محمد حسنین اشرف حالیہ ویڈیو میں غامدی صاحب نے نظریہ ارتقا پر بات کرتے ہوئے ایک بہت ہی صائب بات فرمائی کہ نظریہ ارتقا سائنس کا موضوع ہے اور اسے سائنس کا موضوع ہی رہنا چاہیے۔ دوسری بات انہوں نے یہ فرمائی کہ اپنے بچوں کو سائنس کی تحلیل سکھانی چاہیے۔ یہ بات بھی صائب ہے...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 59)
تصوف پر جناب احمد جاوید صاحب اور جناب منظور الحسن صاحب کے تبصرے پر تبصرہ
ڈاکٹر زاہد مغل صاحب محترم جناب احمد جاوید صاحب نے تصوف سے متعلق حال ہی میں اس رائے کا اظہار فرمایا ہے کہ فقہ و کلام وغیرہ کی طرح یہ ایک انسانی کاوش و تعبیر ہے وغیرہ نیز اس کے نتیجے میں توحید و نبوت کے دینی تصورات پر ذد پڑی۔ ساتھ ہی آپ نے تصوف کی ضرورت کے بعض پہلووں پر...
تصوف پر جناب منظور الحسن صاحب کے ایک اعتراض کا جائزہ
ڈاکٹر زاہد مغل صاحب مکتب فراہی کے منتسبین اہل تصوف پر نت نئے الزامات عائد کرنے میں جری واقع ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب و جناب غامدی صاحب سے گزرتا ہوا اب ان کے شاگردوں میں بھی حلول کررہا ہے۔ جس غیر ذمہ داری سے مولانا اصلاحی و غامدی صاحبان اہل تصوف...
شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد صاحب کچھ دن قبل اس موضوع پرفیسبک پر مختصر پوسٹ کی تھی کہ یہ فرق غیرمنطقی، غیر اصولی اور غیر ضروری ہے۔ جسے آپ شریعت کہتے ہیں وہ آپ کا فہم شریعت ہی ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مثال کے طور پر غامدی صاحب نے اپنے تئیں شریعت کو فقہ کے انبار...
۔”خدا کو ماننا فطری ہے” مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ
ڈاکٹر زاہد مغل صاحب علم کلام کو لتاڑنے والے حضرات کی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وجود باری پر یقین رکھنا بدیہیات میں سے ہے، لہذا متکلمین دلائل دے کر بے مصرف و غیر قرآنی کام کرتے ہیں۔ یہاں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی کتاب "فلسفے کے بنیادی مسائل قرآن مجید کی روشنی...
داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ
مولانا نیاز محمد مروت صاحب جناب جاوید غامدی صاحب نے مردوں کے داڑھی رکھنے کے معمول چلے آنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داڑھی رکھنے کی عادت کا اعتراف کیا ہے ، جو کہ حق بات ہے، بشرطیکہ طبعی عادت کے طور پر نہیں، بلکہ معمول کے طور پر داڑھی رکھنا مراد ہو، چنانچہ اس پر...

مولانا واصل واسطی
جناب غامدی اگے اسی ملت یاسنتِ ابراہیمی کے سلسلہ میں لکھتے ہیں کہ ،، زکوة ان کے ہاں بالکل اسی طرح ایک متعین حق تھی جس طرح اب متعین ہے ( میزان ص 45) اس بات کی ثبوت میں سورة المعارج کی آیت 27 ،، وفی اموالھم حق معلوم للسائل والمحروم ،، کا حوالہ دیا ہے ۔ ہم اس دعوی کے متعلق چند باتیں اپنے احباب کی خدمت میں پیش کرتے ہیں (1) پہلی بات اس مورد میں یہ ہے کہ اکثر علماءکرام کا مسلک یہ ہے کہ زکوة کی فرضیت ہجرت کے بعد نازل ہوئی ۔ اس میں پھر مختلف اقوال ہیں کہ پہلے سال میں ہوئی یا دوسرے سال میں ہوئی ہے یا پھراس کے بعد ہوئی ہے۔، اکثر علماء فتح مکہ کے قبل کے قائل ہیں مگر کچھ لوگ اس کے بعد کے زمانے کے بھی قائل ہیں (2) دوسری بات یہ ہے کہ بعض علماء کرام کے نزدیک زکوة کی فرضیت تو مکہ میں ہوئی ہے مگر اس کے نصاب اور حصص کا تعین ہجرت کے بعد مدینہ میں ہواہے (3) تیسری بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ان آیات کے متعلق جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ یعنی مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ مشرکینِ مکہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔وہ ان آیات سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ زکوة بھی ملتِ ابراہیمی کی وہ سنت ہے جس پرمکہ کے لوگ عمل پیرا تھے۔ اب ہم ان تین باتوں کی مختصر تفصیل کرتے ہیں (1) پہلامذہب جیسا کہ ہم نے اوپرلکھا ہےاکثر علماء کرام کا ہے ۔ اس کے متعلق ابن ہشام لکھتے ہیں کہ ،، قال ابن اسحق وکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قدبعث امراءہ وعمالہ علی الصدقات الی کل مااوطا الاسلام من البلدان فبعث المھاجربن ابی امیة بن المغیرہ الی صنعاء فخرج علیہ العنسی وھو بھا وبعث زیادبن لبید اخابنی بیاضةالانصاری الی حضر موت وعلی صدقاتھا ، وبعث عدی بن حاتم علی طیئ وصدقاتھا ، وعلی بنی اسدوبعث مالک بن نویرہ قال ابن ھشام الیربوعی علی صدقات بنی حنظلہ ، وفرّق صدقہ بن سعد علی رجلین منھم فبعث الزبرقان بن بدر علی ناحیة منھا ، وقیس بن عاصم علی ناحیة وکان قد بعث العلاء بن الحضرمی علی البحرین وبعث علی ابن ابی طالب رضوان اللہ علیہ الی نجران ، لیجمع صدقتھم ویقدم علیہ بجزیتھم ( ابن ھشام ج 2 ص 376) اسی بات کو شیخ ابی القاسم السھیلی نے بھی اسی طرح تعرض کیے بغیر قائم رکھا ہے ۔ جنابِ شبلی نعمانی نے بھی لکھا ہے کہ ،، نوسال کے بعد اب ملک میں امن وامان کا دور شروع ہوا ، اب حصولِ دولت کے مواقع حاصل تھے ، اس بنا پرزکات کاحکم اس سال نازل ہوا اورتحصیلِ زکات کےلیے عمال قبائل میں مقرر ہوئے ( سیرت النبی ج1ص 345) مگر مخدوم سندھی لکھتے ہیں ،، وفیھا ( ای فی السنة الاولی من الھجرة) فرضت الزکوة فی الاموال ذات النصب وھو الارجح وقیل فی السنةالثانیة بعد فرض زکاة الفطر کماسیاتی ( بذل القوة ص 422) یہی بات جس کو جناب مخدوم نے قیل سے ذکر کیا حافظ ابن القیم کی ،،( الھدی ج2 ص 5 ، 6 )،، سے معلوم ومفہوم ہوجاتی ہے۔ مولانا مودودی نے بھی سورتِ المعارج کی تفسیر میں ایسی بات لکھی ہے کہ ،، سورہِ ذاریات ،آیت 19، میں فرمایا گیا ہے کہ ،، ان کے مالوں میں سائل اور محروم کاحق ہے ،، اور یہاں فرمایا گیا ہے کہ ،، ان کے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک مقررحق ہے ، بعض لوگوں نے اس سے یہ سمجھا ہے کہ مقررحق سے فرض زکات مراد ہے کیونکہ اسی میں نصاب اور شرح دونوں چیزیں مقرر کردی گئی ہیں لیکن یہ تفسیر اس بنا پر قابلِ قبول نہیں ہے کہ سورہِ المعارج بالاتفاق مکی ہے اور زکات ایک مخصوص نصاب اور شرح کے ساتھ مدینہ میں فرض ہوئی ہے اس لیے مقرر حق کاصحیح مطلب یہ ہے کہ انہوں نے خوداپنے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک حصہ طے کررکھا ہے جسے وہ ان کا حق سمجھ کر اداکرتے ہیں۔ یہی معنی حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت عبداللہ بن عمر ، مجاہد ، شعبی ، اورابراہیم نے بیان کیے ہیں ( تفھیم القران ج6 ص90) یہ تو ایک بات ہوگئی ہے (2) اور دوسرا مذہب جیساکہ ہم نے اوپر لکھاہے وہ بعض علماء کرام کا ہے۔ علامہ آلوسی نے سورہِ المعارج کی اوپر درج آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ،، وقیل ھوالزکوة ، لانھا مقدرة معلومة وتعقب بان السورة مکیة والزکاة انما فرضت وعین مقدارھا فی المدینة وقبل ذالک کانت مفروضة من غیرتعیین ( روح ج 15ص71) اسی طرح حافظ ابن کثیر نے بھی سورتِ مزمل کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ،، وآتوالزکوة، وھذایدل لمن قال بان فرض الزکوة نزل بمکة لکن مقادیر النصب والمخرج لم تبین الا بالمدینة ( تفسیرالقران ج6 ص 309) یہی بات حافظ ابن کثیر سے شیخ جمال الدین قاسمی نے (محاسن ج17 ص 204) میں بلفظہ نقل کی ہے ۔ ہمیں یہی بات محقق لگتی ہے جو حافظ ابن کثیر اور آلوسی وغیرہ نے لکھی ہے ۔ ان مکی آیات میں جن کا ذکر اوپر کیاگیاہے ، ان میں ،، وآتوالزکوة ،، کامفہوم پھر یا تو یہ ہے کہ اپنے مالوں میں سے وہ غیر متعین زکات اداکرو اوریا یہ ہے کہ مال میں زکات کے سوا بھی محروم اورسائل لوگوں کے حقوق لازم ہوتے ہیں جیسا کہ جمال قاسمی نے سلف سے نقل کرکے لکھا ہے کہ ،، وقدروی ابن جریر عن ابن عمر انہ سئل عن الحق المعلوم آ ھوالزکوة فقال ان علیک حقوقا سوی ذالک ومثلہ عن ابن عباس قال ، ھو سوی الصدقة ، یصل بھا رحما اویقری بھا ضیفا اویحمل بھا کلا اویعین بھا محروما ، وعن الشعبی ان فی المال حقا سوی الزکاة ( محاسن ج16 ص 180) (3) رہا تیسراقول تو وہ جناب غامدی کا ہے ۔ جناب غامدی نے اس ( سورتِ المعارج 24) سے یہ بات برآمد کی ہے کہ ، یہ آیت مکہ والوں کے متعلق وارد ہے ،اور اس میں یہ بات فرمائی گئی ہے ، کہ ان کے مالوں میں بھی سائل اور محروم لوگوں کے لیے زکات کا مقررہ حصہ تھا ۔ ہمارے نزدیک یہ بات واستدلال بہت ساری وجوہات سے غلط ہے ۔مگر پہلے یہ بات سوچنے کی ہے کہ جناب غامدی کا اس استدلال سے کیامقاصد پیشِ نظر تھے ؟ (1) پہلی بات یہ ان کے پیشِ نظر تھی کہ تاریخی روایات سے تو یہ بات ثابت نہیں ہوسکتی ہے کہ اہلِ مکہ اور یہود ونصاری عملا زکات اداکرتے تھے ۔لہذا اس کو پھر سنتِ ابراہیمی ثابت کرنا بہت ہی مشکل ہوگا ۔ اس لیے انہوں نے اس آیت کا سہارا لیاہے ۔باقی رہی بات زکات کو پہچاننے کی تو اس کاہم اقرار کرتے ہیں بلکہ ہم کیا بڑے بڑے اکابر اس بات کے مقر ومعترف ہیں کہ قران کے مخاطبین نماز ، زکات ، روزہ وغیرہ کو پہچانتے تھے ۔ اور ان کو یہ علم تھا کہ یہ احکام انبیاء علیھم السلام پرفرض کیے تھے ۔ مگر جناب غامدی وغیرہ کا تو یہ مسلک نہیں ہے ۔ ان کامسلک یہ ہے کہ یہ چیزیں اوریہ اعمال ان قوموں میں عملا جاری تھے ۔ نبی صلی اللہ نے ان کی اصلاح اور تجدید کرنے کے بعد اسے دوبارہ اپنی امت میں جاری کردیا ہے ۔،، انھوں نے لکھا ہے کہ ،، سنت سے ہماری مراد دینِ ابراہیمی کے وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید واصلاح کے بعد اوراس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے ،، ( میزان ص 14) اس عبارت میں دیکھ لیں وہ کیا کہتے ہیں ؟ ،، تجدید ،، کا مطلب ہے کسی چیز کوجو پرانی ہوکر خراب ہوگئی ہو اسے دوبارہ تازہ اورخوبصورت بنانا ،، اصلاح ،، عملا معدوم شے کی نہیں ہوسکتی ۔ وہ موجود ہو تو پھر اس کی اصلاح ہوسکتی ہے ۔اور اضافے بھی عملا موجود چیز میں ہوسکتے ہیں ۔یعنی اس عبارت میں جناب نے صاف لکھا ہے کہ وہ روایت دوسری قوموں میں عملا موجود تھی مگر بعض اضافوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں کے لیے جاری فرمایا ہے ۔ ورنہ اگر وہ ہماری طرح مانتے کہ یہ اعمال عملا موجود نہیں تھے اور ان لوگوں نے اپنے خواہشات وجذبات وغیرہ سے اس میں بگاڑ کو رائج نہ کیا ہو تو پھر کیا اصلاح نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے پیغمبر کے دین میں دیتے ہیں ؟ اس سے معلوم ہوا کہ بگاڑ ، خرابی ، اور کمی لوگوں نے عملا دین میں پیدا کی تھی ۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں چیزوں کی درستگی بقولِ غامدی کرنی چاہیے تھی۔ یہ تو ایک جملہِ معترضہ تھا ۔ ہم دراصل یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ چونکہ جناب کو کتابوں سے عملی روایت کے متعلق کچھ بھی نہیں ملا ۔ اس لیے تو قران مجید کی اس آیت پر ہاتھ صاف کردیا ہے۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ
مولانا نیاز محمد مروت صاحب جناب جاوید غامدی صاحب نے مردوں کے داڑھی رکھنے...
نظم، مراد،متکلم اور متن
محمد حسنین اشرف نظم:۔ پہلے نظم کی نوعیت پر بات کرتے ہیں کہ یہ کس...
حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (3)
مولانا مجیب الرحمن تیسری حدیث ، حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ:۔ حضرت ابو...