غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 73)

Published On April 13, 2024
پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)

حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...

مولانا واصل واسطی

جناب غامدی نےاوپر زکوة کے ساتھ نماز کو بھی اسلام کے لیے شرط قراردیا ہے ۔ توجس طرح زکوة کے متعلق ہم نےاوپر سوال قائم کیا تھاکہ زکوة کےلیے تو نصاب اور حولانِ حوال شرط ہے اس کو کس طرح معلوم کیا جائے گا ؟  محض مسلمان ہونے پر تو زکوة لازم نہیں آتی ہے ؟ تو یہاں سوال نماز کے متعلق بھی ہوسکتا تھا  کہ نمازتواگر بندہ گھر پر پڑھتا ہے  تو پھر اس شرط کو کس طرح پورا کیا جائے گا؟ حکومت اسے کس طرح سے معلوم کرے گی ؟ اس کے جواب میں جناب غامدی لکھتے ہیں کہ “نماز اگرچہ تنہا بھی ادا کی جاسکتی ہے  لیکن انبیاء علیہم السلام کے دین میں یہ سنت ہمیشہ سے قائم رہی ہے کہ تزکیہِ اجتماعیت کی غرض سے اس کوجماعت کے ساتھ اور ممکن ہو تو کسی معبد میں جاکرادا کیاجائے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مقصد سے یثرب پہنچ کر سب سے پہلے مسجد کی تعمیر کی اورمسلمانوں کی ہربستی اور ہرمحلے میں تعمیرِ مساجد کی روایت اس کے ساتھ ہی قائم ہو گئی ۔ یہ مسجدیں اب دنیا میں ہرجگہ دیکھی جاسکتی ہیں ۔ ان کی تعمیر کے لیے دنیا میں کوئی خاص وضع متعین نہیں کی گئی ۔ تاہم مسلمانوں نے بعض اختلافات کے ساتھ اسے کم وبیش متعین کررکھا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حینِ حیات جب آپ کی امامت میں نماز اداکرنےکے لیے اذان  دی جاتی تھی  تو ان سب لوگوں کے لیے مسجد میں حاضری ضروری تھی  جن تک آذان کی آواز پہنچ جائے ۔ پھرجب اللہ تعالی نے  اس کے لیے قانون اتمامِ حجت کے مطابق مسلمانوں کی تطہیر کے موقع پر منافقین کو الگ کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے تویہ بھی ہوا کہ ایک نابینا نے مسجد کی حاضری سے رخصت چاہی تو آپ نے پہلے رخصت دے دی ۔ پھر پوچھا کہ آذان سنتے ہو ؟ اس نے اثبات میں جواب دیا ۔ تو فرمایا پہنچنا ہوگا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی موقع پر تہدید فرمائی تھی  کہ جو لوگ نماز میں نہیں پہنچتے ،چاہتا ہوں کہ ان کے گھرجلا کراس کی آگ ان پرپھینک دوں ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ بیمار بھی اس زمانے میں دوآدمیوں کاسہارا لیکر جماعت میں حاضر ہوتے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد  ظاہر ہے کہ حکم کی یہ صورت تو باقی نہیں رہی لیکن مسجد کی حاضری اورنماز باجماعت کا اہتمام اب بھی بڑی فضیلت کی چیز ہے ۔ لہذا کسی مسلمان کو بغیر کسی عذر کے اس سے محروم نہیں رہنا چاہئے ( میزان ص 314)  یہ عبارت اغلوطات کا مجموعہ ہے ۔ مگر ہم اس کے تعلق سے صرف چند باتیں ہی پیش کرنا چاہتے ہیں ۔

