نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 60)
جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی
عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...
حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ
ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...
امام النواصب جاوید غامدی
احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...
سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل
محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...
کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟
شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...
مولانا واصل واسطی
دوسری بات جو جناب غامدی کی اس آیت کے لانے اور ذکرکرنے سے پیشِ نظر تھی ۔وہ یہ تھی کہ جناب نے سنت کے حوالے سے ایک اصول یہ بنایا ہے کہ اس کی ابتدا پیغمبرکی ذات سے ہونی چاہیے قران سے نہیں۔ جیسا کہ ،، تدبرِسنت ،، کے تیسرے اصول کے تحت ( میزان ص 59) پر ان کی یہ عبارت موجودہے ۔ ہم نے قریب ہی اسے نقل کیا ہے ، دوبارہ نقل نہیں کرسکتے ۔ اب زکات کے متعلق اس طرح کی کوئی روایت یقین ہے کہ جناب غامدی کو مل نہیں سکی ہے اس لیے قران کی آیت کو ذکرکیا ہے تاکہ ان کا اصول ٹوٹنے سے بچ جائے ۔مگر جاننے والے تو ان کی مجبور یوں کو جانتے ہیں۔ دیکھیے کہ جناب زکات کی ضمن میں کیا بات لکھتے ہیں ؟ ،، زکات کی تاریخ وہی ہے جو نماز کی ہے ۔ قران سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کی طرح اس کا حکم بھی انبیاء علیھم السلام کی شریعت میں ہمیشہ موجود رہاہے۔ اللہ تعالی نے جب مسلمانوں کو اس کے اداکرنے کی ہدایت کی تو یہ ان کے لیے کوئی اجنبی چیز نہیں تھی ۔ دینِ ابراہیمی کے تمام پیرو اس کے احکام سے پوری طرح واقف تھے ۔ قران نے اسی بناپر اسے ،، حق معلوم ،، ( المعارج 24) یعنی ( ایک متعین حق) سے تعبیر کیا ہے لہذا یہ پہلے موجود ایک سنت تھی جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےخدا کے حکم سے ضروری اصلاحات کے بعد مسلمانوں میں پھرجاری فرمایا ہے ( میزان ص 345) احبابِ کرام سمجھ گئے ہونگے کہ جناب نے اس آیت کو اپنے مورد اور موضوع سے نکال کر کتنا بڑاکام لیا ہے ؟ اورکیسے خلا کواس کے ذریعے سے پرکیا ہے ؟ اسی کو عربی ادب میں ،، لامرما جدع قصیر انفہ ،، سے تعبیر کرتے ہیں ۔مگر جناب کی یہ بات اورا ستدلال خود ان کے ،، استاد امام ،، جناب مولانا اصلاحی کی نظر میں درست نہیں ہے ۔ وہ ،، والذی فی اموالھم حق معلوم ۔ للسائل والمحروم ،، کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ،، یہ دین کے دوسرے بازو یعنی اللہ تعالی کی راہ میں انفاق کا بیان ہے۔ ہم جگہ جگہ یہ واضح کرچکے ہیں کہ دین کی اعمال میں نماز اور انفاق کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ نماز بندے کو خدا سے جوڑتی ہے اورانفاق سے اس کا تعلق بنی نوع آدم سے صحیح بنیاد پر استوار ہوتاہے ۔،، حق معلوم ،، سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ اس سے زکات ہی مراد ہو ۔ زکات کا سسٹم ایک معین شرحِ نصاب کے ساتھ تو مدنی دور میں نافذ ہوا اور یہ سورہ مکی ہے۔