ڈاکٹر محمد مشتاق احمد وہی ہوا جس کی توقع تھی! کل رات کچھ سوالات اہلِ علم کے سامنے رکھے، اور آج صبح بعض مخصوص حلقوں سے اس طرح کی چیخ و پکار شروع ہوگئی ہے: آپ غزہ کے متعلق دینی رہنمائی حاصل کرنے کےلیے سوالات کیوں پوچھ رہے ہیں؟ اسی طرح کے سوالات پر فتوی دیا گیا،...
داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ
نائن الیون اور ماڈریٹ اسلام
احمد الیاس نائین الیون کے بعد امریکہ نے کئی مسلمان ملکوں کی حکومتوں کے ساتھ مل کر 'ماڈریٹ اسلام' کے پروجیکٹس شروع کیے۔ برنارڈ لوئیس، جان ایسپسیٹو جیسے مستشرقین اور 'اسلام ایکسپرٹس' کی رہنمائی بھی اس حوالے سے وائٹ ہاؤس کو حاصل تھی۔ پاکستان میں بھی مشرف رجیم کی معاونت...
اہل غزہ کے خلاف بے بنیاد فتوی
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد اس”فتویٰ“ میں سورۃ الانفال کی آیت 72 سے کیا گیا استدلال بالکل ہی غلط ہے۔ پہلے یہ آیت پوری پڑھ لیجیے (اس آیت کا اور نیچے دی گئی تمام آیات کا ترجمہ مولانا امین احسن اصلاحی کا ہے):۔إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَٰهَدُواْ بِأَمۡوَٰلِهِمۡ...
طاقت کا کھیل ہے : ایسے ہی ہوتا ہے
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد یہ غامدی صاحب اور ان کے متاثرین کے مرغوب جملے ہیں اور یہ بالکل ہی غلط ہیں، ہر لحاظ سے غلط ہیں اور یکسر غلط ہیں۔یہ بات مان لی جائے، تو نہ شریعت اور قانون کے تمام احکام معطل ہوجاتے ہیں اور ان کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ انسانوں کی صدیوں کی کوششیں...
خودکشی اور شہادت کا فرق
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد ایک تو فقہائے کرام اس لحاظ سے فرق کرتے ہیں کہ موت کس کے فعل سے واقع ہوئی ہے؟ اگر موت ایسے فعل سے واقع ہوئی ہے جس کی نسبت دشمن کی طرف ہوتی ہے (بفعل مضاف الی العدو)، تو یہ شہادت ہے؛ اور اگر یہ اسی شخص کے فعل سے واقع ہوئی ہے، تو اگر یہ فعل سہواً ہوا...
غامدی صاحب کا الہ اور قرآن
ڈاکٹر زاہد مغل محترم غامدی صاحب اہل تصوف کی فکر کو خارج از اسلام دکھانے کے لئے یہ تاثر قائم کرواتے ہیں کہ توحید سے متعلق ان کے افکار قرآن میں مذکور نہیں۔ اپنے مضمون "اسلام اور تصوف" میں آپ الہ کا یہ مطلب لکھتے ہیں: " ’الٰہ‘ کا لفظ عربی زبان میں اُس ہستی کے لیے بولا...
مولانا نیاز محمد مروت صاحب
جناب جاوید غامدی صاحب نے مردوں کے داڑھی رکھنے کے معمول چلے آنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داڑھی رکھنے کی عادت کا اعتراف کیا ہے ، جو کہ حق بات ہے، بشرطیکہ طبعی عادت کے طور پر نہیں، بلکہ معمول کے طور پر داڑھی رکھنا مراد ہو، چنانچہ اس پر تفریعا لکھتے ہیں، “اگر کوئی شخص آپ (ص) کےساتھ تعلق خاطر کے اظہار کے لیے یا آپ کی اتباع سنت کے شوق میں داڑھی رکھ لیتا ہے،” تو جناب کا فرمان ہے، کہ “اسے باعث سعادت سمجھ لینا چاہیے،”(مقامات صفحہ : ٢٩٥)شاید جناب کی مراد سعادت سے اخروی اجر و ثواب ہو، اس عبارت میں بندہ نے لفظ سنت کا اضافہ کیا کیونکہ اتباع ذات کی نہیں ہو سکتی، سنت اور طریقہ کی ہوتی ہے۔
