ناقد : کاشف علی تلخیص : زید حسن غامدی صاحب سے جزئیات پر بات نہیں ہو سکتی ۔ دین کی دو تعبیرات ہیں ۔ ایک تعبیر کے مطابق اسلام سیاسی سسٹم دیتا ہے ۔...
غامدی صاحب کا استدلال کیوں غلط ہے ؟
منبرِ جمعہ ، تصورِ جہاد : ایک نقد
ناقد : مولانا اسحق صاحب تلخیص : زید حسن اول ۔ یہ کہنا کہ جمعہ کا منبر علماء سے واپس لے لینا چائیے کیونکہ اسلامی تاریخی میں جمعہ کے منبر کا علماء کے...
جمعے کی نماز کی فرضیت اور غامدی صاحب کا غلط استدلال
مقرر : مولانا طارق مسعود تلخیص : زید حسن غامدی صاحب نے جمعے کی نماز کی فرضیت کا بھی انکار کر دیا ہے ۔ اور روزے کی رخصت میں بھی توسیع فرما دی ہے ۔...
عورت کی امامت اور غامدی صاحب
مقرر : مولانا طارق مسعود تلخیص : زید حسن غامدی صاحب نے عورت کی امامت کو جائز قرار دے دیا ہے ۔ اور دلیل یہ ہے کہ ایسی باقاعدہ ممانعت کہیں بھی نہیں...
مسئلہ رجم اور تکفیرِ کافر
مقرر : مولانا طارق مسعود تلخیص : زید حسن اول - جاوید احمد غامدی نے رجم کا انکار کیا ہے ۔ رجم کا مطلب ہے کہ شادی شدہ افراد زنا کریں تو انہیں سنگسار...
واقعہ معراج اور غامدی صاحب
مقرر : مولانا طارق مسعود تلخیص : زید حسن جسمانی معراج کے انکار پر غامدی صاحب کا استدلال " وما جعلنا الرؤیا التی" کے لفظ رویا سے ہے ۔حالانکہ یہاں...
صفتین خان
جاوید احمد غامدی صاحب کا بنیادی استدلال ہے کہ ریاست کی بقا اور استحکام کا انحصار قومی سلامتی کے محکموں پر ہے، لیکن یہ بنیادی مقدمہ ہی ناقص اور غیر حقیقی ہے۔ کسی بھی ملک کے دفاعی محکمے اگر اپنے اصل دائرہ کار سے تجاوز کرتے ہوئے سیاسی معاملات میں مداخلت شروع کر دیں، جمہوری اقدار کو پامال کریں، اور اپنی طاقت کو تحفظِ اقتدار کے لیے استعمال کریں، تو وہ خود ریاست کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن جاتے ہیں۔
تاریخ ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ جب قومی سلامتی کے ذمہ دار محکمے اپنی آئینی حدود سے باہر نکل کر سیاست، معیشت، اور ریاستی امور میں بے جا مداخلت کرتے ہیں تو نہ صرف قومی سالمیت خطرے میں پڑ جاتی ہے بلکہ ملک اندرونی خلفشار کا شکار ہو جاتا ہے۔
مشرقی پاکستان کا سانحہ اس حقیقت کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے، جہاں عسکری قیادت کی سیاسی معاملات میں غیر ضروری مداخلت، عوامی مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنے کی ضد، اور طاقت کے ذریعے مسائل حل کرنے کی حکمتِ عملی نے ملک کو دو لخت کر دیا۔ اسی طرح سوویت یونین کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے، جہاں طاقتور دفاعی اسٹیبلشمنٹ بھی ریاستی انتشار کو روکنے میں ناکام رہی، کیونکہ جب عوام کا ریاستی ڈھانچے سے اعتماد اٹھ جائے، ریاست جبر و فسطائیت کی علامت بن جائے اور اختیارات کی غیر متوازن تقسیم ہو تو عسکری طاقت بھی ملک کو ٹوٹنے سے نہیں بچا سکتی۔
اسی فلسفہ کا پرچار کیا انہوں نے ہمیشہ جس کی بلادلیل خلاف ورزی کرنے پر اب آمادہ ہو گئے ہیں۔ جب ملکی تاریخ کے اہم ترین قومی دور ارتقاء میں آپ دوسری طرف کھڑے ہوں گے تو اپنے اصولوں سے اخلاص پر سوالات کھڑے ہو جاتے ہیں۔ تضادات جنم لیتے ہیں۔
اس پسِ منظر میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ غامدی صاحب اس بدیہی حقیقت کو کیوں نظر انداز کر رہے ہیں؟ کیا یہ جانبداری کا نتیجہ ہے، یا وہ کسی مخصوص سیاسی بیانیے کو تقویت دینا چاہتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ بغضِ عمران خان میں اصولی مؤقف سے انحراف کر رہے ہیں، وہ درحقیقت تاریخ اور زمینی حقائق کو مسخ کر رہے ہیں۔ ایک مستحکم ریاست کے لیے مضبوط دفاعی نظام ضروری ضرور ہے، مگر اس کا اصل کردار بیرونی خطرات سے تحفظ فراہم کرنا ہے، نہ کہ داخلی سیاسی عمل میں مداخلت کرنا۔ جب تک قومی سلامتی کے منتظمین اپنی آئینی حدود میں رہیں گے، ریاست مضبوط رہے گی، اور جب بھی اس دائرے سے باہر نکلیں گے، تاریخ گواہ ہے کہ اس کے نتائج ہمیشہ تباہ کن ثابت ہوئے ہیں۔
