غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 59)

Published On March 26, 2024
( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد پچھلی قسط کے اختتام پر لکھا گیا کہ ابھی یہ بحث پوری نہیں ہوئی، لیکن غامدی صاحب کے حلقے سے فوراً ہی جواب دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اگر جواب کی طرف لپکنے کے بجاے وہ کچھ صبر سے کام لیتے اور اگلی قسط پڑھ لیتے، تو ان حماقتوں میں مبتلا نہ ہوتے جن میں...

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حج اور جہاد کی فرضیت صرف اسی کےلیے ہوتی ہے جو استطاعت رکھتا ہو۔ بظاہر یہ بات درست محسوس ہوتی ہے، لیکن اس میں بہت ہی بنیادی نوعیت کی غلطی پائی جاتی ہے اور اس غلطی کا تعلق شرعی حکم تک پہنچنے کے طریقِ کار سے ہے۔ سب سے پہلے...

جہاد، قادیانی اور غامدی صاحب، اصل مرض کی تشخیص

جہاد، قادیانی اور غامدی صاحب، اصل مرض کی تشخیص

حسان بن علی بات محض حکمت عملی کے اختلاف کی نہیں کہ مسلمان فی الحال جنگ کو چھوڑ رکھیں بلکہ بات پورے ورلڈ ویو اور نظریے کی ہے کہ غامدی صاحب کی فکر میں مسلمانوں کی اجتماعی سیادت و بالادستی اساسا مفقود ہے (کہ خلافت کا تصور ان کے نزدیک زائد از اسلام تصور ہے)، اسى طرح...

مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟

مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟

ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عمر عزیز کا بیشتر حصہ قرآن مجید کی خدمت میں صرف ہوا ہے۔ لیکن یہ قرآن مجید کے بجائے عربی زبان و ادب کی خدمت تھی یا تخصیص سے بیان کیا جائے تو یہ قرآن مجید کے عربی اسلوب کی خدمت تھی۔ قرآن مجید کا انتخاب صرف اس لئے کیا گیا تھا کہ...

خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت

خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت

ڈاکٹرزاہد مغل علم کلام کے مباحث کو غیر ضروری کہنے اور دلیل حدوث پر اعتراض کرنے کے لئے جناب غامدی صاحب نے ایک ویڈیو ریکارڈ کرائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن سے متعلق دیگر علوم جیسے کہ اصول فقہ، فقہ و تفسیر وغیرہ کے برعکس علم کلام ناگزیر مسائل سے بحث نہیں کرتا اس لئے کہ...

غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب

غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب سے جہاد کی فرضیت کے متعلق علماے کرام کے فتوی کے بارے میں پوچھا گیا، تو انھوں نے تین صورتیں ذکر کیں:۔ایک یہ کہ جب کامیابی کا یقین ہو، تو جہاد یقینا واجب ہے؛دوسری یہ کہ جب جیتنے کا امکان ہو، تو بھی لڑنا واجب ہے اور یہ اللہ کی طرف سے نصرت...

