سود ، غامدی صاحب اور قرآن

Published On February 10, 2025
نظریہ ارتقا اور غامدی صاحب

نظریہ ارتقا اور غامدی صاحب

محمد حسنین اشرف حالیہ ویڈیو میں غامدی صاحب نے نظریہ ارتقا پر بات کرتے ہوئے ایک بہت ہی صائب بات فرمائی کہ نظریہ ارتقا سائنس کا موضوع ہے اور اسے سائنس کا موضوع ہی رہنا چاہیے۔ دوسری بات انہوں نے یہ فرمائی کہ اپنے بچوں کو سائنس کی تحلیل سکھانی چاہیے۔ یہ بات بھی صائب ہے...

تصوف پر جناب احمد جاوید صاحب اور جناب منظور الحسن صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

تصوف پر جناب احمد جاوید صاحب اور جناب منظور الحسن صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب محترم جناب احمد جاوید صاحب نے تصوف سے متعلق حال ہی میں اس رائے کا اظہار فرمایا ہے کہ فقہ و کلام وغیرہ کی طرح یہ ایک انسانی کاوش و تعبیر ہے وغیرہ نیز اس کے نتیجے میں توحید و نبوت کے دینی تصورات پر ذد پڑی۔ ساتھ ہی آپ نے تصوف کی ضرورت کے بعض پہلووں پر...

تصوف پر جناب منظور الحسن صاحب کے ایک اعتراض کا جائزہ

تصوف پر جناب منظور الحسن صاحب کے ایک اعتراض کا جائزہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب مکتب فراہی کے منتسبین اہل تصوف پر نت نئے الزامات عائد کرنے میں جری واقع ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب و جناب غامدی صاحب سے گزرتا ہوا اب ان کے شاگردوں میں بھی حلول کررہا ہے۔ جس غیر ذمہ داری سے مولانا اصلاحی و غامدی صاحبان اہل تصوف...

شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے

شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد صاحب   کچھ دن قبل اس موضوع پرفیسبک پر مختصر پوسٹ کی تھی کہ یہ فرق غیرمنطقی، غیر اصولی اور غیر ضروری ہے۔ جسے آپ شریعت کہتے ہیں وہ آپ کا فہم شریعت ہی ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مثال کے طور پر غامدی صاحب نے اپنے تئیں شریعت کو فقہ کے انبار...

۔”خدا کو ماننا فطری ہے”  مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

۔”خدا کو ماننا فطری ہے” مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب علم کلام کو لتاڑنے والے حضرات کی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وجود باری پر یقین رکھنا بدیہیات میں سے ہے، لہذا متکلمین دلائل دے کر بے مصرف و غیر قرآنی کام کرتے ہیں۔ یہاں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی کتاب "فلسفے کے بنیادی مسائل قرآن مجید کی روشنی...

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

مولانا نیاز محمد مروت صاحب جناب جاوید غامدی صاحب نے مردوں کے داڑھی رکھنے کے معمول چلے آنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داڑھی رکھنے کی عادت کا اعتراف کیا ہے ، جو کہ حق بات ہے، بشرطیکہ طبعی عادت کے طور پر نہیں، بلکہ معمول کے طور پر داڑھی رکھنا مراد ہو، چنانچہ اس پر...

