غامدی صاحب اور مرتد کی سزا

Published On October 18, 2024
انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض

انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض

محمد خزیمہ الظاہری دین و شریعت کے قابلِ قبول ہونے کے لئے تواتر کی شرط لگانا روافض و خوارج کی ایجاد ہے۔ اہل علم نے ہمیشہ اس موقف کی تردید کی ہے۔ ان اہل علم کا تعلق صرف اہل ظاہر سے نہیں بلکہ ان میں کثرت سے مذاہبِ اربعہ کے فقہاء بھی شامل ہیں۔ چنانچہ امام بخاری نے اپنی...

ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر

ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر

محمد خزیمہ الظاہری دین کی ہر ہدایت کا تواتر سے منتقل ہونا ضروری نہیں ہے اور نا ہی کسی نقل ہونے والی چیز کے ثبوت کا اکلوتا ذریعہ تواتر ہے.. سب سے پہلی اصل اور بنیاد کسی بات کے ثبوت پر اطمینان ہے اور اسکے لئے ہمہ وقت تواتر کا احتیاج نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی لٹریچر کو...

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

محمد خزیمہ الظاہری منکرین حدیث جس تواتر کا چرچا کرتے ہیں یہ از خود ہمیشہ ان اخبار و روایات کا محتاج ہوتا ہے جسے ظن و آحاد قرار دے کر انکی اہمیت گھٹائی جاتی ہے۔ متواتر چیز سے متعلق جب تک روایات اور اخبار کے ذریعے سے یہ بات معلوم نا ہو کہ گزشتہ تمام زمانوں میں وہ بات...

پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم كی مستند احادیث كى بنا پر علماے امت كا مرتد كى سزا قتل ہونے پر اجماع ہے،  كتب ِاحاديث اور معتبر كتب ِتاريخ سے ثابت ہے كہ چاروں خلفاے راشدين نے اپنے اپنے دور ِخلافت ميں مرتدين كو ہميشہ قتل كى سزا دى ،  ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مرتدوں کیخلاف جہاد مشہور ہے۔ غامدی صاحب کا  موقف ان سب سے بالکل الٹ ہے ۔ ایک جگہ  لکھتے  ہيں :”ارتداد كى سزا كا يہ مسئلہ محض ايك حديث كا مدعا نہ سمجهنے كى وجہ سے پيدا ہوا ہے۔ابن عباس كى روايت ہے۔ يہ حديث بخارى ميں اس طرح نقل ہوئى ہے من بدل دينه فاقتلوه ۔جو مسلمان اپنا دين بدل لے تو اسے قتل كردو “ہمارے فقہا اسے بالعموم ايك حكم قرار ديتے ہيں جس كا اطلاق ان كے نزديك ان سب لوگوں پر ہوتا ہے جو زمانہ رسالت سے لے كر قيامت تك اس زمين پر كہيں بهى اسلام كو چهوڑ كر كفر اختيار كريں گے۔ ان كى رائے كے مطابق ہر وہ مسلمان جو اپنى آزادانہ مرضى سے كفر اختياركرے گا، اسے اس حديث كى رو سے لازماً قتل كرديا جائے گا- اس معاملے ميں ان كے درميان اگر كوئى اختلاف ہے تو بس يہ كہ قتل سے پہلے اسے توبہ كى مہلت دى جائے گى يا نہيں اور اگر دى جائے گى تو اس كى مدت كيا ہونى چاہئے “. (برہان: صفحہ 127، مطبوعہ ستمبر 2001ء) مزيد فرماتے ہيں كہ “ليكن فقہا كى يہ رائے كسى طرح صحيح نہيں ہے- رسول اللہ كا يہ حكم تو بے شك ثابت ہے مگر ہمارے نزديك يہ كوئى حكم عام نہ تها بلكہ صرف انہى لوگوں كے ساتھ خاص تها جن ميں آپ كى بعثت ہوئى  ”  مزيد لكھتے ہيں كہ”ہمارے فقہا كى غلطى يہ ہے كہ انہوں نے قرآن و سنت كے باہمى ربط سے اس حديث كا مدعا سمجهنے كے بجائے اسے عام ٹھہرا كر ہر مرتد كى سزا موت قرار دى اور اس طرح اسلام كے حدود و تعزيرات ميں ايك ايسى سزا كا اضافہ كردياجس كا وجود ہى اسلامى شريعت ميں ثابت نہيں ہے”۔(برہان صفحہ 143، طبع 2006)
غامدی صاحب حدیث میں موجود حکم کو  حضور کے دور کیساتھ  خاص   قرار دے رہے ہیں حالانکہ  حدیث بالکل تخصیص نہیں کررہی ،  حدیث  میں لفظ  ” مَنْ (جو ) استعمال ہوا ہے،  غامدی صاحب کی  لغت میں شاید یہ’ خاص’ کے  معنی میں اورصرف  مشرکین کے لیے  استعمال ہوتا ہو  ۔  لیکن ایک اور حدیث میں یہی لفظ آیا ہے “من غش فليس منا”جس نے دھوكہ ديا، وہ ہم ميں سے نہيں” کیا یہاں بھی  وعید  دهوكہ دينے والے سے  حضور کے دور کا  خاص فرد مراد ہے؟۔ غامدی صاحب اپنی کتاب میزان میں ایک اصول بیان کرتے ہیں جسکی وہ یہاں خلاف ورزی بھی کرگئے ہیں ۔ فرماتے ہیں “کسی حدیث کا مدعا متعین کرتے وقت اس باب کی تمام روایات پیش نظر رکھی جائیں ، بارہا ایسا ہوتا ہے کہ آدمی حدیث کا ایک مفہوم سمجھتا ہے لیکن اسی باب کی تمام روایتوں کا مطالعہ کیا جائے تو وہ مفہوم بالکل دوسری صورت میں نمایا ں ہوتا ہے۔(میزان، صفحہ 73، طبع دوئم، اصول و مبادی صفحہ 72، طبع فروری 2005) انکے اسی اصول کو دیکھتے ہوئے ہم انکے سامنے  دوسری صحیح حدیث پیش کرتے ہیں ” حضرت عبداللہ بن مسعودسے روايت ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا: كسى مسلمان كا خون بہانا جائز نہيں جو يہ گواہى ديتا ہو كہ اللہ كے سوا كوئى معبود نہيں اور يہ كہ ميں اللہ كا رسول ہوں ، ما سوا تين صورتوں كے:ايك يہ كہ اس نے كسى كو قتل كيا ہو، دوسرى يہ كہ وہ شادى شدہ زانى ہو اور تيسرى يہ كہ وہ اپنا دين چهوڑ كر (مسلمانوں كى) جماعت سے الگ ہوجائے-” یہ حدیث نا صرف  انکے اس مرتد کی سزا بلکہ رجم  کی سز ا کے متعلق موقف  کو بھی  غلط ثابت کررہی ہے ۔
اپنی سائیٹ پر یہاں  غامدی صاحب   کے ایک شاگرد نے ان کے موقف کے مطابق  ارتداد کے مسئلہ کو   سورة التوبہ كى جہاد کے متعلق آيت ٥ سے جوڑا ہے۔ علمى ديانت كا تقاضا تو يہ تها كہ مرتد  کے متعلق  حديث كو قرآن مجيد کی  ارتداد اور مرتدين  کے متعلق آیات سے جوڑا جاتامگر ايسا دانستہ طو رپر نہيں كيا گيا۔ بھلا مرتد كے بارے ميں مذكورہ ا حاديث کا  جہاد و قتال   کی اس آیت کیساتھ  کیا تعلق   ؟ “پهر جب حرام مہينے گزر جائيں تو ان مشركين كو جہاں پاؤقتل كردو اور اس كے لئے ان كو پكڑو اور ان كو گھيرو اور ہر گهات ميں ان كے لئے تاك لگاؤليكن اگر وہ كفر و شرك سے توبہ كرليں اور نماز كا اہتمام كريں اور زكوٰة ادا كرنے لگيں تو انہيں چهوڑ دو- بے شك اللہ مغفرت كرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے-“(سورة التوبہ :٥) کیا  یہاں مشرکین سے مراد  مرتدین ہیں؟  موصوف  نے اس آیت سے ارتداد کے مسئلہ کے لئے  معلوم نہیں کہاں سے حکم  نکال لیا؟ حالانکہ قرآن کی ہر آیت اور تقریبا ہر صحیح حدیث کا پس منظر موجود ہے اور   پھر آج تک  کسی ایک  صحابی، تابعی، مستندمفسر   کے  بھی   ارتداد کے متعلق اس حدیث کو جہاد و قتال کے متعلق اس  آیت کے ساتھ جوڑنے کا ثبوت موجود نہیں ۔ کیا  يہ بات زيادہ معقول اور قابل فہم  نہیں  كہ اس بارے ميں واضح احادیث و اقوال صحابہ اور  چودہ صديوں كے جملہ علماے اسلام كو غلط ٹھہرانے كى بجائے صرف اس نوزائيدہ عجمى شخص  کی من مانی تاویلات کو  غلط قرار دے  دياجائے ۔ ؟

بشکریہ ویب سائٹ

بنیاد پرست

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…