مقدمہ 1: غامدی صاحب اپنا ایک اصول حدیث لکھتے ہیں کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کے اخبار آحاد جنہیں بالعموم ‘حدیث’ کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ ان سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا ہرگز کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔” ( میزان :ص10،11 طبع دوم اپریل 2002ء، لاہور، واصول و مبادی: ص11، طبع دوم فروری 2005ء، لاہور)
غامدی صاحب کے نزدیک (1)حدیث صرف اخبار آحاد کا نام ہے۔(2) کسی حدیث سے دین کا کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا۔ (3)کسی حدیث سے دین کا کوئی عمل ثابت نہیں ہوتا۔
پہلی بات حدیث صرف اخبار آحاد کا نام نہیں بلکہ اس میں اخبار متواترہ بھی شامل ہیں ۔ یہ منکرین حدیث کی ایک دلیل ہے کہ احادیث کو خبر واحد کہہ کر یہ یقینی نہیں ، احادیث سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ جب اخبار احاد کے نقل کرنے کے راستے متعدد ہوں اور انکی سندیں بھی درست ہوں اور انکی معارض احادیث بھی موجود نہ ہوں تو یہ خبریں یقین کا فائدہ ہی دیتی ہیں ، جیسے حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول کے متعلق احادیث۔دوسری بات غامدی صاحب کے نزدیک دین حدیث کے بغیر بھی مکمل ہے اس سے کوئی عقیدہ یا عمل ثابت نہیں ہوتا ، حدیث کے بغیر دین کا یہ تصور بھی صرف منکرین حدیث کے ہاں پایا جاتا ہے۔ اہل اسلام کے ہاں اسلام نام ہی قرآن و حدیث کے مجموعے کا ہے۔تیسری بات غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حدیث سے دین کا کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسلام کے جو عقائد حدیث سے ثابت ہیں ، یہ ان سب کے منکر ہیں ۔ جیسے تقدیر پر ایمان لانا ، قبر کا عذاب (صحیح بخاری:1372)قبر میں فرشتوں کا آنا اور میت سے سوال و جواب کرنا (صحیح بخاری:1338) ختم نبوت کا عقیدہ اور مدعی ٔ نبوت کا واجب القتل ہونا۔ (صحیح بخاری:3535،سنن ابی داود:4252)، عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان پر زندہ اُٹھایا جانا (رفع عیسی) ؛ اور اُن کا دوبارہ قیامت کے قریب دنیا میں تشریف لانا (نزولِ عیسیٰ ) (صحیح بخاری:2222) وغیرہ وغیرہ اس طرح کے مزید بہت سے مسلّمہ اسلامی عقائد ہیں جنکی وضاحت اور ثبوت صرف حدیث ملتا ہے۔ اب اگر غامدی صاحب کے اس نظریے کو درست مان لیا جائے کہ حدیث سے دین کا کوئی عقیدہ ثابت نہیں ہوتا تو ہمیں بہت سے مسلمہ اسلامی عقائد کو ترک کرنا پڑے گا ۔چوتھی باتغامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حدیث سے دین کا کوئی عمل یا حکم ثابت نہیں ہوتا ،حالانکہ: شراب نوشی پر سزا(صحیح مسلم:1706)مردوں کے لئے داڑھی بڑھانا(صحیح بخاری:5893)عورتوں کے لئے خاص ایام میں نماز کا معاف ہونا(صحیح بخاری:306)مردوں کے لئے سونے کے استعمال کا حرام ہونا (سنن ترمذی:1720)مردوں کے لئے ریشم کا لباس پہننے کی ممانعت و حرمت (صحیح بخاری:5833)کسی مسلمان مرد کے لئے اپنی پھوپھی، بھتیجی یا خالہ ، بھانجی کو بیک وقت نکاح میں رکھنے کا حرام ہونا (صحیح بخاری:5109)نماز تراویح (صحیح بخاری:1147)مختلف قسم کے اموال پر زکوٰۃ کے نصابات وغیرہ جیسے سینکڑوں دینی اعمال و احکامات صرف احادیث سے ہی ثابت ہیں ۔
