غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 71)

Published On April 13, 2024
نظریہ ارتقا اور غامدی صاحب

نظریہ ارتقا اور غامدی صاحب

محمد حسنین اشرف حالیہ ویڈیو میں غامدی صاحب نے نظریہ ارتقا پر بات کرتے ہوئے ایک بہت ہی صائب بات فرمائی کہ نظریہ ارتقا سائنس کا موضوع ہے اور اسے سائنس کا موضوع ہی رہنا چاہیے۔ دوسری بات انہوں نے یہ فرمائی کہ اپنے بچوں کو سائنس کی تحلیل سکھانی چاہیے۔ یہ بات بھی صائب ہے...

تصوف پر جناب احمد جاوید صاحب اور جناب منظور الحسن صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

تصوف پر جناب احمد جاوید صاحب اور جناب منظور الحسن صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب محترم جناب احمد جاوید صاحب نے تصوف سے متعلق حال ہی میں اس رائے کا اظہار فرمایا ہے کہ فقہ و کلام وغیرہ کی طرح یہ ایک انسانی کاوش و تعبیر ہے وغیرہ نیز اس کے نتیجے میں توحید و نبوت کے دینی تصورات پر ذد پڑی۔ ساتھ ہی آپ نے تصوف کی ضرورت کے بعض پہلووں پر...

تصوف پر جناب منظور الحسن صاحب کے ایک اعتراض کا جائزہ

تصوف پر جناب منظور الحسن صاحب کے ایک اعتراض کا جائزہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب مکتب فراہی کے منتسبین اہل تصوف پر نت نئے الزامات عائد کرنے میں جری واقع ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب و جناب غامدی صاحب سے گزرتا ہوا اب ان کے شاگردوں میں بھی حلول کررہا ہے۔ جس غیر ذمہ داری سے مولانا اصلاحی و غامدی صاحبان اہل تصوف...

شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے

شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد صاحب   کچھ دن قبل اس موضوع پرفیسبک پر مختصر پوسٹ کی تھی کہ یہ فرق غیرمنطقی، غیر اصولی اور غیر ضروری ہے۔ جسے آپ شریعت کہتے ہیں وہ آپ کا فہم شریعت ہی ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مثال کے طور پر غامدی صاحب نے اپنے تئیں شریعت کو فقہ کے انبار...

۔”خدا کو ماننا فطری ہے”  مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

۔”خدا کو ماننا فطری ہے” مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب علم کلام کو لتاڑنے والے حضرات کی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وجود باری پر یقین رکھنا بدیہیات میں سے ہے، لہذا متکلمین دلائل دے کر بے مصرف و غیر قرآنی کام کرتے ہیں۔ یہاں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی کتاب "فلسفے کے بنیادی مسائل قرآن مجید کی روشنی...

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

مولانا نیاز محمد مروت صاحب جناب جاوید غامدی صاحب نے مردوں کے داڑھی رکھنے کے معمول چلے آنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داڑھی رکھنے کی عادت کا اعتراف کیا ہے ، جو کہ حق بات ہے، بشرطیکہ طبعی عادت کے طور پر نہیں، بلکہ معمول کے طور پر داڑھی رکھنا مراد ہو، چنانچہ اس پر...

مولانا واصل واسطی

اس تحریر میں ہم  دو شبہات کا  ان شاءاللہ تفصیلی ذکرکریں گے جنہیں یہ لوگ بارباراچھالتے ہیں ۔گویا قولِ غالب پرعمل کرتے ہیں۔

 کہ ۔۔  یک حرفِ کاشکے است کہ صد جا نوشتہ ایم ۔۔

ان میں سے ایک کو یہ لوگ” شہریت کے شرائط”  سے مسمی کرتے ہیں ۔ اور دوسرے کو “قانونِ اتمامِ حجت ” یا پھر ” دینونتِ صغری” کا نام دیتے ہیں ۔ان دو شبہات کو ان لوگوں نے اتنے زور اور تکرار کے ساتھ اچھالا ہے کہ اب لوگ اس کے علاوہ سوچ کی دوسری جہت کوبالکل مسدود سمجھتے ہیں ۔ ہم پہلے اول شبہہ کو لیتے ہیں۔ کل ہم نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ جناب غامدی کو یہ ٹھوکر مولانا مودودی کی اتباع میں لگی ہے ۔ آج اس کی ذرا تفصیل ملاحظہ فرمالیں (1) قران مجید کی سورتِ توبہ آیات (5۔ اور 11) میں ایک بات فرمائی گئی ہے کہ ” فان تابوا واقاموالصلوة وآتواالزکوة فخلوا سبیلہم ان اللہ غفور الرحیم ( توبہ 5)  یعنی  اگر یہ لوگ (شرک سے ) توبہ کرلیں ۔ اور نماز قائم کریں زکوة کی ادائیگی کیا کریں ۔ تو ان سے تعرض نہ کرو اللہ تعالی بخشنے والا اور مہربان ہے ۔دوسری آیت باقی ایسی ہی ہے صرف اس میں” فخلوا سبیلہم” کی جگہ” فاخوانکم فی الدین ” ( توبہ 11) یعنی پھر وہ تمہارے دینی بھائی ہیں کے الفاظ آئے ہیں۔ مولانا مودوی ان میں پہلی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ “یعنی کفروشرک سے محض توبہ کرلینے پرمعاملہ ختم نہ ہوگا بلکہ انہیں عملا نماز قائم کرنی اور زکوة دینی ہوگی ۔اس کے بغیر یہ نہیں مانا جائے گا   کہ انہوں نے کفر کو چھوڑ کر اسلام اختیار کرلیا ہے۔ اسی آیت سے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے فتنہِ ارتداد کے زمانے میں استدلال کیا تھا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جن لوگوں نے فتنہ برپا کیا تھا ان میں سے ایک گروہ کہتا تھا کہ ہم اسلام کےمنکر نہیں ہیں ۔ نماز بھی پڑہنے کےلیے تیار ہیں ۔ مگر زکوة نہیں دیں گے۔ صحابہِ کرام کو بالعموم یہ پریشانی لاحق تھی کہ آخرایسے لوگوں کے خلاف تلوارکس طرح اٹھائی جاسکتی ہے ؟ مگر حضرت ابوبکرصدیق نے اسی آیت کاحوالہ دے کر فرمایا کہ ہمیں ان لوگوں کوچھوڑ دینے کاحکم صرف اس صورت میں دیاگیا تھا  جب کہ یہ شرک سے توبہ کریں ۔ نماز قائم کریں ۔ اورزکوة دیں ۔ مگر جب یہ تین شرطوں میں سے ایک شرط اڑائے دیتے ہیں توپھر انہیں ہم کیسے چھوڑ دیں ( تفہیم القران ج2 ص 178) یہاں احباب مولانا مودودی کی اس بات کو یاد رکہیں کہ  ان تین شرائط میں ایک شرط اڑانے اور منتفی ہونے سے مشروط کا اڑجا نا اورمنتفی ہونا بھی یقینی ہے  ۔کیونکہ اس پر بحث ہونے والی ہے۔اس لیے کہ غامدی اس بات سے بھاگتے اورکنی کتراتے ہیں ۔ اور دوسری آیت کے مذکورہ الفاظ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ” اور یہ جو فرمایا گیا کہ  اگر ایسا کریں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں ۔