غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 48)

Published On March 13, 2024
پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)

حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...

مولانا واصل واسطی

اس تحریر میں جناب غامدی کی اس نقل کردہ عبارت کا جائزہ لیتے ہیں   جو انہوں نے زمخشری کی ،، الکشاف ،، کے حوالے سے لکھی ہے ۔ اس عبارت میں زمخشری نے دعوی کیا ہے کہ ،، میتة ،،  کالفظ دیگر میتات مثلا مچھلی اورٹدی وغیرہ کو عرف اور عادت کی بنا پر شامل نہیں ہے۔ کیونکہ مچھلی اور ٹڈی وغیرہ لغوی اعتبار سے اگرچہ میتات ہیں   مگر عرفی اعتبار سے میتات نہیں ہیں ۔ گویا حدیث میں  ،، میتة ،، کا لفظ لغوی حیثیت سے استعمال ہوا ہے  مگر قران میں عرف وعادت کی حیثیت سے ۔ لہذا قران کی تخصیص کے اشکال کا خاتمہ ہوگیا ہے ۔ مگر ہمارے نزدیک یہ تحقیق نہیں ہے محض مغالطہ ہے۔ اگر احباب چند باتوں پر توجہ کرلیں  تو یہ مغالطہ کا سمجھ آجائے گا  (1) پہلی بات یہ ہے کہ ہم نے ،، حدیثِ عنبر ،، اوپر پیش کی ہے   کہ صحابہِ کرام نے مچھلی کو وہ ممنوعِ شرعی ،، میتة ،، سمجھ لیا تھا ۔ اگر وہ لغت کے اعتبار سے ،، میتة ،، ہوتا اور شرعی ،، میتة ،، نہ ہوتا تو پھراضطرار کے عذر کوبیان کرنا محض فضول ہے۔ وہ صحابہ مخاطبینِ قران تھے جبکہ زمخشری تو بہت تاخیر سے پانچویں صدی میں آیا ہے ۔ اب زمخشری جس عرف کی بات کررہا ہے  یا تو وہ صحابہِ کرام اور قران کے نازل ہونے کے وقت کے عرف کی بات کررہا ہے ؟ یا پھر اپنے زمانے کے عرف کی بات کررہا ہے ؟ اگر وہ نزولِ قران کے زمانے میں صحابہِ کرام کے عرف کی بات کررہا ہے   تو پانچویں صدی میں آنے والے شخص زمخشری کی اس بات کو بغیر سند کے کوئی احمق شخص ہی مان سکتا ہے ۔ ہم لوگ تو اس سے اس بات کی سند کا مطالبہ کریں گے ۔وہ اس بات کی سند پیش کریں۔ وہ بھی صحیح ہو   تب ہم اسے مانیں گے ورنہ نہیں ۔ اور اگر وہ اپنے زمانے کے عرف کی بات کر رہا ہے توپھر سوال یہ ہے کہ پانچویں صدی کے عرف سے یہ کیسے لازم آیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی یہی عرف قائم وجاری تھا ؟ کیونکہ عرف تو معمولی سی مدت میں بدل جاتے ہیں ۔ پانچ صدیاں تو بہت دور کا مسئلہ ہے ۔ اسی لیے ہمارے فقہاء کا مشہور قول ہے جو بے شمار کتابوں میں موجود ہےکہ ،، من لم یعرف عرف اھل زمانہ فھو جاھل ،، اگر صدیوں کا عرف ایک ہی رہتا  تب ،، عرف اہل زمانہ ،، کی کوئی وجہ نہیں رہتی ۔اور پھر جناب غامدی ماشاءاللہ حنفی ہیں ۔ فقہ حنفی  سے شناسائی رکھنے والے احباب جانتے ہیں کہ اس میں بہت سارے مسائل کے متعلق آئمہ کے اختلافِ اقوال کے اسباب میں یہ بات کہی جاتی ہے  کہ ہرامام نے اپنے زمانے کے عرف کی بنیاد پر ایسا قول کیا ہے۔، اس سے معلوم ہوتاہے  کہ عرف بہت جلد بدل جاتا ہے   لہذا زمخشری کو سند پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایک اور بات بھی نوٹ کرنے کی ہے  کہ بالفرض جناب غامدی کے اس تاثر دینے کو ہم مان لیں کہ زمخشری دورِ نزولِ قران کے عرف کی بات کرہے ہیں تو پھر تعارض اس کو قبول کرنے میں مانع ہے  کیونکہ جو مفسرین اس آیتِ بقرہ کو اس حدیث سے ،، مخصوص ،،  مان رہے ہیں ۔