اسی طرح جناب غامدی صاحب کا نرالا دعوی ہے، کہ (داڑھی رکھنا دین کا کوئی حکم نہیں ہے،) جس پر انہوں نے بظاہر کوئی ثبوت پیش نہیں کیا ہے، بلکہ محض دین کا حکم نہ ہونے کے اس دعوی کے بنا پر حکم کے اقسام کی نفی کا دعوی کرتے ہوئے کہتے ہیں، “لہذا اگر کوئی شخص داڑھی نہیں رکھتا تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ کسی فرض یا واجب کا تارک ہے، یا اس نے کسی حرام یا ممنوع فعل کا ارتکاب کیا ہے.”۔
اس پر ہمارا تبصرہ یہ ہے کہ پوری علمی دنیا (سلف و خلف حضرات صحابہ ، تابعین، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین اور ان کے پیروکار ) جناب کے اس دعوی کے بر عکس سمجھتی ہے کہ داڑھی رکھنا دین کا ایک حکم ہے، اس کے شرعی حکم ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، کیونکہ اس کا علم و ادراک شارع کے خطاب سے حاصل ہے، اور جب مکلف کے عمل کا حکم شارع کے خطاب سے حاصل ہوتا ہے، تو وہ حکم شرعی ہوتا ہے، اور وہ خطاب درج ذیل ہے : عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ، وَفِّرُوا اللِّحَى، وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ “.( رواہ البخاري) ترجمہ: عبد اللہ بن عمر رض کی روایت ہے، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، کہ آپ لوگ مشرکین کی مخالفت کریں، داڑھیاں پوری چھوڑ دیں، اور مونچھیں خوب مونڈ لیں۔
استدلال: اس حديث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو داڑھی چھوڑنے کا جو امر اور خطاب فرمایا ہے، اس کے ایجاب یا ندب کےلیے ہونے میں حضرات ائمہ کے اختلاف میں دو اقوال ہیں ۔
پہلا قول: حنفیہ مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک داڑھی چھوڑنے کا امر وجوب کےلیے ہے، جس کی وجہ سے اسے چھوڑنا واجب ہے، مونڈنا حرام ہے، بعض شافعیہ نے امام شافعی کا صحیح مذہب بھی یہی قرار دیا ہے ۔ ذیل میں چاروں مذاہب کے کتب سے ترتیب وار عبارات حاضر ہیں:
احناف : وأما الأخذ منها وهي دون ذلك كما يفعله بعض المغاربة ومخنثة الرجال فلم يبحه أحد، وأخذ كلها فعل يهود الهند ومجوس الأعاجم. اهـ. [انظر الدر المختار مع حاشية ابن عابدين رد المحتار 3/398] يَحْرُمُ عَلَى الرَّجُلِ قَطْعُ لِحْيَتِهِ، [ابن عابدين، الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)، ٤٠٧/٦] مالکیہ : قال الحطاب في مواهب الجليل شرح مختصر خليل: وحلق اللحية لا يجوز وكذلك الشارب، وهو مثلة وبدعة، ويؤدب من حلق لحيته أو شاربه إلا أن يريد الإحرام بالحج ويخشى طول شاربه. اهـ. انظر: مواهب الجليل 1/313 حنابلة: وقال السفاريني في غذاء الألباب: والمعتمد في المذهب حرمة حلق اللحية. قال في (الاقناع): ويحرم حلقها. وكذا في (شرح المنتهى) وغيرهما. قال في (الفروع) : ويحرم حلقها ذكره شيخنا. انتهى. وذكره في (الإنصاف) ولم يحك فيه خلافا)) ا.هـ. انظر غذاء الألباب 1/334۔
دوسرا قول: بعض حضرات شافعیہ کے نزدیک حدیث میں داڑھی چھوڑنے کا امر ندب کےلیے ہے، لہذا اسے چھوڑنا سنت مؤکدہ ہے، اور مونڈناشدید کراہت کےساتھ مکروہ ہے ۔ شدید کراہت اس لیے کہ شافعیہ میں سے شیخین نووی و رافعی کراہت کے قائل ہیں، علامہ نووی نے امام غزالی سے داڑھی کے متعلق مکروہات نقل کیے ہیں۔ امام غزالی احیاء میں ان کے بارے فرماتے ہیں، “بَعْضُهَا أَشَدُّ كَرَاهَةً مِنْ بَعْضٍ”ان میں سے بعض کی کراہت بعض سے زیادہ سخت ہے، اس سے معلوم ہوا کہ امام غزالی وہ سارے مکروہ برابر نہیں سمجھتے. علامہ نووی نے بھی مجموع میں ان میں سے داڑھی مونڈنے کی کراہت کو اقبح(زیادہ قبیح) قرار دیا ہے۔ دوسری وجہ شافعیہ کے نزدیک تو لمبی داڑھی میں سے تھوڑا سا کاٹنا بھی مکروہ ہے، لہذا پھر مونڈنے کی کراہت ضرور اشد ہوگی ۔