مقدمہ2: غامدی صاحب اپنی کتاب ‘میزان’ میں لکھتے ہیں کہ: ”قرآن سے باہر کوئی وحی خفی یا جلی، یہاں تک کہ خدا کا وہ پیغمبر بھی جس پر یہ نازل ہوا ہے،اس کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص یا اس میں کوئی ترمیم و تغیر نہیں کر سکتا۔ دین میں ہر چیز کے ردّ و قبول کا فیصلہ اس کی آیات بینات ہی کی روشنی میں ہو گا۔”( میزان: ص 25، طبع سوم مئی 2008ء لاہور)
مزید لکھتے ہیں کہ:”حدیث سے قرآن کے نسخ اور اس کی تحدید و تخصیص کا یہ مسئلہ سوے فہم اور قلتِ تدبر کا نتیجہ ہے۔ اس طرح کا کوئی نسخ یا تحدید و تخصیص سرے سے واقع ہی نہیں ہوئی کہ اس سے قرآن کی یہ حیثیت کہ وہ میزان اور فرقان ہے، کسی لحاظ سے مشتبہ قرار پائے۔”(میزان: ص 35، طبع سوم مئی 2008ء لاہور)
معلوم ہوا کہ غامدی صاحب کے نزدیک (1)دین میں ہر چیز کے ردّ و قبول کا فیصلہ صرف قرآن کی روشنی میں ہو گا۔ (2)حدیث کے ذریعے قرآن کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص نہیں ہو سکتی۔(3)اگر قرآن کے کسی حکم میں حدیث سے تحدید و تخصیص مان لی جائے تو اس سے قرآن کا میزان اور فرقان ہونا مشتبہ اور مشکوک ہو جاتا ہے۔
(1)غامدی صاحب کا یہ دعوی ہے کہ دین میں ہر چیز کے ردّ و قبول کا فیصلہ صرف قرآن کی آیات بینات کی روشنی میں ہو گاجبکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:”اے ايمان والو! اطاعت كرو الله کی اور اطاعت كرو رسول كی اور ان كی جو تم میں سے اہل اختیار ہیں۔ پھر اگر تمہارے درمیان کسی چیز میں اختلاف ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو’﴿ سورة النساء ٥٩﴾غامدی صاحب کے استاد مولانا امین احسن اصلاحی اس آیت کے تحت لکھتے ہیں :”رد إلی اللہ والرسول کا طریقہ یہ ہے کہ جب کسی امر میں شریعت کا حکم معلوم کرنا ہو تو پہلے کتاب اللہ کی طرف رجوع کرے۔ اگر اس میں نہ ملے تو نبی کی سنت کی طرف رجوع کرے۔ اگر اس میں نہ ملے تو پھر اس کے معلوم کرنے کا راستہ اجتہاد ہے۔”( تدبر قرآن: جلد 2، ص 325، طبع 1983ء لاہور)مولانا مزید لکھتے ہیں :” آیت خود شہادت دے رہی ہے کہ اس کا تعلق مستقبل ہی سے ہے۔ ظاہر ہے کہ حضور کی وفات کے بعد آپ کی سنت ہی ہے جو آپ کے قائم مقام ہو سکتی ہے۔(2)غامدی صاحب کا دوسرا دعوی ہے کہ حدیث کے ذریعے قرآن کے کسی حکم کی تحدید و تخصیص نہیں ہوتی۔ تحدید کی دو مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
”اور جن بيويوں سے تمہیں سر کشی کا اندیشہ ہو اُنہیں سمجھاؤ، ان سے ہم بستری چھوڑ دو اور (اس پر نہ مانیں تو) اُنہیں مارو”…﴿ سورة النساءٰ٣٤﴾… ایک حدیث کے ذریعے قرآن کے اس مطلق حکم میں یہ تحدید ہو گئی ہے کہ صرف ایسی مار جائز ہے جو اتنی تکلیف دہ نہ ہو کہ اس سے کسی عضو کو کوئی نقصان پہنچ جائے۔”(صحیح مسلم حدیث: 2950) دلچسپ بات یہ ہے کہ غامدی صاحب اپنی کتاب ‘میزان’ اور ‘قانونِ معاشرت’ میں اس تحدید کو مانا ہے ، لکھتے ہیں کہ: ”نبی نے اس کی حد ‘غیر مبرح’ کے الفاظ سے متعین فرمائی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایسی سزا نہ دی جائے جو کہ پائیدار اثر چھوڑے”(میزان: ص 423، طبع سوم 2008ء، لاہور؛ قانونِ معاشرت، ص 30، طبع اوّل، مئی 2005ء، لاہور)دین کے بارے میں ایسے کھلے تضاد کا حامل ہونا صرف غامدی صاحب ہی کو زیب دیتا ہے۔
تحدید کی دوسری مثال:”اور وہ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ آپ کہیں وہ ایک گندگی ہے لہٰذا اس میں بیویوں سے الگ رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں، اُن کے قریب نہ جاؤ۔”﴿ سورة البقرة ٢٢٢﴾…صحیح احادیث سے قرآن کے اس مطلق حکم کی تحدید ثابت ہوئی کہ ایسی حالت میں بیویوں سے صرف مباشرت منع ہے، اس کے سوا سب کچھ جائز ہے۔
اسی طرح حدیث کے ذریعے کسی قرآنی حکم میں تخصیص واقع ہونا اہل علم کے نزدیک ثابت ہے۔ اس کی پہلی مثال یہ ہے:”اللہ تمہارے اولاد کے بارے میں تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ (وراثت میں) ایک لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ دیا جائے۔”﴿ سورة النساء ١١﴾…لیکن صحیح حدیث میں ہے کہ:’قاتل وارث نہیں ہو سکتا۔” (سنن ابو داؤد، کتاب الدیات، حدیث 4564) اس لئے اگر کوئی بد بخت لڑکا اپنے باپ کو قتل کر دے گا تو مذکورہ حدیث کے حکم کے مطابق اپنے مقتول باپ کی میراث سے محروم ہو جائے گا۔
تخصیص کی دوسری مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:”اور اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام ٹھہرایا ہے۔”﴿ سورة البقرٰة ٢٧٥﴾…مذکورہ آیت ہر طرح کی تجارت کو حلال ٹھہراتی نظر آتی ہے، لیکن صحیح بخاری میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ”بے شک اللہ اور اس کے رسول نے شراب، مردہ جانور، خنزیر اور بتوں کی تجارت کو حرام قرار دیا ہے۔”(صحیح بخاری: کتاب البیوع، حدیث 2236)
(3)غامدی صاحب لکھتے ہیں کہ اگر حدیث سے کسی قرآن حکم کی تخصیص یا تحدید مان لی جائے تو اس سے قرآن کا میزان اور فرقان ہونا مشتبہ ہو جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حدیث کے ذریعے قرآنی احکام میں تخصیص اور تحدید واقع ہونے سے قرآن مجید کا فرقان ہونا قطعا مشتبہ نہیں ہو جاتا بلکہ اس سے قرآن احکام کی وضاحت ہو جاتی ہے اور ان کا صحیح مدعا اور منشا معلوم ہو جاتا ہے جیسا کہ اوپر کی مثالوں سے واضح ہے۔
غامدی صاحب اپنی کتاب ‘میزان’ میں ‘مبادئ تدبر حدیث’ کے عنوان کے تحت حدیث کے متعلق اپنا موقف ذرا کھل کر لکھتے ہیں “نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کی روایتیں جو زیادہ تر اخبار آحاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں اور جنہیں اصطلاح میں ‘حدیث’ کہا جاتاہے، ان کے بارے میں یہ دو باتیں ایسی واضح ہیں کہ کوئی صاحب علم انہیں ماننے سے انکار نہیں کرسکتا۔ایک یہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی حفاظت اور تبلیغ و اشاعت کے لئے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا۔دوسری یہ کہ ان سے جو علم حاصل ہوتا ہے، وہ کبھی علم یقین کے درجے تک نہیں پہنچتا۔(میزان: ص68، طبع اپریل 2002ئ، لاہور)
یہی اصل میں غامدی صاحب کے نزدیک حدیث کا مقام ہے( ان دونوں باتوں کا جواب ہم منکرین حدیث کے متعلق تحریر میں دے چکے ہیں)۔اگر غور کیا جائے تو غامدی صاحب کا حدیث کے متعلق موقف مسٹر پرویز سے ذیادہ مختلف نہیں ہے، فرق صرف یہ ہے غامدی صاحب اس سے ذرا چالاک واقع ہوئے ہیں ، صریح انکار سے بچتے ہیں تاکہ احادیث کے انکار کی وجہ سے کفر کا فتوی نہ لگ سکے اور اپنے موقف پر ضرورت کے وقت احادیث سے بھی دلیل اٹھائی جاسکے۔