نائن الیون اور ماڈریٹ اسلام

Published On April 10, 2025

احمد الیاس

نائین الیون کے بعد امریکہ نے کئی مسلمان ملکوں کی حکومتوں کے ساتھ مل کر ‘ماڈریٹ اسلام’ کے پروجیکٹس شروع کیے۔ برنارڈ لوئیس، جان ایسپسیٹو جیسے مستشرقین اور ‘اسلام ایکسپرٹس’ کی رہنمائی بھی اس حوالے سے وائٹ ہاؤس کو حاصل تھی۔

پاکستان میں بھی مشرف رجیم کی معاونت سے ‘کاؤنٹر نیریٹو’ کے ایسے پروجیکٹ شروع ہوئے جن میں دو بہت نمایاں پروجیکٹ تھے۔ ان دونوں پروجیکٹس کو مشرف رجیم کی ‘اینلائیٹنڈ ماڈریشن’ کی چھتری حاصل تھی۔

ایک پروجیکٹ ‘روشن خیال صوفی ازم’ کا پروجیکٹ تھا۔ اس پروجیکٹ کے تحت دین کی صوفی تعبیر کو اس انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی جو ‘انتہاء پسندی’ و ‘بنیاد پرستی’ کاؤنٹر کرنے اور مسلمانوں میں موجود مزاحمتی افکار پر قابو پانے میں مددگار ہو۔

پالیسی سازوں کو اس بات کا بھی احساس تھا کہ جدید دور میں ایک بڑا مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ وہ بھی ہے جو تصوف کو ہی نہیں مانتا تو ‘روشن خیال صوفی ازم’ کو کیا مانے گا ؟ وہابی و سلفی، سیاسی اسلام کے کئی معتقد، نیز کچھ دیوبندی طبقات ۔۔۔ ان کو کیٹر کرنے کے لیے اس دور میں غامدی جی لانچ ہوئے۔ غوامد کا معتدبہ حصہ ان ہی طبقات کے پس منظر سے “ارتقاء” کرکے آیا کیونکہ غامدی پروجیکٹ ڈیزائین ہی ان کو ٹارگٹ کرکے ہوا تھا۔

بہت اہتمام کے ساتھ، بہت بڑا اور دیدہ زیب سیٹ لگا کر جیو کے پرائم ٹائم سلاٹ میں غامدی صاحب کا پروگرام ان کے نام سے ہی شروع کروایا گیا۔ مذہبی پروگرامز کی ریٹنگ کم آتی ہے، اسی لیے کبھی پرائم ٹائم میں انھیں نہیں چلایا جاتا۔ نجی چینلوں کی رمضان ٹرانسمیشن تک میں مذہبی کونٹینٹ برائے نام ہوتا ہے اور انٹرٹینمنٹ زیادہ۔ غامدی صاحب کا پروگرام تو آج کے دور میں جب وہ نسبتاً بہت مشہور اور مقبول ہیں، کاروباری نکتہ نظر سے منافع بخش نہیں ہوسکتا جبکہ اس وقت تو عامتہ الناس انھیں جانتے بھی نہیں تھے، اکثر لوگوں کو ان کی سمجھ ہی نہیں آتی تھی۔ یعنی ظاہر ہے کہیں بہت اوپر سے ہی حکم آیا تھا کہ غامدی کو ٹی وی پر، پرائم ٹائم میں ایڈجسٹ کرنا ہے۔ ان کا پروگرام مالیاتی نہیں، سیاسی مفادات کے تحت تھا۔ اسی دور میں، یعنی مشرف رجیم میں وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن بھی تھے۔

سیکولر صوفی ازم والا پروجیکٹ تو بری طرح فیل ہوا، بلکہ ‘بریلوی فرقہ’ جو کہ ‘بارودی’ مولویوں کے برعکس ‘درودی’ مولویوں کا معتدل اور پرامن فرقہ سمجھا جاتا تھا، انتہاء پسندی کی طرف مائل ہوگیا۔ غامدی پروجیکٹ کو البتہ کسی قدر کامیابی حاصل ہوئی سو یہ پروجیکٹ جاری ہے۔

مُلاّوں کا کردار مجموعی طور پر حریت پسندی اور مزاحمت کے حوالے سے شرم ناک رہا ہے۔ ناانصافی اور قبضہ گیری کے خلاف جو مزاحمت مذہبی طبقات نے کی وہ صوفیاء نے ہی کی۔ امام شامل، عبدالقادر الجزائری، فضل حق خیر آبادی، امداد اللٰہ مہاجر مکی، کفایت علی کافی، عمر مختار، حتیٰ کہ سیدّ احمد شہید و حسن البناء سمیت بے شمار مزاحمت کار صوفی پس منظر کے حامل تھے جن میں سے کئی لوگوں کے نام لکھنے پر بھی فیسبک الگوردھم برا مان جائے گا۔ اس کے برعکس پروفیشنل مولوی طبقہ ہمیشہ درباری رہا ہے، خواہ حاکم مقامی ہو یا فرنگی۔