الشافعی : الرَّابِعَةُ نَتْفُهَا فِي أَوَّلِ طُلُوعِهَا وتخفيفها بالموسى ايثارا للمرودة واستصحابا للصبي وَحُسْنِ الْوَجْهِ وَهَذِهِ الْخَصْلَةُ مِنْ أَقْبَحِهَا: [النووي، المجموع شرح المهذب، ٢٩١/١] يكره نتف اللحية واستئصالها عند السادة الشافعية، أما عند الإمام الشافعي فيحرم استئصالها لحديث ابن عمر رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (اُحفوا الشوارب وأعفوا اللحى) (مسلم ج 1 كتاب الطهارة باب 16 / 52) وعنه أيضاً قال: قال صلى الله عليه وسلم (خالفوا المشركين، احفوا الشوارب وأوفوا اللحى) (مسلم ج 1 / كتاب الطهارة باب 16 / 54) وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (جزوا الشوارب وأرخوا اللحى، خالفوا المجوس) (مسلم ج 1 كتاب الطهارة باب 16 / 55)
[درية العيطة، فقه العبادات على المذهب الشافعي، ٦٦/١] فَائِدَةٌ : قَالَ الشَّيْخَانِ يُكْرَهُ حَلْقُ اللِّحْيَةِ وَاعْتَرَضَهُ ابْنُ الرِّفْعَةُ فِي حَاشِيَةِ الْكَافِيَةِ بِأَنَّ الشَّافِعِيَّ – رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ – نَصَّ فِي الْأُمِّ عَلَى التَّحْرِيمِ قَالَ الزَّرْكَشِيُّ وَكَذَا الْحَلِيمِيُّ فِي شُعَبِ الْإِيمَانِ وَأُسْتَاذُهُ الْقَفَّالُ الشَّاشِيُّ فِي مَحَاسِنِ الشَّرِيعَةِ وَقَالَ الْأَذْرَعِيُّ الصَّوَابُ تَحْرِيمُ حَلْقِهَا جُمْلَةً لِغَيْرِ عِلَّةٍ بِهَا كَمَا يَفْعَلُهُ الْقَلَنْدَرِيَّةُ انْتَهَى اهـ س [ابن حجر الهيتمي، تحفة المحتاج في شرح المنهاج وحواشي الشرواني والعبادي، ٣٧٦/٩]
قول اول راجح:۔
پہلی وجہ ترجیح:امر کے وجوب یا ندب کےلیے ہونے کا دار و مدار امر کے مد مقابل دلیل پر ہے ۔ اگر دلیل موجود ہے، تو امر ندب کےلیے ہوتا ہے، اور اگر دلیل موجود نہیں ہے، تو امر وجوب کےلیے ہوتا ہے۔ اب آئیں یہاں پر کوئی ایسی دلیل موجود نہیں ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی قول یا فعل کے ذریعے سے داڑھی مونڈنے کے جواز کو بیان نہیں فرمایا ہے، اور نہ حضرات صحابہ میں سے کسی صحابی کا داڑھی مونڈنا ثابت ہے، کہ داڑھی مونڈ لی ہو، اور آپ نے دیکھا ہو اور انکار نہ فرمایا ہو، لہذا اس اصول کے روشنی میں امر وجوب کےلیے ہے، اور داڑھی مونڈنے کا حرام ہونا راجح ہے۔
دوسری وجہ ترجیح:۔
علامہ ابن حزم نے “مراتب الاجماع” اور ابن القطان الفاسی نے “الاقناع فی مسائل الاجماع” میں داڑھی مونڈنے کے مثلہ اور ناجائز ہونے پر اجماع نقل کیا ہے۔
وَذَكَرَ ابْنُ حَزْمٍ الْإِجْمَاعَ أَنَّ إِعْفَاءَ اللِّحْيَةِ فَرْضٌ، [ابن مفلح، شمس الدين، الفروع وتصحيح الفروع، ١٥١/١] “وَاتَّفَقُوا أَن حلق جَمِيع اللِّحْيَة مثلَة لَا تجوز” [ابن حزم، مراتب الإجماع، صفحة ١٥٧] اتفقوا أن حلق [جميع] اللحية مثلة لا تجوز. [ابن القطان الفاسي، الإقناع في مسائل الإجماع، ٢٩٩/٢]