ان کا تو مذہب یہ ہے کہ ،، میتة ،،  کا حکمِ شرعی ٹڈی اور مچھلی کو بھی شامل ہے ۔ وہ اسی لیے توآیتِ بقرہ کو اس سے مخصوص مان رہے ہیں ۔ اور وہ بھی پھر زمخشری کی طرح نبی صلی اللہ کے دور کی بات کررہے ہیں ۔اور جب مسئلہ ایسا ہو   تو آپ اس میں زمخشری کے قول کولیں گے ، آپ کے مقابل لوگ دیگر آیمہ کے قول کا انتخاب کریں گے ، آپ کے قول کو ترجیح آخر کس طرح حاصل ہوگی ؟ مناقشہ جاری ہے تا قیامت جاری رہے۔ ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے اس لیے کہ قلم کو اٹھالیا ہے ، اب بحث کے خاتمہ پرہی اسے رکھیں گے ، ان شاءاللہ  (2) دوسری بات اس مبحث میں یہ ہے کہ اس دعوی کہ کیا دلیل ہے کہ قران میں ،، میتة ،، سے عرفی معنی مراد ہے ، اور حدیث میں لغوی معنی ؟ محض دعوی کی حد تک تو بندہ مان سکتاہے ۔ مگر اس بات کی واقعی دلیل کیا ہے ؟ حالانکہ دونوں یعنی قران اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں کو شرع سمجھانے آئے تھے ؟ پھر یہ کیا بات ہوئی کہ ایک لغت کے اعتبار سے بات کرتا ہے اوردوسرا عرفی معنی کے اعتبار سے ؟ اس کے بعد اگر آپ عرف کی بات کرتے ہیں تو ہم آپ سے سوال کریں گے کہ کیا آپ عرف سے قران کی تخصیص کے قائل ہیں ؟ اگر جواب نفی میں ہے تو آپ کے اس پوری تحقیق کا خانہ خراب ہوگیاہے ۔پھر زمخشری کے قول کو پیش کرنے کی کیاحاجت تھی ؟ اور اگر جواب اثبات میں ہے   تو پھر دوسرا سوال یہ ہے کہ کس زمانے کے ،، عرف ،، سے آپ قران کی ،، تخصیص وتحدید ،، کے قائل ہیں ؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ صدرِاول کے عرف سے ۔ تو ہم عرض کریں گے کہ پھر یہ بھی دلیل سے ثابت کرکے دکھاؤ کہ زمخشری نے جس عرف وعادت کو نقل کیا ہے وہ صدر اول ہی کا عرف ہے ، یہ کیا چالیں ہیں  کہ ڈھول جاہلی ادب کا بجاتے ہیں اوراستدلال زمخشری کے دور کی عربی سے کرتے ہیں ؟ پھر اس تخصیص پر سوال یہ ہے کہ کیا آپ کے نزدیک ،، عرف ،، وحی الہی سے زیادہ قوی ہے ؟ اور کیا اس عرفی،،تخصیص وتحدید ،، سے قران کے فرقان ومیزان ہونے پر کوئی حرف آتا ہے یا نہیں آتا ؟ اگر نہیں آتا تو کیوں ؟ اور کیسے نہیں آتا ؟ اور اگر اس تخصیص سے بھی اس پر حرف آتا ہے   تو پھر آپ اس کے  قائل کیوں ہیں ؟ (3) تیسری بات اس سلسلہ میں یہ ہے کہ اس تحقیق کا لغت سے کچھ لینا دینا نہیں ہے  جیسا کہ خود زمخشری کی عبارت کی مثالوں سے واضح ہے ۔ بلکہ یہ فقہ کا مسئلہ ہے ۔ بعض فقہاء ایمان  کا مبنی عرف پر مانتے ہیں   جیساکہ احناف کا مذہب ہے ۔ کچھ اورفقہاء ایمان کا مبنی شرع پر مانتے ہیں  جیسا کہ امام مالک وغیرہ کا مذہب ہے ۔اوربعض دیگر فقہاء ایمان کا مبنی لغت پرمانتے ہیں   جیسا کہ امام شافعی وغیرہ کا مذہب ہے ۔ اب زمخشری حنفی نحوی اور بلاغی تو یقینا تھے   مگر فقیہ بہت بڑے نہیں تھے ۔ اس لیے انہوں نے اس قاعدہ سے ادھر استدلال کیا۔ مگر وہ اس کو سمجھ نہیں سکے کہ اس قاعدے سے خود ان کے مذہب پر حرف آتا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ سمکِ طافی کو احناف ،، میتة ،،‌ قرار دے کر لوگوں کو اس کے کھانے سے منع کرتے ہیں گویا زمخشری کے ساتھ وہ ابونواس کے قول والا معاملہ ہوا کہ

