فہم نزول عیسی اور غامدی صاحب

Published On October 27, 2024
نظم، مراد،متکلم اور متن

نظم، مراد،متکلم اور متن

محمد حسنین اشرف   نظم:۔ پہلے نظم کی نوعیت پر بات کرتے ہیں کہ یہ کس نوعیت کی شے ہے۔ غامدی صاحب، میزان میں، اصلاحی صاحب کی بات کو نقل کرتے ہیں:۔ ۔" جو شخص نظم کی رہنمائی کے بغیر قرآن کو پڑھے گا، وہ زیادہ سے زیادہ جو حاصل کر سکے گا ، وہ کچھ منفرد احکام اور مفرد قسم...

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (3)

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (3)

مولانا مجیب الرحمن تیسری حدیث ، حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ:۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ۔ يكون في هذه الأمة بعث إلى السند والهند، فإن أنا أدركته، فاستشهدت فذلك وإن أنا رجعت وأنا أبو هريرة المحرر قد...

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (2)

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (2)

مولانا مجیب الرحمن دوسری حدیث ، حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ :۔ اس بارے میں دوسری حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس کی سند اور  راویوں پر غور فرمائیں ، امام نسائی فرماتے ہیں: أخبرنا أحمد بن عثمان بن حكيم، قال حدثنا ر كريا بن عدى، قال: حدثنا عبد الله من عمر...

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق

مولانا مجیب الرحمن غامدی صاحب کی ویب سائٹ پر موجود ایک کتاب کا مضمون بعنوان : غزوہ ہند کی کمزور اور غلط روایات کا جائزہ ایک ساتھی کے ذریعہ موصول ہوا ۔ بعد از مطالعہ یہ داعیہ پیدا ہوا کہ اس مضمون کو سامنے رکھ کر حدیث غزوہ ہند پر اپنے مطالعہ کی حد تک قارئین کے سامنے...

سرگذشت انذار کا مسئلہ

سرگذشت انذار کا مسئلہ

محمد حسنین اشرف فراہی مکتبہ فکر اگر کچھ چیزوں کو قبول کرلے تو شاید جس چیز کو ہم مسئلہ کہہ رہے ہیں وہ مسئلہ نہیں ہوگا لیکن چونکہ کچھ چیزوں پر بارہا اصرار کیا جاتا ہے اس لیے اسے "مسئلہ" کہنا موزوں ہوگا۔ بہرکیف، پہلا مسئلہ جو اس باب میں پیش آتا ہے وہ قاری کی ریڈنگ کا...

کیا مسئلہ “ربط الحادث بالقدیم” کا دین سے تعلق نہیں؟  غامدی صاحب کا حیرت انگیز جواب

کیا مسئلہ “ربط الحادث بالقدیم” کا دین سے تعلق نہیں؟ غامدی صاحب کا حیرت انگیز جواب

ڈاکٹر محمد زاہد مغل محترم غامدی صاحب سے جناب حسن شگری صاحب نے پروگرام میں سوال کیا کہ آپ وحدت الوجود پر نقد کرتے ہیں تو بتائیے آپ ربط الحادث بالقدیم کے مسئلے کو کیسے حل کرتے ہیں؟ اس کے جواب میں جو جواب دیا گیا وہ حیرت کی آخری حدوں کو چھونے والا تھا کہ اس سوال کا جواب...

حسن بن علی

غامدی صاحب نے بشمول دیگر دلائل صحیح مسلم کی حدیث (7278، طبعہ دار السلام) کو بنیاد بناتے ہوئے سیدنا مسیح کی آمد ثانی کا انکار کیا ہے. حدیث کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ رومی اعماق یا دابق (حلب کے قريب دو مقامات) میں اتریں. ان کی طرف ان سے لڑنے گے لئے ایک لشکر (دمشق سے) روانہ ہوگا اور وہ ان دنوں زمین والوں میں سے نیک لوگ ہوں گے جب وہ صف بندی کریں گے تو رومی کہیں گے کہ تم ہمارے اور ان کے درمیان دخل اندازی نہ کرو جنہوں نے ہم میں سے کچھ لوگوں کو قیدی بنا لیا ہے ہم ان سے لڑیں گے مسلمان کہیں گے نہیں اللہ کی قسم ہم اپنے بھائیوں کو تنہا نہ چھوڑیں گے کہ تم ان سے لڑتے رہو بالآخر وہ ان سے لڑائی کریں گے بالآخر ایک تہائی مسلمان بھاگ جائیں گے جن کی اللہ کبھی بھی توبہ قبول نہ کرے گا اور ایک تہائی قتل کئے جائیں گے جو اللہ کے نزدیک افضل الشہداء ہوں گے اور تہائی فتح حاصل کرلیں گے انہیں کبھی آزمائش میں نہ ڈالا جائے گا پس وہ قسطنطنیہ کو فتح کریں گے جس وقت وہ آپس میں مال غنیمت میں سے تقسیم کر رہے ہوں گے اور ان کی تلواریں زیتون کے درختوں کے ساتھ لٹکی ہوئی ہوں گی تو اچانک شیطان چیخ کر کہے گا، تحقیق مسیح دجال تمہارے بال بچوں تک پہنچ چکا ہے وہ وہاں سے نکل کھڑے ہوں گے لیکن یہ خبر باطل ہوگی. جب وہ شام پہنچیں گے تو اس وقت دجال نکلے گا. اسی دوران کہ وہ جہاد کے لئے تیاری کر رہے ہوں گے اور صفوں کو سیدھا کررہے ہوں گے کہ نماز کے لئے اقامت کہی جائے گی اور عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے اور مسلمانوں کی نماز کی امامت کریں گے پس جب اللہ کا دشمن انہیں دیکھے گا تو وہ اس طرح پگھل جائے گا جس طرح پانی میں نمک پگھل جاتا ہے اگرچہ عیسیٰ اسے چھوڑ دیں گے تب بھی وہ پگھل جائے گا یہاں تک کہ ہلاک ہوجائے گا لیکن اللہ تعالیٰ اسے عیسیٰ کے ہاتھوں سے قتل کرائیں گے پھر وہ لوگوں کو اس کا خون اپنے نیزے پر دکھائیں گے۔ صحیح مسلم (7278)

غامدى صاجب کے نزدیک اس حدیث میں فتح قسطنطنیہ کے بعد (دجال کے خروج اور) عیسی علیہ السلام کی آمد ثانی کا ذکر ہے اور چونکہ فتح قسطنطنیہ 857 ہجری میں سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں ہو چکی اور اس وقت سے لے کر اب تک نہ دجال نکلا اور نہ ہی عیسی علیہ السلام کا نزول ہوا لہذا ایسی بات جو کہ واقعاتی طور پہ درست نہ ہو وہ نبی کی بات کیوں کر ہو سکتی ہے. غامدی صاحب کے نزدیک اصل میں یہ رسول اللہ کا خواب تھا، اور خواب میں چونکہ اشیاء تمثیلی ہوتی ہیں نیز وقتی قید سے ماورا ہوتی، ان کو غلط طور پہ حقیقی واقعہ سمجھا اور بیان کیا جانے لگا. لہذا ان کے ہاں نزول عیسی سے مراد عیسائیت کے ہاں ان مشرکانہ تصورات کا خاتمہ اور توحید کا دوبارہ بول بالا ہے جسے بالعموم عیسائیت نے ترک کر دیا تھا.

أولا: اس اشکال سے پہلے غامدی صاحب نے اس باب سے متعلق صحیح مسلم ہی كى ایک اور حدیث (7333) پر غور کرنا (اور اس پیش کرنا) مناسب نہیں سمجھا جس میں اس امر کی صراحت موجود ہے کہ خروج دجال اور نزول عیسی اس فتح قسطنطنیہ سے متعلق ہے جو کہ بزور شمشیر نہیں بلکہ بغیر جنگ کیے ہوگی. حدیث (7333) کے الفاظ اس بابت واضح ہیں، فلم يقاتلوا بسلاح ولم يرموا بسهم یعنی نہ تو وہ اسلحے سے لڑیں گے نہ وہ تیر اندازی کریں گے. جبکہ سلطان محمد فاتح کے زمانے میں قسطنطنیہ کی فتح بزور شمشیر ہوئی تھی. اسی طرح ترمذی میں حضرت انس سے روایت ہے کہ فتح قسطنطنیہ کا وه واقعہ (جو علامت کبری میں سے ہے) اس کا ظہور قیامت کی دیگر نشانیوں کے ساتھ ہوگا (جامع الترمذى 2239). جاننا چاہیے کہ روایات یہ نہیں بتا رہی کہ قسطنطنیہ ایک ہی دفعہ فتح ہوگا بلکہ جب آخری دفعہ فتح ہوگا تو یہ واقعہ قیامت کی بڑی نشانیوں کے ساتھ ملحق ہوگا. جیسے امام ترمذی (المتوفى 279 ہجری) علامات خروج دجال کے تحت لکھتے ہیں قسطنطنیہ خروج دجال کے وقت فتح ہوگا اور يہ شہر نبى کے بعض صحابہ کے زمانہ میں ایک بار فتح ہوچکا ہے. یعنی آخری فتح (جو علامت کبری میں سے ہے) سے پہلے اس علاقے کا مسلمانوں کے قبضے میں آنا اور دوبارہ ہاتھ سے نکل جانا روایات کے مخالف نہیں بلکہ روایات تو اس سے تعرض ہی نہیں کر رہیں. روایات میں تو کہیں نہیں کہ قسطنطنیہ کی فتح کا واقعہ قیامت تک صرف ایک ہی دفعہ رونما ہوگا. لہذا فتح قسطنطنیہ جو کہ بطور علامات کبری روايات میں مذكور ہے وہ باقی علامات کبری (خروج الدجال ونزول عيسى) کے ساتھ ملحق ہے اور متعلقہ روایات پر غور کیا جائے تو یہ فتح بڑی جنگ يعنى الملحمه الكبرى (Armageddon) کے عقب میں اور امام مہدی كى آمد کے بعد ہوگی

ثانيا: غامدی صاحب کا یہ فرمانا کہ دراصل یہ نبی کا خواب تھا جسے صحابہ واقعاتی امر سمجھنے لگے تو یہ بات کسی درجے میں اس وقت تو لائق التفات ہو سکتی تھی جب کسی ایک صحابی نے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سنا ہو اور سننے میں یا سمجھنے میں غلطی لگ گئی ہو اور بعد میں اسی صحابی سے دیگر صحابہ نے نقل کیا ہو (کیونکہ صحابی ایک دوسرے کا حوالہ دیے بغیر حدیث بیان کر لیا کرتے تھے) لیکن جب ہم ذخیرہ احادیث کو دیکھتے ہیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست سننے والوں میں ایک سے زائد صحابہ موجود تھے .

1. حديث حذيفه بن أسيد الغغاري، أخرجه مسلم في صحيحه. طرف الحديث… ونزول عيسى
2. حديث نواس بن سمعان، أخرجه مسلم في صحيحه. طرف الحديث… إذ بعث الله المسيح ابن مريم فينزل عند المنارة البيضاء شرقي دمشق
3. حديث جابر بن عبد الله، أخرجه مسلم في صحيحه وأحمد في مسنده. طرف الحديث… فينزل عيسى ابن مريم عليه السلام فيقول أميرهم: تعال فصل، فيقول
4. حديث عثمان بن أبي العاص، أخرجه أحمد في مسنده. طرف الحديث… وينزل عيسى ابن مريم عليه السلام عند صلاة الفجر
5. حديث مجمع بن جارية الأنصاري، رواه ترمذي. طرف االحديث… يقتل ابن مريم الدجال بباب لد
6. حديث كيسان بن عبد الله بن طارق، أخرجه البخاري في تاريخه وابن عساكر في تاريخ دمشق.طرف الحديث… ينزل عيسى ابن مريم بشرقي دمشق عند المنارة البيضاء
7. حديث واثلة بن الأسقع، رواه الطبراني والحاكم. طرف الحديث… ونزول عيسى
8. حديث أبي هريرة، رواه ابن عساكر. طرف الحديث… يهبط عيسى ابن مريم فيصلي الصلوات وحديث أبي هريرة أخرجه ابن حبان في صحيحه. طرف الحديث… وينزل عيسى ابن مريم فيؤمهم فإذا رفع من الركوع قال: سمع الله لمن حمده قتل الله الدجال وأظهر المؤمنين

یہ صحابہ میں سے وہ راویان ہیں جنہوں نے نزول عیسی سے متعلق حدیث کو بصیغہ سمعت (بتصريح السماع) روایت کیا ہے یعنی انہوں نے براہ راست یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی اور سب نے اسے ایک واقعاتی حقیقت کے طور پر بیان کیا ہے. اور ان احاديث میں نہ صرف عیسی علیہ السلام کا اترنا مذکور ہے، بلکہ ان کا کلام کرنا، ان کا نماز پڑھنا، ان کا دجال کو قتل کرنا بھی مذکور ہے، الغرض تمام ایسے امور ہیں جو کہ فاعل کو مستلزم ہیں

ثالثا: واضح رہے کہ غامدی صاحب دجال کو بطور تمثیل نہیں بلکہ فرد مانتے ہیں اور اس ضمن میں انہوں نے صحیح مسلم کی حدیث (7286) اپنی کتاب میزان میں نقل کر رکھی ہے لیکن اس کے برعکس عیسی علیہ السلام کو بطور فرد ماننے پر تیار نہیں جبکہ نزول عیسی کی حدیث (7285) اس سے ما قبل صحیح مسلم ہی میں موجود ہے. آخر ان کے پاس اس خود ساختہ تفریق کی کیا دلیل ہے (دجال کو فرد ماننے جبکہ عیسی علیہ السلام کو تمثیل ماننے کی کیا دلیل ہے)

رابعا: غامدى صاحب نے نزول عیسی کی بابت احادیث کا (رواية ) رد نہیں کیا (شاید انہیں بھی اس بابت تواتر کا اندازہ ہے اور وہ اپنے لیے منکر حدیث کہلوانا پسند نہیں کرتے) لیکن جو نزول عیسی کی تاویل غامدی صاحب نے کی ہے وہ تاویل نہیں بلکہ تحریف ہے. کیونکہ یہ ایسے الفاظ ہیں جن کا مصداق نہ صرف یہ کہ مفہوم ہے بلکہ متعین ہے لہذا لفظ کو اس کے مفہوم اور متعین مصداق سے ہٹانا تاویل نہیں بلکہ تحریف ہے، بخلاف ان احادیث میں مذکور تلوار ونیزہ وغيرهما کے بارے میں تو (ایک رائے کے مطابق) یہ کہا جا سکتا تھا کہ ان كا مصداق مفہوم (آلہ قتل) كى صورت تو طے ہے لیکن متعین (معروف شکل كا آلہ) ہونا اگرچہ راجح ضرور ہے البتہ حتمى نہیں، اس صورت کہ اس وقت وہ مسمی وجود ہی نہیں ركھتا تھا جس کے لیے کوئی اسم تجویز کیا جاتا لہذا شارع نے لوگوں کی عقل کے مطابق ان كو مخاطب کیا

خامسا: اس سے ملتی جلتی بات (تحريف) اس سے پہلے مرزا غلام احمد قادیانی صاحب بھی کر چکے ہیں (تشابهت قلوبهم) جن کے نزدیک عیسی ابن مریم سے مراد عین وہی عیسی نہیں جو مریم کے بیٹے تھے وه جن پر انجیل اتری بلکہ اس سے مراد مثل عیسی ہیں یعنی وہ جو اپنی صفات میں عیسی ابن مریم جیسا ہو لیکن پھر مرزا صاحب نے اس کا مصداق بھی خود کو ہی ٹھہرایا اور یہیں پر بس نہیں کیا بلکہ خود کو عیسی ابن مریم سے بھی افضل قرار دیا. (يمدهم في طغيانهم يعمهون)

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…