اب آپ غور فرمایں جناب غامدی صاحب جو کہتے ہیں کہ ”یہ دین کا کوئی حکم نہیں ہے، اور اگر کوئی شخص داڑھی نہیں رکھتا تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے، کہ وہ کسی فرض و واجب کا تارک ہے یا اس نے کسی حرام یا ممنوع فعل کا ارتکاب کیا ہے.” تو اس کی بنیاد کیا ہے. کون سی دلیل اور وحی کے بنیاد پر وہ یہ ارشاد فرما رہے ہیں، کیونکہ یہ سارے حضرات تو فرما رہے ہیں، کہ داڑھی رکھنا دین کا حکم ہے، اور یہ شخص واجب کا تارک ہے، اور اس نے حرام یا مکروہ تحریمی کا ارتکاب کیا ہے. شاید جناب غامدی صاحب ان حضرات سلف و فقہاء کرام سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ آپ حضرات نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو ظاہری معنی پر محمول کرتے ہوئے داڑھی بڑھانے کا جو حکم سمجھا، اس میں آپ سے عظیم غلطی سرزد ہوئی ہے، (اس طرح کہ ایک ایسی چیز دین میں داخل کر دی جو اس سے کسی طرح متعلق نہیں ہو سکتی، اس لیے کہ داڑھی کے متعلق آپ کے فرمان کا صحیح محل تطہیر اخلاق ہی تھا،کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ہے، تطہیر اخلاق کے مقصد سے فرمایا ہے�) یہ بالکل باطنیہ کی زبان میں بات ہو رہا ہے۔
خلاصہ کے طور پر تیسری بات یہ ہے کہ : جناب کا دعوی اور اس کے بنا پر حکم کے اقسام کی نفی سے دو باتوں میں سے ایک بات ضرور لازم آتی ہے ۔
۔1: جناب کے نزدیک داڑھی رکھنا جیسا کہ ظاہر ہے، فرض اور واجب نہیں ہے، ویسے ہی سنت اور مستحب بھی نہیں ہے، کیونکہ اگر داڑھی ان کے نزدیک سنت یا مستحب ہوتی تو یوں نہ فرماتے کہ یہ دین کا کوئی حکم نہیں ہے۔
۔2: یا داڑھی جناب کے نزدیک سنت یا مستحب تو ہے، جیسا کہ ان کی ابتدائی عبارت سے اس طرف اشارہ ملتا ہے، لیکن ان کے نزدیک ان دونوں (سنت اور مستحب) میں سے کوئی بھی دین کا حکم نہیں ہے ۔ کیونکہ جناب کے خیال میں دینی اور شرعی حکم فرض و واجب و حرام اور ممنوع میں منحصر ہے ۔
تبصرہ: اس کے شرعی حکم ہونے میں سلف و حلف صحابہ (رض) تابعین اور بعد کے ائمہ مجتہدین غرض صدر اول سے لے اب تک کسی بھی صاحب علم کا اختلاف نہیں ہے، سب اس کے شرعی حکم ہونے پر متفق ہیں، اگر کسی کا اس کے بر عکس دعوی ہے کہ سلف و صالحین میں سے بعض حضرات ان کے حکم شرعی ہونے کے قائل نہیں تھے، تو براہ کرم وہ ہمارے علم میں اضافہ کرنے کےلیے تعیین کرتے ہوئے بحوالہ سامنے آئے. ہاں اتنا ضرور ہے کہ مندوب جو سنت مستحب اور نفل کو شامل ہے، اس کے حکم تکلیفی ہونے نہ ہونے میں اختلاف ہے، اور اس میں دو اقوال ہیں۔
پہلا قول: شافعیہ میں سے ابو اسحاق الاسفرائینی مالکیہ میں سے ابو بکر الباقلانی کے نزدیک مندوب حکم تکلیفی ہے۔
دوسراقول: جمہور اصولیین کے نزدیک مندوب حکم تکلیفی نہیں ہے، لہذا ان کے نزدیک حکم تکلیفی واجب فرض حرام اور مکروہ تحریمی میں منحصر ہے ۔
جبکہ جناب غامدی صاحب ان سب کے برخلاف مطلق حکم شرعی کو چار اقسام میں منحصر سمجھتے ہیں۔
اختلاف لفظی: بہت سے حضرات کے نزدیک ان کا یہ اختلاف لفظی ہے، کیونکہ اس کا دار و مدار تکلیف کی تفسیر پر ہے، اگر تکلیف کی تفسیر پر اتفاق ہو جائے، اور اتفاق سے اس کی تفسیر شارع کا بندے پر مشقت طلب کام لازم کرنے سے کی جائے، تو پھر مندوب بالاتفاق اس معنی میں حکم تکلیفی نہیں ہے ۔ اور اگر اس کی تفسیر شارع کا بندے سے مطلق مشقت کا کام طلب کرنے سے کی جائے، تو اس معنی میں مندوب پھر بالاتفاق حکم تکلیفی ہے ۔