قل لمن یدّعی فی العلم فلسفة

حفظت شیئا وغابت عنک اشیاء

مگر لطف تو یہ ہے کہ ہمارے اس کرم فرما کو بھی تنّبہ نہ ہوا ۔ اب اگر آپ عرف کی بات کرتے ہیں   کہ مچھلی عرفا ،، میتة ،، نہیں ہے تو ،، سمکِ طافی ،، کا کیا کریں گے ؟ اور اگرسمکِ طافی والا مسئلہ مانتے ہیں  پھر اس مزعوم عرف کا کیا بنے گا ؟ بعض احناف محققین نے  ،، سمکِ طافی ،، کو ،،  احلت لنا میتتان ودمان السمک والجراد ،، سے مخصوص مان لیا ہے ،، فان قیل قدروی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم احلت لنا میتتان ودمان السمک والجراد ،، وذالک عموم فی جمیعہ قیل لہ یخصہ ماذکرنا وروینا فی النھی عن الطافی ( حکام القران ج1 ص 153) اس سے معلوم ہوا کہ آپ جو بھی محنت کریں گے   یا تو اس ،، حدیث اورحدیثِ عنبر ،، کو اپنے حال پر چھوڑدیں گے   اور قرانی آیت کو عرف سے مخصوص کریں گے۔ اس پر وہ سارے شکالات وارد ہوتے ہیں جو اوپر درج ہوگئے ہیں ۔ یا پھر سمکِ طافی وغیرہ کو بھی ،، میتةِ محرّمہ ،، میں شامل کریں گے ۔ اگر ایساکریں گے تو پھر علماء کرام کا ہی مذہب ثابت ہوگا کہ ،، حدیث ،، سے قران کی تخصیص وتحدید ہو سکتی ہے ۔ فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم ؟ یہ باتیں تو ہم نے لکھی ہیں ۔ مگراحباب کو یہ سن کر بہت لطف آجائے گا کہ خود جناب غامدی نے بھی اپنی اس بات یعنی تخصیص بالعرف کی نفی دوسری جگہ کی ہے ۔پہلے یہ دیکھ لیں کہ وہ چار حیوانات کے تخصیص بالحرمت سے متعلق یہ بتاتے ہیں کہ چونکہ ان کے حرمت وحلت کو  سمجھنے میں عقل اور فطرت کی راہنمائی تنہا کافی نہیں تھی ۔ پھرانہوں نے ان چار محرمات کو سمجھانے کےلیے چار سوالات قائم کیے ہیں ۔ ایک ان سوالات میں ،، میتة ،، کے متعلق بھی ہے ۔ اس سوال کے الفاظ یہ ہیں ،، جوجانور جنہیں ہم ذبح کرکے کھاتے ہیں   اگر تذکیے کے بغیرمرجائیں   توان کا کیاحکم ہونا چاہئے ( میزان ص 36 ، 630) اس سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ جناب غامدی کے نزدیک حلال حیوان کا بغیر تذکیہ کے مرنا ،، میتة ،،  کا مصداق ہے ۔ مگر اب ان کی ایک اور عبارت ملاحظہ کرلیں   جس میں خنزیر کو بھی ،، میتة ،، میں ضمنا  شامل کیاہے۔ نہ اپنی بات کا خیال کیا اورنہ ہی زمخشری کی تحقیق کا ۔لکھتے ہیں ،، یہ سب چیزیں( یعنی حیواناتِ محرمہ) جس طرح کہ قران کی ان آیات سے واضح ہے ، صرف خورو نوش کے لیے حرام ہیں ۔ رہے ان کے دوسرے استعمالات تو وہ بالکل جائز ہیں ۔کسی صاحبِ ایمان کو اس معاملے میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے ۔ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت کے مطابق یہ بات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر صراحت کے ساتھ بیان فرمائی ہے ،، قال تصدق علی مولاة لمیمونة بشاة فماتت فمربھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال ھلا اخذتم اھابھا فدبغتموہ فانتفعتم بہ ؟ فقالوا انھا میتة فقال انماحرم اکلھا ( ترجمہ) سیدہ میمونہ کی ایک لونڈی کو بکری صدقے میں دی گئی تھی وہ مرگئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہاں سے گذرہوا ، تو آپ نے فرمایا   تم نے اس کی کھال کیوں نہیں اتاری کہ دباغت کے بعد اس سے فائدہ اٹھاتے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ یہ تو مردار ہے ؟ آپ نے فرمایا اس کا صرف کھانا ہی حرام ہے ( میزان ص 638) جناب کو شاید یاد نہیں رہا کہ یہ تو بکری تھی ؟ مگر اس کے باوجود جناب نے اس  ،، حدیث ،، کو ،، ان سب چیزوں کے دوسرے استعمالات کےلیے دلیلِ جواز کے طور پر ذکر کیا ہے ،، جس سے ہماری بات کامطلب واضح ہے ۔ اگر کوئی شخص کہے کہ جناب نے یہ حدیث صرف اس ،، میتة ،، کے لیے ذکر کی ہے   جو اصل میں حلال تھی  تو ہم دو باتیں عرض کریں گے ۔ ایک یہ ہے کہ یہ بات سیاق و سباق سے بالکل مناسبت نہیں کھاتی ۔ پوری عبارت پڑھ لیں اندازہ ہوجائے گا ۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ پھر خنزیر وغیرہ کے دیگر استعمالات کےلیے وہ دلیل لاتے جو ان کے اورہمارے درمیان موردِ نزاع ہے ۔ بکری کی کھال میں دباغت کے بعد کیا نزاع تھی کہ انھوں نے اس پر دلیل قائم کردی ؟ (4) چوتھی اورآخری بات اس مبحث میں یہ ہے کہ اگر آپ یہاں زمخشری کی اس بات کو مانتے ہیں کہ قران میں ،، میتة ،، عام نہیں ہے بلکہ مخصوص ہے   کیونکہ یہ عرف اورعادت پر مبنی ہے   توہم عرض کریں گے   کہ کیا عرف اور عادت آپ ہرجگہ مانتے ہیں یابعض جگہ ؟ اگربعض جگہ مانتے ہیں  تو اس کی دلیلِ تخصیص بیان کریں ؟ اور اگر ہرجگہ مانتے ہیں تو کیا عرف میں ھدھد اور نملہ کے کلام کو  ،، کلام ،، کہا جاتا ہے  اور کیاکلام کے عرفی میں یہ شامل ہیں؟ اگر ایک آدمی یہ قسم کھائے کہ میں کسی سے کلام نہیں کرونگا   تواس نے نملہ سے کلام کیا ۔ کیا وہ حانث ہوجائے گا یا نہیں ؟ اگر حانث ہوجائے گا تو یہ زمخشری گروپ کا مذھب نہیں ہے  کیونکہ اس کو عرف میں ،، کلام ،، نہیں کہا جاتا ۔ اوراگر آپ کا یہ قول ہے کہ وہ حانث نہیں ہوگا  کیونکہ وہ متکلم نہیں ہے۔تو ہم عرض کریں گے  کہ قران کی رو سے تو وہ متکلم ہے ۔اسی طرح ھدھد کا مسئلہ ہے ۔اسی طرح مردوں سے ، قبور میں ،، کلام ،، یعنی سوالات وجوابات کامسئلہ ہے   وہ بھی عرف میں تو ،،کلام ،،  نہیں ہے ، اس کا کیا ہوگا ؟ کیا آپ اس مذہب کو چھوڑدیں گے ؟ یا  پھر ان کے ،، کلام ،، کے منکر بن جائیں گے ، فیصلہ تیراتیرے ہاتھوں میں دل یاشکم ؟

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…