غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 60)

Published On March 26, 2024
نظریہ ارتقا اور غامدی صاحب

نظریہ ارتقا اور غامدی صاحب

محمد حسنین اشرف حالیہ ویڈیو میں غامدی صاحب نے نظریہ ارتقا پر بات کرتے ہوئے ایک بہت ہی صائب بات فرمائی کہ نظریہ ارتقا سائنس کا موضوع ہے اور اسے سائنس کا موضوع ہی رہنا چاہیے۔ دوسری بات انہوں نے یہ فرمائی کہ اپنے بچوں کو سائنس کی تحلیل سکھانی چاہیے۔ یہ بات بھی صائب ہے...

تصوف پر جناب احمد جاوید صاحب اور جناب منظور الحسن صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

تصوف پر جناب احمد جاوید صاحب اور جناب منظور الحسن صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب محترم جناب احمد جاوید صاحب نے تصوف سے متعلق حال ہی میں اس رائے کا اظہار فرمایا ہے کہ فقہ و کلام وغیرہ کی طرح یہ ایک انسانی کاوش و تعبیر ہے وغیرہ نیز اس کے نتیجے میں توحید و نبوت کے دینی تصورات پر ذد پڑی۔ ساتھ ہی آپ نے تصوف کی ضرورت کے بعض پہلووں پر...

تصوف پر جناب منظور الحسن صاحب کے ایک اعتراض کا جائزہ

تصوف پر جناب منظور الحسن صاحب کے ایک اعتراض کا جائزہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب مکتب فراہی کے منتسبین اہل تصوف پر نت نئے الزامات عائد کرنے میں جری واقع ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب و جناب غامدی صاحب سے گزرتا ہوا اب ان کے شاگردوں میں بھی حلول کررہا ہے۔ جس غیر ذمہ داری سے مولانا اصلاحی و غامدی صاحبان اہل تصوف...

شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے

شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد صاحب   کچھ دن قبل اس موضوع پرفیسبک پر مختصر پوسٹ کی تھی کہ یہ فرق غیرمنطقی، غیر اصولی اور غیر ضروری ہے۔ جسے آپ شریعت کہتے ہیں وہ آپ کا فہم شریعت ہی ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مثال کے طور پر غامدی صاحب نے اپنے تئیں شریعت کو فقہ کے انبار...

۔”خدا کو ماننا فطری ہے”  مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

۔”خدا کو ماننا فطری ہے” مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب علم کلام کو لتاڑنے والے حضرات کی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وجود باری پر یقین رکھنا بدیہیات میں سے ہے، لہذا متکلمین دلائل دے کر بے مصرف و غیر قرآنی کام کرتے ہیں۔ یہاں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی کتاب "فلسفے کے بنیادی مسائل قرآن مجید کی روشنی...

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

مولانا نیاز محمد مروت صاحب جناب جاوید غامدی صاحب نے مردوں کے داڑھی رکھنے کے معمول چلے آنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داڑھی رکھنے کی عادت کا اعتراف کیا ہے ، جو کہ حق بات ہے، بشرطیکہ طبعی عادت کے طور پر نہیں، بلکہ معمول کے طور پر داڑھی رکھنا مراد ہو، چنانچہ اس پر...