فَإِنْ فُسِّرَ بِإِلْزَامِ مَا فِيهِ كُلْفَةٌ فَلَيْسَ بِتَكْلِيفٍ، وَإِنْ فُسِّرَ بِطَلَبِ مَا فِيهِ كُلْفَةٌ فَتَكْلِيفٌ
[ابن أمير حاج، التقرير والتحبير علي تحرير الكمال بن الهمام، ١٤٣/٢] جناب غامدی صاحب فرماتے ہیں، “کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے داڑھی کے معاملے میں جو کچھ فرمایا ہے، وہ داڑھی رکھنے کی ہدایت نہیں ہے” (مقامات صفحہ : ٢٩٦) بہ الفاظ دیگر اس میں داڑھی رکھنے کا حکم نہیں ہے۔ ہم پہلے جناب غامدی صاحب سے ایک سوال پوچھتے ہیں، کہ یہ داڑھی رکھنے کی ہدایت کیوں نہیں ہے ؟ ثانیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے احادیث سے داڑھی رکھنے کی ہدایت بالکل ظاہر ہے، کیونکہ احادیث کے الفاظ امر کے صیغے میں ہیں، جس سے ادنی درجہ کا طالب علم بھی داڑھی چھوڑنے کی ہدایت سمجھ سکتا ہے، اور یہی وجہ ہے، کہ امت کا اس میں داڑھی رکھنے کی ہدایت ہونے پر اجماع اور اتفاق ہے، جس کی تفصیل ہم پہلے بیان کرچکے ہیں۔
اسی طرح جناب غامدی صاحب آگے فرماتے ہیں، “بلکہ اس بات کی ممانعت ہے، کہ داڑھی اور مونچھیں رکھنے کی کوئی ایسی وضع اختیار نہیں کرنی چاہیے، جو متکبرانہ ہو ۔” (ایضاً صفحہ : ٢٩٥)
سوال پیدا ہوا کہ متکبرانہ وضع کون سی ہے، جسے اختیار کرنے سے آپ نے منع فرمایا ہے، جواب دیا ہے:
“بعض لوگ داڑھی مونڈتے ہیں، یا چھوٹی رکھتے ہیں، لیکن مونچھیں خوب بڑھا لیتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےاسے پسند نہیں کیا، اس طرح کے لوگوں کو ہدایت فرمائی ہے، کہ متکبرین کی وضع اختیار نہ کریں.” (ایضاً صفحہ ٢٩٦)
یہ بات جناب نے ان روایات میں مشرکین کی مخالفت کرنے کے پہلے حکم کے ضمن میں ارشاد فرمائی ہے، جبکہ اس کے بعد دوسرے امر کے ضمن میں مستقلا تمام اوضاع میں داڑھی رکھنے کی ہدایت ہے، اور تیسرے امر کے ضمن میں الگ مستقل طور پر مونچھیں چھوٹی رکھنے کی ہدایت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرات سلف و صالحین بھی ان کو بالکل مستقل الگ الگ سمجھتے ہیں، جس کی تفصیل درج ذیل ہے :
عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ، وَفِّرُوا اللِّحَى، وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ “. “عبد اللہ بن عمر کی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت ہے، آپ نے ارشاد فرمایا کہ آپ لوگ مشرکین (یعنی مجوسیوں)کی مخالفت کریں، داڑھیاں پوری چھوڑ دیں، اور مونچھیں مونڈ لیں” ۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حدیث میں امت کو تین چیزوں کا حکم دیا ہے ۔ پہلا حکم تم مشرکین کی مخالفت کرو، داڑھی کے حوالے سے بعض مجوسیوں کی عادت چھوٹی رکھنے اور بعض کی عادت مونڈنے کی تھی، لیکن مونچھوں کے حوالے سے ان کی عادت یہ تھی، کہ وہ مونچھ خوب بڑھاتے تھے، جس طرح حدیث میں اس کو اشارہ ہے کہ :۔
ابْن عُمَرَ قَالَ «ذُكِرَ لِرَسُولِ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – الْمَجُوسُ فَقَالَ إنَّهُمْ يُوَفِّرُونَ سِبَالَهُمْ وَيَحْلِقُونَ لِحَاهُمْ فَخَالِفُوهُمْ» (رَوَاہ ابْنُ حِبَّانَ فِي صَحِيحِهِ ۔) “عبد اللہ ابن عمر کی روایت ہے، کہ آپ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مجوسیوں کا تذکرہ ہوا، تو آپ نے فرمایا کہ وہ مونچھ بڑھاتے ہیں، اور داڑھی مونڈتے ہیں، لہذا تم ان کی مخالفت کرو ۔”
حضرت ابو ہریرہ رض کی روایت میں ان کی مخالفت کرنے کا امر آخر میں ذکر ہے، جس سے اس بات کی تائید ہوتی ہےکہ مشرکین کی مخالفت داڑھی بڑھانے اور مونچھوں کے مونڈنے کے حکم کےلیے علت ہے۔ جس کی بنا پر بعض لوگوں سمجھتے ہیں کہ یہاں چونکہ علت منتفی ہے، یعنی آج کے اس دور کے مشرکین یہود و نصاری میں سے بعض مذہبی لوگ اب داڑھی رکھتے ہیں، لہذا معلول داڑھی بڑھانے کا حکم بھی منتفی ہوگا ۔ ظاہر ہے کہ ان کو علت کے منتفی ہونے کا شبہ لگا ہے، لیکن در حقیقت علت معدوم نہیں ہے، کیونکہ آج اگر دنیا میں داڑھی رکھنے والوں کے مقابلے میں داڑھی مونڈنے والوں کی تعداد دیکھی جائے، تو ان کی تعداد رکھنے والوں کے بہ نسبت بہت زیادہ ہے، لہذا ظاہر ہے، کہ کم کا اعتبار تو نہیں ہوگا، زیادہ کا اعتبار ہوگا ۔
دوسرا حکم داڑھیاں چھوڑ دو۔ داڑھی چھوڑنے کے متعلق روايات میں الفاظ تو مختلف آئے ہیں، لیکن معنی سب کا ایک ہے۔
(١)فی البخاری وَفِّرُوا اللِّحَى: وَفِّرُوا توفیر سے امر ہے، توفير کا معنی زياده کرنا، “أَيِ اتْرُكُوهَا وَافِرَةً “ تم داڑھیاں مکمل چھوڑ دو ۔ (٢) فی مسلم “وَأَوْفُوا اللِّحَي” اي أتركوها وافية کاملة و لاتقصوها” کہ تم اپنی داڑھیاں پوری اور كامل چھوڑ دو، انہیں نہ کاٹنا۔ (٣)في الصحاح الستة الا ابن ماجه “وَأَعْفُوا اللِّحَى” أَعْفُوا اتركوها حتي تكث و تكثر” داڑھی چھوڑ دو تاکہ گھنی ہو جائے اور بڑھ جائے ۔(٤) فی مسلم أَرْخُوا اللِّحَى: أترکوھا و لا تتعرضوا لھا بتغییر داڑھی چھوڑ دو،اور اسے تعرض نہ کرو، اس میں تبدیلی کرتے ہوئے ۔(٥) في رواية ابن ماهان”أرجوا اللحي” أخروها و اتركوها ان کا کاٹنا مؤخر کردو، اور انہیں چھوڑ دو۔
غرض اس میں کل پانچ روایتیں ہیں، سب کا معنی ہے، داڑھی اپنے حال پر چھوڑ دو۔ لیکن دوسری جانب ان روایات کے بر عکس ان کے روات حضرات صحابہ رض کے عمل اور دوسرے سارے حضرات صحابہ رض کے عمل سے لمبی داڑھی میں سے کچھ مقدار کاٹنا بھی ثابت ہے ۔ اس وجہ سے لمبی داڑھی میں سے کچھ مقدار کاٹنے کے حکم میں حضرات فقہاء کا اختلاف ہے، کوئی اس کے حرام ہونے کا قائل نہیں ہے، اس لیے میں بھی دو قول ہیں :
پہلا قول حضرات شافعیہ کے نزدیک ان روایات کے ظاہر پر عمل کرتے ہوئے، حج اور عمرہ کے علاوہ میں، اس میں سے کاٹنا مکروہ ہے۔ چنانچہ امام نووی رح فرماتے ہیں، کہ مختار قول یہ ہے، کہ داڑھی کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے، اور اس کے لمبائی اور چھوڑائی میں سے کچھ بھی نہ کاٹا جائے۔
دوسرا قول جمہور حضرات صحابہ (رض) تابعین حضرات ائمہ میں سے حنفیہ و مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک اس میں سے کاٹنا جائز ہے ۔
پہلے قول کے دلائل یہ ہے کہ یہ پانچوں روایات جن کا معنی امام نووی رح کے حوالے سے اوپر بیان ہوا کہ داڑھیاں اپنے حال پر چھوڑنا اور اس میں سے کچھ بھی نہ کاٹنا۔
