غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 68)

Published On April 3, 2024
پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)

حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...

مولانا واصل واسطی

جناب  غامدی صاحب کی ایک مختصر عبارت دیکھ لیں۔ ،، نماز ، روزہ ، حج ، زکوة ، اورقربانی کاحکم بھی اگرچہ جگہ جگہ قران میں آیا ہے ، اور اس نے ان میں بعض اصلاحات بھی کی ہیں لیکن یہ بات خود قران ہی سے واضح ہوجاتی ہے کہ ان کی ابتدا پیغمبر کی طرف سے دینِ ابراہیمی کی تجدید کے بعد اس کی تصویب سے ہوئی ہے ۔اس لیے یہ لازما سنن ہیں جنہیں قران نے مؤکد کردیاہے ( میزان ص 59) یہ محض دعوی ہے جسے کوئی ثابت نہیں کرسکتا ۔جناب غامدی کا یہ خود ساختہ مذہب جس بنیاد پر مبنی ہے آج ہم اپنے احباب کے لیے اس کے ،، بودے پن ،، کو واضح کرنا چاھہے ہیں تاکہ ان کو اس دامِ ہم رنگِ زمین سے بچنے کا راستہ اور موقع مل جائے ،یہ بات تو اہلِ تحقیق جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پرانے زمانے سے یہ اختلاف امہاتِ کتب اور مراجع میں موجود ہے  کہ ان پر قبل النبوة کسی ما قبل شرع کا اتباع لازم تھا یا نہیں تھا ؟ اس میں تین آراء اور مسالک آئمہ کرام کے موجود ہیں (1) ایک مسلک یہ ہے کہ ان پر کسی بھی شرع کا اتباع لازم نہیں تھا۔ یہ جمہورِ امت کا قول اور مسلک ہے (2) دوسرا مسلک یہ ہے کہ ہم اس مسئلے میں توقف کرتے ہیں ۔ہاں ونہ نہیں کرتے۔ یہ بعض متکلمین کا قول ومسلک ہے (3) تیسرا مسلک یہ ہے کہ ان پر ما قبل شرع کا اتباع لازم تھا ۔اس گروہ کے لوگ پھر آپس میں بہت مختلف ہوگئے ہیں (1) ایک گروہ کا قول ہے کہ ان پر ما قبل شرع کا اتباع تو لازم تھا  مگر ہم اس کی تعیین نہیں کرسکتے کیونکہ دلائل اس باب میں متعارض ہیں (2) دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ وہ سیدنا عیسی علیہ السلام کے شرع کے پابند تھے اس لیے کہ وہ اقرب بالزمان الیہ ہیں (3) تیسرے گروہ کا کہنا ہے کہ وہ سیدنا نوح کے شرع کے پابند تھے ۔ جیسے سورتِ شوری میں ہے کہ ،، شرع لکم من الدین ماوصی بہ نوحا الخ ( شوری 11) ،، (4) چوتھے گروہ کا قول ہے  کہ ان پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے شرع کا اتباع لازم تھاجیسے سورتِ نحل میں ہے کہ ،، ان اتبع ملةابراھیم حنیفا ،،( النحل 123)  یہ تیسرا قول اضعف المذاھب اور اوھن المسالک ہے ۔ قرانی آیات سے ان کا استدلال قطعی درست نہیں ہے کہ وہ بعد ازنبوت سے متعلق ہیں قبل النبوة سے ان کاکوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم نے اپنے الفاظ میں صرف خلاصہِ مبحث بیان کیا ہے  ۔حوالہ جات کا اس لیے اہتمام نہیں کیا کہ یہ موضوع ہمارا مقصود نہیں ہے ۔ مقصود ہمارا یہاں دوسرا مسئلہ ہے  جس سے ناقدین ومخالفینِ غامدی بالعموم واقف نہیں ہیں ۔وہ یہ ہے کہ جناب غامدی نے سب اہلِ علم و سنت کے برخلاف نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر شرعِ ابراہیمی کے فروعی وعملی احکام کا اتباع واقتدا بعد از بعثت لازم اور واجب قرار دیا ہے ۔