غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 78)

Published On April 14, 2024
تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟ شهادت علی الناس:۔ شہادت علی الناس کا سیدھا اور سادہ معروف مطلب چھوڑ کر غامدی صاحب نے ایک اچھوتا مطلب لیا ہے جو یہ ہے کہ جیسے رسول اپنی قوم پر شاہد ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ صحابہ پر شاہد تھے ، ایسے ہی صحابہ کو اور صرف صحابہ کو دیگر محدود...

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟  غامدی صاحب کے دلائل کا جائزہ:۔ ویسے تو کسی نظریے کے غلط ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ امت کے اجتماعی ضمیر کے فیصلے سے متصادم ہے، لیکن اگر کچھ نادان امت کے اجتماعی ضمیر کو اتھارٹی ہی تسلیم نہ کرتے ہوں اور اپنے دلائل پر نازاں ہوں تو...

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد غامدی تصور جہاد کی سنگینی اور انوکھا پن:۔ پوری اسلامی تاریخ میں اہل سنت کا کوئی قابل ذکر فقیہ مجتہد، محدث اور مفسر اس اچھوتے اور قطعی تصور جہاد کا قائل نہیں گذرا، البتہ ماضی قریب میں نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمدقادیانی نے اس قبیل کی...

تصورِ جہاد ( قسط اول)

تصورِ جہاد ( قسط اول)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد کچھ عرصہ قبل راقم نے غامدی صاحب کے شاگر در شید اور مولانا زاہد الراشدی صاحب کے فرزند من پسند جناب عمار خان ناصر صاحب کے نظریہ جہاد کے نقد و تجزیے کے لیے ایک مضمون سپر د قلم کیا تھا، جو ماہنامہ صفدر میں قسط وار چھپنے کے علاوہ "عمار خان کا نیا...

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

حسان بن علی پہلے یہ جاننا چاہیے کہ قرآن نے اصل موضوع سود لینے والے کو کیوں بنایا. اسے درجہ ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے ١) چونکا سود کے عمل میں بنیادی کردار سود لینے والے کا ہے لہذا قرآن نے اصل موضوع اسے بنایا. ٢) سود لینے والے کے لیے مجبوری کی صورت نہ ہونے کے برابر...

سود اور غامدی صاحب

سود اور غامدی صاحب

حسان بن علی غامدی صاحب کے ہاں سود دینا (سود ادا کرنا) حرام نہیں ہے (جس کی کچھ تفصیل ان کی کتاب مقامات میں بھى موجود ہے) اور جس حدیث میں سود دینے والے کی مذمت وارد ہوئی ہے، غامدی صاحب نے اس میں سود دینے والے سے مراد وہ شخص لیا ہے جو کہ سود لینے والے کے لیے گاہک تلاش...