فوج اور ریاست کو مترادف اصطلاحات کے طور استعمال کرنا، چند افراد کا پورے یونٹ پر قیاس اور قوم کی اکثریت کو متشدد اقلیتی گروہ سے تعبیر کر کے انتشار و فساد پھیلانے کا الزام عائد کرنا بھیانک ترین غلطیاں ہیں اس بیانیہ میں۔ سیدنا معاویہ کے زمانے کی سیاسی حرکیات کا جدید جمہوری دور پر اطلاق اور آئینی جمہوری جدوجہد مزاحمت کو بغاوت سے منسوب کرنا اس پر مستزاد (اضافہ) ہے۔
علم سیاسیات کا ابتدائی طالب علم بھی جن میں تفریق کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چہ جائیکہ اتنا بڑا ذہین مفکر یہ قابلِ رحم خلط مبحث کرے بیانیہ کی تشکیل میں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے وہ ایک خاص عصبیت زدہ ذہنی سانچے کی وجہ سے سامنے کی سادہ حقیقتوں کو بھی دیکھنے سے قاصر ہیں۔
غامدی صاحب کا فلسفہ تدریج پر مبنی ہے، اور وہ کسی فوری انقلابی تبدیلی کے حامی نہیں۔ ان کی مطابقت پسندی انہیں ایسی تعبیرات کی طرف لے جاتی ہے جو مزاحمت کے امکان کو ختم کر دیتی ہیں۔ اگر اس اصول کو پاکستان پر لاگو کیا جائے تو تبدیلی کا عمل ہمیشہ کے لیے تعطل کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تدریج کا دوسرا فریق، یعنی اقتدار پر قابض قوتیں، پسپائی کے لیے تیار نہیں ہوتیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بھی طاقت ور فریق اپنی مراعات اور اختیار ازخود ترک نہیں کرتا۔ چنانچہ، تدریجی حکمت عملی عملی سطح پر نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتی، بلکہ بالآخر جمود ہی کو جنم دیتی ہے۔
دنیا میں جتنی بھی بڑی تبدیلیاں، اصلاحات اور ترقی کے مراحل طے کیے گئے ہیں، وہ محض وقت کے دھارے کے سپرد ہونے یا تدریجی تبدیلی کے منتظر رہنے سے نہیں بلکہ کشمکش، ٹکراؤ اور جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہر بڑی اصلاح کے پیچھے ایک مضبوط فکری اور عملی مزاحمت کارفرما رہی ہے، جس نے پرانے نظام کی جڑوں کو ہلا کر نئی راہیں کھولی ہیں۔
چاہے وہ جمہوریت کے قیام کی جدوجہد ہو، انسانی حقوق کی تحریکیں ہوں یا استعماری قوتوں کے خلاف آزادی کی جنگیں، ہر کامیابی کے پیچھے مزاحمت، قربانی اور استقامت کی داستان چھپی ہوئی ہے۔ طاقتور طبقات اور روایتی ڈھانچے کبھی بھی اپنی مراعات اور اقتدار کو خوش دلی سے ترک نہیں کرتے، بلکہ تاریخ کا ہر بڑا انقلاب ایک شدید فکری اور عملی تصادم کے نتیجے میں ہی وقوع پذیر ہوا ہے۔
لہٰذا، اصلاحات اور ارتقاء کا فطری اصول یہی ہے کہ جب تک کسی نظام کے خلاف مزاحمت نہ ہو، اس کے بدلنے کی امید عبث ہے۔ تبدیلی کی راہ میں رکاوٹیں ہمیشہ موجود رہتی ہیں، لیکن تاریخ ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ انہی رکاوٹوں کو توڑ کر آگے بڑھنے والے ہی دنیا کو ایک نیا رخ دینے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
غامدی صاحب کا استدلال کیوں غلط ہے ؟
صفتین خان جاوید احمد غامدی صاحب کا بنیادی استدلال ہے کہ ریاست کی بقا اور...
جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی
عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی...
امام النواصب جاوید غامدی
احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔...