بنیاد پرست قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ جب یہود نے عیسی علیہ السلام کو صلیب دے کر قتل کرنے کی کوشش کی تو قرآن نے جو فرمایا کہ” اللہ نے انہیں اپنی طرف بلند کر دیا “وہ حقیقت میں انہیں بلند نہیں کیا گیا تھا بلکہ ان کے درجات بلند کر دیے گئے تھے ، اس جگہ پر درجات کے بلندی کا...
مسئلہ حیاتِ عیسی اور قرآن : لفظِ توفی کی قرآن سے وضاحت
غامدی صاحب کا استدلال کیوں غلط ہے ؟
صفتین خان غامدی صاحب کا تازہ بیان سن کر صدمے اور افسوس کے ملے جلے جذبات ہیں۔ یہ توقع نہیں تھی وہ اس حد تک جا کر خاکی فصیل کا دفاع کریں گے۔ یہ خود ان کے اوپر اتمام حجت ہے۔ ان کے انکار کے باوجود فوجی بیانیہ کے خلاف ان کے تمام سابقہ فلسفے اس تازہ کلام سے منسوخ و کالعدم...
نظمِ قرآن : غامدی صاحب کی تفسیر “البیان” کا ایک مختصر تقابلی مطالعہ
جہانگیر حنیف فصل اوّل: تعارف مدرسۂ فراہی کا موقف ہے کہ نظم شرطِ کلام ہے۔ کلام نظم کے ساتھ وجود پذیر ہوتا ہے اور نظم کے تحت ہی فہم کی تحویل میں آتا ہے۔ اُن کےنزدیک نظم کی نفی کلام کی فطری ساخت کا انکار اور کلام کے درست فہم میں رکاوٹ ہے۔ لہذا امام فراہی، مولانا اصلاحی...
قرآن مجید کو سرگذشت قرار دینا کیوں غلط ہے؟
جہانگیر حنیف غامدی صاحب نے قرآن مجید کو ”سر گذشتِ انذار“ قرار دیا ہے۔ لکھتے ہیں: ”اپنے مضمون کے لحاظ سے قرآن ایک رسول کی سرگذشتِ انذار ہے۔“¹ قرآن مجید کے نذیر ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ لیکن اسے ”سرگذشت“ قرار دینے سے بہت سے علمی و ایمانی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ لہذا ہمیں...
فکرِ غامدی کا اصل مسئلہ
جہانگیر حنیف غامدی صاحب کو چونکہ میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے، لہذا میں اعتماد اور یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ غامدی صاحب کے ہاں ایمان کا مسئلہ نہیں۔ انھوں نے جو مسئلہ پیدا کیا ہے، وہ علمی نوعیت کا ہے۔ وہ دین کو فرد کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ دین کا آفاقی پہلو ان کی...
جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی
نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...
بنیاد پرست
قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ جب یہود نے عیسی علیہ السلام کو صلیب دے کر قتل کرنے کی کوشش کی تو قرآن نے جو فرمایا کہ” اللہ نے انہیں اپنی طرف بلند کر دیا “وہ حقیقت میں انہیں بلند نہیں کیا گیا تھا بلکہ ان کے درجات بلند کر دیے گئے تھے ، اس جگہ پر درجات کے بلندی کا یہ فائدہ ہوا کہ صلیب پر وہ زندہ رہے اور یہود کو شبہ لگ گیا کہ وہ وفات پا چکے ہیں اور وہ انہیں چھوڑ کر چلے گئے ، عیسی پھر کسی اور علاقہ میں چلے گئے وہاں تقریبا نصف صدی حیات رہے پھر طبعی وفات پائی اور انکی قبر کشمیر میں ہے، اب ایک نیا مسیح پیدا ہونا تھا جو کہ ایک مخبوط الحواس بھینگے ، میٹرک فیل، دجال و کذاب مرزا قادیانی کی شکل میں پیدا ہوا ہے۔ یہی عقیدہ تھوڑی سی کمی بیشی کے ساتھ غامدی کا ہے، یہ بھی ان قادیانیوں کی طرح وفات عیسی کا عقیدہ رکھتے ہیں، لیکن کہانی تھوڑی سی مختلف بیان کرتے ہیں۔ غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام کو صلیب کے قریب ہی موت دی گئی، پھر انہیں کہیں دفن کرنے کے بجائے ان کا جسم آسمان پر اٹھا لیا گیا اور اب وہ دوبارہ نہیں آئیں گے۔
غامدی اور قادیانی دونوں آیت اذ قال الله بعیسی اني متوفيك ورافعك الى. [ آل عمران ) ۳۵ پارہ ۳) میں متوفیک” سے “موت” مراد لیتے ہیں اور اس لفظ کو اپنے عقیدہ وفات مسیح کے لیے نص قطعی قرار دیتے ہیں۔ غامدی صاحب اس آیت کی تشریح کرنے والی متواتر صحیح احادیث اور جید صحابہ کے اقوال کو تسلیم نہیں کرتے، جبکہ قادیانی انہی احادیث سے مسیح علیہ السلام کے دوبارہ پیدا ہونے کا عقیدہ گھڑ کر مرزا قادیانی کو مسیح قرار دیتے ہیں ۔ ہمارے نزدیک مرزا قادیانی نے تو محض عیسی علیہ السلام کی سیٹ خالی دیکھ کر خود کو مسیح کہلوانے کے لیے قرآن سے عیسیٰ کی وفات کا عقیدہ اور اس کی قبر کے قصے گھڑے، اس کے کذب، چال بازیوں، بیہودہ تاویلات پر سینکڑوں دفعہ بات چیت ہو چکی ہے، آج ہم غامدی صاحب کی اس عقیدہ کے متعلق عبارات پر تبصرہ ان کی پسند کے مطابق صرف قرآن سے پیش کریں گے۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں :۔
سید نامسیح علیہ السلام کے بارے میں جو کچھ میں قرآن مجید سے سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ ان کی روح قبض کی گئی اور اس کے فورا بعد ان کا جسد مبارک اٹھا لیا گیا تھا تا کہ یہود اس کی بے حرمتی نہ کریں۔ یہ میرے نزدیک ان کے منصب رسالت کا ناگزیر تقاضا تھا، چنانچہ قرآن مجید نے اسے اس طرح بیان کیاہے۔ انی متوفيك ورافعك الى . اس میں ، دیکھ لیجیے تو فی وفات کے لئے اور رفع اس کے بعد رفع جسم کے لیے بالکل تصریح ہے ۔
ماہنامہ اشراق، اپریل ۱۹۹۵ ص: ۴۵)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:۔
حضرت مسیح کو یہود نے صلیب پر چڑھانے کا فیصلہ کر لیا تو فرشتوں نے ان کی روح ہی قبض نہیں کی ان کا جسم بھی اٹھا کر لے گئے کہ مبادا یہ سر پھری قوم اس کی توہین کرے۔ [ اشراق جولائی ۱۹۹۴ ص: ۳۲]
القرآن يفسر بعضه بعضا:۔
قرآن کی آیات کی تفسیر کے چند اصول ہیں ، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی بھی آیت کی تفسیر کے لیے سب سے پہلے قرآن میں دیکھا جائے گا کہ آیا کوئی دوسری آیت اس کے مطلب کی وضاحت کر رہی ہے، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث، پھر اقوال صحابہ سے مدد لی جائے گی۔ اس عقیدہ رفعِ نزول وحیاتِ عیسیٰ کی تائید میں احادیث تو اتنی موجود ہیں کہ اتنی ارکان اسلام کے متعلق بھی نہیں ، بیس سے زائد جید صحابہ روایت کر رہے ہیں۔ اسی طرح صحابہ، تابعین، تبع تابعین ، آئمہ اور تمام بڑے علمائے امت کے ان پر اتفاق و اجماع کیوجہ سے ان کو تلقی بالقبول حاصل ہے۔ غامدی صاحب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح اور ان کے شاگردوں کی تفاسیر کو قبول کرنے کے لیے تو تیار نہیں ،ہم ان کی پسند کے مطابق ان کے اس عقیدہ کی بنیا د سورة آل عمران کی اس آیت کی القرآن يفسر بعضه بعضا ( قرآن کے کچھ حصوں کی قرآن کی دوسرے حصے تفسیر کرتے ہیں) کے تحت قرآن سے ہی تحقیق پیش کرتے ہیں۔ سوال یہ اٹھایا گیا ہے کہ کیا قرآن کی دوسری آیات ان کی ( غامدی صاحب ) اس آیت کی تشریح کی تائید کرتی ہیں؟ کیا واقعی احادیث اور صحابہ و علمائے امت کا اجماع قرآن کی اس آیت کے خلاف ہے؟
مسئلہ حیات ِعیسی اور قرآن :۔
غامدی صاحب نے جو آیت پیش کی ہے اس سے پہلے آنے والی آیت میں ہے” و مکرو او مكر الله والله خبر المکرین ” اور ان کافروں نے ( عیسی علیہ السلام) کے خلاف خفیہ تدبیر کی اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر کی۔ اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ اس تدبیر کی اور پھر اگلی آیت جس کے ایک لفظ کی بنیاد پر غامدی صاحب ساری امت سے عقیدہ میں اختلاف کیے بیٹھے ہیں، کی وضاحت
سورة النساء کی آیت ۱۵۷ یوں کرتی ہے:۔
وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِن شُبِّة لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتَّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يقيناً، بل رفعه الله إِلَيْهِ وَكَانَ اللهُ عَزِيزاً حَكِيماً . (۱۵۷ – ۱۵۸ ، ۲]
ترجمہ: اور یہ کہا کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسی ابن مریم کو قتل کر دیا تھا، حالانکہ نہ انہوں نے عیسی کوقتل کیا تھا، نہ انہیں سولی دے پائے تھے بلکہ انہیں اشتباہ ہو گیا تھا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے، وہ اس سلسلے میں شک کا شکار ہیں ، انہیں گمان کے پیچھے چلنے کے سوا اس بات کا کوئی علم نہیں ہے، اور یہ بات بالکل یقینی ہے کہ وہ عیسی کو قتل نہیں کر پائے۔ بلکہ اللہ نے انہیں اپنے پاس اٹھالیا تھا۔ اور اللہ بڑا صاحب اقتدار، بڑا حکمت والا ہے۔ ( آسان ترجمہ القرآن ، ۱۵۸،۱۵۷
آیت سے دوباتیں بالکل واضح ہیں: پہلی بات آیت میں “وما قتلو . ” وما صلبو” و ما قتلو یقینا” کے الفاظ سے ان کے قتل/ موت کی مطلق نفی کی گئی ہے۔ دوسری قتل سے بچانے کا انتظام یہ کیا گیا کہ بل رفعہ اللہ الیہ، بلکہ اللہ نے اٹھا لیا اس کو اپنی طرف۔ یہاں بل ” کے بعد بصیغہ ماضی رفعہ کو لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ تمہارے قتل و صلب سے پہلے ہی ان کو ہم نے الیہ ” یعنی اپنی طرف اٹھالیا تھا۔ ” و كان الله عزيزا حكيما
لفظ “توفی“ کی قرآن سے وضاحت:۔
منکر ِحدیث ، قادیانی اور غامدی آیت إِذْ قَالَ اللهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى آلَ عمران : ۵۵، پارہ:۳) میں متوفيك ” سے مطلق موت مراد لیتے ہیں ، جبکہ اگر یہاں اس سے موت مراد لے لی جائے تو پھر ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ کافروں نے جو عیسی علیہ السلام کو قتل کرنے کی تدبیر کی تھی وہ اس میں کامیاب ہو گئے تھے ۔۔ !! جبکہ قرآن کہہ رہا ہے کہ بہتر تد بیر اللہ کی ہی رہی ۔ لفظ “توفی “ کی وضاحت کے لیے بھی ہم قرآن سے رجوع کرتے ہیں۔
ا لله توفى الأنفسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمتَ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلى أَجَلٍ مُسَمًّى ” [ الزمر: ۴۲، پ : ۲۴)
ترجمہ: اللہ تمام روحوں کو انکی موت کے وقت قبض کر لیتا ہے اور جن کو ابھی موت نہیں آئی ہوتی ، انکو بھی انکی نیند کی حالت میں، پھر جن کے بارے میں اس نے موت کا فیصلہ کر لیا ، انہیں اپنے پاس روک لیتا ہے اور دوسری روحوں کو ایک معین وقت تک چھوڑ دیتا ہے۔
اس آیت مبارکہ سے صاف ظاہر ہے کہ توفی ” بمعنی موت کے نہیں ہیں، بلکہ “توفی” موت کے علاوہ کوئی شے ہے جو کبھی موت کے ساتھ جمع ہو جاتی ہے تو کبھی نیند کے ساتھ۔ اور “حین موتھا” کی قید سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ “تو فی موت کے وقت بھی ہوتی ہے عین موت نہیں ہوتی ۔ جس طرح اللہ تعالی لوگوں کو رات کو توفی دیتا ہے اور صبح اٹھ کر لوگ ایک بار پھر زندہ ہو کر اپنے کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں ، اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام “توفی“ کے بعد بھی حیات ہیں اور قیامت سے قبل حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول ہوگا، جس کی وضاحت احادیث میں موجود ہے۔
