غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 66)

Published On April 3, 2024
پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)

حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...

مولانا واصل واسطی

اب ہم  جناب غامدی کی عبارت نقل کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں ،، یہی معاملہ قربانی ، اعتکاف ، ختنہ ، اوربعض دوسرے رسوم وآداب کاہے ۔یہ سب چیزیں پہلے سے رائج ، معلوم ومتعین اورنسلا بعد نسلِ جاری ایک روایت کی حیثیت سے پوری طرح متعارف تھیں۔ چنانچہ اس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ قران ان کی تفصیل کرتا ( میزان ص 46) ہم پہلے قربانی پر کچھ بات کرتے ہیں ۔ میزان کے  اس مقام سے پتہ نہیں چلتا کہ جناب غامدی نفل قربانی کی بات کررہے ہیں   یا پھر واجب قربانی کی بات کررہے ہیں ؟ مگر اس کتاب کے دوسرے مقامات سے معلوم ہو جاتا ہے   کہ وہ واجب قربانی کی بات کرتے ہیں ۔اور یہ بات تو درست ہے کہ اس قربانی کی تاریخ بہت طویل ہے۔ سیدنا آدم علیہ السلام کے دور سے شروع ہوکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پراس کا سلسلہ رک گیاہے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تقریبا تمام مسلمان حج میں بھی اور عیدالنحر میں گھر پر بھی قربانی کرتے ہیں جو سیدنا ابراہیم اورسیدنا اسماعیل علیھما السلام کی یادگار ہے ۔ مگر ہم ادھر دو باتیں جناب غامدی کی اس درج عبارت کے حوالے سے لکھ دینا چاھتے ہیں (1) ایک بات تو یہ ہے کہ جناب کا دعوی یہ ہے کہ قربانی کا یہ سلسلہ نسلا بعد نسل ایک روایت کی حیثیت سے جاری رہا ۔ ہمارے نزدیک یہ بات محلِ نظر ہے۔ اس کو ثابت کرنے کےلیے بہت سے دلائل درکار ہیں جو جناب نے اس دعوی پر قائم نہیں کیے ہیں ۔ قران  کی مکی سورتوں سے بصراحت معلوم ہوجاتا ہے کہ مشرکینِ مکہ نے ان جانوروں کے گوشت کو بھی حرام قرار دیا تھا   جن کی قربانی ہوتی ہے۔  اس بات میں کسی کا بھی بشمولِ جناب غامدی اختلاف نہیں ہے۔اب اس میں دو صورتیں ممکن ہیں (1) یا تو جناب کہیں گے کہ ان انعام کے گوشت کو حرام قرار دینے اور جاننے کے باوجود اہلِ مکہ اورعرب قربانی کرتے تھے (2) اور یا پھر یہ کہیں گے کہ اس زمانے میں انہوں  نے قربانی بھی چھوڑ دی تھی۔ اگر پہلی بات اختیارکرتے ہیں تو پھر اس کے لیے دلائل درکار ہوں گے۔ کیونکہ یہ بات انتہائی نامعقول اور انہونی ہے کہ کوئی آدمی کسی حیوان کے گوشت کو عام لوگوں اور اپنے اوپر حرام جانے مگر اس کی قربانی کو اللہ تعالی کےلیے جاری رکھے ؟ اوراگر دوسری بات اختیار  کرتے ہیں تو پھر اس کامطلب یہ ہوا کہ قربانی کا سلسلہ اس وقت  منقطع ضرور ہواہے۔اب ذرا قران مجید کی وہ  آیات ملاحظہ فرمالیں ، اللہ تعالی فرماتے ہیں ،، وقالوا ھذہ انعام وحرث حجر لایطعمھا الا من نشاء بزعمھم ( انعام 136) یعنی ،،  ان لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ کچھ چوپائے اور فصلیں ہیں  جو لوگوں پر حرام ہیں ، اسے کوئی چکھ نہیں سکتا مگر وہ جنہیں ہم چاہیں ،، اس آیت کی تفسیر میں جناب کے ،، استادامام ،، لکھتے ہیں ،،  ، حجر ، کے معنی ممنوع کے ہیں   لیکن یہ لفظ عرب جاہلیت کی ایک دینی اصطلاح ہے ۔ اس سے مراد وہ چیز ہوتی ہے  جوکسی دینی رسم کے تحت ممنوع ہو ۔ اسلامی اصطلاح اس کےلیے حرام کی ہے ۔ ان کے تھانوں اوراستھانوں کے پروہتوں اور مجاوروں کے منگھڑت فتوے نقل ہورہے ہیں۔ ان کے ہاں زمینی پیداوار اور چوپا یوں کے چڑھاوے پیش ہوتے اور ان کے کھانے کے باب میں چڑھاوے کی نوعیت کے اعتبار سے بڑی بڑی قیدیں اورپابندیاں تھیں   مثلا مرد کھاسکتے ہیں ، عورتیں نہیں کھاسکتیں ، یابیوہ کھاسکتی ہے ، سہاگن یاکنواری ہاتھ نہیں لگا سکتی ، یا پھراس کے برعکس ۔ اس قسم کی حماقتیں ہمارے بدعتی گھرانوں میں بھی پائی جاتی ہیں ۔یہ فتوے چونکہ تمام تر ان پرو ھتوں کی خود ساختہ شریعت پر مبنی تھے ۔ اور وہی اس کے عالم بھی تھے ۔ اس وجہ سے نہ کوئی دوسرا اس میں اپنا کوئی اقول لگا سکتا تھا   اورنہ سرِمو اس سے انحراف اختیار کرسکتا تھا ۔ ان کے اسی تحکم کو ،،الامن نشاء بزعمھم ،، سے کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے  ( تدبرِقران ج3 ص 173) یہاں یہ بات یاد رہے کہ ہم جناب کے ،، استادامام ،، کاحوالہ انہی حضرات کی خاطر دیتے ہیں  ورنہ ہمارے لیے دنیا بہت وسیع ہے ۔ اب دوسری آیت اسی سورہ کی ملاحظہ کرلیں ۔ اس  میں چار قسم کے حیوانات ، بھیڑ ، بکری، اونٹ اور گائے ، کے متعلق سوال کیا ہے  کہ کیا ان کا نر حرام ہے یا پھر مادہ حرام ہے   یا پھر اس کے پیٹ میں موجود بچہ حرام ہے ، ان میں کیا حرام ہے ؟اور یہی حیوانات  فی الحقیقت قربانی والے جانور ہیں ۔شیخ لکھتے ہیں ،، واما شروطھا بنفسھا فیشترط فیھا ان تکون من بھیمةالانعام وھی الابل والبقر والغنم ضانھا ومعزھا فمن ضحی بشئ من غیر بھیمة الانعام لم تقبل منہ ( نورعلی الدرب ج8 ص 338)  کوئی دوست پریشان نہ ہو ۔یہاں جاموس یعنی بھینس کے متعلق بات کرنا مقصود نہیں ہے اس لیے کہ وہ گرم علاقوں میں  ہوتے ہیں ۔ عرب میں نہیں ہوتے ۔ ورنہ وہ بھی ہمارے نزدیک بھیمة الانعام میں شامل ہے تفصیل پھر سہی ۔ پس ان حیوانات اور چوپایوں کو کس نے حرام کیا ہے ؟ شریعتِ ابراہیمی میں تو یہ حرام نہیں تھے ؟ اور میرے ( یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) پاس بھی حرمت کی وحی نہیں آئی ہے۔ آیت کے الفاظ یہ ہیں ،، ثمانیة ازواج من الضان اثنین ومن المعز اثنین قل ءالذکرین حرّم ام الانثیین اما اشتملت علیہ ارحام الانثیین نبّؤنی بعلم ان کنتم صادقین ۔ ومن الابل اثنین ومن البقر اثنین قل ء الذکرین حرّم ام الانثیین اما اشتملت علیہ ارحام الانثیین ام کنتم شھداء اذوصاکم اللہ بھذا فمن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا لیضل الناس بغیرعلم ان اللہ لایھدی القوم الظالمین ( انعام 144) ان آیات  سے معلوم ہوا ان لوگوں ان حیوانات کا کھانا مختلف طریقوں سے حرام کیا تھا   اس لیے تو اللہ تعالی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ان سے ان انعام کے حرام ہونے کی دلیل طلب کی ہے چاہے وہ نقلی دلیل ہو یاعقلی دلیل ؟ نقلی جیسے انبیاء ماسبق کی مستند روایت ، اور عقلی وہ دلیل جو ان چوپایوں کے حرام اور حلال میں قطعی تمییز لوگوں  بتاسکے۔ مگر وہ نہ عقلی پیش کرسکے اورنہ نقلی ۔ جب ان کا یہ عمل تھا   تو اس کے بعدان کے متعلق یہ کہنا کہ ان میں قربانی کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوا ۔ ایک لایعنی سی بات لگتی ہے جس کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے (2) دوسری بات یہ ہے کہ قران مجید کی آیات میں اس قربانی کا ذکر مطلق طور پرآیا ہے  مثلاایک جگہ فرمایاہے کہ ،، فصل لربک وانحر ،، نماز پڑھواور قربانی کرو ، ( الکوثر) اوردوسری جگہ فرمایا ہے ،، قل ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین ،، یعنی میری نماز ،میری قربانی ، میری زندگی اورمیری موت سب اللہ رب الوالمین کےلیے ہیں   (162)  اور یہ بھی فرمایا ہے ،، ولکل امة جعلنا منسکا لیذکروااسم اللہ علی مارزقھم من بھیمة الانعام ( الحج 34)  یعنی ہم نے ہرملت کےلیے الگ الگ منسک یعنی طریقہِ قربانی قائم کیاہے ۔تو اب وہ ان حیوانات کو ذبح کرتے وقت اللہ تعالی کانام ان پرلیا کریں ۔ قران مجید کا مطالعہ فرمائیں گے تو کہیں بھی اس کے لیے بعد از نمازِ عید کا وقت متعین نہیں ہے ۔  مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی بندہ اس قربانی کو قبل ازنمازِ عید ذبح کرتا ہے تو وہ محض ذبیحہ ہے قربانی ہرگز نہیں ہے۔ اب سب لوگ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی  ہے کہ ،، من کان ذبح قبل ان یصلی فلیذبح مکانھا اخری ومن لم یکن نحرحتی صلینا فلیذبح بسم اللہ ( بخاری و مسلم )  اس حدیث سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کو مختص بالوقت کیا ہے۔ لہذا وہی سوال جناب غامدی کے حضور میں پھر کھڑا ہوگیاہے جس سے وہ جان چھڑانا چاھتے ہیں کہ ،، حدیث ،، سے ان کے نزدیک قران پاک کی تحدید وتخصیص  قطعا درست نہیں ہے ۔ تو یہ آخر کس طرح ہوا ؟ کیونکہ جناب بھی اس ،، حدیث ،، کے ایک جزکےتو بہرحال قائل ہیں ۔اس جز کو جناب مانتے ہیں کہ قبل ازوقت ذبیحہ صرف ذبیحہ ہوتا ہے قربانی نہیں ہے ،،  ومن ذبح قبل فانما ھو لحم قدّمہ لاھلہ ،،( بخاری کتاب الاضاحی) مگر اس حدیث کے دوسرے جز کو نہیں مانتے کہ اس قربانی کی جگہ دوسری قربانی کرلے ،، عن انس عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من ذبح قبل الصلاة فلیعد ( بخاری کتاب الاضاحی)، جیساکہ خود جناب اپنی اسی کتاب میں لکھتے ہیں ،، قربانی ہرحال میں عید کی نماز کے بعد کی جائے۔ یہ اگر پہلے کی گئی تو محض ذبیحہ ہے اسے عید الاضحی کی قربانی قرار نہیں دیا جاسکتا ( میزان ص 404) بھرحال تخصیص وتحدیدِ قران تو اس جز کے ماننے سے بھی ثابت ہوگئی ہے   اس لیے کہ وہ قربانی محض ذبیحہ ہوا قربانی نہیں ہوئی ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…