تو اس کامطلب یہ ہے کہ یہ شرائط پوری کرنے کا نتیجہ صرف یہ نہیں ہوگا کہ تمہارے لیے ان پرہاتھ اٹھانا اور ان کے جان ومال سے تعرض کرنا حرام ہوجائے گا بلکہ مزید برآں اس کا فایدہ یہ بھی ہوگا کہ اسلامی سوسائٹی میں ان کو برابر کے حقوق مل جائیں گے ۔ معاشرتی ۔ تمدنی اورقانونی حیثیت سے وہ تمام دوسرے مسلمانوں کی طرح ہونگے ۔ کوئی فرق وامتیاز ان کی ترقی کی راہ میں حائل نہیں ہوگا ( تفہیم القران ج2 ص 179)  اب اس کے بعد جناب غامدی کی بھی دو ہی عبارتیں دیکھتے ہیں  (آیت نمبر 5) کی تفسیر میں لکھتے ہیں” یعنی خدا کے عذاب سے بچنے کے لیے صرف اتنا کافی نہیں ہے کہ وہ کفرو شرک سے توبہ کرکے اسلام قبول کرلیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے ایمان واسلام کی شہادت کے طور پروہ نماز کا اہتمام کریں اورحکومت کانظم چلانے کے لیے اس کے بیت المال کو زکوةادا کریں اس کے بعد فرمایا ” فخلوا سبیلہم ” یعنی ان کی راہ چھوڑو ( اس کے معنی یہ ہیں کہ ریاست اورقانون کی سطح پرایمان واسلام کی تقاضوں کو پورا کرنے کےلیے اس سے زائد کوئی مطالبہ کسی مسلمان سے نہیں کیا جاسکتا ۔اس لیے کہ جب خدا نے اپنے پیغمبر کو خود اپنی حکومت میں اس کی اجازت نہیں دی تو دوسروں کوکس طرح دی جاسکتی ہے ؟)( البیان ج 2 ص 326)  قوسین کے اندر جو عبارت ہم نے جناب کی رکھی ہے سارا مسئلہ اسی تحریف سے پیدا ہوا ہے۔ اس آیت میں یہ بات کہاں لکھی ہے کہ  ان تین چیزوں سے زیادہ کا مطالبہ نہیں کیاجاسکتا ہے؟ یہ تو اس طرح کا استدلال ہے جیسے کوئی سیدنا ابوہریرہ کی اس روایت سے جو متفق علیہ ہے  اور اس میں صرف شہادتین سے مسلمان ہونے کی بات موجود ہے ۔ یہ نتیجہ اخذ کرلے کہ مسلمان سے شہادتین کے سوا کوئی مطالبہ کرنا کسی شخص وریاست کےلیے درست نہیں ہے ۔ اس احمقانہ استدلال کو کون عاقل شخص تسلیم کرلے گا ؟ اور پھر جناب دوسری آیت کے الفاظ ( فاخوانکم فی الدین ) کی تفسیر میں لکھتے ہیں ۔۔ پیچھے انہی شرائط کے بعد فرمایا کہ ” فخلوا سبیلہم “یہاں اس کی جگہ ” فاخوانکم فی الدین ” کے الفاظ ہیں ۔ یہ دونوں تعبیرات مل کر حکم کامنشا ہرلحاظ سے واضح کر دیتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان شرائط کے پورا ہوجانے کے بعد ان سے مزید کوئی مطالبہ نہیں کیا جائے گا ۔ قانون اور ریاست کی نظر سے  وہ مسلمان سمجھے جائیں گے ۔وہ تمام حقوق انہیں حاصل ہوجائیں گے جو ایک مسلمان کی حیثیت سے مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی میں ان کوحاصل ہونے چاہییں ۔ ان میں اور پہلے ایمان لانے والوں کے حقوق وفرائض میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔ اوراخوت کایہ رشتہ قائم ہوجانے کے بعد وہ تمام  ذمہ داریاں بھی ان میں سے ہرایک پر عائد ہوجائیں گی جو عقل وفطرت کی روسے ایک بھائی پراس کے بھائی کے بارے میں عائد ہونی چاہییں ( البیان ج2ص 329)ہم نے با رہا یہ دیکھا ہے کہ جناب غامدی چاہے جتنا بھی زور لگالیں  مگر وہ مولانا مودودی اورمولانا اصلاحی کی سحر سے کبھی نہیں نکل سکتے ۔ اب ان دو مذکورہ آیات میں ان دو فقروں کو دیکھ لیں ۔ایک” فخلوا سبیلہم ” یعنی جب وہ لوگ ان تین شرائط کو پورا کریں ۔ شہادت ۔ نماز کاقیام اور ۔ زکوة کی ادائیگی ۔ پھران کاراستہ چھوڑو ۔ ان سے تعرض نہ کرو ۔ انہیں تنگ نہ کرو۔تنگ نہ کرنے سے  یہ بات کیسے اور کیوں لازم آگئی ہے کہ ریاست اور قانون ان تین چیزوں کے علاوہ ان سے کوئی مطالبہ نہیں کرسکتی ؟ یہ بات صرف جناب غامدی اور اس کے مقلدین کی عقل میں آسکتی ہے ۔ ہم جب کسی کو کہتے ہیں کہ فلان سے تعرض نہ کرو ۔ اسے تنگ نہ کرو   تو کیااس کایہ مطلب ہوتا ہے کہ اس سے کوئی جائز مطالبہ بھی ناجائز ہو گا ؟ یا پھر جو مطالبات شریعت اورفطرت کی طرف سے اس کو متوجہ ہیں   انہیں اس کا کہنا اور ان سے وہ کروانا بھی ناجائز ہوگا ؟ ۔براین عقل ودانش بباید گریست ۔اب دوسرے الفاظ دیکھتے ہیں کہ اگر ہم کسی کو اپنا بھائی قرار دیں تو پھر ان سے کوئی مطالبہ کرنا کیا ہمارے لیے ناجائز ہو گا ؟ یہ تین شرائط تواخوت کے ہیں ۔ مطالبات کی اس میں نفی کہاں موجود ہیں ؟ سچی بات یہ ہے کہ جناب کو یہ شبہ مولانا مودودی کی اس اوپر درج عبارت سے پڑا ہے کہ ان لوگوں کو ان تین شرائط کے ماننے کے بعد دیگر مسلمانوں کی طرح ان کی اخوت حاصل ہوگی ۔ اسی طرح ایک دوسری جگہ مولانا مودودی نےابوبکرجصاص کے احکام القران سے سیدنا ابوبکرالصدیق کا یہ قول بھی منکرینِ زکوة کے متعلق نقل کیا ہے کہ میں ان تین شرائط کے سواان لوگوں سے اور کوئی مطالبہ نہیں رکھتا۔  معلوم ہوا کہ ریاست اور قانون کے لیے استدلال کامقام قولِ سیدنا ابوبکرالصدیق ہی ہے جس کومولانا مودودی نے نقل کیا ہے  ۔ مگرجناب علمی غرور میں مولانا مودودی اور ابوبکر جصاص کے واسطے کو درمیان سے اڑانا چاہتے تھے  مگر نصیب دیکھ لیں کہ خود ہی اڑگئے ۔ اب سیدنا ابوبکر الصدیق کے اس قول کا صحیح مطلب ومفہوم کیا ہے ؟ اس کو ہم اگے بیان کریں گے ۔مگر پہلے یہ بات معلوم کرنا ضروری ہے کہ منکرینِ زکوِة کا کیا معاملہ تھا ؟ ان میں کتنے گروہ تھے ؟ اورصحابہِ کرام کو شبہ کس گروہ کے متعلق پیدا ہواتھا ؟ اس بارے میں بہت سے مستند اہلِ علم نے تحقیقات کی ہیں۔ سب کانقل کرنا موجبِ طوالت وملال ہوگا ۔ اس لیے ہم صرف ایک عبارت پراکتفاء کریں گے ۔ جناب ابوسلیمان خطابی فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق کے دور میں جن اہلِ ردہ کا ذکر ہوتا ہےان کی تین قسمیں تھیں  (1) ایک وہ لوگ تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے برگشتہ ہوگئےتھےاور مسیلمہِ کذاب اوراسودِ عنسی کی نبوت کے قائل ہو کر ان کے متبع بن گئے تھے (2) دوسرے وہ لوگ تھے جو نماز اور زکوة اور دیگرشرائع واحکام کے منکر ہو گئے تھے  (3) اورتیسرے وہ لوگ تھے جو نماز کو تو مانتے اور تسلیم کرتے تھے  مگر زکات کی فرضیت اور اسے امامِ وقت کو ادا کرنے کے منکر تھے۔ بعض صحابہِ کرام کو شبہ اصلا اس آخری گروہ کے متعلق پیدا ہوا تھا۔ مگر اہلِ ردہ کے غلبے کیوجہ سے ان لوگوں کو بھی ان میں شمارکیا جاتا ہے ۔ امام خطابی کے الفاظ یہ ہیں ۔۔ ان اہل الردة کانواصنفین صنف منہم ارتدوا عن الدین ونابذوا الملة وعادواالی الکفر وہم الذین عناہم ابوہریرة بقولہ ۔۔ وکفر من کفر من العرب ۔۔ وہذہ الفرقة طائفتان احدہما اصحاب مسلیمة من بنی حنیفة وغیرہم الذین صدقوہ علی دعواہ فی النبوة واصحاب الاسود العنسی ومن کان من مستجیبیہ من اہل الیمن وغیرہم وہذہ الفرقةباسرہا منکرة لنبوةمحمدصلی اللہ علیہ وسلم مدعیةالنبوةلغیرہ فقاتلہم ابوبکر رضی اللہ عنہ حتی قتل اللہ مسیلمة بالیمامة والعنسی بصنعاء وانقضت جموعہم وہلک اکثرہم ۔ والطائفةالثانیة ارتدوا عن الدین وانکرواالشرائع وترکواالصلاة والزکاة الی غیرہما من جماع امرالدین وعادوا الی ماکانوا علیہ فی الجاہلیة ۔والصنف الاخر ہم الذین فرقوا بین الصلاة والزکاة فاقروابالصلاة وانکروافرض الزکاة ووجوب ادائہا الی الامام وہؤلاء علی الحقیقة اہل بغی وانما لم یدعوا بہذاالاسم فی ذالک الزمان خصوصا لدخولہم فی غماراہل الردة فاضیف الاسم فی الجملة الی اہل الردة ( معالم السنن ج 2ص4) یہ تو ان طوائف کا تذکرہ ہوا ہے ۔ اب سیدنا عمر الفاروق کے شبہ اور س کے حل کے مطابق بھی ایک مختصر عبارت امام خطابی کی دیکھتے ہیں ۔وہ سیدنا عمر کے استدلال اور شبہ ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ ” فقال لہ ابوبکران الزکاةحق المال یرید ان القضیة التی تضمنت عصمة دم ومال معلقة بایفاء شرائطہا ۔ والحکم المعلق بشرطین لایجب باحدہما والاخر معدوم ثم قایسہ بالصلوة وردالزکاة الیہا فکان فی ذالک من قولہ دلیل علی ان قتال الممتنع من الصلوة کان اجماعا من رائ الصحابة ولذالک ردالمختلف فیہ الی المتفق علیہ فاجتمع فی القضیة الاحتجاج من عمر بالعموم ومن ابی بکربالقیاس ودل ذالک علی ان العموم یخص بالقیاس وان جمیع ما یتضمنہ الخطاب الوارد فی الحکم الواحد من شرط واسثناء مراعی فیہ ومعتبر صحتہ بہ فلما استقر عندعمر رضی اللہ عنہ صحة رائ ابی بکر رضی اللہ عنہ وبان لہ صوابہ تابعہ علی قتال القوم ( ایضا ج 2 ص5) ان عبارات سے مسئلہِ انکارِ زکات کی وضاحت ہو گئی ہے ۔اب اس کے بعد یہ دیکھیں گے کہ سیدنا ابوبکرصدیق کے جس قول کو مولانا مودودی اور ان کی اتباع میں جناب غامدی نقل کیا ہےاس کا درست مطلب کیا ہے ؟ مگر اس سے پہلے جناب غامدی کی ایک اور عبارت کو ملاحظہ کرنا بھی ضروری ہے ۔جو انہوں نے اپنی دوسری کتاب میں لکھی ہے ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…