” وهو الذي يتوفاكم بالليل “الخ [ الانعام: ۲۰ ، پاره: ۷]
ترجمہ: وہ ہی ہے جو رات کے وقت تمہاری روح قبض کر لیتا ہے۔“
اس مقام پر بھی توفی ” موت کے بجائے نیند کے موقع پر استعمال کیا گیا۔ اگر توفی سے مرادصرف موت ہی ہوتی تو یہاں اسکو استعمال نہ کیا جاتا۔
” حتى يتوفاهن الموت” [ النساء : ۱۵، پ : ۲۴
ترجمہ: یہاں تک کہ انہیں موت اٹھا کر لے جائے۔
اگر توفی کا معنی بھی موت تھا تو آگے لفظ “موت لانے کی کیا ضرورت تھی؟ حقیقت یہ ہے کہ جس جگہ توفی ” کے ساتھ موت اور اس کے لوازم کا ذکر ہوگا ۔ اس جگہ “توفی ” سے مراد موت لی جائے گئی ۔ جیسے ارشاد باری تعالی ہے:
قُلْ يَتَوَفَّاكُم مِّلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وَكُلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ [السجدة: ا ب : ۲۱]
ترجمہ: تو کہہ قبض کر لیتا ہے تم کو فرشتہ موت کا جو تم پر مقرر ہے پھر اپنے رب کی طرف پھر جاؤ گے۔”۔
اس مقام پر ملک الموت کے قرینہ سے توفی” سے مراد موت کی جائے گی۔
اسی طرح قرآن میں دوسرے انبیاء علیہم السلام کی موت کا جہاں کہیں تذکرہ ہے، وہاں موت کا لفظ استعمال فرمایا گیا۔
نبی علیہ السلام کے لیے : انک میت وانھم میتون ، افان مت فھم الخلدون
سلیمان عليہ السلام کے لئے : فلما قضينا عليه الموت مادل علی موتہ
جبکہ عیسی علیہ السلام کے لیے رفع اور توفی استعمال کیا ہے۔ اور توفی ، جیسا کہ اوپر دی گئی آیات کی مثالوں سے ظاہر ہے جسمانی موت کے لیے وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں اس کے ساتھ موت کے لوازمات کا بھی ذکر کیا جائے، جبکہ غامدی صاحب کی پیش کی گئی آیت میں اس لفظ کے بعدموت کی کسی علامت کا تذکرہ کرنے کے بجائے قرآن کی دوسری آیت کی ہی تائید میں “رافعك ” کا ذکر ہے، یہی بات ” فلما توفيتنى كنت انت الرقيب عليهم ” ۔ میں بھی ہے۔ اس ساری تفصیل سے یہ واضح ہے کہ عیسی علیہ السلام کے متعلق غامدی صاحب کے عقیدہ کو قرآن بھی غلط قرار دے رہا ہے۔
غامدی صاحب محض ایک ذو معنی لفظ کی بنیاد پر عیسی علیہ السلام کی وفات کا عقیدہ گھڑتے ہیں، پھر جسم او پر اٹھائے جانے کا واضح قرآنی اشارہ نظر آتا ہے تو جسم کو لاش قرار دے کر تاویل کرتے ہیں کہ جی سر پھری قوم کہیں اس کی تو ہین نہ کرے اور یہ منصب رسالت کا ناگزیر تقاضا بھی ہے ۔ ۔ شاید ان کے علم میں نہیں کہ اسی سر پھری قوم نے زکریا ، یحییٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے دوسرے ہزاروں نبی کس بے دردی سے شہید کیے تھے، حیرت ہے اس سے منصب نبوت یا شان الہی میں کوئی فرق نہیں آیا؟ آسان اور سادہ سی بات تھی کہ یہود نے مل کر عیسی علیہ السلام کو قتل کرنے کی تدبیر کی ، اللہ نے اس کو ناکام بناتے ہوئے عیسی کو زندہ سلامت اپنی طرف اٹھا لیا ۔ غامدی صاحب نے اپنی من مانی تشریح کے ذریعے اس واضح اور متفقہ عقیدہ کی بھی عجیب کھچڑی بنا کر رکھ دی۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
مسئلہ حیاتِ عیسی اور قرآن : لفظِ توفی کی قرآن سے وضاحت
بنیاد پرست قادیانیوں کا عقیدہ ہے کہ جب یہود نے عیسی علیہ السلام کو صلیب...
نظمِ قرآن : غامدی صاحب کی تفسیر “البیان” کا ایک مختصر تقابلی مطالعہ
جہانگیر حنیف فصل اوّل: تعارف مدرسۂ فراہی کا موقف ہے کہ نظم شرطِ کلام ہے۔...
حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ
ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص...