دین کا ایک باقاعدہ مطلوب ماننے سے۔ اب جن جدت پسند حضرات کی اپنی محنت ’’ملتوں کا فرق‘‘ زیادہ سے زیادہ روپوش کروانے یا غیر اہم یا غیر متعلقہ ٹھہرانے پر صرف ہو رہی ہو، وہ تو ظاہر ہے ابن تیمیہ کی کتاب میں وارد وہ سب نفیس عقائدی مباحث پھلانگ کر، اور مسئلہ کی وہ سب فقہی تکییف گزر کر، اُسی ایک سرسری مسئلہ پر ہی جا رکنا پسند فرمائیں گے جو دار الکفر کی ایک استثناء سے متعلق ابن تیمیہ کے کلام میں وارد ہوا! کہ یہ دیکھو ابن تیمیہ بھی

دوم ۔ ملتوں کا فرق (اسلام اور کافر ملتوں کے مابین دوریاں اور جدائیاں ڈال دینے کا وجوب) مکہ میں زیادہ ’’قلوب‘‘ کے اندر ہی جاگزیں کروایا گیا۔ البتہ خارج   میں ملتوں کے اس فرق کے مَعَالِم    مکہ کے اندر زیادہ نہیں کھڑے کیے گئے۔ اس کی سادہ وجہ: اسلام اس کےلیے اپنی ایک الگ تھلگ دنیا تعمیر کرنا چاہتا ہے، جس کا نام ’’دار الاسلام‘‘ ہے۔ ’عقلِ عام‘ تک کی رُو سے، اسلام کی اَن گنت تشریعات اسی (اسلام کی اپنی ایک دنیا ہونے) کی متقاضی۔ (دار الاسلام کا مطلب ہی یہ کہ اسلام کی اپنی ایک الگ تھلگ دنیا)۔ جس میں کافر رہ تو  سکتے ہیں مگر ’’صاغرون‘‘  ہو کر، اور جس میں ’’غلبہ‘‘ اور ’’ظہور‘‘ اللہ کے کلمہ کو حاصل ہو اور ایک اُسی وحدہٗ لا شریک کے اتارے ہوئے شرائع کو وہاں پر سلطان اور ’’آپ سے آپ‘‘ آئین ہونے کی حیثیت حاصل ہو۔ مکہ چونکہ ابھی دار الاسلام نہیں تھا، اس لیے ’’ظہور‘‘ سے متعلقہ شریعت کے بہت سے جوانب مدینہ جانے تک کےلیے موخر رکھے گئے۔ کافر ملتوں کے ساتھ ’’عدم تشبُّہ‘‘ اور ’’مخالفة فی الهَدْيِ الظاهِر‘‘ کا مسئلہ چونکہ اِس ’’ظہور‘‘ (غلبہ) والے مبحث کا کلائمکس ہے، لہٰذا یہ (تشبّہ سے ممانعت اور مخالفت کے وجوب والا مسئلہ) بالاَولیٰ ’’دارالاِسلام‘‘ کے ساتھ نتھی ہوا، لہٰذا وہ دارالکفر میں اُس انداز سے ایک مسلمان سے مطلوب نہ رہے گا، بلکہ کسی نقصان سے بچنے کے باب سے تو ھَدۡیِ ظاھِر میں کافروں سے مختلف نظر نہ آنا اَولیٰ تک ہو سکتا ہے۔ اب جن جدت پسند حضرات کی صبح شام کی محنت اس دارالکفر اور دارالاِسلام والے مسئلہ کو بنیاد سے ’فقہاء کی اپنی اختراع‘ ٹھہرانے پر ہو، وہ ابن تیمیہ کا اصل مقصودِ کلام بھلا کیونکر سمجھنے سمجھانے کی کوشش کریں گے۔

یعنی ایک گھر (دارالاِسلام) کی دیواروں اور فصیلوں کا ابطال کرنے والے (جدت پسند) اس کی ایک شاذ و نادر کھلنے والی کھڑکی کو اپنے کسی بیانیہ کے اندر فِٹ فرمائیں

میرا نہیں خیال، ویسے ان حضرات کا کوئی کام ابن تیمیہ کے بغیر رکا ہوا ہے، جاوید غامدی صاحب ہر چیز سے کفایت کر چکے! اغلباً یہ حوالے (ابن تیمیہؒ وغیرہ کے) اپنے یہاں سنت و ائمۂ سنت سے وابستہ نوجوانوں کو قائل کرنے کےلیے ہوتے ہیں! ان نوجوانوں کو میرا مشورہ ہو گا، اُن فورَمز کو المورد وغیرہ کی چیزوں پر ہی اتھارٹی مانیں۔ ہاں اُس کے پورے مالہٗ و ماعلیہ کے بغیر امید ہے وہاں کوئی حوالہ نہ ہو گا۔

سوم ۔ پھر یہ بات بھی مد نظر رہے، ابن تیمیہؒ اور دیگر فقہائے ملت کے ہاں دارالکفر میں مسلمان کی اقامت کا مسئلہ بھی خلافِ اصل کے طور پر لیا جاتا ہے۔ کافروں کے ہاں جا بسنا اور اپنا جینا مرنا کافروں کے ساتھ رکھنا ان فقہاء کے ہاں بنیاد سے ایک ناقبول چیز ہے۔ دارالکفر میں ایک مسلمان جائے گا کسی بڑی ہی وقتی سی مہم کو سر کرنے کےلیے، اور پھر واپس اسلام کی سرزمین میں۔ لہٰذا ایک بڑی ہی وقتی سی سرسری سی چیز کو دیکھنے کا زاویہ نگاہ اور ہو گا۔ البتہ اِس وقت اُن کتابوں کے حوالے ایک ایسی صورتحال سے متعلق دینا جہاں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد باقاعدہ کافروں کے ہاں جا بسی، اپنا جینا مرنا ان کے ساتھ کر چکی، اور اپنی نسلیں اُن میں گم ہو جانے کو ہمیشہ ہیشہ کےلیے چھوڑ چکی، وہاں ابن تیمیہ وغیرہ  کی کتب سے ایک سرسری و استثنائی مبحث نکال لانا، جبکہ دارالکفر سے متعلق ائمۂ سنت کا وہ پورا بیانیہ گول (اور شاید باطل تک) ٹھہرا دیا گیا ہو، کسی قدر گمراہ کن ہے۔ یعنی ایک تصویر کے ایک چھوٹے سے جزء کو اٹھا کر اس سے خاصی مختلف ایک تصویر میں جڑنا، جہاں پڑھنے والا اُسے اِسی نئی تصویر کے حصے کے طور پر ہی دیکھے گا۔

چہارم ۔ علاوہ ازیں، اس سارے مبحث کا تعلق صرف انہی اعمال سے رہے گا جو محض ’’عدم تشبُّہ‘‘ کے باب سے شریعت کا مطلوب ہوئے ہوں۔ رہے وہ اعمال جو شریعت کی کسی علیحدہ دلیل سے ثابت ہیں، تو محض ’’تشبّہ‘‘ اور ’’دارالکفر‘‘ ایسے الفاظ کے تحت لا کر شریعت کے ان مسائل کا گھونٹ بھرنا پھر بھی درست نہ ہو گا۔ میرے اس جانب توجہ دلانے کی وجہ یہ کہ ابن تیمیہ کے اس حوالے کے ساتھ ہی ’شارحین‘ مغربی ممالک میں مسلمان عورت کے سر سے چادر یا خمار وغیرہ اتروانے چل دیے۔ گویا حجاب اور حیاء کا مسئلہ شریعت کا کوئی مستقل بالذات مسئلہ نہیں بلکہ محض تشبّہ کے باب سے شریعت میں آ گیا (یا سمجھ لیا گیا!) ہے! (یہاں بھی مجھے وہی واردات نظر آتی ہے۔ مسلمان عورت کا سر ڈھانپنا خود – ان کے غُلاۃ کے ہاں – سرے سے واجب نہیں۔ لہٰذا اپنے سر کے خمار سے تو یہ مسلمان عورت پہلے ہی فارغ ہے، ’دارالکفر‘ کی دلیل سے اسے برہنہ کروانے کی کیا خاص ضرورت؟ وجہ میرے اندازے میں وہی ہے۔ ابن تیمیہ وغیرہ کے یہ حوالے ہمارے متبعِ سنت نوجوانوں کی کھپت کےلیے ہیں۔ ان کی اپنی کھپت کےلیے تو مصنوعات ہی اور ہیں، اللہ اعلم۔

5۔       آخری بات اس ضمن میں یہ کہ بےشک ایک ’یو۔این‘ ورلڈ نے ہمارے ’’دارالاِسلام‘‘ کے معانی کو عمل کی دنیا میں ان کی اصل حالت پر نہیں رہنے دیا۔ اس کے باوجود ہماری اِن مسلم سرزمینوں (مانند بلادِ عرب، ترک، فارس، افغان، پاکستان، افریقہ و یورپ کے مسلم خطوں وغیرہ) سے ’’دارالاِسلام‘‘ کا وہ معنی بالکلیہ ساقط نہیں ہو گیا۔ زیادہ سے زیادہ یہی کہا جائے گا، ’’دارالاِسلام‘‘ اپنے اُس پورے معنیٰ میں جو فقہاء کے ہاں بیان ہوا، آج کسی قدر نقص کا شکار ہو گیا ہے، پھر بھی اپنی اصل پر باقی ہے۔ ان مسلم زمینوں کی پاسبانی کےلیے ہم موحدین کے جان و مال دینے اور ان کو ترقی دلانے کےلیے اپنی زندگیاں کھپانے کا وجوب اور یہاں کے ساتھ وابستگی سے متعلق بہت سے دیگر احکامِ شریعت اِسی باب سے ہیں، نہ کہ کسی ہومنسٹ یا نیشنلسٹک باب سے۔ یعنی بےشمار پہلوؤں سے یہ سرزمینیں دارالاِسلام ہی ہیں۔ اسلامی طرزِ معاشرت (رہن سہن) کے تمام مَعَالِم  کا تحفظ، جوکہ ’’تشبُّہ سے ممانعت‘‘ کے زیرعنوان شریعت کا ایک باقاعدہ باب ہے، اپنے اِن مسلم دیار میں جہاں جہاں اور جس قدر ممکن العمل ہو، واجب اور متعلقہ رہے گا۔ ان بدیسی ممالک سے جہاں اپنی نسلوں کا بالآخر کافروں میں گم ہو جانا یقینی یا اغلب ہے، مسلم خاندانوں کا واپس ہجرت کر آنا اور اِن مسلم سرزمینوں میں آ بسنا جہاں کی معاشرت پر دینِ محمدؐ کی رِٹ قائم ہے، اور جہاں دینِ محمدؐ کے ’’ظہور‘‘ کے یہ بہت سے ابواب بدستور متعلقہ ہیں، واجب رہے گا۔ ’’جماعت‘‘ دین کے بڑے فرائض میں سے ایک ہے، اور دین کا یہ فرض کافروں سے بیزاری اور مسلمانوں کی آپس کی وابستگی ایسے مباحث پر ہی کھڑا ہوتا ہے۔ جس چیز کو آج کی زبان میں ’معاشرہ‘ کہتے ہیں وہ ہماری کتاب و سنت کی اصطلاحات میں بہت بڑی حد تک ’’جماعت‘‘ کے لفظ سے ہی بیان ہوا ہے، اور جماعۃ المسلمین، یعنی اسلام کا معاشرہ، دین کے بنیادی فرائض میں سے ایک۔

بشکریہ ایقاظ

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…