اس اعتبار سے غامدی صاحب پکے ٹھٹھے مولوی ہیں۔ ان کی مولویوں سے جو ‘لڑائی’ ہے، وہ کنٹرولڈ / لمیٹڈ اپوزیشن ہے جو آزادی فکر کا جعلی تاثر دینے کے لیے حکمران طبقہ خود پیدا کرتے ہیں۔ مولویوں کے اصل، بنیادی جرم یعنی طاقت کے استحصالی و غیر منصفانہ ڈھانچوں کو علمی و فکری اعتبار سے تقویت بخشے کے حوالے سے وہ ہراول دستے کا حصہ ہیں۔ باقی چھوٹے موٹے فقہی مسئلوں پر تھوڑا لبرل موقف دے کر، جو ان سے پہلے کئی علماء اور صوفیاء بہت بہتر انداز میں پیش کرچکے ہیں، غامدی صاحب ہیرو بن جاتے ہیں، حالانکہ سیاسی نظریات کے حوالے سے وہ اتنے اتھاریٹیرئین اور ریاست پرست ہیں کہ ریاست کی اتھارٹی کو کھینچ کر مذہب کے دائرے کے اندر پر بھی حاوی کرنا چاہتے ہیں۔

غامدی صاحب سمیت مولویوں سے کہیں بہتر کردار پوپ فرانسس کا ہے۔ انھوں نے کھل کر مظلوموں کی حمایت کی ہے، یہاں تک کہ قابضوں کو کھل کر ان کے خلاف بات کرنا پڑی۔ پوپ فرانسس یہ بات سمجھتے ہیں کہ مذہبی رہنماء کی اصل ذمہ داری اخلاقی ہوتی ہے۔ مذہبی رہنماء نے قوم کے لیے سیاسی ایڈوائس دینے، سٹریٹجی بنانے یا دانشوری کرنے کا کام نہیں کرنا ہوتا، اس کے کام کا دائرہ صرف اس کی مذہبی کمیونٹی تک محدود نہیں ہوتا بلکہ انسانیت کے حوالے سے آفاقی بات کرنا ہی ایک اچھے سچے دینی رہنماء کا منصب ہے۔ اس کا اصل کام لوگوں کے تصورِ اخلاق کو درست رکھنا، صحیح اور غلط کی تمیز کو قائم رکھنا ہوتا ہے۔ اسے سیاست، حکمتِ عملی اور نتائج سے بے نیاز ہو کر صرف سچ کی حمایت کرنی ہوتی ہے، اگر مگر اور انفرادی اور اجتماعی مصلحتوں کو پسِ پشت ڈال کر انسان کے ضمیر کی آواز بننا ہوتا ہے۔

غامدی صاحب یہ کہتے ہیں کہ حقیقت پسندی سے کام لیں، خود کو تیار کریں ۔۔۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمان حکمران جدید دور میں اسی حقیقت پسندی اور مصلحت سے ہی کام لیتے رہے ہیں اور لے رہے ہیں جس کی تبلیغ غامدی کرتے ہیں۔ اردن سے سعودی عرب تک، مصر سے پاکستان تک حکمران طبقہ مختلف سطحوں پر ان ہی اصولوں پہ کام کرتا ہے جو غامدی صاحب پیش کرتے ہیں۔ مزاحمت کاروں کی حکمتِ عملی سے کہیں زیادہ ان مصلحت پسندوں کی حکمت عملی ناکام ہوئی ہے۔

غامدی صاحب مزاحمت سے پہلے تیار ہونے، آزادی سے پہلے خود کو بہتر بنانے کی بات کرتے ہیں۔ پاکستان کی سول اور ملٹری بیوروکریسی کی مذہبی تربیت اس وقت المورد کے دانشور ہی کررہے ہیں۔ بطور ٹرینر اور مذہبی استاد انھیں مختلف تربیتی پروگرامز میں مدعو کیا جاتا ہے۔ غامدی صاحب پاکستانی حکمران اشرافیہ کے سب سے اہم مذہبی صلاح کار ہیں۔ غامدی صاحب کی اپیل پر ہی بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ کیا وہ بتائیں گے کہ قوم کو تیار کرنے کے لیے انھوں نے باتوں کے علاوہ کیا کیا ہے؟

سرسیدّ اگر یہ بات کرتے تھے کہ پہلے ہمیں تیار ہونا چاہئیے تو وہ ساتھ میں ادارے بناتے نظر آتے تھے۔ غامدی صاحب تا حال صرف گفتار کے غازی ہیں۔ نہ ان کے کریڈٹ پر کوئی علی گڑھ ہے اور نہ ان کے لشکر میں کوئی حالی، شبلی، محسن الملک یا وقار الملک ہیں۔