پہلی بات یہ ہے کہ جناب کی اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں نماز کے لیے حاضری کو ایک زمانے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا ضروری قرار دیا تھا کہ ایک نابینا اور اس بیمار شخص کو بھی گھر پر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی جو دولوگوں کے سہارے مسجد میں آتا تھا ۔  اب جس زمانے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو مسجد میں پڑھنا اتنا لازمی اورضروری قرار دیا تھا   اس کے بارے میں ہم جناب سے پوچھتے ہیں کہ اس زمانے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز کو اتنالازمی قراردینا اسی سورتِ توبہ کہ آیات نمبر 5 اور 11کی وجہ سے تھا ۔ یا پھر کسی اور ” وحی خفی “کے حکم کی بنا پر تھا ؟ اگر ان آیات کی بنا پرتھا جیسا کہ ہونا چاہئے ۔کیونکہ جناب غامدی کے بقول ان آیات کا تعلق بھی قانون اتمامِ حجت سے ہے جیسا کہ ان کی گذشتہ عبارات میں اس بات کی تصریح گذرچکی ہے  ۔ تو پھر وہ آیات اب بھی موجود ہیں ۔ مگر اس کا ” حکمِ لازمی وضروری  ” کیوں متغیر ہو گیا ہے؟ اور پھر کس حکم کی بنیاد پر یہ متغیر ہو گیا ؟ ظاہر ہے کہ قرآن میں تو ایسا کوئی حکم موجود نہیں ہے جو ان آیات میں اس حوالے سے  تخصیص وتحدید کرسکے ۔ پس اس بحث سے منطقی نتیجہ کے طور پر معلوم ہوگیا کہ یہ تخفیف  ” وحئ خفی ” سے حاصل ہو گئی ہے ۔ اور اگر ایسا ہے تو اس کاصاف مطلب یہ ہوگیا  کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرانی آیات میں ” تخصیص وتحدید “کر سکتے ہیں ۔ اور یہ وہ بات ہے جو جناب غامدی اور اس کے مکتب کے لیے سوہانِ روح بنی ہوئی ہے ۔ اب ہم دیکھیں گے کہ جناب اس کا کیا جواب مرحمت فرماتے ہیں ؟ دوسری بات یہ ہے کہ جناب غامدی نے یہ بات اوپر درج عبارت میں تسلیم کی ہے کہ اس حکم کا تعلق منافقین کو ممیز کرنے سے تھا  تاکہ وہ مسلمانوں سے الگ ہو جائیں ۔ مگر ہم پوچھتے ہیں کہ  قانون اتمامِ حجت کا منافقین کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟ اس بات کی تو جناب نے تصریح کی ہے کہ جو لوگ بظاہر کلمہِ توحید کے قائل ہوتے ہیں مشرک نہیں ہوتے ۔ ان پر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا  ۔جناب نے لکھا ہے کہ “تا ہم یہ معاملہ انہی لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جن کے لیے قرآن اپنی اصطلا ح میں ” مشرکین” کا لفظ استعمال کرتا ہے ۔ رہے وہ لوگ جواصلا توحید ہی وابستہ ہوتے ہیں  ان کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہوتا ۔ ان کے بارے میں ضابطہ یہ ہے کہ ان کے استیصال کے بجائے  ان پر ذلت اور محکومی کا عذاب مسلط کردیا جاتاہے ( البیان ج 2 ص 439)  توکیا منافقین بظاہر توحید سے وابستہ نہیں تھے ؟ کیا قرآن انہیں اپنی اصطلاح میں ” مشرک” قرار دیتا ہے ؟ پھر دیکھئے کہ موسی علیہ السلام کی قوم نے ان سے فرمائش کی تھی کہ ” اجعل لنا الہا کمالہم الہة ” اور ان سے کہا تھا کہ ” اذہب انت وربک انا ہہنا قاعدون ” کیا منافقین نے اس سے زیادہ ناقص اور خراب باتیں  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں کی تھیں ؟ تو پھر اس قانون کے تحت اس کو الگ کرنے کی ضرورت پیش آئی تھی ؟ ہم اس مصنوعی بات کو مان بھی لیں کہ ان کو الگ کیا گیا ۔ مگر کیا ان کو بھی مشرکین کی طرح قتل کردیا گیا تھا ؟ حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میں ان منافقین کو قتل نہیں کرسکتا کیونکہ پھر  لوگ کہیں گے محمدصلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کررہے ہیں ؟ اگر منافقین کو قتل کرنے کی کوئی بات موجود ہے تو اس کوسامنے لائیں ۔ اور اگر نہیں موجود اوریقینا موجود نہیں ہے  تو اس حکم کے وجود کا فائدہ کیا ہوا ؟ اور اگر ان کو الگ کیا بھی گیا تھا   تو اس حکم  کے ختم ہوجانے سے وہ پھر مسلمانوں میں داخل ہو گئے ۔ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ  حکمبلا فائدہ اورمصلحت ہی کے تھا ؟معاذاللہ ۔  تیسری بات یہ ہے کہ سورتِ توبہ کی جن دو آیات پر جناب کا تکیہ ہے  وہ قرآن کے دیگر حکام سے  “مخصو ص ومحدود ” بھی ہیں  ۔کیونکہ “فخلوا سبیلہم ” کا حکم مطلقا ہرزمانے کے لیے نہیں ہے ۔ کیونکہ اگر یہ لوگ مرتد ہو جاتے معاذاللہ  ۔ یا پھر اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت کرتے  تو ان کے متعلق پھر کیا یہی “فخلواسبیلہم ” کاحکم باقی رہتا ؟  بالکل اور قطعا نہیں رہتا ۔ بلکہ وہ حکومت ان سے تعرض کرے گی ۔ اسی طرح اگر وہ اسلام لانے کے بعد ان جرائم کا ارتکاب کریں گے جن پر سزائیں مقرر ہیںجیسے زنا ،چوری ، قذف ، شراب وغیرہ تو پھر انہیں سزائیں دی جائیں گی ۔ صرف اس وجہ سے انہیں نہیں چھوڑا جائے گا کہ انہوں نے ان تین شرائط کا التزام کیا ہے ۔ اور کوئی آیت جب ایک بار کسی نص سے مخصوص ہوجاتی ہے  تو پھر اس کو قیاس سے بھی دوبارہ مخصوص کرسکتے ہیں۔ حدیث کو تو چھوڑیئے ۔ ہم نے جو کل سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا جابر کی روایت کی بات کی تھی کہ وہ متواتر ہے مگر جناب غامدی نے اسے ترک کیا ہے  تواس کے ترک کرنے کی وجہ یہی تو تھی نا  کہ جناب کے نزدیک اس روایت سے ان آیات کی تخصیص وتحدید لازم آجاتی تھی ۔ جناب نے اسی لیے اسے ترک کیا تھا ۔ اب تو ان آیات کی تخصیص وتحدید  دیگر آیات سے معلوم ہوگئی ہے ۔ اب اسے ماننے میں کیامشکل ہے ؟  چوتھی بات اس سلسلہ میں یہ ہے کہ جناب غامدی بہت ماہرفی الفن آدمی ہیں ۔اب اس اوپر کی عبارت میں دیکھ لیں وہ کیا لکھتے ہیں ؟ لکھتے ہیں” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد  ظاہر ہے کہ حکم کی یہ صورت باقی نہیں رہی” سوال یہ ہے کہ مسجد میں لازمی اور ضروری جانے کا یہ حکم   اس وقت صحابہِ کرام کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہی دیا تھا ۔ اگر یہ جناب غامدی کے مذعوم  سنت  اور قران کی تفہیم وتبیین کے خلاف تھا تو پھر اس کو صحابہِ کرام نے مانا کیوں تھا؟ کیوں کہ یہ تو بقولِ غامدی دین ہی نہیں ہے ؟ اوراگر وہ ان دونوں یا پھران میں ایک کے مطابق تھا  تو پھر دین کاحصہ تھا ۔ وہ خود بخود ختم کیسے ہوگیا ؟ جبکہ وہی نصوص اورفرامین اب تک قرآن وسنت میں موجود ہیں ؟ اس کے تین چار مطلب ہو سکتے ہیں ۔ یا تو ایک” وحی خفی ”  کے ذریعے قران اورسنت سے ماخوذ اس  حکم  میں تغیر ہو گیا ہے ۔ یہ جناب غامدی وغیرہ کے نزدیک قطعاجائز نہیں ہے۔ انہوں نے اس کو کیسے گوارا کرلیا ہے ؟  یا پھرخود صحابہِ کرام کے اتفاق واجماع سے یہ حکم ختم ہوگیا ہے ۔ مگر جناب اس کا نام نہیں لے سکتے  کیونکہ وہ اجماعِ امت اس وقت تسلیم کرتے اور اس کی بات کرتے ہیں  جب وہ  قرآن وسنت  یاپھرادبِ جاہلی  کی نقل وروایت سے متعلق ہو ۔ اس کے علاوہ وہ اس کو کوئی قانونی دلیل نہیں مانتے جیساکہ عام علماء کرام مانتے ہیں ۔اسی لیے تو وہ ان کے متفق علیہ مسائل کو چٹکیوں میں اڑاد یتے ہیں ۔ یاپھر تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ خود بخود انقضاء زمان سے یہ حکم ختم ہوگیا ہو ۔ مگر اس کاماننا بھی بہت مشکل ہے کہ قرآن وسنت کے نصوص انقضاء زمان سے بے اثر ہو جائیں کیونکہ اگر اس بات کو مان لیاجائے تو کل بہت سے نصوص کے بارے میں لوگ ایسے دعوے کریں گے ۔ان کا کوئی روکنے والا نہیں ہوگا ۔چوتھی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ آیات کسی قوم سے خاص ہوں۔ ان کے ختم ہونے سے یہ حکم بھی ختم ہو گیا ہو ۔ مگر یہ چاروں احتمالات محض احتمالات ہیں دو وجوہ کیوجہ سے ۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ جناب غامدی کے بقول ان آیات سے سیدنا ابوبکر صدیق نے اپنے دور میں استدلال کیا تھا ۔ اگر یہ بات ختم ہوتی پھر اس استدلال کا کوئی معنی نہیں رہتا ۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جناب غامدی ان آیات سے اب بھی استدلال اوراستنباط کرتے ہیں ۔ اگر ان آیات کا یہ حکم ان کے نزدیک ختم ہوگیاہے  توپھر ان سے استدلال چہ معنی دارد ؟ معلوم ہوا کہ ایسی کوئی بات موجود نہیں ہے ۔ اورنہ ایسی بات کا موجود ہونا دین اور عقل کے مطابق ہے۔ پانچویں بات یہ ہے کہ اب احباب ہم سے پوچھیں گے کہ چلو ان حضرات کی بات غلط اورنادرست سہی ۔ آپ کے نزدیک ان آیات قرآنی کی درست توجیہ اور صاف حقیقت کیا ہے ۔ تو ہم عرض کریں گے کہ پوری بات تب سمجھ میں آجائےگی جب ہم اس موضوع کی تفصیل کرلیں گے ۔ فی الحال اتنی بات جان لینی چاہئے کہ یہ عام مسئلہ ہے ۔ہر علاقے میں بالعموم پیش آتا ہے کہ بندہ کبھی ایسے لوگوں سے کسی معاملہ میں معاہدہ کرتا اورتعلق بناتا ہے جن سے انہوں نے غداری اورخیانت کو کبھی نہ دیکھا ہو  تو ان لوگوں سے معاہدہ کرنے کے لیے  نہ وہ بہت سخت شرطیں لگاتا ہے اور نہ کوئی ضامن ان سے طلب کرتا ہے ۔ مگر جب اس شخص نے ان لوگوں سے باربار غداری اورخیانت  دیکھی ہو  تو پھر وہ اپنے اعتماد کو بحال کرنےکے واسطے ان پر سخت شرائط رکھتا ہے ۔ چونکہ ان لوگوں نے باربار غداریاں اور خیانتیں اللہ تعالی اورر سول صلی اللہ علیہ وسلم سے کی تھیں  جیساکہ سورہِ انفال کی آیت ” ینقضون عہدہم فی کل مرة”(انفال 54) میں وارد ہے ۔ اس لیے ان لوگوں پر زیاد پابندیاں عائد کردی گئی ہیں کہ ان کی صرف شہادتین قبول نہیں ہیں بلکہ اس کے ساتھ وہ نماز اور زکوة کا بھی اہتمام کرکے دکھائیں گے ۔ باقی رہے عام مسلمان تو ان سے شہادتین کے اقرار والا اسلام بھی قبول ہے  علی رغمِ انف المعاندین ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…