مولانا واصل واسطی

جناب غامدی اگے اسی ملت یاسنتِ ابراہیمی کے سلسلہ میں لکھتے ہیں کہ ،، زکوة ان کے ہاں بالکل اسی طرح ایک متعین حق تھی جس طرح اب متعین ہے ( میزان ص 45) اس بات کی ثبوت میں سورة المعارج کی آیت 27 ،، وفی اموالھم حق معلوم للسائل والمحروم ،، کا حوالہ دیا ہے ۔ ہم اس دعوی کے متعلق چند باتیں اپنے احباب کی خدمت میں پیش کرتے ہیں   (1) پہلی بات اس مورد میں یہ ہے کہ اکثر علماءکرام کا مسلک یہ ہے کہ زکوة کی فرضیت ہجرت کے بعد نازل ہوئی ۔ اس میں پھر مختلف اقوال ہیں کہ پہلے سال میں ہوئی یا دوسرے سال میں ہوئی ہے  یا پھراس کے بعد ہوئی ہے۔، اکثر علماء فتح مکہ کے قبل کے قائل ہیں مگر کچھ لوگ اس کے بعد کے زمانے کے بھی قائل ہیں (2) دوسری بات یہ ہے کہ بعض علماء کرام کے نزدیک زکوة کی فرضیت تو مکہ میں ہوئی ہے  مگر اس کے نصاب اور حصص کا تعین ہجرت کے بعد مدینہ میں ہواہے   (3) تیسری بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ان آیات کے متعلق جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ یعنی مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں  یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ مشرکینِ مکہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔وہ ان آیات سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں  کہ زکوة بھی ملتِ ابراہیمی کی وہ سنت ہے  جس پرمکہ کے لوگ عمل پیرا تھے۔ اب ہم ان تین باتوں کی مختصر تفصیل کرتے ہیں  (1) پہلامذہب جیسا کہ ہم نے اوپرلکھا ہےاکثر علماء کرام کا ہے ۔ اس کے متعلق ابن ہشام لکھتے ہیں کہ ،، قال ابن اسحق وکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قدبعث امراءہ وعمالہ علی الصدقات الی کل مااوطا الاسلام من البلدان فبعث المھاجربن ابی امیة بن المغیرہ الی صنعاء فخرج علیہ العنسی وھو بھا وبعث زیادبن لبید اخابنی بیاضةالانصاری الی حضر موت وعلی صدقاتھا ، وبعث عدی بن حاتم علی طیئ وصدقاتھا ، وعلی بنی اسدوبعث مالک بن نویرہ قال ابن ھشام الیربوعی علی صدقات بنی حنظلہ ، وفرّق صدقہ بن سعد علی رجلین منھم فبعث الزبرقان بن بدر علی ناحیة منھا ، وقیس بن عاصم علی ناحیة وکان قد بعث العلاء بن الحضرمی علی البحرین وبعث علی ابن ابی طالب رضوان اللہ علیہ الی نجران ، لیجمع صدقتھم ویقدم علیہ بجزیتھم ( ابن ھشام ج 2 ص 376) اسی بات کو شیخ ابی القاسم السھیلی نے بھی اسی طرح تعرض کیے بغیر قائم رکھا ہے ۔ جنابِ شبلی نعمانی نے بھی لکھا ہے کہ ،، نوسال کے بعد اب ملک میں امن وامان کا دور شروع ہوا ، اب حصولِ دولت کے مواقع حاصل تھے ، اس بنا پرزکات کاحکم اس سال نازل ہوا اورتحصیلِ زکات کےلیے عمال قبائل میں مقرر ہوئے ( سیرت النبی ج1ص 345) مگر مخدوم سندھی لکھتے ہیں ،، وفیھا ( ای فی السنة الاولی من الھجرة) فرضت الزکوة فی الاموال ذات النصب وھو الارجح وقیل فی السنةالثانیة بعد فرض زکاة الفطر کماسیاتی ( بذل القوة ص 422) یہی بات جس کو جناب مخدوم نے قیل سے ذکر کیا   حافظ ابن القیم کی ،،( الھدی  ج2 ص 5 ، 6 )،، سے معلوم ومفہوم ہوجاتی ہے۔ مولانا مودودی نے بھی سورتِ المعارج کی تفسیر میں ایسی بات لکھی ہے کہ ،، سورہِ ذاریات ،آیت 19، میں فرمایا گیا ہے کہ ،، ان کے مالوں میں سائل اور محروم کاحق ہے ،، اور یہاں فرمایا گیا ہے کہ ،، ان کے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک مقررحق ہے ، بعض لوگوں نے اس سے یہ سمجھا ہے کہ مقررحق سے فرض زکات مراد ہے کیونکہ اسی میں نصاب اور شرح دونوں چیزیں مقرر کردی گئی ہیں  لیکن یہ تفسیر اس بنا پر قابلِ قبول نہیں ہے کہ سورہِ المعارج بالاتفاق مکی ہے اور زکات ایک مخصوص نصاب اور شرح کے ساتھ مدینہ میں فرض ہوئی ہے اس لیے مقرر حق کاصحیح مطلب یہ ہے کہ انہوں نے خوداپنے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک حصہ طے کررکھا ہے  جسے وہ ان کا حق سمجھ کر اداکرتے ہیں۔ یہی معنی حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت عبداللہ بن عمر ، مجاہد ، شعبی ، اورابراہیم نے بیان کیے ہیں ( تفھیم القران ج6 ص90) یہ تو ایک بات ہوگئی ہے (2) اور دوسرا مذہب جیساکہ ہم نے اوپر لکھاہے وہ بعض علماء کرام کا ہے۔  علامہ آلوسی نے سورہِ المعارج کی اوپر درج آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ،، وقیل ھوالزکوة‌ ، لانھا مقدرة معلومة وتعقب بان السورة مکیة والزکاة انما فرضت وعین مقدارھا فی المدینة وقبل ذالک کانت مفروضة من غیرتعیین ( روح ج 15ص71)  اسی طرح حافظ ابن کثیر نے بھی سورتِ مزمل کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ،، وآتوالزکوة، وھذایدل لمن قال بان فرض الزکوة نزل بمکة لکن مقادیر النصب والمخرج لم تبین الا بالمدینة ( تفسیرالقران ج6 ص 309)  یہی بات حافظ ابن کثیر سے شیخ جمال الدین قاسمی نے (محاسن ج17 ص 204) میں بلفظہ نقل کی ہے ۔ ہمیں یہی بات محقق لگتی ہے  جو حافظ ابن کثیر اور آلوسی وغیرہ نے لکھی ہے ۔ ان مکی آیات میں جن کا ذکر اوپر کیاگیاہے ، ان  میں ،، وآتوالزکوة ،، کامفہوم پھر یا تو یہ ہے کہ  اپنے مالوں میں سے وہ غیر متعین زکات اداکرو   اوریا یہ ہے کہ مال میں زکات کے سوا بھی محروم اورسائل لوگوں کے حقوق لازم ہوتے ہیں   جیسا کہ جمال قاسمی نے سلف سے نقل کرکے لکھا ہے کہ ،، وقدروی ابن جریر عن ابن عمر انہ سئل عن الحق المعلوم آ ھوالزکوة فقال ان علیک حقوقا سوی ذالک ومثلہ عن ابن عباس قال ، ھو سوی الصدقة ، یصل بھا رحما اویقری بھا ضیفا اویحمل بھا کلا اویعین بھا محروما ، وعن الشعبی ان فی المال حقا سوی الزکاة ( محاسن ج16 ص 180)  (3) رہا تیسراقول تو وہ جناب غامدی کا ہے ۔ جناب غامدی نے اس ( سورتِ المعارج 24) سے یہ بات برآمد کی ہے کہ ،  یہ آیت مکہ والوں کے متعلق وارد ہے ،اور اس میں یہ بات فرمائی گئی ہے ، کہ ان کے مالوں میں بھی سائل اور محروم لوگوں کے لیے زکات کا مقررہ حصہ تھا ۔ ہمارے نزدیک یہ بات واستدلال بہت ساری وجوہات سے غلط ہے ۔مگر پہلے یہ بات سوچنے کی ہے کہ  جناب غامدی کا اس استدلال سے کیامقاصد پیشِ نظر تھے ؟ (1) پہلی بات یہ ان کے پیشِ نظر تھی  کہ تاریخی روایات سے تو یہ بات ثابت نہیں ہوسکتی ہے کہ اہلِ مکہ اور یہود ونصاری عملا زکات اداکرتے تھے ۔لہذا اس کو پھر سنتِ ابراہیمی ثابت کرنا بہت ہی مشکل ہوگا ۔ اس لیے انہوں نے اس آیت کا سہارا لیاہے ۔باقی رہی بات زکات کو پہچاننے کی   تو اس کاہم اقرار کرتے ہیں  بلکہ ہم کیا بڑے بڑے اکابر اس بات کے مقر ومعترف ہیں  کہ قران کے مخاطبین نماز ، زکات ، روزہ وغیرہ کو پہچانتے تھے ۔ اور ان کو یہ علم تھا کہ یہ احکام انبیاء علیھم السلام پرفرض کیے تھے ۔ مگر جناب غامدی وغیرہ کا تو یہ مسلک نہیں ہے ۔ ان کامسلک یہ ہے کہ یہ چیزیں اوریہ اعمال ان قوموں میں عملا جاری تھے ۔ نبی صلی اللہ نے ان کی اصلاح اور تجدید  کرنے کے بعد اسے دوبارہ اپنی امت میں جاری کردیا ہے ۔،، انھوں نے لکھا ہے کہ ،، سنت سے ہماری مراد دینِ ابراہیمی کے وہ روایت ہے  جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید واصلاح کے بعد اوراس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے ،، ( میزان ص 14) اس عبارت میں دیکھ لیں وہ کیا کہتے ہیں ؟ ،، تجدید ،، کا مطلب ہے  کسی چیز کوجو پرانی ہوکر خراب ہوگئی ہو اسے دوبارہ تازہ اورخوبصورت بنانا ،، اصلاح ،،  عملا معدوم شے کی نہیں ہوسکتی ۔ وہ موجود ہو تو پھر اس کی اصلاح ہوسکتی ہے ۔اور اضافے بھی عملا موجود چیز میں ہوسکتے ہیں ۔یعنی اس عبارت میں جناب نے صاف لکھا ہے کہ وہ روایت دوسری قوموں میں عملا موجود تھی   مگر بعض اضافوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں کے لیے جاری فرمایا ہے ۔ ورنہ اگر وہ ہماری طرح مانتے کہ یہ اعمال عملا موجود نہیں تھے اور ان لوگوں نے اپنے خواہشات وجذبات وغیرہ سے اس میں بگاڑ کو رائج نہ کیا ہو   تو پھر کیا اصلاح نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے پیغمبر کے دین  میں دیتے ہیں ؟ اس سے معلوم ہوا کہ بگاڑ ، خرابی ، اور کمی لوگوں نے عملا دین میں پیدا کی تھی ۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں چیزوں کی درستگی بقولِ غامدی کرنی چاہیے تھی۔ یہ تو ایک جملہِ معترضہ تھا ۔ ہم دراصل یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ چونکہ جناب کو کتابوں سے عملی روایت کے متعلق کچھ بھی نہیں ملا ۔ اس لیے تو قران مجید  کی اس آیت پر ہاتھ صاف کردیا ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…