گفتار کے غازی کے طور پر بھی انھوں نے قوم میں یا نوجوانوں میں کوئی ایسا ولولہِ تازہ پیدا نہیں کیا کہ وہ مسلم نشاتہ ثانیہ کی کاوشوں میں، علم و معیشت اور ٹیکنالوجی میں خود کو بہتر بنانے کی کاوشوں میں تندہی سے جُٹ گئے ہوں۔ غامدی صاحب کی آواز بدعنوان خود غرض مادہ پرست اشرافیہ اور ناکارہ نظام تعلیم سے پیدا ہونے والی مڈل کلاس کی کچی پکی انٹیلیجینشا کے ایکو چیمبرز میں ہی دم توڑ دیتی ہے۔

غامدی صاحب انسانیت کی بات تو کرتے ہیں لیکن چونکہ مُلاّئی پس منظر سے ہیں اس لیے ان کا ذہن خود بھی اب تک انسانیت کے پراڈائم میں کام نہیں کرتا۔ مثلاً زیتون دھرتی کا مسئلہ ایک انسانی مسئلہ ہے، پوری انسانیت کے انصاف پسند اسے اپنا کاز سمجھتے ہیں۔ مذہبی قوم پرست جماعتیں ہی اسے خالصتاً مسلمانوں کے مسئلہ کے طور پر پیش کرتی ہیں۔بے شمار لوگ جب اس کی بات کرتے ہیں تو مسلمان قومی عصبیت سے زیادہ انسانی ضمیر ان کا مخاطب ہوتا ہے، اس کاز کے چیمپئینز میں ایڈورڈ سعید اور ایلان پاپے جیسے بے شمار غیر مسلم پہلی صف میں ہیں، مگر غامدی صاحب اسے خالصتاً مسلمانوں کے مسئلے کے طور پر پیش کرتے ہیں، اور مسلمانوں کو ڈانٹنے لگ جاتے ہیں تاکہ اس معاملے کا انسانی پہلو نظر انداز ہوجائے اور انہیں بطور انسان بھی غاصب کی مذمت نہ کرنی پڑے۔

ایڈورڈ سعید سے یاد آیا کہ ان کے دوست اور بائیں بازو کے ممتاز دانشور اقبال احمد کا نکتہ نظر مسلح جدوجہد کے حوالے سے یہ تھا کہ پرامن جدوجہد مسلح جدوجہد سے زیادہ موثر ہے۔ ان کے دور میں پی ایل او مسلح مزاحمت کررہی تھی جس کی لیڈرشپ سے اقبال احمد اور ایڈورڈ سعید کے قریبی روابط تھے۔ اقبال احمد جب یہ بات انھیں سمجھاتے تو انھیں اچھا نہیں لگتا تھا لیکن وہ ان کی بات احترام سے سنتے تھے، سمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔

اس کے برعکس غامدی صاحب کی بات مزاحمت کاروں میں سے کوئی سنے گا نہ سمجھے گا۔

سبب یہ ہے کہ اقبال احمد کے کریڈینشئیلز، ان کے اخلاص پر کسی کو شک نہیں ہو سکتا تھا۔ الجزائر ہو یا زیتون دھرتی، امریکہ ہو یا پاکستان، وہ ہر جگہہ حریت کی تحاریک کے لیے بے لوث ہو کر بھرپور کام کرتے تھے۔ الجزائر و زیتون دھرتی کی جدوجہد آزادی کے حوالے سے ان کی خدمات اس ضمن میں ایسی تھیں کہ عرب ریستوران ان سے کھانے کا بل نہیں لیتے تھے۔ اس لیے وہ ان مزاحمت کاروں کو مشورہ دینے، نصیحت کرنے اور ڈانٹنے کا بھی حق رکھتے تھے۔ وہ انھیں پرامن مزاحمت کا مشورہ تو دیتے تھے لیکن غاصب سے دب کر سمجھوتہ کرنے کا نہیں کہتے تھے بلکہ جب یاسر عرفات نے ایسے سمجھوتے کیے تو اقبال احمد اور ایڈورڈ سعید نے شدید تنقید کی۔

غامدی صاحب کے پاس سمجھوتہ کرنے، محکومی قبول کرنے، حقیقت پسند اور عملیت پسند بننے کے مشورے تو بہت ہیں لیکن اپنی خدمت، اپنی جرات، اپنے خلوص کے ثبوت، اپنے کریڈینشئیلز ان کے صفر ہیں۔ ایسے میں ان کی بات صرف پاکستان کی رائٹ ونگ کے ایک حصے کو نیوٹرلائز کرنے یا کچے پکے لبرلز کے کاگنیٹو ڈسونیننس کو سہلا کر ان کا فکری و اخلاقی ارتقاء روکنے کے کام تو آجاتی ہے، اس سے زیادہ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔

فکری پروڈکٹس کے کنزیومر کے طور پر ہمیں سمجھنا ہوگا کہ علم و فکر کی سیاست کو پرکھنا، خیالات کے ڈی این اے کو جانچنا، تجزیوں کے محرکات اور عواقب کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ سارا علم سیاست ہے۔ عالموں اور دانشوروں کا علمی و فکریی محاکمہ سیاست دانوں کے سیاسی احتساب کی طرح ہی ضروری ہے۔

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…