غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 58)

Published On March 26, 2024
پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)

حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...

مولانا واصل واسطی

روزہ میں مباشرت اورلزومِ کفارہ کی بات ہم اگے کرلیں گے   فی الحال ایک اوربات کی طرف ہم لوگوں  کو متوجہ کرنا چاھتے ہیں۔ وہ بات یہ ہے کہ ،، تبیین ،، سنت ،، اور،، آحادیث ،،  کے متعلق ہم نے جناب غامدی کی طویل عبارتیں پہلے پیش کی ہیں جس میں انہوں نے چند باتیں لکھی ہیں (1) پہلی بات ان عبارات میں یہ لکھی ہے کہ ،، تبیین ،، قران کی شرح کا نام ہے ، اور یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ شارح متن پرکوئی اضافہ نہیں کرسکتے ۔ ان کی عبارت ملاحظہ ہو ،، وہ (تبیین ) کسی بات کی وہ کنہ ہے جوابتدا ہی سے اس میں موجود ہوتی ہے آپ اسے کھول دیتے ہیں وہ کسی کلام کا وہ مدعا ہے  جواس کلام کی پیدائش کے وقت ہی سے اس کے ساتھ ہوتاہے ، آپ اسے واضح کردیتے ہیں وہ کسی چیز کاوہ لازم ہے جوشروع ہی سے اس کے وجود کی حقیقت میں پوشیدہ ہوتاہے  آپ اس کو منصہِ شہود پر لےآتے ہیں ، تبیین ، کی حقیقت اس سے بال سے زیادہ ہے نہ کم ، آیہِ نحل میں لفظ کلامِ خداوندی کے لیے استعمال ہواہے  اس وجہ سے وہاں اس کامفہوم اس کے سواکچھ نہیں کہ متکلم کا وہ ارادہ ہے جوابتدا ہی اس کے کلام میں موجود ہے اسے واضح کردیا جائے ( برھان ص 44) اس طرح کی دیگرعبارتیں ابھی قریب ہی گذری ہیں ہم وہ سارے دوبارہ نہیں لکھ سکتے (2) اور دوسری بات یہ لکھی ہے کہ ،، سنت ،،  سیدنا ابراہیم علیہ السلام وغیرہ سے منقول ہے ، اور ہم تک بتمام وکمال تواترِ عملی کے ذریعے  سے پہنچی ہے ۔جناب کی دوعبارتیں ملاحظہ فرمالیں ۔ ایک میں پہلی بات کہتے ہیں دوسری میں دوسری بات ،، سنت سے ہماری مراد دینِ ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید واصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے ،،( میزان ص 14) اور دوسری عبارت یہ ہے کہ ،، سنت یہی ہے اور اس کے بارے میں یہ بالکل قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے اس میں اور قران مجید میں کوئی فرق نہیں ہے ، وہ جس طرح صحابہ کے اجماع اورقولی تواتر سے ملاہے ، یہ اسی طرح ان کے اجماع اورعملی تواتر سے ملی ہے ،اور قران ہی کی طرح ہردور میں مسلمانوں کے اجماع سے ثابت ہوتی ہے ،، ( میزان ص 14)  ،(3) اورتیسری بات یہ لکھی ہے کہ صرف ،، سنت اور قران ،، میں ہی دین منحصر ہے ۔ اور جس کو ،،حدیث ،، کہاجاتا ہے اس سے ،، دین ،، یعنی اس قران اور سنت میں عقیدہ وعمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا ہے۔ ملاحظہ کریں ،، دین لاریب انہی دوصورتوں میں ہے ، ان کے علاوہ نہ کوئی چیز دین ہے ، نہ اسے دین قراردیا جاسکتا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اورتقریر وتصویب کے اخبارجنھیں بالعموم ،،حدیث ،، کہاجاتاہے ان کے بارےمیں یہ حقیقت ناقابلِ تردید ہے کہ ۔۔۔۔۔اس لیے دین میں ( یعنی قران وسنت) ان سے کسی عقیدہ وعمل کا اضافہ بھی نہیں ہوتا ، دین سے متعلق جو چیزیں بھی ان میں آتی ہیں ، وہ درحقیقت قران وسنت میں محصور اسی دین کی تفہیم وتبیین ہے ، اور اس پرعمل کے لیے اسوہِ حسنہ کا بیان ہے۔  حدیث کا دائرہ یہی ہے ( میزان ص 15) اور یہ بات تو اوپر ہم نے بوضاحت  لکھی ہے کہ جناب غامدی کے ہاں ،،  تبیین ،،  میں اضافہ کسی حکم پر متصور ہی نہیں ہے چاہے وہ سنت ہو یا پھرقران ہو ،، پس جب یہ ان کے مذہب کی حقیقت ہے  تواب ہم دوسوالات  ان سے کرناچاھتے ہیں (1) پہلا سوال ہمارا یہ ہے کہ ،، نماز میں  کسی حکم اور عمل کے چھوٹ جانے یا سہو ہونے کی صورت میں نماز نئے سرے سے پڑھنا ، یانماز کے آخر میں ترغیما للشیطان دوسجدوں کااضافہ کرنا ، نہ توما قبل کے مذاہب سے ثابت ہے  جیسا کہ جناب غامدی بھی پورے زورلگانے کے باوجوداپنی اس کتاب میں اسے دیگر مذاہب سے نقل نہیں کرسکے ہیں ، اور نہ سنتِ متواترہ سے ثابت ہے ، صرف چند ہی احادیثِ قولی ، اور کچھ واقعات آحادیثِ عملی اس باب میں موجود ہیں  ۔ جیساکہ ان کو جناب غامدی نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے ۔تواترِ عملی کاتقاضا یہ ہے کہ روزانہ صحابہ اورتابعین سے سہو موجود ہوں ۔ مگر اس کو ثابت کرنا ماڈل ٹاؤن کی بس میں نہیں ہے ۔اور تواترِ قولی کے لیے ان آحادیث کو شمار کرنا کافی ہوجائے گا ۔اب آنجناب کو یہ عمل متواتر ثابت کرنا ہوگا ۔ یا قران سے اس مسئلے کوثابت کرنا ہوگا   یا پھر ان چند روایات کو ہی درخورِ اعتنا سمجھنا ہوگا جیسا کہ جناب غامدی نے کیا ہے مگر ان کو اپنی لکھی ہوئی دو باتیں یاد نہیں رہی ہیں  (1) ایک یہ کہ حدیث سے اس دین ( قران وسنت) میں عقیدہ وعمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا ، مگر انہوں نے خود حدیث سے اس میں اضافہ کردیا ہے (2) دوسری یہ بات یاد نہیں رہی کہ سنت کے ثبوت کے لیے جناب کے نزدیک تواترِ عملی شرط ہے۔ اور قران کےثبوت کےلیے  تواترِ قولی شرط ہے ۔ اب اس عمل میں دونوں کی شرائط موجود نہیں ہیں ۔ اور اگر آحادیث سے ان میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں   تو اس سے جناب کے بقول دین میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا ۔ اس لیے کہ آحادیث تو ،، دین ،، نہیں ہے صرف تاریخ ہے (2) دوسرا سوال ہمارا یہ ہے کہ قران مجید نے نماز کے متعلق تو تفصیل سے کچھ باتیں بیان فرمائی ہیں  (الف) پہلی بات سورتِ النساء میں یہ بیان فرمائی ہے کہ ،،  نشہ کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ یعنی نماز نہ پڑھو  ،، (ب)  دوسری بات یہ فرمائی ہے کہ ،، جنابت کی صورت میں طہارت حاصل کرکے پھر نماز پڑھو (ت) تیسری بات یہ فرمائی ہے کہ ،، اگر بے وضو ہو تونماز نہ پڑھو ، وضو کرو یا پھر تیمم کرکے نماز پڑھو  (ث) چوتھی بات یہ فرمائی ہے کہ ،، اگر مریض یا مسافر ہو پانی نہ ملے یا استعمال نہ کرسکو تو پھر بھی تیمم کرکے نماز پڑھو  ( ج) پانچویں بات یہ فرمائی ہے کہ ملامستِ نساء کے بعد بھی بغیر طہارت کے نماز نہ پڑھو  (ح) چھٹی بات یہ فرمائی ہے کہ ،، اگر قبلہ کا رخ میسر نہ ہو تونماز نہ پڑھو   الا یہ کہ مجبوری ہو ۔ اس طرح بعض دیگر چیزوں کا ذکر موجود ہے ۔  اب آنجناب ،، حیض ونفاس ،، کے متعلق بھی لکھتے ہیں   کہ ان کے ساتھ بھی نمازدرست نہیں ہے۔ مطلوب یہ ہے کہ جناب غامدی اور اس کا مکتب اس بات کو (1) یا تو قران مجید سے ثابت کریں گے یا پھر سنتِ متواتر سے ثابت کریں گے ( 3) اوریا پھر سیدنا ابراہیم اور عرب میں دیگر مروجہ مذاہب سے بتواترثابت کریں گے (4) اور یا پھر آحادیث یعنی تاریخ سے یہ بات ثابت کریں گے جو ،، دین ،، نہیں ہے ۔ اگر قران سے ثابت کرنا چاہتے ہیں   تو اس میں اس چیز کا اس باب میں سرے سے کوئی ذکر ہی موجود نہیں ہے ۔ اوراگر سنتِ متواتر سے اسے ثابت مانتے ہیں  تو پھر ان کو سب خواتین صحابیات میں ان دونوں چیزوں کو بیک زمان اور مسلسل ثابت کرنا پڑے گا کہ تواتر تو بن جائے ۔ مگر جناب غامدی اور اس کے مکتب والوں کے لیے  اس تواتر کاثابت کرنا کیا مشکل کام ہے ؟ اور اگر دیگر مذاہب کی روایت سے ثابت کریں گے  تو اس کے ہم شدت سے منتظر ہیں ۔ اور اگر ان چند آحادیث سے اس بات کو ثابت کرنا چاہتے ہیں   جو حدیث کے ذخائر میں موجود ہیں تو وہ فقط آحاد ہیں  لہذا یہ عمل تواتر سے ثابت نہیں ہے ، نہ تواترِ قولی سے اور نہ ہی تواترِ عملی سے ، وھذا واضح بین ۔لہذا اب جناب  کو کوشش کرنی ہوگی   کہ دیگر مذاہب میں اس کا کوئی ماخذ مل جائے تواسے نکال لیں ۔ ہمارا خیال تھا کہ جناب غامدی نے اس کےلیے کوئی ماخذ شاید اس لیے تلاش نہ کیا ہو تاکہ جدید عورتوں کو خوشی کا ایک اور موقع مل جائے کہ اب حالتِ حیض ونفاس میں بھی وہ نماز ادا کرسکتی ہیں ۔مگر بعد میں ہماری یہ رائے غلط ثابت ہوگئی   کہ وہ بھی ان حالات میں نماز وروزہ کے قائل نہیں ہیں ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…