، بلکہ اس سے مراد اس حقیقت کا اظہار ہے کہ ان کا انفاق محض رسمی طور پر چھدا اتارنے کےلیے نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک حقِ واجب کی حیثیت سے ایک معلوم مقدارمیں اپنے مال کا ایک حصہ خدا کی راہ میں دیتے ہیں ۔ یہ امر یہاں واضح رہے کہ زمانہِ جاہلیت میں بھی لوگ زکات اور انفاق سے نااشنا نہیں تھے۔ سورہِ انعام سے تو معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین بھی خدا کاحق اپنے مال میں سے نکالتے تھے لیکن اپنے مشرکانہ مزعومات کے تحت اس میں انہوں نے اپنے معبودوں کو بھی شریک کررکھا تھا ۔ حنیفیت کے پیرو توخالص موحد تھے اس وجہ سے وہ جوکچھ بھی نکالتے صرف اللہ تعالی ہی کے حق کی حیثیت سے نکالتے ( تدبرِقران ج8 ص 573) اس سے ذرا آگے جاکر پھر لکھتے ہیں کہ ،، یہ تصور صحیح نہیں ہے کہ اسلام سے پہلے اہلِ عرب انفاق فی سبیل اللہ کے کسی معین شکل سے بالکل ناآشنا تھے۔ مدنی دور میں زکات کی جو شرح معین ہوئی وہ اس شرح سے مختلف تو ہو سکتی ہے جو لوگوں میں پہلے رائج رہی ہو لیکن اس بات انکار نہیں کیا جاسکتا کہ زمانہِ جاہلیت کے نیکوں کے اندر بھی زکات کی ایک معینہ شکل معروف تھی ۔ چنانچہ اسی وجہ سے مکی سورتوں میں زکات کا لفظ باربار آیاہے ۔ ملتِ ابراہیم کی دوسری تعلیمات کی طرح یہ زکات بھی بدعات کے حجاب میں گم تھی لیکن اس کا نام باقی تھا ( ایضا ج8 ص 573) اس عبارت کے آخری ٹکڑے پر غور کرلیں ۔ہم نے اس سے زیادہ کیا بات کہی ہے ؟ اب احبابِ کرام جناب غامدی کی اس اصل عبارت کو دوبارہ ایک بار ملاحظہ فرمالیں جو ہم نے زکات کے مبحث کی ابتدا میں نقل کی ہے کہ ،، زکات ان کے ہاں بالکل اسی طرح ایک متعین حق تھی جس طرح اب متعین ہے ( میزان ص 45) اس کے لیے جناب نے ایک مکی سورت کی درجِ ذیل آیات ،، الا المصلین ۔ الذین ھم علی صلاتھم دائمون ۔ والذین فی اموالھم حق معلوم ۔ للسائل والمحروم ،، ( المعارج 24) پیش کی ہیں ۔ مگر ہم اسے چند وجوہات کی بنا پر جناب غامدی کی بےبسی کی انتہا سمجھتے ہیں (1) پہلی وجہ اس کی یہ ہے کہ اگر زکات کے متعلق یہ ،، حق ،، اسی طرح متعین تھا جیساکہ اب ہم مسلمانوں کے بارے میں متعین ہے تو پھر کلامی ذوق وغیرہ کا تقاضا یہ ہے کہ ان آیات کی شکل وترتیب ایسی نہیں ہونی چاہیے تھی ۔ قران میں جگہ جگہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ ،، اقیموا الصلوة وآتواالزکوة ،، اور ،، یقیمون الصلوة ویؤتون الزکوة ،، وغیرہ یعنی مؤمن لوگ دونوں افعال بجالاتے ہیں ، نماز بھی اداکرتے ہیں زکات بھی دیتے ہیں۔ اللہ مسلمانوں کے ان اعمال کی اس طرح تعبیر کرتے ہیں ۔ ایسے کبھی نہیں فرماتے کہ ،، جو لوگ نماز پڑھتے ہیں ، اور وہ جن کے مالوں میں دوسروں کے حقوق ہیں ،، یہ مفہوم ادبی ذوق کے بالکل خلاف ہے ۔ہاں یہ کہنا ذوق کے بالکل مطابق ہے کہ ،، مگر وہ لوگ جو نماز پڑھتے ہیں اور دوسروں کے حقوق ادا کرتے ہیں ، وہ اس عیب سے محفوظ ہیں ،، اگر ان اوپر کی آیات میں زکات ان پر فرض ہو تو اس کے لیے یہ کیا مفہوم ہے کہ ،، مگر نماز پڑھنے والے لوگ ، جو اس پر ہمیشگی اور دوام کرتے ہیں ، اور وہ جن کے مالوں میں دوسروں کے حقوق ہیں ،، جو لوگ عربی ادب کا سرسری سامطالعہ بھی رکھتے ہیں وہ ہماری اس بات سے ضروراتفاق کرلیں گے ۔ ہاں اگر وہ لوگ خود تطوعا دوسرے لوگوں کے حقوق اپنے ذمے لگاتے ہوں اور پھر اسے ادا بھی کرتے ہوں تب یہ تعبیر بہت پر لطف ہے (2) دوسری وجہ اس بات کے غلط ہونے کی یہ ہے کہ اگر زکات والی یہ آیتیں مشرکینِ مکہ کے بارے میں ہیں جیساکہ ہمارے یہ کرم فرما لکھتے ہیں تو پھر آپ کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ،، الاالمصلین ۔ الذین ھم علی صلاتھم دائمون ،، کا ٹکڑا بھی انہیں کے بارے میں ہے۔ یعنی مشرکینِ مکہ نہ صرف نماز پڑھتے تھے بلکہ اس پر دوام بھی کرتے تھے۔ اگر جناب اس بات کا التزام کرتے ہیں ،، ومامنہ ببعید ،، تو ہم ان سے سوال کریں گے کہ اس دعوی کے لیے جناب کو ایک دلیل نہیں بلکہ بہت سے دلائل فراہم کرنے ہونگے ۔ لہذا ان سے گذارش ہے کہ جواد علی کی کتاب ،،المفصل ،، کو پھر ملاحظہ کرلیں ممکن ہے کچھ لوازمہ مل جائے ۔ مگر ہم تو اس موضوع پر پہلے ہی اپنی بات لکھ چکے ہیں کہ مشرکینِ مکہ اس کو نہیں پڑھتے تھے بلکہ بعض لوگ تو اسے جانتے تک نہیں تھے ۔احباب گذشتہ مباحث میں نماز کے مبحث کو نکال کر دیکھ لیں ، اسے معاد کرنا بہت مشکل ہے (3) تیسری وجہ اس بات کے غلط ہونے کی یہ ہے کہ ان آیات کے بعد اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ،، والذین یصدّقون بیوم الدین ۔ والذین ھم من عذاب ربھم مشفقون ۔ ان عذاب ربھم غیرمامون ( المعارج 26 ،27،28) ہم پوچھتے ہیں کہ کیا مشرکینِ مکہ روز قیامت کی تصدیق کرتے تھے ؟اگر جواب ہاں میں ہے تو وہ شخص کون تھا جس نے بوسیدہ ہڈی کو اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واسلم سے پوچھا تھا کہ کیا یہ ہڈیاں بھی زندہ ہوجائیں گی ؟ من یحی العظام وھی رمیم ؟ اور کیا مکہ والے عذاب الہی سے خوف واندیشہ رکھتے تھے ؟ اگر جواب ہاں میں ہے ؟ تو وہ شخص کون تھا جس نے کہا تھا کہ ،، اللھم ان کان ھذاھوالحق فامطر علینا حجارة من السماء ،،؟ اور وہ کون لوگ تھے جوایک بار نہیں بلکہ باربار ایک دن نہیں بلکہ روز روز رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ان پر عذاب لانے کا مطالبہ کرتے تھے ؟ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق بھی اڑاتے تھے کہ تم کاذب ہو صادق نہیں ہو ۔اگر تم فی الواقع صادق ہو تو عذاب اور محشر جس سے تم ہمیں مستقل ڈراتے رہتے ہو کو برپا کیوں نہیں کرتے ؟ اور بھی بہت سارے خلل جناب غامدی کے اس استدلال میں موجود ہیں ۔مگر ہم اختصار کےلیے انہی تین وجوہات پراکتفاء کرتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان آیات میں مسلمانوں اور نبی صلی اللہ علیہ کی ماننے والی امت کا ذکر ہے ۔مشرکینِ مکہ سے اس کوئی تعلق نہیں ہے جیسے جناب غامدی کا خود ساختہ قول ہے ۔حافظ نے خوب کہا تھا کہ ،، چون ندیند حقیقت رہِ افسانہ زدند ،،
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ
ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص...
اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی
محمد خزیمہ الظاہری غامدی حلقہ انکار حدیث کی صاف تہمت سے اس لئے بچ نکلتا...
انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض
محمد خزیمہ الظاہری دین و شریعت کے قابلِ قبول ہونے کے لئے تواتر کی شرط...