سود اور غامدی صاحب

Published On February 10, 2025
( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد پچھلی قسط کے اختتام پر لکھا گیا کہ ابھی یہ بحث پوری نہیں ہوئی، لیکن غامدی صاحب کے حلقے سے فوراً ہی جواب دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اگر جواب کی طرف لپکنے کے بجاے وہ کچھ صبر سے کام لیتے اور اگلی قسط پڑھ لیتے، تو ان حماقتوں میں مبتلا نہ ہوتے جن میں...

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حج اور جہاد کی فرضیت صرف اسی کےلیے ہوتی ہے جو استطاعت رکھتا ہو۔ بظاہر یہ بات درست محسوس ہوتی ہے، لیکن اس میں بہت ہی بنیادی نوعیت کی غلطی پائی جاتی ہے اور اس غلطی کا تعلق شرعی حکم تک پہنچنے کے طریقِ کار سے ہے۔ سب سے پہلے...

جہاد، قادیانی اور غامدی صاحب، اصل مرض کی تشخیص

جہاد، قادیانی اور غامدی صاحب، اصل مرض کی تشخیص

حسان بن علی بات محض حکمت عملی کے اختلاف کی نہیں کہ مسلمان فی الحال جنگ کو چھوڑ رکھیں بلکہ بات پورے ورلڈ ویو اور نظریے کی ہے کہ غامدی صاحب کی فکر میں مسلمانوں کی اجتماعی سیادت و بالادستی اساسا مفقود ہے (کہ خلافت کا تصور ان کے نزدیک زائد از اسلام تصور ہے)، اسى طرح...

مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟

مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟

ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عمر عزیز کا بیشتر حصہ قرآن مجید کی خدمت میں صرف ہوا ہے۔ لیکن یہ قرآن مجید کے بجائے عربی زبان و ادب کی خدمت تھی یا تخصیص سے بیان کیا جائے تو یہ قرآن مجید کے عربی اسلوب کی خدمت تھی۔ قرآن مجید کا انتخاب صرف اس لئے کیا گیا تھا کہ...

خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت

خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت

ڈاکٹرزاہد مغل علم کلام کے مباحث کو غیر ضروری کہنے اور دلیل حدوث پر اعتراض کرنے کے لئے جناب غامدی صاحب نے ایک ویڈیو ریکارڈ کرائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن سے متعلق دیگر علوم جیسے کہ اصول فقہ، فقہ و تفسیر وغیرہ کے برعکس علم کلام ناگزیر مسائل سے بحث نہیں کرتا اس لئے کہ...

غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب

غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب سے جہاد کی فرضیت کے متعلق علماے کرام کے فتوی کے بارے میں پوچھا گیا، تو انھوں نے تین صورتیں ذکر کیں:۔ایک یہ کہ جب کامیابی کا یقین ہو، تو جہاد یقینا واجب ہے؛دوسری یہ کہ جب جیتنے کا امکان ہو، تو بھی لڑنا واجب ہے اور یہ اللہ کی طرف سے نصرت...

حسان بن علی

غامدی صاحب کے ہاں سود دینا (سود ادا کرنا) حرام نہیں ہے (جس کی کچھ تفصیل ان کی کتاب مقامات میں بھى موجود ہے) اور جس حدیث میں سود دینے والے کی مذمت وارد ہوئی ہے، غامدی صاحب نے اس میں سود دینے والے سے مراد وہ شخص لیا ہے جو کہ سود لینے والے کے لیے گاہک تلاش کرتا ہے ليكن حدیث میں وارد الفاظ “مُوكِله” کا یہ ترجمہ اور مفہوم قطعا درست نہیں کیونکہ جیسے “آكِل الربا” کا ترجمہ سود کھانے والا کیا جاتا ہے اور درحقیقت اس سے مراد سود لینے والا ہوتا ہے اسی طرح “مُوکِل الربا” کا ترجمہ سود کھلانے والا جب کیا جائے گا تو درحقیقت اس سے مراد سود دینے والا ہی ہوگا نہ کہ وہ جو کہ سود لینے والے کے لیے گاہک تلاش کرے.
ليكن غامدی صاحب نے لفظی اردو ترجمے (سود کھلانے والا) کو مترجم زبان میں محاورے کا رنگ دیتے ہوئے، اس سے اپنی مرضی کا مفہوم اخذ کرنے کی کوشش کی ہے یعنی سود کھلانے والے سے مراد سود دینے والا نہیں بلکہ سود خور کو گاہک فراہم کرنے والا ہے، وہ اس طرح کہ وہ سود خوری کے گاہک فراہم کر کے سود خور کو سود کھلاتا ہے. ليكن در حقیقت یہ غلطی ان سے اپنی زبان میں محاورے کو گھسیٹنے سے ہوئی جبکہ کوئی عام عرب ایسی غلطی غلطی سے بھی نہیں کر سکتا.
مزید یہ کہ صحیح مسلم کی ہی ایک اور حدیث میں جہاں سود کی ایک خاص قسم (ربا الفضل) کی حرمت بیان ہوئی وہاں الفاظ یہ ہیں “الآخذ والمعطي سواء في الربا” یعنی سود کے معاملے میں لینے والا اور دینے والا جرم کرنے میں برابر ہیں اور زیر نظر حدیث کے آخر میں بھی یہی الفاظ ہیں کہ سود کھانے والا سود کھلانے والا اسی طرح سود کی کتابت کرنے والا اور سود پر گواہ بننے والے سب جرم کرنے میں برابر ہیں (واضح رہے کہ دونوں چیزوں میں فرق ہے ایک یہ کہ جرم کرنے میں برابر ہونا اور دوسرا یہ کہ برابر کے مجرم ہونا)
دوسرا غامدى صاحب کا یہ اشکال کہ سود دینے والا (قرض دار) ہر حالت میں مظلوم يا لائق ہمدردی ہوتا ہے درست نہیں کیونکہ
ضروری نہیں کہ سود دینے والا (قرض دار) اپنی ذاتی ضرورت اور حاجت کے لیے قرض لے بلکہ سودی معاملے کی نوعیت تجارتی سود کی بھی ہو سکتی ہے کہ جہاں قرض لینے والے کی غرض بھی اس سے مزید مال بنانا ہو. کیا اس صورت میں بھی وہ سودى قرض لینے کے لیے مجبور سمجھا جائے گا اور ايسى مجبوری کا اعتبار كيا جائے گا؟
اسى طرح معاملے کی نوعیت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ قرض دار کا قرض خواه کو بڑھا چڑھا کر سود كى ادائیگی کی ضمانت دینا اور اپنے اس حربے کے ذریعے قرض خواه سے زیادہ قرضہ وصول کرنا ہو. تو کیا اس صورت میں بھی اس کا عمل لائق ہمدردی ہو سکتا ہے؟
درحقيقت غامدی صاحب کے اس موقف میں بھی جو اصل فکر يا اصول کار فرما ہے وہ یہی ہے کہ قرآن میں چونکہ سود دینے والے کى مذمت مذکور نہیں اور ان کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حیثیت نہیں کہ وہ کوئی مستقل بذات حکم خود سے بیان کر سکیں جس کا قرآن میں کسی صورت ذکر نہ ہو لہذا اگر بالفرض حدیث میں ايسى کوئی چیز واضح طور نظر آ بھی رہی ہو تو اسے نظر کا دھوکہ سمجھا جائے گا!

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…