حسان بن علی

پہلے یہ جاننا چاہیے کہ قرآن نے اصل موضوع سود لینے والے کو کیوں بنایا. اسے درجہ ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے
١) چونکا سود کے عمل میں بنیادی کردار سود لینے والے کا ہے لہذا قرآن نے اصل موضوع اسے بنایا.
٢) سود لینے والے کے لیے مجبوری کی صورت نہ ہونے کے برابر ہے بخلاف سود دینے والے کے.
٣) جیسے رشوت لینے کے عمل کی مذمت قرآن پاک میں اطلاق کے ساتھ ہے اور اسی لفظ (أكل) کھانے کے ساتھ ہے (أكالون للسحت يا أكلهم السحت) بخلاف رشوت دینے کے عمل کی. اسی طرح سود لینے کے عمل کی مذمت قرآن پاک میں اطلاق کے ساتھ ہے اور اسی لفظ (أكل) کھانے کے ساتھ (ياكلون الربا). لہذا جس طرح رشوت دینا مجبوری کی بنا پر ہو سکتا ہے اسی طرح سود دینا بھی بعض صورتوں میں مجبوری کی بنا پر ہو سکتا ہے بخلاف رشوت لینے اور سود لینے کے. لہذا قرآن نے نہ صرف ان كى مذمت کی ہے بلکہ انہیں اطلاق کے ساتھ بیان کیا ہے.
٤) قرآن میں سود دینے والے کا ذکر بھی موجود ہے اور اس کی مذمت بھى کہ اس کی مذمت کے لیے قرآن کا اصول تعاون على الأثم (گناہ میں تعاون) کافی ہے لیکن مزید یہ کہ سورۃ روم کی آیت ٣٩ میں سود دینے والے کا ذکر جس انداز میں آیا ہے اس میں سمجھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں
مكمل آیت کا ترجمہ (ترجمے کے لیے دیکھیے الکشاف اور التحریر والتنویر) کچھ اس طرح ہے “اور جو تم سود دیتے ہو کہ وہ بڑھے لوگوں کے مالوں میں تو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا اور جو تم زکوۃ دیتے ہو اس حال میں کہ تم اس پر اللہ کی خوشنودی چاہتے ہو تو وہی لوگ ہیں جو اپنے مالوں کو دو چند کرنے والے ہیں”
(نیز نافع، ابو جعفر اور یعقوب کی قراءات کے لحاظ سے آیت کا مفہوم بھی اسی ترجمہ کے مطابق ہے. “اور جو تم سود دیتے ہو کہ تم بڑھاؤ لوگوں کے مالوں کو تو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا”)
أولا: قرآن كا زیر نظر آیت میں سود کے ذریعے اپنے مال میں اضافے کی مذمت کا بیان، سود دینے والے کے عمل سے شروع کرنا، سود دینے والے کو اس معاملے میں شریک عمل ٹھہرانا ہے. چنانچہ اس آیت میں تعاون على الأثم کو جس قدر نمایاں کر کے دکھلایا گیا ہے اس میں صرف دیکھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں.
ثانيا: آیت کے پہلے حصے میں دینے کے ايک عمل (اور وہ سود دینے کا عمل ہے) کے برے نتیجے کا بیان ہے کہ یہ لینے والے کے مال میں ناجائز اضافے کا سبب بنتا ہے، تو آیت کے دوسرے حصے میں دینے والے ايک دوسرے عمل (اور وہ زکوۃ دینے کا عمل ہے) کے اچھے ہونے کا بیان ہے کہ یہ لینے والے کی ضرورت پوری کرنے کا باعث بنتا ہے.
ثالثا: في الواقع یہ آیت کمال بلاغت لیے ہوئے ہے کہ آیت کے پہلے حصے میں بھی معاملے کے دو فریق ہیں، اسی طرح آیت کے دوسرے حصے میں بھی معاملے کے دو فریق. مزید یہ کہ آیت کے پہلے حصے میں بھی ایک چیز کا اظہار ہے اور دوسری چیز کا اخفا، اسی طرح آیت کے دوسرے حصے میں بھی ایک چیز کا اظہار ہے اور دوسری چیز کا اخفا.
آیت کے پہلے حصے میں جس چیز كا اظہار ہے وہ یہ کہ سود کی رقم وصول کر کے اپنے مال کو بڑھانا درحقیقت اپنے مال کو بڑھانا نہیں یعنی سود لینے والے کی مذمت كا اظہار ہے اور جس دوسری چیز كا اخفا ہے وه سود دینے والے کی مذمت كا اخفا ہے يعنى سود دینے والے کو ذکر کیا لیکن دینے والے کی مذمت کو اخفا میں رکھا.
بالکل اسى طرح آیت کے دوسرے حصے میں جس چیز كا اظہار ہے وہ یہ کہ جو اپنا مال بطور زکوۃ دیتا ہے تو وہ قابل تعریف ہے اور جس دوسری چیز کا اخفا ہے وہ یہ کہ زکوۃ لینے والے اور اس کے عمل كا اخفا.
اب سود دینے والے کی مذمت اور اسی طرح زکوۃ لینے والے کو اخفا میں رکھا گیا ہے تو اس میں یہ امر پوشیدہ ہے کہ قرض پر سود کی ادائیگی کرنے والا اور اسی طرح زکوۃ کی رقم وصول کرنے والا دونوں اس عمل کے لیے مجبور بھی ہو سکتے ہیں اور اگر وہ مجبور نہیں تو ان کا یہ عمل اس صورت میں قابل مذمت ہے بصورت دیگر نہیں کہ قرض لینے والے نے اپنی ضرورت (نہ کہ حاجت یا تجارتی غرض سے) کے لیے قرض لیا ہو اور بلا سود قرض موجود نہ ہو، اسی طرح زکوۃ لینے والے نے مستحق ہونے کی وجہ سے زکوۃ لی ہو اور اس کا کسب اس کے لیے کافی نہ ہو.
اب کوئى یہ کہے کہ واضح انداز میں قرآن میں سود دینے والے کی مذمت دکھاؤ. تو اس پر عرض ہے کہ جنہوں نے نہیں ماننا انہیں اگر قرآن کو آسمان سے اترتا بھی دکھلایا جائے اور وہ اسے چھو بھی لیں تو انہوں نے اسے نہیں ماننا (سورۃ الانعام ٧)

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…