مولانا واصل واسطی

دوسری بات جو جناب غامدی کی اس آیت کے لانے اور ذکرکرنے سے پیشِ نظر تھی ۔وہ یہ تھی   کہ جناب نے سنت کے حوالے سے ایک اصول یہ بنایا ہے   کہ اس کی ابتدا پیغمبرکی ذات سے ہونی چاہیے قران سے نہیں۔ جیسا کہ ،، تدبرِسنت ،، کے تیسرے اصول  کے تحت ( میزان ص 59)  پر  ان کی یہ عبارت موجودہے ۔ ہم نے قریب ہی اسے نقل کیا ہے ، دوبارہ نقل نہیں کرسکتے ۔ اب زکات کے متعلق اس طرح کی کوئی روایت یقین ہے کہ جناب غامدی کو مل نہیں سکی ہے اس لیے قران کی آیت کو ذکرکیا ہے   تاکہ ان کا اصول ٹوٹنے سے بچ جائے ۔مگر جاننے والے تو ان کی مجبور  یوں کو جانتے ہیں۔ دیکھیے کہ جناب زکات کی ضمن میں کیا بات لکھتے ہیں ؟ ،،  زکات کی تاریخ وہی ہے جو نماز کی ہے ۔ قران سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کی طرح اس کا حکم بھی انبیاء علیھم السلام کی شریعت میں ہمیشہ موجود رہاہے۔ اللہ تعالی نے جب مسلمانوں کو اس کے اداکرنے کی ہدایت کی تو یہ ان کے لیے کوئی اجنبی چیز نہیں تھی ۔ دینِ ابراہیمی کے تمام پیرو اس کے احکام سے پوری طرح واقف تھے ۔ قران نے اسی بناپر اسے ،، حق معلوم ،، ( المعارج 24) یعنی ( ایک متعین حق) سے تعبیر کیا ہے   لہذا یہ پہلے موجود ایک سنت تھی  جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےخدا کے حکم سے ضروری اصلاحات کے بعد مسلمانوں میں پھرجاری فرمایا ہے ( میزان ص 345)  احبابِ کرام سمجھ گئے ہونگے   کہ جناب نے اس آیت کو اپنے مورد اور موضوع سے نکال کر کتنا بڑاکام لیا ہے ؟ اورکیسے خلا کواس کے ذریعے سے پرکیا ہے ؟ اسی کو عربی ادب میں ،، لامرما جدع قصیر انفہ ،، سے تعبیر کرتے ہیں ۔مگر جناب کی یہ بات اورا ستدلال خود ان کے ،، استاد امام ،، جناب مولانا اصلاحی کی نظر میں درست نہیں ہے ۔ وہ ،، والذی فی اموالھم حق معلوم ۔ للسائل والمحروم  ،،  کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ،، یہ دین کے دوسرے بازو یعنی اللہ تعالی کی راہ میں انفاق کا بیان ہے۔ ہم جگہ جگہ یہ واضح کرچکے ہیں کہ دین کی اعمال میں نماز اور انفاق کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ نماز بندے کو خدا سے جوڑتی ہے اورانفاق سے اس کا تعلق بنی نوع آدم سے صحیح بنیاد پر استوار ہوتاہے ۔،، حق معلوم ،، سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ اس سے زکات ہی مراد ہو ۔ زکات کا سسٹم ایک معین شرحِ نصاب کے ساتھ تو مدنی دور میں نافذ ہوا اور یہ سورہ مکی ہے۔، بلکہ اس سے مراد اس حقیقت کا اظہار ہے   کہ ان کا انفاق محض رسمی طور پر چھدا اتارنے کےلیے نہیں ہوتا  بلکہ وہ ایک حقِ واجب کی حیثیت سے ایک معلوم مقدارمیں اپنے مال کا ایک حصہ خدا کی راہ میں دیتے ہیں ۔ یہ امر یہاں واضح رہے کہ زمانہِ جاہلیت میں بھی لوگ زکات اور انفاق سے نااشنا نہیں تھے۔ سورہِ انعام سے تو معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین بھی خدا کاحق اپنے مال میں سے نکالتے تھے   لیکن اپنے مشرکانہ مزعومات کے تحت اس میں انہوں نے اپنے معبودوں کو بھی شریک کررکھا تھا ۔ حنیفیت کے پیرو توخالص موحد تھے اس وجہ سے وہ جوکچھ بھی نکالتے صرف اللہ تعالی ہی کے حق کی حیثیت سے نکالتے ( تدبرِقران ج8 ص 573)  اس سے ذرا آگے جاکر پھر لکھتے ہیں کہ ،،  یہ تصور صحیح نہیں ہے کہ اسلام سے پہلے اہلِ عرب انفاق فی سبیل اللہ کے کسی معین شکل سے بالکل ناآشنا تھے۔ مدنی دور میں زکات کی جو شرح معین ہوئی وہ اس شرح سے مختلف تو ہو سکتی ہے  جو لوگوں میں پہلے رائج رہی ہو لیکن اس بات انکار نہیں کیا جاسکتا  کہ زمانہِ جاہلیت کے نیکوں کے اندر بھی زکات کی ایک معینہ شکل معروف تھی ۔ چنانچہ اسی وجہ سے مکی سورتوں میں زکات کا لفظ باربار آیاہے ۔ ملتِ ابراہیم کی دوسری تعلیمات کی طرح یہ زکات بھی بدعات کے حجاب میں گم تھی لیکن اس کا نام باقی تھا ( ایضا ج8 ص 573) اس عبارت کے آخری ٹکڑے پر غور کرلیں ۔ہم نے اس سے زیادہ کیا بات کہی ہے ؟ اب احبابِ کرام جناب غامدی کی اس اصل عبارت کو دوبارہ ایک بار ملاحظہ فرمالیں  جو ہم نے زکات کے مبحث کی ابتدا میں نقل کی ہے کہ ،، زکات ان کے ہاں بالکل اسی طرح ایک متعین حق تھی جس طرح اب متعین ہے ( میزان ص 45) اس کے لیے جناب نے ایک مکی سورت کی درجِ ذیل آیات ،، الا المصلین ۔ الذین ھم علی صلاتھم دائمون ۔ والذین فی اموالھم حق معلوم ۔ للسائل والمحروم ،، ( المعارج 24) پیش کی ہیں ۔ مگر ہم اسے چند وجوہات کی بنا پر جناب غامدی کی بےبسی کی انتہا سمجھتے ہیں  (1) پہلی وجہ اس کی یہ ہے   کہ اگر زکات کے متعلق یہ ،، حق ،، اسی طرح متعین تھا   جیساکہ اب ہم مسلمانوں کے بارے میں متعین ہے   تو پھر کلامی ذوق  وغیرہ کا تقاضا یہ ہے کہ ان آیات کی شکل وترتیب ایسی نہیں ہونی چاہیے تھی ۔  قران میں جگہ جگہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ ،، اقیموا الصلوة وآتواالزکوة ،،  اور ،، یقیمون الصلوة ویؤتون الزکوة ،، وغیرہ یعنی مؤمن لوگ دونوں افعال بجالاتے ہیں ، نماز بھی اداکرتے ہیں زکات بھی دیتے ہیں۔ اللہ مسلمانوں کے ان اعمال کی اس طرح تعبیر کرتے ہیں ۔ ایسے کبھی نہیں فرماتے کہ ،، جو لوگ نماز پڑھتے ہیں ، اور وہ جن کے مالوں میں دوسروں کے حقوق ہیں ،، یہ مفہوم ادبی ذوق کے بالکل خلاف ہے ۔ہاں یہ کہنا ذوق کے بالکل مطابق ہے کہ  ،، مگر وہ لوگ جو نماز پڑھتے ہیں اور دوسروں کے حقوق ادا کرتے ہیں ، وہ اس عیب سے محفوظ ہیں ،، اگر ان اوپر کی آیات میں زکات ان پر فرض ہو تو اس کے لیے یہ کیا مفہوم ہے کہ ،، مگر نماز پڑھنے والے لوگ ، جو اس پر ہمیشگی اور دوام کرتے ہیں ، اور وہ جن کے مالوں میں دوسروں کے حقوق ہیں ،،  جو لوگ عربی ادب کا سرسری سامطالعہ بھی رکھتے ہیں   وہ ہماری اس بات سے ضروراتفاق کرلیں گے ۔ ہاں اگر وہ لوگ خود تطوعا دوسرے لوگوں کے حقوق اپنے ذمے لگاتے ہوں   اور پھر اسے ادا بھی کرتے ہوں تب یہ تعبیر بہت پر لطف ہے   (2) دوسری وجہ اس بات کے غلط ہونے کی یہ ہے   کہ اگر زکات والی یہ آیتیں مشرکینِ مکہ کے بارے میں ہیں  جیساکہ ہمارے یہ کرم فرما لکھتے ہیں   تو پھر آپ کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ،، الاالمصلین ۔ الذین ھم علی صلاتھم دائمون ،، کا ٹکڑا بھی انہیں کے بارے میں ہے۔ یعنی مشرکینِ مکہ نہ صرف نماز پڑھتے تھے بلکہ اس پر دوام بھی کرتے تھے۔ اگر جناب اس بات کا التزام کرتے ہیں ،، ومامنہ ببعید ،، تو ہم ان سے سوال کریں گے کہ اس دعوی کے لیے جناب کو ایک دلیل نہیں بلکہ بہت سے دلائل فراہم کرنے ہونگے ۔ لہذا ان سے گذارش ہے کہ جواد علی کی کتاب ،،المفصل ،، کو پھر ملاحظہ کرلیں ممکن ہے کچھ لوازمہ مل جائے ۔ مگر ہم تو اس موضوع پر پہلے ہی اپنی بات لکھ چکے ہیں کہ مشرکینِ مکہ اس کو نہیں پڑھتے تھے   بلکہ بعض لوگ تو اسے جانتے تک نہیں تھے ۔احباب گذشتہ مباحث میں نماز کے مبحث کو نکال کر دیکھ لیں ، اسے معاد کرنا بہت مشکل ہے  (3) تیسری وجہ اس بات کے غلط ہونے کی یہ ہے  کہ ان آیات کے بعد اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ،، والذین یصدّقون  بیوم الدین ۔ والذین ھم من عذاب ربھم مشفقون ۔ ان عذاب ربھم غیرمامون ( المعارج 26 ،27،28)  ہم پوچھتے ہیں کہ کیا مشرکینِ مکہ روز قیامت کی تصدیق کرتے تھے ؟اگر جواب ہاں میں ہے تو وہ شخص کون تھا جس نے بوسیدہ ہڈی کو اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واسلم سے پوچھا تھا کہ کیا یہ ہڈیاں بھی زندہ ہوجائیں گی ؟ من یحی العظام وھی رمیم ؟ اور کیا مکہ والے عذاب الہی سے خوف واندیشہ رکھتے تھے ؟ اگر جواب ہاں میں ہے ؟ تو وہ شخص کون تھا جس نے کہا تھا کہ ،، اللھم ان کان ھذاھوالحق فامطر علینا حجارة من السماء ،،؟ اور وہ کون لوگ تھے جوایک بار نہیں بلکہ باربار ایک دن نہیں بلکہ روز روز رسول صلی اللہ علیہ وسلم  سے ان پر عذاب لانے کا مطالبہ کرتے تھے ؟ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق بھی اڑاتے تھے کہ تم کاذب ہو صادق نہیں ہو ۔اگر تم فی الواقع صادق ہو تو عذاب اور محشر جس سے تم ہمیں مستقل ڈراتے رہتے ہو کو برپا کیوں نہیں کرتے ؟ اور بھی بہت سارے خلل جناب غامدی کے اس استدلال میں موجود ہیں ۔مگر ہم اختصار کےلیے انہی  تین وجوہات پراکتفاء کرتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان آیات میں مسلمانوں اور نبی صلی اللہ علیہ کی ماننے والی امت کا ذکر ہے ۔مشرکینِ مکہ سے اس کوئی تعلق نہیں ہے  جیسے جناب غامدی کا خود ساختہ قول ہے ۔حافظ نے خوب کہا تھا کہ ،، چون ندیند حقیقت رہِ افسانہ زدند ،،

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…