فریق ثانی کی طرف سے ان کو پہلا جواب یہ ہے کہ أعفوا کا معنی زیادہ کرنا بڑھانا ہے، چنانچہ قرآن مجید میں ہے ” حتي عفوا اي حتي كثروا” یہاں تک کہ ان کی تعداد خوب بڑھ گئی ۔ اسی طرح عفا بنو فلان کہا جاتا ہے، إذا كثروا جب بچے زیادہ ہو جائے، کہا جاتا ہے،عفوت الشعر: أي تركته حتى يكثر ويطول ، کہ میں نے بال چھوڑے یہاں تک کہ وہ بڑھے اور لمبے ہو گئے ۔ اور جب کوئی مٹھی کے بقدر داڑھی چھوڑتا ہے، تو اس کی داڑھی بڑی اور لمبی ہوتی ہے اور اس کو بڑی داڑھی والا بھی کہا جاتا ہے، حضرات صحابہ نے بھی ان احادیث سے یہی معنی سمجھا ہیں، لہذا حدیث کہ اس حکم پر عمل ہو جاتا ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ اعفوا اللحي کا معنی ہے {أعفوها من أْخذ غَالِبهَا أَوْ كُلّهَا كَمَا هُوَ فِعْلُ مَجُوس الأعاجم،} تم اپنے داڑھیوں میں سے مجوسیوں کی طرح غالب مقدار نہ کاٹو، اور نہ پوری مونڈ لو، یہ معنی نہیں کہ تم ان میں سے بالکل کچھ بھی نہ کاٹیں، بلکہ اپنے حال پر چھوڑ دیں، کیونکہ اس طرح تو حد سے بڑھ جاتی ہے، بری لگتی ہے، اور ایک کہانی بن جاتی ہے۔ جواز کے قائل حضرات کا پھر آپس میں کاٹنے کی مقدار میں اختلاف ہے، اس میں بھی دو اقوال ہیں، پہلے قول میں مالکیہ کے نزدیک جب داڑھی زیادہ لمبی ہو جائے، یہاں تک کہ اکثر لوگوں کے داڑھی رکھنے کی عادت سے بھی بڑھ جائے، تو تب اس کے کاٹنے میں کوئی مضائقہ نہیں، اور تب مشہور روایت میں اس کی کوئی حد مقرر نہیں ہے ۔ لیکن مناسب اس قدر پر اکتفاء کرنا ہے، جس سے شکل و ہیئت اچھی لگے ۔ اور اگر لمبی ہی نہ ہو چھوٹی ہو یا تھوڑی سے لمبی ہو، تو اس صورت میں ان کے نزدیک کاٹنا خاص کر تجاوز کےساتھ حلق کی طرح حرام ہے ۔دوسرا قول یہ ہے کہ جو باقی حضرات قائلین ہیں، ان کے نزدیک مٹھی سے زائد مقدار کاٹی جائے۔
لیکن ان کا آپس میں پھر مٹھی سے زائد مقدار کاٹنے کے حکم میں اختلاف ہے ۔ اور ان میں پانچ اقوال ہیں ۔
۔(١) حنفية میں سے صاحب نہایة کا قول ہے، کہ زائد مقدار کاٹنا واجب ہے، طبری نے بھی اس کو اختیار کیا ہے۔
۔(٢) حنفیہ کے نزدیک مٹھی سے زائد مقدار کاٹنا سنت ہے، شعبی اور محمد بن سیرین نے بھی اس کو مستحسن قرار دیا ہے ۔
۔(٣) حنابلہ کے نزدیک مٹھی سے زائد مقدار کے کاٹنے اور نہ کاٹنے میں اختیار ہے، یعنی کاٹنا مباح ہے ۔
۔(٤) حنابلہ کے ایک قول میں مٹھی سے زائد مقدار کو نہ کاٹنا اولی ہے۔
۔(٥) مالکیہ کے غیر معروف قول میں مٹھی سے زائد مقدار کاٹنا مندوب ہے۔
اب اس کے بعد تیسرا حکم یہ ہے کہ مونچھوں کو مونڈ لو ۔
احادیث میں مونچھوں کے متعلق مختلف الفاظ آئے ہیں، جن کے معانی کے لحاظ سے دو اقسام بنتے ہیں ۔
پہلی قسم یہ ہے جس میں اکثر احادیث میں قَصُّ الشَّارِبِ اور نسائی کی ایک روایت میں تَقْصِيرُ الشَّارِبِ کے الفاظ آئے ہیں، قَصُّ اور تَقْصِيرُ کا معنی ہے، مونچھوں میں سے کچھ حصہ کاٹنا یعنی چھوٹا کرنا ۔
دوسری قسم یہ ہے جس میں بعض : جُزُّوا الشَّوَارِبَ، بعض میں :” أَحْفُوا الشَّوَارِبَ، اور بعض ميں انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، کے الفاظ وارد ہیں، نسائی کی ایک روایت میں حلق کا لفظ بھی آیا ہے۔ جس کا معنی مونڈنا ہے، جُزُّوا کا معنی مونچھوں کو کھال ظاہر ہونے تک کاٹنا، أَحْفُوا كا معنی بالوں کے تمام اجزاء کا استقصاء (احاطہ) کرتے ہوئے کاٹنا ہے، انْهَكُوا کا معنی بالوں کو زائل کرنے میں مبالغہ کرنا ہے، غرض ان سب الفاظ میں مونچھوں کو زائل کرنے میں مبالغہ کرنا مطلوب ہے، جو مونڈنے سے حاصل ہوتا ہے ۔ ان الفاظ کے معانی مختلف ہونے کی وجہ سے مونچھ کاٹنے کے مقدار میں حضرات فقہاء کا اختلاف ہے، چنانچہ ابن حزم رح فرماتے ہیں کہ مونچھ کاٹنے اور کم کرنے کے حسن ہونے پر سب کا اتفاق ہے، لیکن ان کے مونڈنے کے حکم میں اختلاف ہے ۔ جس میں پھر تین اقوال ہیں :
۔(١)حنفیہ اور حنابلہ کے نزدیک مونچھ مونڈنا کاٹنے سے احسن و افضل ہے، اور کاٹنا حسن ہے ۔
۔(٢)مالکیہ اور شافعیہ کے نزدیک مونچھ کاٹنا افضل اور مختار ہے. احفاء اور اس کے ہم معنی الفاظ کے احادیث سے مراد ہونٹ پر بڑھے ہوئے مونچھوں کو اتنا کاٹنا جس سے اس کا سرخ کنارہ ظاہر ہو جائے ۔ امام مالک رح کا قول ہے، کہ مونچھ مونڈنا مثلہ ہے، یہ ایک بدعت ہے، جو لوگوں میں ظاہر ہوئی ہے، اور ایسے شخص کو مار کر درد مند کیا جائے ۔
۔(٣) علامه طبري رح کے نزدیک مونچھ مونڈنے اور کاٹنے کے درمیان اختیار ہے، کیونکہ سنت سے دونوں امور ثابت ہے۔ قص والے احادیث سے کاٹنا اور احفاء والے احادیث سے مونڈنا ثابت ہے، ان کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے، لہذا اختیار ہے جس پر عمل کرنا چاہے عمل کیا جا سکتا ہے ۔
جناب غامدی صاحب فرماتے ہیں :۔
“وہ اگر بڑھانا چاہتے ہیں تو داڑھی بڑھالیں، مگر مونچھیں ہر حال میں چھوٹی رکھیں،” (ایضاً صفحہ : ٢٩٦)
جناب نے اس کلام میں داڑھی اور مونچھوں میں الٹا فرق ذکر کیا ہے، وہ یہ ہے، کہ ان کے نزدیک داڑھی رکھنا دین کا حکم نہیں ہے، اس لیے کہا کہ وہ اگر بڑھانا چاہیں تو داڑھی بڑھالیں، یعنی داڑھی بڑھانا کوئی ضروری نہیں، یا حکم نہیں،لیکن مونچھیں دین کا حکم ہے، اس لیے کہا کہ وہ ہر حال میں چھوٹی رکھیں، حالانکہ اول تو داڑھی کے رکھنے اور مونچھیں کاٹنے غرض دونوں کے حوالے سے روایات میں الفاظ ایک طرح امر کے صیغے میں آئے ہیں، پھر داڑھی کے حوالے سے الفاظ اگر چہ مختلف آئے ہیں، لیکن سب کا معنی ایک ہی ہے، اس وجہ سے داڑھی رکھنے کے واجب ہونے پر اجماع نقل ہے، جس کی تفصیل اوپر بیان ہو چکی ہے۔ جبکہ دوسری طرف مونچھوں کے کاٹنے کے حوالے سے مختلف المعنی الفاظ آنے کی وجہ سے وجوب کا کوئی قائل ہے یا نہیں ہے، اس بارے میں ابن دقیق العید فرماتے ہیں کہ میں اس کے کاٹنے کے واجب ہونے کا قائل نہیں ہو سکتا ، لیکن “المنھل العذب المورود شرح سنن ابی داود” میں لکھا ہے کہ ابن حزم اور بعض حنفیہ مونچھوں کے کاٹنے کے واجب ہونے کے بھی قائل ہیں ۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
استفتاء اور فتوی سے اتنی وحشت کیوں؟
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد وہی ہوا جس کی توقع تھی! کل رات کچھ سوالات...
اہل غزہ کے خلاف بے بنیاد فتوی
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد اس”فتویٰ“ میں سورۃ الانفال کی آیت 72 سے کیا گیا...
غامدی صاحب کا الہ اور قرآن
ڈاکٹر زاہد مغل محترم غامدی صاحب اہل تصوف کی فکر کو خارج از اسلام دکھانے...