مولانا واصل واسطی

اس بات کی معمولی تفصیل ہم یہاں کرتے ہیں تاکہ مولانا مودودی سے عقیدت رکھنے والے لوگ ہماری اس بات سے دکھی نہ ہوں ۔  یہ تو معلوم ہے کہ سیدنا یونس علیہ السلام رسولوں میں سے تھے ۔ اللہ تعالی نے ان کے متعلق فرمایا ہے کہ “وان یونس لمن المرسلین اذابق الی الفلک المشحون ” ( الصافات 139 ۔140) اور بے شک یونس رسولوں میں سے تھا ۔ (اور واقعہ یاد کرو) جب وہ بھری ہوئی کشتی کی جانب بھاگ پڑا” مولانا مودودی نے سورہِ یونس کی آیت” فلولا کانت قریة آمنت فنفعہا ایمانہا الا قوم یونس لماامنوا کشفنا عنہم عذاب الخزی فی الحیوةالدنیا ومتعنہم الی حین ( یونس 98) یعنی  کیوں کوئی ایسا گاؤں نہ ہوا کہ وہ بھی ایمان لے آتا اوران کا ایمان انہیں نفع پہنچادیتا ۔ سوائے قومِ یونس کے   کہ وہ ایمان لے آئے تو ہم نے ان سے رسوائی کے عذاب کو دنیاکی زندگی میں بچالیا  اور ایک عرصے تک ہم نے انہیں مہلتِ زندگی سے نوازا ” کی تفسیر میں ” اتمامِ حجت ” پر جو کچہ لکھا ہے   اس سے ہماری اوپر والی بات کی حرف بحرف تایئد ہوجاتی ہے  ۔ وہ لکھتے ہیں کہ “قران مجید میں خدائی دستور کے جو اصول وکلیات بیان کیے گئے ہیں   ان میں ایک مستقل دفعہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی کسی قوم کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک اس پر اپنی حجت پوری نہیں کرلیتا ۔ پس جب (یونس) نبی علیہ السلام نے اس قوم کی مہلت کے اخری لمحے تک نصیحت کا سلسلہ جاری نہ رکھا ۔ اور اللہ کے مقرر کردہ وقت سے پہلے بطورِ خود ہی وہ ہجرت کرگیا ۔ تو اللہ تعالی کے انصاف نے اس کی قوم کو عذاب دینا گوارا نہیں کیا  کیونکہ اس پر اتمامِ حجت کی قانونی شرائط پوری نہیں ہوئی تھی ( تفہیم القران ج2ص 313) احباب جانتے ہیں کہ ادھر ہمارا مقصود صرف یہ ہے کہ جو بات ہم نے گذشہ مبحث میں لکھی ہے وہ بلکل درست ہے کہ محض نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی کسی شخص یاقوم تک رسائی کو اتمامِ حجت نہیں کہاجاسکتا ۔ مولانا مودودی بھی اس  دوسرے مقام میں وہی بات کرتے ہیں جوہم نے پہلے مقام میں کی تھی ۔ البتہ سورتِ یونس کے اس مقام کی مولانا مرحوم نے جو منفرد تفسیر کی ہے   اس سے ہمیں شدید اختلاف ہے ۔ مگر یہ مقام اس طویل مبحث کا متحمل نہیں ہے ۔ لہذا ہم واپس اپنے پہلے والے مبحث کی طرف پلٹتے ہیں ۔ جناب غامدی کے مکتب میں اصول اور ان کے انطباق کے قوانین بہت ہی نرالے ہوتے ہیں ۔ اب ہم ایک ایک کرکے ان کے ان اصولوں کاجائزہ لیتے ہیں جو اس موضوع میں انہوں نے مختلف جگہ ذکر کیے ہیں ۔ (1) ایک اصول ان لوگوں کا یہ ہے کہ جب کسی قوم پر اللہ تعالی کے حکم واجازت سے کسی رسول کے ذریعے اتمام حجت ہوجاتا ہے تواس سے پھر دومسئلے برآمد ہو جاتے ہیں ۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس قوم کے لوگ پھر اللہ کے ہاں بھی کافرومنکر قرار پاتے ہیں ۔ اور عام مسلمان لوگوں کے ہاں بھی کافر و منکر ہوجاتے ہیں ۔ دوسرامسئلہ یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ ان لوگوں کو پھر زندہ رہنے کی مہلت  کبھی نہیں ملتی ہے ۔  یہ بات اس مکتب کے اصول کو جاننے والے لوگوں کے مطابق  اطفالِ مکتب تک بھی جانتے ہیں ۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس میں پھر دوکمیوں میں سے کوئی کمی ضروربالضرور ہوگی ۔ یاتو یہ کمی ہوگی کہ اتمامِ حجت  ان لوگوں پر نہیں ہوا ہوگا ۔ یا تو کسی نبی علیہ الصلاة والسلام نے اپنے گمان سے اسے تام اور مکمل سمجھ لیا ہوگا جیساکہ سیدنا یونس علیہ السلام نے سمجھ لیاتھا ۔اور یا پھر لوگوں نے اس کو مکمل اورتام حجت سمجھ لیاہوگا ۔ دوسری کمی یہ ہوگی کہ اللہ تعالی کے علم میں فرق آیا ہوگا ۔یہ بات وہ لوگ کہہ سکتے ہیں جو اللہ تعالی کے بارے میں” بداء “کے قائل ہوں ۔ میرا نہیں خیال کہ اس مکتب کے لوگ اس بات کے قائل ہونگے ؟ اگران دونوں میں سے کوئی وجہ نہ ہو   تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ کسی قوم پر حجت اللہ تعالی کے حکم اور اذن سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو کہ تمام اور مکمل ہے ۔ان میں سے اب کوئی شخص مسلمان نہیں ہو سکتا۔اس کے بعد ان میں سے کوئی شخص مسلمان ہوجائے ؟ کیونکہ اس سے اللہ تعالی کے علم پر حرف آتا ہے ۔ بعض ناقص الفکر لوگ اگر اس حقیقت کو نہیں سمجھتے تو یہ ان کا اپنا ذاتی مسئلہ ہے ۔ اب دیکھئے جناب غامدی اپنی تفسیر میں اس بات کا کھل کراظہار کرتے ہیں کہ اتمامِ حجت کا فیصلہ اللہ تعالی کے سوا کوئی دوسرا شخص اپنے اجتہاد سے نہیں کرسکتا کیونکہ اس کا غلطی میں پڑنے کا امکان موجود ہے  ۔وہ سورہِ صافات کی آیت” وان یونس لمن المرسلین ۔ اذابق الی الفلک المشحون ” ( الصافات  139۔ 140) میں لکھتے ہیں کہ ” اس واقعے کی طرف اشارہ ہے جب حضرتِ یونس اپنی دعوت کی ناقدری دیکھ کر غیرت حق کے جوش میں نکل کھڑے ہوئے جبکہ رسول کی حیثیت  سے وہ اذنِ  الہی کے بغیر اپنی قوم کو چھوڑ کرنہیں جا سکتے تھے ۔ آیت میں لفظِ ۔ابق ۔ اسی رعایت سے استعمال ہوا ہے ۔ گویا غلام اپنے آقا کے ہاں سے بھا گ نکلا ۔ اس پر مواخذے کا یہ قصہ قریش کی تنبیہ وتہدید کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کی توجہ کے لیے بھی سنایا گیا ہے کہ ہجرت کافیصلہ ان کے معاملے میں بھی اللہ تعالی ہی کرے گا ۔ اپنی رائے واجتہاد سے وہ یہ فیصلہ نہیں کرسکتے ۔ اور مشکلات سے گھبراکر اگر کہیں کربیٹھے تو خدا کا قانون بے لاگ ہے۔ وہ بھی اسی طرح محاسبے کی زد میں آجائیں گے ( البیان ج4 ص 285) یہ  عبارت اگرچہ اشارات میں لکھی گئی ہے مگر ہماری ذکرکردہ بات اس کے آخر میں الحمد للہ موجود ہے ۔ اس کے بعد جناب اپنے استاد امام سے نقل کرتے ہیں کہ ” نبی اللہ تعالی کی طرف سے حق وباطل کے کشمکش کے ایک محاذ پر مامور ہوتا ہے  ۔اس وجہ سے اس کےلیے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ خدا کی حکم کے بغیر اس محاذ سے ہٹے ۔ اگرچہ اس کا محرک کوئی نیک جذبہ ہی کیوں نہ ہو ۔اللہ تعالی نے جوآزمائشیں اپنے رسول کےلیے لکھی ہیں ان کو اس سے بہرحال گذرنا ہے ۔ اگر وہ آزمائش سے گھبرائے گا تو ہو سکتا ہے  کہ وہ ایک آزامائش سے بچنے کی کوشش میں کسی دوسری اس سے بڑی آزمائش میں گرفتار ہو جائے  ۔اسی طرح قوم کوجو مہلت اتمامِ حجت کے ملنی چاہئے وہ بھی سنتِ الہی کے مطابق ضروری ہے ۔ اور یہ خدا ہی بہترجانتا ہے کہ قوم پرکب اللہ کی حجت پوری ہوئی ۔ حضرتِ یونس علیہ السلام نے اپنے گمان کے مطابق یہ فیصلہ کرلیا   کہ اہلِ نینوا ایمان لانے والے نہیں ہیں حالانکہ واقعات نے ثابت کردیا کہ پوری قوم میں ایمان لانے کی صلاحیت موجود تھی ( البیان ج4ص 285) ان عبارتوں سے چند باتیں ثابت ہوگئیں ہیں (1) ایک بات یہ ہے کہ کسی قوم کے متعلق اتمامِ حجت کافیصلہ کسی کے اجتہاد ورائے سے نہیں ہوسکتا ہے (2) دوسری بات یہ ہے کہ قوم شعیب کو معافی سیدنا شعیب علیہ السلام کےاس اجتہادی فیصلے میں غلطی  کی وجہ سے مل گئی تھی ۔(3) اور تیسری بات یہ ثابت ہوگئی ہے کہ اتمام حجت کے بعد مسلمان ہونے کا کوئی امکان نہیں رہتا ۔ اب ہم ان حضرات سے سوال کرتے ہیں کہ آپ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ہجرت سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم قریش پر حجت کو تمام کردیا تھا ؟ کیا آپ لوگوں کی یہ بات قران مجید کی آیات میں منصوص ہے یا پھر تم لوگوں نے اسے اپنے اجتہاد سے اسے ایجاد کرلیا ہے ؟ اگر یہ بات قرانی آیات میں منصوص ہے تو پھر مکہ والوں اورقریش  کے حوالے سے تمہارے اس نعرہ کی کیا حیثیت  رہ جاتی ہے کہ ان کے متعلق مسلمانوں کو شرع کا یہ حکم تھا کہ تم یا تو مسلمان بنو   اور یاپھر قتل کے لیے تیار ہو جاؤ ۔ حالانکہ جب اللہ تعالی نے اسے تاابد کفار مان لیا ہے پھر وہ لوگ کس طرح مسلمان ہوسکتے ہیں ؟ اور پھر ان کو مسلمان بنانے کی آخر کیا تک ہے ؟ اوراگر تم لوگوں نے اس باب میں اجتہاد کیا ہے   تو آپ پھر آپ کا یہ فضول اجتہاد ہم پرکیوں لازم ہو؟ جبکہ وہ بہت سارے نصوص کے بھی خلاف ہے؟ جن کو اگے بیان بھی کریں گے ان شاءاللہ ۔ بلکہ آپ کو چاہئے کہ اس بات کی صحت کے دلائل فراہم کریں ۔ خلاصہ کلام کا یہ ہوا کہ یہ لوگ اگر ان دونوں باتوں میں سے ایک بات کو اختیار کرلیں تو اس کے ماننے پرسوچا جا سکتا ہے ۔ یا اتمامِ حجت کی بات کرلیں   اور یا پھر الا الاسلام اوالسیف کی بات کریں ۔ دونوں کا بیک وقت ماننا کسی عاقل آدمی کی بس میں نہیں ہے  الا یہ کہ وہ شخص جناب غامدی کے مکتب میں ہوں کیونکہ ان کے ہاں متضا دات کو جمع کرنا کوئی عیب بہرحال نہیں ہے ۔ جناب غامدی نے ایک جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ ” ( کہ عذاب کی ) دوسری صورت میں ظاہر ہے کہ قوم کو کچھ  مہلت مل جاتی ہے “( میزان ص 541) اس تحقیق کے متعلق سوال یہ  ہےکہ سورہِ یونس کی آیت (47) میں تو ۔” فاذاء جاء رسولہم قضی بینہم بالقسط ۔” کے الفاظ آئے ہیں ۔ آپ لوگوں نے کس آیت کی بناپر اس آیت میں ” تخصیص وتحدید “گوارا کرلی ہے ؟ یہ معمولی مہلت   تو نہیں ہے ۔جنگِ بدر سے شروع ہو جاتی ہے اور فتح مکہ کے بعد تک جاری رہتی ہے۔ یعنی آٹھ دس سال کا فاصلہ ہے۔ یہی سوال تب بھی لازم آتا ہے جب آپ اس میں تبلیغ ۔انکار ۔ اوراتمامِ حجت کے تقدیرات نکالیں گے ۔ ہمیں اس آیت میں اس ” تخصیص  وتحدید “کے لیے قران ہی کی دلیل درکار ہوگی کیونکہ آپ لوگ باقی اشیاء سے تخصیص وتحدیدِ قران کے قائل نہیں ہیں ۔ مگر اس بات کا آپ کی  کتاب میں کوئی تذکرہ موجود ہی نہیں ہے؟ 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…