حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 76)
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...
غلبہ دین : غلطی پر غلطی
حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)
حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)
حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...
مولانا واصل واسطی
اس مبحث میں ہم کوشش کریں گےکہ مکتبِ غامدی کے خود ساختہ قرانی ” قانونِ اتمامِ حجت” پر بات کرنے سے پہلے اپنے احباب کو دو قرانی اصول سمجھا سکیں ۔ ان دواصولوں میں سے پہلا قرانی اصول یہ ہے کہ اللہ تعالی نے جس قوم کو بھی ہلاک اورنیست ونابود کیاہے تواس کی وجہ اورباعث صرف اورصرف ان لوگوں کا ظلم ہی ہوا ہے ۔ رسالت یا پھر ” اتمامِ حجت” سے ان ہلاکتوں کو جوڑنا بالکل نادرست بلکہ غلط ہے ۔ دوسرا قرانی اصول یہ ہے کہ اسلام کے قبول کرنے میں کوئی جبر واکراہ قبول نہیں ہے ۔ کسی کوجبرا مسلمان کرنا قرانی نصوص کے قطعی خلاف ہے ۔(اصلِ اول) اب پہلے اصول کے متعلق چند آیات نوٹ فرمالیں ۔ایک جگہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ(1) “وماکان ربک مہلک القری حتی یبعث فی امہا رسولا تتلوا علیہم آیتنا وماکنا مہلکی القری الا واہلہا ظالمون ( قصص 59) یعنی تیرارب بستیوں کو اس وقت تک ہلاک کرنے والا نہیں ہے جب تک ان کے صدر مقام میں اپنا رسول نہ بھیجے ۔ جو پڑھ کرسنائے ان کو ہماری آیات ۔ اورہم (اس وقت تک) بستیوں کو ہلاک نہیں کرتے جب تک ان کے رہنے والے ظلم پراتر نہ آئیں “یہ آیت کےالفاظ ہیں اور اس بات میں صریح ہیں کہ بربادی اور ہلاکت کا سبب ان کا ظلم ہوتا ہے ۔(2) دوسری جگہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ” وماکان ربک مہلک القری بظلم واہلہا مصلحون ( ہود 11) یعنیتیرارب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق اور ظلم سے تباہ کرے جبکہ اس کے باشندے اصلاح کرنے والے ہوں “اس آیت میں بھی وہی بات ایک دوسرے ڈھنگ سے کہی گئی ہے ۔ (3) تیسری جگہ اللہ تعالی تباہ شدہ اقوام کے متعلق ان کی طرف اشارہ کرکے فرماتے ہیں کہ” فتلک بیوتہم خاویة بماظلموا ان فی ذالک لایةلقوم یعلمون ( نمل 54) یعنی سو یہ پڑے ہیں ان کے گھر ڈھئے ہوئے بسبب ان کے ظلم کے ۔ اس میں نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو جانتے ہیں ” ان آیات میں احباب صاف صاف ظلم کی بات دیکھ سکتے ہیں ۔(4) چوتھی جگہ نوح علیہ السلام کے متعلق واردہے کہ “وقضی الامر واستوت علی الجودی وقیل بعدا للقوم الظالمین ( ہود 44) اورحکم پورا ہوا اور کشتی جودی ( پہاڑ )پرجا ٹھری اوراعلان کردیاگیا کہ ظلم کرنے والوں کے لیے ہلاکت ہے” (5) پانچویں جگہ سیدنا نوح کی یہ دعا بجی دیکھ لیں ” ولاتزد الظالمین الا تبارا ( نوح 28) یعنی ظالموں کے لیے ہلاکت کے سواکسی چیز کا اضافہ نہ کر ” (6) اور چھٹی جگہ قومِ فرعون کے متعلق واردہے “ثم بعثنا من بعدہم موسی وہارون الی فرعون وملاءہ بآیتنا فاستکبروا وکانوا قوما مجرمین ( یونس 75) یعنی پھر ہم نے ان رسولوں کے بعد فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف موسی اورہارون کو بھیجا ۔ وہ ہماری آیات پاس رکہتے تھے ۔ مگر فرعون اوراس کے درباریوں نے گھمنڈ کیا ۔ اور ان کا گروہ مجرموں کاگروہ تھا ” (7) ساتویں جگہ عاد کے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ ” وتلک عاد جحدوا بآیت ربہم وعصوا رسلہ واتبعوا امرکل جبار عنید (ہود 59) اور یہ (قوم )عاد ہیں جنہوں اپنے رب کے حکم سے انکارکیا ۔ اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی ۔ اورہر سرکش دشمنِ حق کا اتباع کیا” دیکھئے فرعون کی ذکر والے پہلی آیت میں ۔ قوما مجرمین ۔ اور اس آیت میں۔ واتبعوا امرکل جبار عنید ۔ کو غورکا محل بنانا ہوگا ۔(8) آٹھویں جگہ فرمایا ہے شعیب علیہ السلام سے اپنے قوم کے لوگوں نے کہا کہ “ولولا رہطک لرجمناک( ہود 91) یعنی اگر تیراقبیلہ نہ ہوتا توہم تمہیں سنگسار کردیتے ” (9) اور نویں جگہ اللہ تعالی نے فرمایاہے کہ لوط علیہ السلام نے قوم کے مظالم سے تنگ آکر فرمایا تھا کہ ” اوآوی الی رکن شدید ( ہود 80 ) اور (10) دسویں جگہ بعض انبیاء کرام سے قران میں مروی ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کے ظلم کے جواب میں فرمایا کہ” قل ادعوا شرکاءکم ۔ ثم کیدونی فلاتنظرون ( اعراف 191) یعنی اپنے شرکاء کو پکارواور پھر میرے خلاف تدبیر کرو اور مجھے کوئی مہلت نہ دو ۔ تلک عشرة کاملة ۔ یہ پورے دس آیتیں ہوگئیں ہیں ۔ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان قوموں کی ہلاکت کا سبب فقط ظلم ہی تھا ۔ ہاں کبھی ان کے فعل کی تصریح ہے ۔اور کبھی دھمکی دینے کی ۔ اور کبھی انبیاء کرام کی زبانی ان کاجواب دینے کی تصریح ہے ۔ اس طرح کی آیات مثلا ” فکلااخذنا بذنبہ وماکان اللہ لیظلمہم ولکن کانوا انفسہم یظلمون ( عنکبوت 40) اور مثلا “ولقد اہلکنا القرون من قبلکم لما ظلموا وجاءتہم رسلہم بالبینات وماکانوا لیؤمنوا کذالک نجزی المجرمین ( یونس 13) کو بھی اگر شمار کیا جائے تومسئلہ حد سے نکل جائے گا ۔ نوح علیہ السلام ، لوط علی السلام ، شعیب علیہ السلام ،عیسی علیہ السلام کے متعلق تمام لوگ جانتے ہیں کہ کفار کے ظلم وستم کا نشانہ رہئے ہیں ۔ اور فرعون اور اس درباریوں وغیرہ کا غرق ہونا بھی ان کے ظلم کی وجہ سے تھا ۔ اسی طرح محمد مصطفی کی سیرت کے مطالعہ سے بھی یہ بات سامنے آتی ہے کہ کسی نے ان کے گلے میں چادر ڈال کرکھینچ لیا ۔ کسی نے ان کی پیٹھ پر اوجڑ ی رکھ دی ۔ کوئی اسے پتھر مارتا رہا ۔ کچھ ان کے قتل کا منصوبہ بنا رہے تھے ۔ یہ ساری باتیں سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں ۔ حاصل یہ ہوا کہ مشرکینِ مکہ کا مغلوب اور ذلیل ہونا بھی ان کے ظلم کیوجہ سے تھا ۔ یہ توایک اصول کی بات ہوئی ۔ (اصل ثانی)اب دوسرااصول ملاحظہ فرمالیں ۔ اس اصول کے متعلق یہ بات جاننی چاہئے کہ قران نے یہ بات بصراحت فرمائی ہے کہ جبرا کسی کو مسلمان بنانا غلط ہے ۔ (1) ایک جگہ فرمایا ہے کہ” لااکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی فمن یکفر بالطاغوت ویؤمن باللہ فقداستمسک بالعروةالوثقی لاانفصام لہا واللہ سمیع علیم ( البقرہ 256) یعنی دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے ۔ سیدھی راہ غلط راستے سے ممتاز ہوچکی ہے ۔ پس جو طاغوت کاانکار کرے اوراللہ پرایمان لائے ۔ تواس نے مضبوط کڑی کو پکڑ لیا ہے ۔ جو ٹوٹنے والی نہیں ہے ۔ اللہ سننے اور جاننے والاہے ” (2) دوسری جگہ فرمایاہے کہ “فمن شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر (الکہف 29) یعنیجوایمان لانا چاہتا ہے وہ ایمان لے آئے اورجو کفرکرنا چاہتا وہ کفر ختیارکرلے ۔(3) تیسری جگہ فرمایاہے کہ ” ولوشاء ربک لامن من فی الارض کلہم جمیعا افانت تکرہ الناس حتی یکونوا مؤمنین (یونس 99) یعنی اگر تیرا رب چاہتا توتمام روئے زمین کے لوگ ایمان لے آتے کیا تولوگوں کومجبور کرے گا ۔ کہ وہ مؤمن بن جائیں ؟” (4) چوتہی جگہ فرمایا ہے کہ ” ولوشاء ربک لجعل الناس امةواحدة ولایزالون مختلفین الامن رحم ربک ولذالک خلقہم ( ہود 118) یعنی اگر تیرا رب چاہتا توتمام لوگوں کوایک ہی امت بنادیتا مگروہ اختلاف کرتے رہیں گے ۔ سوائے ان کے جن پراللہ تعالی نے رحم کیاہے اوراسی کے لیے اس نےانہیں پیداکیا ہے ” (5) پانچویں جگہ فرمایاہے کہ ” ولو شاء ربک لامن من فی الارض کلہم جمیعا ( یونس 99) یعنی اگرخدا چاہتا تو زمین پرجتنے رہنے والے ہیں سب کے سب ایمان لے آتے” ( 6) چھٹی آیت میں فرمایا کہ”لیس علیک ہداہم ولکن اللہ یہدی من یشاء ( البقرہ 272) یعنی ان لوگوں کو ہدایت کرنا تیرے ذمے نہیں ہے ۔ بلکہ اللہ جس کوچاہتا ہے اس کوہدایت بخش دیتاہے ” (7) ساتویں آیت میں فرمایا کہ ” فذکرانماانت مذکرلست علیہم بمصیطر (الغاشیہ 22) تونصیحت کرکہ تونصیحت کرنے والاہے ۔توان پر کوئی داروغہ نہیں ہے ۔۔ (8) آٹھویں آیت میں فرمایا کہ”وما انت علیہم بجبار فذکربالقران من یخاف وعید ( ق 45) توان کو (ہدایت پر) “مجبورکرنے والانہیں ہے ۔ جوکوئی میری وعید سے ڈرنے والاہےاس کوقران کے ذریعے سے نصیحت کیے جا “(9) نویں آیت میں فرمایاہے کہ فانماعلیک البلاغ وعلینا الحساب (رعد 40) تیرے اوپرصرف پیغام پہنچاناہے ۔ حساب لینے کے لیے ہم خود ہیں” (10) دسویں آیت میں فرمایاہے کہ ” لعلک باخع نفسک الایکونوا مؤمنین ان نشا ننزل علیہم من السماء آیة فظلت اعناقہم لہاخاضعین (شعراء 3) شائد تو رنج میں جان گھلا دے گا کہ وہ ایمان نہیں لاتے اگرہم چاہیں توان پر آسمان سے ایک ایسی نشانی اتاردیں کہ اس کے اگے ان کی گردنیں جھک جائیں” یہ آیات بھی الحمدللہ دس ہوگئیں ہیں ۔ ان آیات سے یہ بات بصراحت معلوم ہوگئی ہے کہ اسلام بجبر واکراہ کسی پر ٹھونسنا ان شرعی نصوص کی بنا پر درست نہیں ہے ۔ پھر جب ایک آدمی یہ دعوی کرتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کسی قوم پراتمامِ حجت کی ہو تو ان لوگوں کے لیے بچنے کے صرف دوہی راستے ہیں ۔ یا تو وہ اسلام قبول کرلیں اور یا پھر قتل کےلیے تیار ہوجائیں ۔ تیسرا کوئی راستہ اس قوم کے لیے ان حضرات کے ہاں موجود نہیں ہے ۔ تو ہمیں تعجب ہوتا ہے ۔ اور یہ تعجب اس وقت فی الحقیقت ان لوگوں پر بہت بڑھ جاتا ہے جو دنیا والوں کو یہ بتاتے پھرتے ہیں کہ قران آیات کی” تخصیص وتحدید ” کسی الہام ، کسی حد یث اورکسی وحی خفی وغیرہ سے نہیں ہو سکتی ۔ تو ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ آخر کس قرانی دلیل کی بنیاد پران لوگوں نے ان مذکورہ آیات میں” تخصیص وتحدید “کو گوارا کرلیا ہے ۔ ہمارے علم کے مطابق تو ایسی کوئی آیت قران مجید میں موجود نہیں ہے جس سے ان آیات کثیرہ کی ” تخصیص وتحدید” ہو سکے ۔ ممکن ہےوہ قانون ان لوگوں نے ہم بے چاروں کےلیے بنایا ہو ۔ خود ان کے لیے نہ ہوں اس لیے کہ حافظِ شیراز نے بہت پہلے فرمایاتھا ۔
واعظان کین جلوہ برمحراب ومنبر میکنند
چون بخلوت میروند ان کار دیگر میکنند
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
پردہ اور غامدی صاحب
حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ...
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی...