غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 53)

Published On March 23, 2024
فکرِ غامدی کا اصل مسئلہ

فکرِ غامدی کا اصل مسئلہ

جہانگیر حنیف غامدی صاحب کو چونکہ میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے، لہذا میں اعتماد اور یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ غامدی صاحب کے ہاں ایمان کا مسئلہ نہیں۔ انھوں نے جو مسئلہ پیدا کیا ہے، وہ علمی نوعیت کا ہے۔ وہ دین کو فرد کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ دین کا آفاقی پہلو ان کی...

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...

امام النواصب جاوید غامدی

امام النواصب جاوید غامدی

احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...

مولانا واصل واسطی

سنتِ ابراہیمی کے متعلق تیسرے اصول میں جناب غامدی نے یہ بات لکھی ہے ، کہ سنت وہ ہے جو قران کے بجائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے شروع ہوجائے ۔ اور وہ عملی چیز ہو ، اس کا ذکر اگر قران میں آتا بھی ہے تو صرف تاکید اورتقویت کےلیے ۔، انہوں نے لکھا ہے کہ ،، نماز ، روزہ ، حج ، زکوة اور قربانی کاحکم بھی اگرچہ جگہ جگہ قران میں آیا ہے اور اس نے ان میں بعض اصلاحات بھی کی ہیں   لیکن یہ بات خود قران سے واضح ہو جاتی ہے کہ ان کی ابتدا پیغمبر کی طرف سے دینِ ابراہیمی کی تجدید کے بعد اس کی تصویب سے ہوئی ہے ۔ اس لیے یہ لازما سنن ہیں جنہیں قران نے مؤکد کردیا ہے ( میزان ص 59) اس عبارت سے دوباتیں ہمیں معلوم ہوگئیں   (1)  ایک یہ بات معلوم ہو گئی ہے کہ سنن کے متعلق خود قران سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان کی ابتدا پیغمبر کی طرف سے ، دینِ ابراہیمی کی تجدید کے بعد اس کی تصویب سے ہوئی ہے   (2) اور دوسری یہ بات معلوم ہوئی کہ قران میں اگران سنن کی بات ہوئی بھی ہے تو وہ صرف بطورِ تاکید وتقویت ہے ،، پہلی بات محض جناب غامدی کا دیگر دعاوی کی طرح کا ایک ادعاء ہے۔ قران کے نصوص میں سرے سے ایسی بات مذکور ہی نہیں ہے ۔ ورنہ وہ اپنے علمی زور کے باوجود ان تین باتوں کو جو اس پہلی بات کی ضمن میں مذکور ہوئی ہیں قران سے ثابت کرکے دکھا دیں تو ہم مان لیں ۔پھر ہم نے تفصیل سے یہ بات اوپر احباب کو بتائی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی ابتداء تو یقینا کی ہے مگر لائے ہوئے دین کے ایک ،، حکم ،، کی حیثیت سے نہ کہ ،، سنتِ ابراہیمی کی تجدید کے بعد اس کی تصویب کی حیثیت سے ،، ۔جو لوگ اس بات کے قائل ہیں جو جناب غامدی نے اوپر پیش کی ہے   تو انہیں اس کے دلائل بھی دینے چاہئیں ۔محض خالی خولی باتوں سے تو حقائق دنیامیں موجود نہیں ہوجاتے ۔رہی دوسری بات تو اس کے متعلق ہم عرض کرتے ہیں کہ وہ بھی بالکلیہ غلط ہے ۔،، تاکید ،، کا مسئلہ بالعموم نفسِ فعل سے متعلق ہوتا ہے۔، مگر قران مجید نماز صرف ،، اقیمواالصلوة ،، پراکتفاء نہیں کرتا ، اس کے تمام یا اکثر احکام کا الگ الگ ذکر کرتا ہے ۔جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس کا مقصد لوگوں کو یہ احکام سمجھانا ہی ہے ۔ اس سے بعض ان ہندوستانی مفکرین کی بھی نفی ہوجاتی ہے جنہوں  نےاپنی تفسیر کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ قران نے وضو کے احکام کو تو تفصیل سے بیان کیاہے مگر نماز کو بیان نہیں کیا بلکہ نظرانداز کیاہے ۔ اور پھر اس پر فضول قسم کی تفریعات کی ہیں ۔اب ہم کچھ مثالیں قران کی ان آیات  کی دیکھ لیتے ہیں  (1) قران نے اوقاتِ صلوة کا ذکر اجمال سے بھی کیا ہے جیسے ،، ان الصلوة کانت علی المؤمنین کتابا موقوتا ( النساء 130) اورپھر تفصیل سے بھی مختلف مقامات بھی بتایا ہے کہ ، اقم الصلوة لدلوک الشمس الی غسق اللیل وقران الفجر ( اسراء 78) اورفرمایاہے کہ ،، وسبح بحمدربک قبل طلوع الشمس وقبل غروبھا ومن آناء اللیل واطراف النھار ( طہ 130) اور یہ بھی فرمایا ہے کہ ،، حافظوا علی الصلوات والصلوة الوسطی ( البقرہ 238) اس کے بعد دیگر افعال وارکان دیکھ لیتے ہیں (2) فرمایا ہے کہ ،، فولوا وجوھکم شطرالمسجد الحرام ( البقرہ 144) اور دوسری جگہ فرمایاہے کہ ،، فول وجھک شطر المسجد الحرام ( البقرہ 149) (3) ایک جگہ سورت فاتحہ کے بارے میں بتایا ہے کہ ، ولقد آتیناک سبعامن المثانی والقران العظیم ( الحجر 87)  اور پھرقراءت  کے بارے میں بتایا ہے کہ ، فاقرؤا ماتیسر من القران ( المزمل 20)  اور پھر قراءتِ قران کے متعلق آواز کی مقدار کا بھی بتایا ہےکہ ، ولاتجھربصلاتک ولاتخافت بھا وابتغ بیں ذالک سبیلا ( اسراء 110)  (4) اور اس کے بعد امام کی قراءت سننے کا بھی بتایا ہے کہ ، فاذا قرئ القران فاستمعوا لہ وانصتوا ( اعراف 204) اس کے بعد  رکوع اور سجود جیسے ارکان کا بھی بتایاہے کہ ، یایھاالذین امنوا ارکعوا واسجدوا واعبدوربکم ( الحج 77)  (5) اسی طرح جماعت کی بات بتائی ہے کہ ، وارکعوا مع الراکعین ( البقرہ ) ( 6) اور تکبیرِ تحریمہ کے بارے میں بعض لوگوں کے بقول بتایا ہے کہ ، وذکراسم ربہ فصلی ( اعلی 15) ( 7) نیت کی بات بھی بتائی ہے کہ ، فصل لربک ( الکوثر) اور پھر ،، ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی لللہ رب العالمین (8 ) ان آیات میں غوروفکر فرمالیں تو پورے نماز کا نقشہ اور ذکر قران مجید میں موجود ہے ۔ البتہ ترتیب ، قعدات ، سلام  اور اذکارِ نماز وغیرہ کے مسائل رہ جاتے ہیں۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرتِ جبریل نے ابتدا میں ہی بتادیئے تھے ۔ ہم نے صرف ان چند آیات کا تذکرہ کیا ہے ۔اگر سب کی تفصیل کرلیتے  تو بات بہت طویل ہو جاتی ۔ ان سب آیاتِ قرانی کو تاکیدِ سنتِ ابراہیمی پر محمول کرنا وہی آدمی کرسکتا ہے   جس کو قران سے کوئی تعلق ہی نہ ہو  ۔ممکن ہے کوئی شخص ہماری اس بات سے یہ سمجھے کہ ہم یہ نہیں مانتے کہ سیدنا ابراھیم یا دیگر انبیاء کرام علیھم السلام ان احکام کوبجانہیں لاتے تھے یا انہیں ان کا حکم نہیں ہوا تھا  ؟ حاشا کلا ۔ کیونکہ ان باتوں پر تو قران کی گواہی ثبت ہے ۔ھہارا مقصود صرف یہ ہے کہ ان کے جانے کے بعد یہ چیزیں لوگوں میں اور معاشرے سے مٹ گئیں تھیں ۔ان کا وجود ان میں باقی نہیں رہا تھا ۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ جناب غامدی کی دوسری بات بھی بے بنیاد اور بے دلیل ہے ۔   اب دوسری چیز کا تجزیہ کرتے ہیں ۔جناب نے اگے لکھا ہے کہ ،، جمعہ کی اقامت کے بارے میں بھی معلوم ہے کہ وہ قران کے مخاطبین کےلیے کوئی اجنبی چیز نہیں تھی ( میزان ص 45)  اس بات کے لیے جناب نے ،، لسان العرب ،، کا حوالہ دیا ہے۔ کیا ،،لسان العرب ،، بھی کوئی تاریخ کی کتاب ہے ؟ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق ؟ ہم نے اس ،، لسان ،، میں جمعہ کے مبحث کو پڑھا ہے   مگر اس میں ایسی کوئی چیز موجود نہیں ہے جس سے جناب غامدی اپنے تصور کےلیے دلیل بناسکیں ۔ صرف جمعہ کے دن اجتماع اور خطاب کا ذکر اس میں ہے  ۔ آپ بھی دیکھ لیں ۔ ابن منظور لکھتے ہیں کہ ،، و زعم ثعلب ان اول من سماہ بہ کعب بن لوئ جد سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وکان یقال لہ العروبة وذکر السھیلی فی الروض الانف ان کعب بن لوئ اول من جمع یوم العروبة ولم تسم العروبة الجمعة الا مذ جاء الاسلام وھو اول من سماھا الجمعة فکانت قریش تجتمع الیہ فی ھذا الیوم فیخطبھم ویذکرھم بمبعث النبی صلی اللہ علیہ وسلم ویعلمھم انہ من ولدہ ویامرھم باتباعہ صلی اللہ علیہ وسلم والایمان بہ ( لسان العرب ج 8 ص 58)  اس عبارت سے یہ بات معلوم نہیں ہوتی  کہ کعب بن لوئی  ویسے  ہی اس دن میں قریش کو خطاب کرتے تھے یا پھر نماز سے پہلے ان کو خطبہ دیتے تھے جیسا کہ اب مسلمانوں میں رائج ہے ؟ دوسری بات اس درج عبارت سے یہ معلوم ہوئی ہے کہ کعب بن لوئی نے ہی اس مجلس کو قائم کرنے کے بنیاد رکھی تھی ۔تو اگر بات یہی ہے   پھر یہ جناب غامدی کے خلاف ہے   کیونکہ وہ تو اسے ،، سنتِ ابراہیمی ،، ثابت کرنا چاھتے تھے ۔ مگر بات کعب بن لوئی پر رک گئی ۔ گویا کہ ،، میں الزام ان کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا ،،؟ یہ پھر ،، سنتِ ابراہیمی ،، کس طرح ہوگئی ہے ؟ مطلب الشعر فی بطن الشاعر ۔اچھا اب ہم کسی اور بات کی طرف احباب کو متوجہ کرنا چاھتے ہیں ۔وہ یہ ہے اگر ہم مان لیں کہ کعب بن لوئی نے جمعہ کی نماز قائم کی تھی ، اور پھر مکہ والے اسے  ،، حجر ،، میں پڑھتے تھے ، حدیثِ معاذ میں آیا ہے کہ ، انہ وجد اھل مکة یجمعون فی الحجر فنھاھم عن ذالک ( النھایہ ج1ص 286) حالانکہ اس حدیث کی کوئی سند لسان اور نھایہ وغیرہ کتابوں میں مذکور نہیں ہے ۔  تب بھی جناب کا مدعا پورا نہیں ہوتا ۔پہلے وہ اسے ،، سنتِ ابراہیمی ،، ثابت کریں  تب بات ہوگی۔ پھر ہم جناب غامدی سے پوچھتے ہیں کہ ،، جمعہ کی نماز ،، کے متعلق جو تخصیصات ہیں ان کا آپ نے ذکر ادھر بھی نہیں کیا؟ اورمبحثِ جمعہ میں بھی نہیں کیا ؟ دونوں جگہ کنی کترا گئے جیسا کہ جناب کی عادتِ مالوفہ ہے ۔ ہم چند چیزوں کا ذکرکرتے ہیں   جس سے قران کی ان آیات کی تخصیص ہوجاتی ہے ۔ اور یہ آیت باجماع امت عام مخصوص البعض ہے ۔البتہ شرائط میں اختلاف ہے (1) یہ نماز باجماعت فرض ہے انفرادا نہیں ہے (2) اس نماز کی صرف دورکعت ہیں اگرچہ ظہر کی نماز چہار رکعت ہیں (3)  بعض آئمہ کے نزدیک یہ نماز قریات میں نہیں ہوتی بلکہ شہر میں فرض ہے (4) مریض شخص پر یہ نماز فرض نہیں ہے ( 3) عورت پر یہ نماز فرض نہیں ہے (5) غلام آدمی پر یہ نماز فرض نہیں ہے (6) مسافر شخص پر یہ نماز فرض نہیں ہے۔ ابوبکر جصاص مکانِ جمعہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ،، واتفق فقھاء الامصار علی ان الجمعة مخصوصة بموضع لایجوز فعلھا فی غیرہ ، لانھم مجمعون علی ان الجمعة لاتصح فی البوادی ومناھل الاعراب ( احکام القران ج 3 ص 666) یہ تو مکان کے بارے میں تخصیص کی بات ہوئی ۔ پھر اگے چل کر مصلین اور نمازیوں میں تخصیص کے متعلق لکھتے ہیں کہ ،، ولم یختلف الفقھاء ان وجوب الجمعة مخصوص بالاحرار البالغین المقیمین دون النساء والعبید والمسافرین والعاجزین وروی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال ،، اربعة لاجمعةعلیھم العبد والمراءة والمریض والمسافر ( ایضاج 3 ص 669) اور شیخ قرطبی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ،، خطاب للمکلفین باجماع ویخرج منہ المرضی والزمنی والمسافرون والعبید والنساء بالدلیل ( الجامع ج18 ص91) جب حقیقت ایسی ہے تو اب ہم اس آیت کے متعلق جناب غامدی کی تحقیق کے منتظر ہیں   کہ وہ آحادیث کی بنا پر اس آیتِ قرانی میں عام علماء کی طرح ،، تخصیص وتحدید ،، کے قائل ہو جاتے ہیں یا پھر ان چیزوں اور شرائط کو قران کی اس آیت سے بتکلف برآمد کرتے ہیں ۔ ہم اس تحقیق کے آنے کے بعد اس موضوع پر مزید بحث کرنے کے موڈ میں ہونگے ان شاءاللہ تعالی

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…