یہ اہلِ حق میں سے کسی معتبراور مستند عالمِ دین کا مسلک وموقف نہیں ہے ۔ جناب غامدی نے سورتِ نحل کی آیت (123) کے متعلق جو کچھ لکھا ہےاس سے ہم نے پہلے ہی دوستوں کو گذشتہ مباحث میں اگاہ کیا ہے ۔ اس باطل اور بے بنیادموقف کی حقیقت جاننے کے لیے چند اور باتوں کو ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے (1) پہلی بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باتفاقِ امت صلی اللہ علیہ وسلم نبی بھی تھے اور رسول بھی تھے ۔ اور قران جیسی کتاب ساتھ لائے تھے ۔ اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو فقط چند صحیفے دیئے گئے تھے کوئی کتاب نہیں دی گئی تھی۔ پھر ابراہیم علیہ السلام  جناب غامدی اور ان کے اہلِ مکتب کے قانون کے مطابق  رسول نہیں ہو سکتے ہیں ۔ جناب غامدی لکھتے ہیں کہ ،،  نبیوں میں سے جو رسول کے منصب پر فائز ہوتے ہیںوہ خداکی عدالت بن کر آتے ہیں ۔ اور اپنی قوم کا فیصلہ کرکے دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ کے یہ پیغمبر اپنے پروردگار کے میثاق پر قائم رہتے ہیں   تو اس کی جزا اوراس سے انحراف کرتے ہیں تو اس کی سزا انہیں دنیا میں مل جاتی ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ ان کا وجود لوگوں کے لیے ایک آیتِ الہی بن جاتا ہے ۔وہ خدا کو گویا ان کے ساتھ زمین پرچلتے پھرتے اورعدالت کرتےہوئے دیکھتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جوان کے قوموں کے لیے دنیا اور آخرت دونوں میں فیصلہِ الہی کی بنیاد بن جاتی ہے ۔چنانچہ اللہ تعالی ان رسولوں کوغلبہ عطا فرماتے اوران کے دعوت کے منکرین پراپنا عذاب نازل کردیتے ہیں ،، ولکل امة رسول فاذاجاء رسولھم قضی بینھم بالقسط وھم لایظلمون ،،(ترجمہ) اورہرقوم کےلیے ایک رسول ہے ۔ پھرجب ان کا وہ رسول آجائے توان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیاجاتاہے اوران پرکوئی ظلم نہیں کیاجاتا ( میزان ص 135 ، والبیان ج3 ص 363) اس لحاظ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سیرت کا جائزہ لیجیے تو وہ رسول قرارنہیں پاتے  (2) دوسری بات یہ ہے کہ سیدنا ابرہیم علیہ السلام کے وہ صحیفے بھی دست بردِ زمانہ سے محفوظ نہیں رہے   سیدنا موسی وسیدنا عیسی علیھماالسلام کے زمانے کے تورات وانجیل کا توپھر بھی کوئی نقش ونشان موجود ہے مگر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے صحیفوں کاتو کو ئی اتہ پتہ نہیں چلتا ہے ۔پھر ان کا زمانہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے بہت دور ہے ۔ ان کی  روایات آخر کس طرح محفوظ رہی ہونگی ؟ مکہ کے وہ لوگ جوحنیف یا موحد  فی الجاھلیہ قراردیئے جاتے ہیں   ان کو بھی چند ہی احکام وامور معلوم تھے (1) جیسے بتوں کوسجدہ نہ کرنا (2)  ان کے استھانوں پر ذبح شدہ چوپایوں کا گوشت نہ کھانا (3) بچیوں کو قتل نہ کرنا( 4) زنا کے قریب نہ جانا وغیرہ باقی احکام سے وہ بے خبر تھے۔انہیں طریقہِ ابراہیمی کا کوئی علم نہیں تھا ۔ گویا انہیں صرف اعتقادی باتوں یعنی توحید کا علم تھا  کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام حنیف تھے شرک نہیں کرتے تھے ۔ اب ان باتوں کے باوجود جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فروعی اورعملی احکام میں   جس کو جناب غامدی تلبیس کےلیے ،، سنت ،، کا نام دیتے ہیں ، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ بہت وجوہات کی بنا پرگھٹا دیتے ہیں  (1) ایک تو اس وجہ سے کہ انہوں نے ایک  صاحبِ کتاب نبی ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کومحض ایک نبی علیہ اسلام کا متبع بنایا ہے۔ ایسا کہیں بھی اسلامی تاریخ اور قران وسنت میں نہیں ہوا کہ اللہ تعالی نے نبی ورسول کو فقط نبی کے اتباع پر مامور کیا ہو ۔جو شخص اس بات کا مدعی ہے وہ اس کے لیے دلائل فراہم کردیے  (2)اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر ایک انسان دوسرے انسان کو اس چیز کی تابعداری کاحکم دیدے  جس کا جاننا ، اور پانا اس کے دسترس اور قدرت میں ہو تو پھر خیر ہےمگر کسی ایسی چیز کے اتباع کا حکم اسے دینا   جس کو ثابت کرنے کے لیے پتّہ مارنے کے باوجود ایک ،، محقق ومدقق شخص ،، تک کو ایک دو ضعیف اور بے بنیاد روایتوں کے سوا کچھ نہ مل سکے ، یہ درحقیقت اس شخص کو تکلیف مالایطاق جیسی مصیبت میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے (3) تیسری وجہ اس کی یہ ہے کہ جناب غامدی کے بقول قران گذشتہ کتابوں پر ،، مھیمن ،، ہے ، وہ سورہِ مایدہ کی آیت (48) کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ،، یہاں اس مفہوم کے لیے لفظ ،، مھیمن ،، استعمال ہواہے۔ یہ، ھیمن فلان علی کذا ، سے بناہوا اسم صفت ہے   جومحافظ اورنگران کے معنی میں آتا ہے ۔اس آیت میں قران مجید کو پچھلے صحفیوں پرمھیمن قرار دیا گیا ہے ۔ اس کا معنی یہ ہے کہ کتابِ الہی کا اصل اور قابلِ اعتماد نسخہ قران مجید ہی ہے  ۔چنانچہ دوسروں صحیفوں کے متن جب گم کردیئے گئے   اوران کے تراجم میں بھی بہت کچھ تحریفات کردی گئیں  تو ان کے حق وباطل میں امتیاز کےلیے یہی کسوٹی اورمعیار ہے جو بات اس پرکھری ثابت ہوگی ، وہ کھری ہے۔ اورجو اس پرکھری ثابت نہ ہوسکے وہ یقینا کھوٹی ہے جسے لازما رد ہونا چاہئے ( میزان ص 25 ، البیان ج 1 ص 644) اب اس کے بعد جناب غامدی ہی بتاسکتے ہیں کہ جب  ،، مھیمن ،، یعنی کسوٹی خودنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود ہے   تو پھر قران کی اتباع کے بجائے سیدنا ابراہیم کے نام سے مشرکین میں موجود بے سروپا روایات کے اتباع کا حکم کیوں دیا گیا ہے ؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب کا معاملہ بہرحال گڑبڑہے (3) تیسری بات یہ ہے کہ جناب غامدی کے بقول  ،، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعدازنبوت فروعی اورعملی احکام میں سیدنا ابراہیم کی شریعت کے پابند تھے ،، اس کی دلیل وہ سورہِ نحل کی آیت (123) بناتے ہیں ۔ہم چند لمحات کے لیے جناب غامدی کے اس استدلال کو من وعن تسلیم کرتے ہیں ۔ اورکہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لازما اس آیت پرعمل بھی کیا ہوگا اور پھر اپنے صحابہ کرام کو بھی ان سنن پر عمل کرنے کا طریقہ سکھایا ہوگا ۔ اور یہ توظاہربات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہِ کرام نے ان سنن پرچھپکے چھپکے سے توعمل نہیں کیا ہوگا۔ بلکہ علی الاعلان اورڈنکے کی چوٹ عمل کیا ہوگا ۔ اگر جواب ہاں میں ہے  اور عقل کے مطابق جواب ہاں میں ہی ہونا چاہئے ۔ تو سوال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہِ کرام کی مشرکین کے ساتھ ، نماز ، زکوة اورصدقہِ فطر ، روزہ واعتکاف ، حج وعمرہ ، قربانی اور ایام تشریق کی تکبیریں ، نکاح وطلاق اور اس کے متعلقات ، حیض ونفاس وغیرہ ۔ اس طرح کے 24 اشیاء یعنی سننِ ابراہیمیہ میں مشارکت ہوگئی  مگر ان میں ایک آدمی نے بھی  ایک بار بھی ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہِ کرام کو یہ طعنہ نہیں دیا کہ تم تو ہمارے اعمال کی تقلید وپیروی کرتے ہو ؟ آپ  لوگ اگر نیا دین لائے ہیں تو اس اپنے خود لائے ہوئے دین پر عمل کریں  مگر یہود ونصاری نے ایک  ،، قبلہ ،، میں چند مہینوں کی مشارکت سے ناک میں دم کردیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مشرکینِ مکہ بڑے وسیع الظرف اور فراخ حوصلہ لوگ تھے مگر کسی نے ان بے چاروں کی قدر نہیں پہچانی ؟ (4)  چوتھی بات یہ ہے کہ ہم نے ابھی ابھی جناب غامدی کی عبارت پیش کی ہے کہ ،، قران ماضی کے ضائع شدہ صیحفوں پر مھیمن ہے ۔ ان کی کھرے وکھوٹے کافیصلہ اب قران پر ہی ہوگا ۔،، تو اس کا مطلب بالفاظِ دیگر یہ ہوا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور دیگر انبیاء کرام کے گم شدہ صحیفوں کا لوازمہ اور مواد قران میں موجود ہے ۔ اگر یہی مطلب ہے  اور یقینا یہی مطلب ہوگا کیونکہ وہ صحیفے تو مع لوازمہ کے گم ہیں ، ان کو اب قران پر کس طرح پیش کیا جا سکتا ہے؟ تو پھر وہ سارے سنن قران میں ہونے چاہئے جن کے لیے جناب غامدی عرب اور قریش کی تاریخ تلاش کررہے ہیں ۔ اور اب ہم پوچھیں گے ، کہ ذراہمت کرکے وہ ساری چیزیں قران سے ثابت کرکے دکھاؤ ، وگرنہ پھر آپ نے ،، مھیمن ،، کی درست تعبیر نہیں کی ہے ۔ اگر تعبیر درست ہے تو یہ چیزیں قران میں مل جانی چاہئیں  ، اور اگر نہیں ملتی تو پھر دال میں کچھ کالا کالا ہے ۔ جناب کے اس کام کا فایدہ یہ بھی ہوگا کہ مشرکینِ مکہ کی  مجہول تاریخ سے جناب  کو نجات مل جائے گی  ۔ اور مسلمانوں پر بھی احسان ہوگا کہ جناب کے ذریعے ان کا تعلق دوبارہ قریش کی تاریخ کے بجائے قران سے بن ائے گا ۔   ان چند وجوہات کی بنا پر ہم سمجھتے ہیں کہ جناب کا یہ فلسفہ از سرتاپا غلط ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعد ازنبوت فروعی اورعملی احکام میں کسی ماقبل شرع کے بھی پابند وتابع نہیں تھے۔ البتہ عقاید میں ان کے تابع تھے اس بات پر قران مجید کے بے شمار نصوص اور محقق علماءکرام کے فصوص دال ہیں ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…